قرآن مجید کے انگریزی تراجم و تفاسیر

پروفیسر عبدالرحیم قدوائی

 

اسلام کا بنیادی ماخذ ہونے کے سبب روز اوّل سے قرآن مجید مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کی انتہائی دل چسپی اور گہری توجہ کا مرکز رہا ہے۔ قرآنی مطالعات غیر مسلم علما وفضلا کے لیے ایک اہم علمی سرگرمی کا درجہ رکھتی ہے، جب کہ مسلمان اہل قلم اسے اپنے لیے بہترین سعادت تصور کرتے ہیں۔ قرآن مجید سے اس گہرے علمی شغف کا نتیجہ ہے کہ دنیا کی تمام معروف زبانوں میں قرآن مجید کے ترجمے ہونے کے علاوہ قرآنیات پر زبردست علمی ذخیرہ تیار ہو چکا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
گزشتہ کئی صدیوں سے انگریزی زبان کو گویا بین الاقوامی زبان کا مقام حاصل ہے۔ اس لیے انگریزی زبان میں قرآن مجید کے متعدد تراجم وتفاسیر کا پایا جانا کچھ تعجب خیز نہیں ہے۔ انگریزی میں قرآن مجید کے ترجمہ وتفسیر کی روایت کے بعض تاریخی اور تمدنی محرکات رہے ہیں۔ فتح اسپین اور صلیبی جنگوں کے زیر اثر مغرب اسلام سے متعارف ہوا، لیکن اسلام کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانے کے باعث ہر مفتوح قوم کی طرح مغرب نے بھی اسلام کے بارے میں ابتدا ہی سے معاندانہ اور منفی رویہ اختیار کر لیا۔ بغض وعناد اور تنفر سے عبارت مغرب کے اس رویے کو نہ تو عقلیت پسندی بدل سکی اور نہ سائنسی اور تجربی مزاج۔ بیسوی صدی کی نام نہاد علمی روشن خیالی اور معروضیت کے دعوے کے باوجود اس میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اسلام دشمنی کے اس رویے کا جابہ جا ثبوت غیر مسلم اہل قلم کے متعدد انگریزی تراجمِ قرآن میں بھی ملتا ہے۔ قابل ذکر تراجم قرآن مندرجہ ذیل ہیں:
الیگزنڈر راس (ALEXANDAR RROSS) ۱۶۴۷م، جارج مراکی (GEORGE MARACCI) ۱۶۹۸م، جارج سیل (GEORGE SALE) ۱۷۳۴م، جے، ایم، راڈویل (J.M.RODWELL) ۱۸۶۱م، ای، ایچ پالمر (E.H.PALMER) ۱۸۷۶م، رچرڈ بیل (RICHARD BELL) ۱۹۳۷م اورآربیری (ARBERRY) ۱۹۵۳م وغیرہ۔
ان میں بعض محض ترجمے ہیں اور بعض مفصل حواشی اور مقدمے کے ساتھ۔ بیشتر غیرمسلم مترجمین قرآن نے قرآن مجید کو توریت اور انجیل سے ماخوذ قرار دیا ہے اور قرآن مجید کے کلام الٰہی ہونے سے انکار کیا ہے۔ اسی طرح ان مصنّفین نے قرآن مجید کی ترتیب وتدوین کے بارے میں بھی شرانگیز خیالات پیش کیے ہیں۔ ان بے بنیاد اعتراضات کا مسکت جواب دیا جا سکتا ہے، لیکن زیر نظر مضمون میں طوالت کے خوف سے اس پہلو سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف مسلمان اہل قلم کے انگریزی تراجم وتفاسیر کے ایک سرسری جائزے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
اوائل بیسویں صدی میں مسلمان اہل قلم نے انگریزی ترجمۂ قرآن کی ضرورت کو خاص طور پر اور بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا، کیوںکہ مغربی تعلیمی اداروں سے فراغت یافتہ مسلمانوں کا بڑا طبقہ مغرب کے سحر میں گرفتار ہوتا جارہا تھا۔ اس کے ساتھ مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کی ایک ایسی نسل پروان چڑھ رہی تھی، جس کے لیے انگریزی گویا مادری زبان تھی۔ غیر عرب مسلم ممالک میں عربی سے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی ناواقفیت بھی انگریزی ترجمۂ قرآن کا ایک اہم محرک تھی۔ البتہ اس ضمن میں اہم ترین مقصد انگریزی ترجمۂ قرآن کے ذریعے اہل مغرب کو اسلام کی دعوت دینا اور مستشرقین کے اعتراضات کو رفع کرنا تھا۔
یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ برصغیر ہند وپاک میں اس روایت کی داغ بیل قادیانیوں کے ہاتھوں پڑی، جنھیں امت نے بالاتفاق دائرۂ اسلام سے خارج کر دیا ہے۔ ۱۹۱۵م میں قادیان انجمن نے پہلے پارے کا انگریزی ترجمہ شائع کیا اور ۱۹۱۷م میں مولوی محمد علی لاہوری کا مکمل انگریزی ترجمہ وتفسیر قرآن مجید احمدیہ انجمن اشاعت اسلام، لاہور کے زیر اہتمام منظر عام پر آیا۔ یہ ترجمۂ قرآن قادیانی عقائد کا ترجمان ہونے کے باعث ایک ایسے مضمون کے دائرۂ بحث سے خارج ہے، جس کا مقصود مسلمان اہل قلم کے انگریزی تراجم وتفاسیر قرآن کا جائزہ لینا ہو۔ قادیانی عقائد کی آمیزش اور مضامین قرآن میں دانستہ تحریف سے قطع نظر، اس ترجمۂ قرآن کی انگریزی بھی حددرجہ ناقص ہے۔ زبان وبیان کی فاش غلطیوں سے پُر ہونے کے سبب اس ترجمے کو پڑھنا خاصا صبر آزما کام ہے۔
محمد مارنا ڈیوک پکتھال ایک ممتاز مسلم مترجم قرآن ہوئے ہیں۔ ۱۹۳۰م میں نظام حیدرآباد کی مالی اعانت سے آپ کا ترجمۂ قرآن شائع ہوا۔ پکتھال اہل زبان نومسلم تھے۔ انگریزی زبان پر انھیں خداداد قدرت حاصل تھی۔ یہ ترجمۂ قرآن خاصا مقبول ہوا، لیکن یہ محض ترجمہ ہے۔ تشریحی حواشی خال خال ہی ہیں، جس کے باعث غیرمسلم قارئین تو کجا خود مسلم قارئین بھی تشنگی محسوس کرتے ہیں۔ ترجمہ بھی بڑی حد تک لفظی ہے، اس لیے تشریحی حواشی کی کمی اور بھی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔
اب تک تمام تراجم قرآن میں مقبول ترین ترجمہ عبداللہ یوسف علی کا ہے، جو ۱۹۳۴م میں شائع ہوا۔ ہر چند کہ عبداللہ یوسف علی کی مادری زبان انگریزی نہیں ہے لیکن انگریزی زبان اور محاورے پر انھیں مادری زبان کی طرح دسترس حاصل ہے۔ ان کا شمار بلاشبہ ان چیدہ مسلم اہل قلم میں ہوتا ہے، جنھیں انگریزی زبان وبیان پر غیرمعمولی ملکہ ہے۔ اس ترجمۂ قرآن کی بے پناہ مقبولیت کا اندازہ اس کے کثیر التعداد ایڈیشنوں سے ہوتا ہے۔ سعودی حکومت نے اپنے سفارت خانوں کے ذریعے اس ترجمۂ قرآن کے لاکھوں نسخے بغیر کسی ہدیے کے تقسیم کیے ہیں۔ تبلیغ اور ثواب کے خیال سے دیگر اہل خیر حضرات بھی اس کے نسخے تقسیم کرتے رہے ہیں۔ تازہ ترین مثال سعودی عرب کے مشہور مالیاتی ادارے الراجحی کمپنی کی ہے، جس نے ۱۹۸۳م میں امریکہ سے اس ترجمۂ قرآن کا انتہائی نفیس ودیدہ زیب نسخہ شائع کیا ہے۔ البتہ یہ امر خاصا حیرت انگیز ہے کہ علمائے کرام نے عبداللہ یوسف علی کے ترجمہ وتفسیر قرآن کو نقد وجرح کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوئی باقاعدہ کوشش نہیں کی۔ جب کہ امر واقعہ یہ ہے کہ موصوف کے بعض تشریحی حاشیے جمہور کے عقائد سے بہ راہِ راست متصادم ہیں۔ قرآن مجید میں جہاں جہاں جنت کی نعمتوں اور دوزخ کے عذاب کا ذکر آیا ہے، اس کی تشریح وتعبیر عبداللہ یوسف علی نے بہ طورِ استعارہ اور تمثیل کی ہے۔ اس ضمن میں موصوف نے اس حد تک اہتمام والتزام کیا ہے کہ کسی مقام پر بھی یہ نکتہ عیاں نہیں ہونے پاتا کہ جنت ودوزخ کا واقعتا کوئی وجود بھی ہے۔ آخرت اور عذاب وثواب کے موضوع پر ان کے ترجمۂ قرآن میں ایک مفصل ضمیمہ ہے، جس سے ان کی فکر کا بہ خوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس ضمیمے کا ’شان نزول‘ ہی عقائد اسلامی کے بارے میں ان کے معذرت خواہانہ اور مدافعانہ (APOLOGETIC) انداز کا آئینہ دار ہے:
’’اسلام کے بعض جاہل معترض یہ گمان کرتے ہیں کہ اسلام نے شہوانیت سے عبارت جنت کا تصور پیش کیا ہے اور اس خیال کی تائید میں وہ بعض ہمارے ہی نفس پرست مصنّفین کے اقتباسات پیش کرتے ہیں۔
ہمارا (یعنی) مسلمانوں کا عقیدۂ آخرت محض جزا وسزا کا نام نہیں۔ محض انعام کی لالچ میں نیک اعمال کرنا اور عذاب سے خائف ہو کر گناہوں سے اجتناب کرنے کی تعلیم انسان کے روحانی ارتقا کے صرف ابتدائی مرحلے ہی میں کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔ اس مرحلے میں انسان محرکات عالیہ کے ادراک کا اہل نہیں ہوتا ہے لیکن جیسے جیسے نور اسلام انسانی روح کی تنویر کرتا جاتا ہے، خیر فی نفسہ انعام اور شر فی نفسہ عذاب کی صورت اختیار کرتا جاتا ہے۔‘‘(۱)
مذکورہ بالا اقتباس مصنف کے ذہنی اور فکری افلاس اور حقائق سے دانستہ اعراض کی چغلی کھاتا ہے۔ موصوف نے آخرت سے متعلق دیگر قرآنی تصورات مثلاً یومِ قیامت، جنت کے باغ، حور، انعام جنت، نار جہنم، عرش الٰہی اور ملائکہ وغیرہ کی تشریح وتعبیر بھی استعارے اور تشبیہات کے حوالے سے کی ہے۔
قیامت کے دن کائنات کے تہ وبالاہونے کا مفصل ذکر قرآن مجید میں جابجا ملتا ہے۔ مثلاً سورہ ۷۷: آیات ۸-۱۱، سورہ ۸۲: آیات ۱-۴ اور سورہ ۸۴: آیات ۱-۳۔ اِن قرآنی آیات میں ستاروں کے ماند پڑ جانے، آسمان کے پھٹنے، پہاڑوں کے ریزہ ریزہ ہونے، سمندروں کے شق ہونے، قبروں کے کھلنے اور زمین کے پھیلائے جانے وغیرہ کا ذکر ہے۔ اِن قرآنی آیات کی تفسیر کرتے ہوئے عبداللہ یوسف علی نے ان مظاہر اور کیفیات کو محض ’’تمثیل‘‘ اور ’’علائم‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔(۲)
انعامات جنت کے ذیل میں قرآن مجید نے ازواجِ مطہرہ کا ذکر کیا ہے:
وَلَہُمْ فِیہَا أَزْوَاجٌ مُطَہَّرَۃٌ وَہُمْ فِیہَا خٰلِدُونَ۔ (۲:۲۵)
ان کے لیے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ ہمیشہ وہاں رہیں گے۔
چوںکہ عبداللہ یوسف علی جنت کو مسرت وبہجت کی محض ایک علامت سمجھتے ہیں، اس لیے وہ جنت میں عطا ہونے والی ازواجِ مطہرہ کے جسمانی وجود اور علائق کے بھی قائل نہیں۔(۳) اس کے قطعاً برخلاف وہ مفسرین جنھوں نے جمہور کے نقطۂ نظر کی ترجمانی کی ہے، انھوں نے اس مسئلے میں کسی بھی معذرت خواہانہ تاویل کا سہارا نہیں لیا ہے۔ یہاں ہم صرف مولانا عبدالماجد دریابادیؒ اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا حوالہ دیں گے۔ ازواج مطہرہ کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا دریابادیؒ رقم طراز ہیں:
’’بعض روشن خیالوں کو پاکیزہ بیویوں کے نام سے خدا معلوم کