۶؍ مئی ۱۷۹۹ م کو ٹیپو سلطان نے جام شہادت نوش کیا اور اُسی روز دولت خانۂ خاص اور محلاتِ شاہی پر انگریزی فوج کا قبضہ ہو گیا۔ سرنگا پٹم کی لوٹ میں زر وجواہر کے جو انبار انگریزوں کے ہاتھ لگے، اُس کی مثال مرشد آباد کے خزانوں میں بھی نہیں ملتی۔ وجہ یہ تھی کہ پلاسی کے بعد کلایو اور اُس کے ساتھیوں کو مرشد آباد سے جو کچھ ملا، وہ میر جعفر نے بہ طورِ ممنونیت عطا کیا تھا۔ گویا یوں کہنا چاہیے کہ وہ کلایو کا حق الخدمت تھا۔ لیکن سرنگاپٹم کے سقوط اور سلطنتِ خداداد کی تباہی پر تو انگریزوں نے کھلم کھلا اور دل کھول کر لوٹ مچائی تھی۔ اِسی لُوٹ میں ٹیپو کا کتب خانہ بھی انگریزوں کے ہاتھ آیا۔
یہ کتب خانہ مختلف منازل و مراحل طے کرتا ہوا ۱۸۳۸ م میں انگلستان پہنچا اور آج کل لندن کی ایک لائبریری کے ایک خاص حصے میں موجود ہے۔ پار سال مجھے مسلسل چار پانچ ہفتے اِس کتب خانے میں بیٹھ کہ تحریری کام کرنے کا اتفاق ہوا تھا۔ اکثر کتابیں نظر سے گذریں، جن پر ٹیپو کے دستخط موجود تھے۔ دل حنین نے عبرت وبصیرت کے بہت سے سبق حاصل کیے۔
یہ کتب خانہ لندن کیوں کر پہنچا؟ اس کی داستان بھی بڑی دلچسپ ہے۔ ۲۶؍ مئی ۱۸۰۰ م کو میجر جنرل پالپہم نے ہندستان کے گورنر جنرل لارڈ ولزلی کی خدمت میں ذیل کی عرض داشت ارسال کی:
’’مائی لارڈ !سرنگا پٹم فتح کرنے والی فوج کے افسروں کی خواہش کے مطابق میں اس عریضۂ نیاز کے ہم راہ حضور والاکے ملاحظے کے لیے دو فہرستیں پیش کر رہا ہوں، جن میں ٹیپو سلطان کے کتب خانے کے مخطوطات کی تفصیل درج ہے۔ تاکہ یہ مخطوطات آنریبل کمپنی کے ڈائرکٹروں اور ایشیاٹک سوسائٹی کے حوالے کیے جاسکیں۔
مجھے امید ہے کہ ان فہرستوں کے مطالعے سے حضور والا یقینا محظوظ ہوں گے۔ بالخصوص اس خیال سے تو حضور پُرنور کی مسرت میں زیادہ اضافہ ہوگا کہ فوج نے کیسی شان دار مہم فتح کر کے اس کتب خانے پر قبضہ کیا اور پھر اپنی عقیدت و وفا شعاری کے اظہار کے لیے وہی فوج اب اس کتب خانے کو اپنے احباب اور حکام بالاکی خدمت میں بہ طور ہدیۂ نیاز پیش کر رہی ہے۔
منسلکہ فہرستوں کے علاوہ اور بھی بہت سے مجلدات ہیں۔ فوج کا ارادہ تھا کہ انہیں فروخت کر دیا جائے۔ لیکن کرنل کلوز(۱) اس رائے کے مخالف تھے۔ انھوں نے کہا کہ ساحلی علاقوں میں فارسی زبان کی تحصیل وترویج کی سخت ضرورت ہے۔ اس لیے اگر ان مجلدات کا کچھ حصہ فورٹ سینٹ جارج کے فارسی دفتر میں محفوظ کر دیا جائے تو یہ امر فارسی زبان کے طلبہ کے لیے بہت مفید ہو گا۔ مجھے موصوف کی رائے سے کلی اتفاق ہے۔ بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ اس قسم کا انتظام بمبئی میں بھی ہو جانا چاہیے۔ مجھے امید ہے کہ حضور بھی اس تجویز کو شرفِ پسندیدگی بخشیں گے۔
اب میں اس کام میں حضور والاکی ہدایات کا منتظر ہوں تاکہ ان پر عمل کیا جائے۔ بالخصوص اس بارے میں حضور کا ارشاد معلوم کرنے کا متمنی ہوں کہ اس ذخیرۂ کتب میں سے آنریبل کمپنی کے ڈائرکٹروں کا کتنا حصہ الگ کیا جائے اور اُسے یورپ بھیجنے کی کیا تدابیر اختیار کی جائیں؟‘‘
میجر جنرل پالپہم کی اس عرض داشت کے جواب میں گورنر جنرل ولزلی نے جو ہدایات صادر کیں، وہ یہ تھیں:
’’کمپنی چوں کہ ایشیائی زبانوں کی ترقی و ترویج کی دل سے خواہاں ہے اور اس کا خیال ہے کہ انگلستان کے علاوہ کمپنی کے ان ملازموں میں بھی، جو ہندستان میں کام کر رہے ہیں، ایشیائی زبانوں کی تحصیل کا شوق پیدا ہونا چاہیے۔ لہٰذا گورنر جنرل کی رائے ہے کہ آنریبل کمپنی کے ڈائرکٹروں کے حصّے کی کتابیں انگلستان بھیجنے کی بجائے فورٹ ولیم کالج کی لائبریری میں جمع کر دی جائیں۔‘‘
گورنر جنرل نے اسی مضمون کا ایک خط آنریبل کمپنی کے صدر کو لندن لکھ دیا:
’’ان کتابوں کو فورٹ ولیم کالج میں رکھنے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے۔ اس لیے جب تک لندن سے کسی قطعی فیصلے کی اطلاع موصول نہیں ہوتی، یہ کتابیں فورٹ ولیم کالج ہی میں رہیں گی۔ باقی رہا فورٹ سینٹ جارج اور بمبئی کا معاملہ، چوںکہ اس قسم کے احکام صادر کیے جاچکے ہیں کہ فورٹ سینٹ جارج اور بمبئی کے تمام جونیر ملازم آئندہ فورٹ ولیم کالج ہی میں تعلیم حاصل کریں گے، اس لیے ٹیپو سلطان کے کتب خانے کا بقیہ حصہ بھی اسی کالج میں شامل کر دیا جائے۔ فورٹ سینٹ جارج اور بمبئی کو عطا کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ اِن دونوں پریذیڈنسیوں کے ملازم، جن کی خاطر یہ کتابیں وہاں بھیجنے کی تجویز عرض داشت میں پیش کی گئی ہے، اب نئے انتظام کے تحت بہ آسانی فورٹ ولیم کالج میں ان سے استفادہ کر سکیں گے۔‘‘
گورنر جنرل کی یہ تجویز کہ ٹیپو کا کتب خانہ فورٹ ولیم کالج کی نذر کر دیا جائے کمپنی کے ڈائرکٹروں کو سخت ناگوار گزری۔ اُن ہی دِنوں خود کمپنی کے ڈائرکٹر لندن میں ایک لائبریری اور ایک عجائب خانہ قائم کر رہے تھے۔ تاکہ ہندستان سے جس قدر علمی وادبی نوادر اور مصوری و سنگ تراشی کے گراں بہا نمونے دست یاب ہوں، انھیں ایک جگہ جمع کر دیا جائے۔ چناں چہ ڈائرکٹروں نے ۵؍ جون ۱۸۰۶م کو ایک تہدید آمیز خط گورنر جنرل کو لکھا کہ ٹیپو سلطان کا کتب خانہ اب تک لندن کیوں نہیں بھیجا گیا؟ اس خط کا ایک ٹکڑا ملاحظہ فرمائیے:
’’اب ہم آپ کی توجہ ٹیپو سلطان کے کتب خانے کی طرف مبذول کراتے ہیں، جو سرنگا پٹم کے سقوط کے وقت ہماری فوج کے قبضے میں آیا تھا اور جس کا یہاں بھیجا جانا اشد ضروری تھا۔ ابتدا سے ہماری یہ رائے ہے کہ اس کتب خانے کے لیے موزوں ترین جگہ کمپنی کی لائبریری ہے۔ آپ نے اب تک باضابطہ اور سرکاری طور پر اس کتب خانے کی کوئی فہرست ہمارے پاس نہیں بھیجی۔ آپ کی اس غفلت کی وجہ؟
ہم کتب خانے کے متعلق کوئی واضح اور متعین ہدایات جاری نہیں کر سکے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ کتب خانہ اچھی حالت میں اور کسی محفوظ جگہ پر ہوگا۔ لہٰذا ہم اس کے متعین احکام صادر کرتے ہیں۔
ایک پرائیویٹ ذریعے سے جو فہرست ہمارے پاس پہنچی ہے، اس کے مطابق اس کتب خانے میں قرآن اور شاہ نامے کے بعض نہایت قیمتی اور مجلا ومطلّا نسخے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بہت سی گراں پایہ تصانیف ایسی ہیں، جو حسنِ کتابت کا نادر مرقع ہونے کے علاوہ مصوّری کے لاجواب نمونوں سے بھی مزین ہیں اور جن کی جلدیں بڑی بیش قیمت ہیں۔
آپ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ ایسی تمام کتابیں بڑی احتیاط سے الگ کر دی جائیں۔ ان کے علاوہ نظم ونثر کی دیگر کتب کے اگر دو دو نسخے موجود ہیں تو اُن میں سے بھی ایک ایک نسخہ علاحدہ کر لیا جائے۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ایسی بے شمار کتابیں اس ذخیرے میں موجود ہیں۔
اِس طرح تمام ذخیرے کو بڑی احتیاط سے بکسوں میں بند کر کے فوراً یہاں بھیج دیا جائے۔ سمندر کے سفر میں چوںکہ خطرے بہت ہوتے ہیں، اس لیے تمام بکسوں کو ایک ہی جہاز میں لادنے کی بجائے دو یا تین مختلف جہازوں میں تقسیم کرکے بھیجیے۔
اِس کے علاوہ کتب خانے کی دو مکمل فہرستیں بھی ارسال کیجیے۔ ایک فارسی اور دوسری انگریزی میں۔ کتب خانہ پہلے دن جس حالت میں سرنگا پٹم سے برآمد ہوا تھا، اس کی مکمل فہرست درکار ہے۔ دوسری فہرست میں اُن کتابوں کے ناموں کا اندراج ہونا چاہیے، جو ہماری اس ہدایت کے مطابق یہاں بھیجی جا رہی ہیں۔‘‘
ڈائرکٹروں کی اس ہدایت کے باوجود پورا کتب خانہ پھر بھی انگلستان نہ پہنچ سکا۔ البتہ پہلی قسط لارڈ ولزلی نے جولائی ۱۸۰۶م میں لندن بھیجی۔ اس قسط میں ۲۰؍ کتابیں تھیں۔ ۱۶؍ جولائی ۱۸۰۶م کی ڈے بک میں ان کتابوں کی وصولی کا اندراج موجود ہے۔
۱۸۳۴م میں جب لارڈ مکالے نے ہندستانیوں کی تعلیم کے بارے میں اپنا مشہور فیصلہ صادر کیا جس کی رُو سے آئندہ اس برّعظیم میں انگریزی کو ذریعۂ تعلیم قرار دیا گیا تھا، تو کلکتہ کا فورٹ ولیم کالج بند کر دیا گیا اور ۱۸۴۵م میں ٹیپو سلطان کا پورا کتب خانہ لندن بھیج دیا گیا۔
اِس وقت جو کتب خانہ ٹیپو سلطان کے نام سے منسوب ہے، اس میں کتابوں %
ٹیپو سلطان کا کتب خانہ
عاشق حسین بٹالوی

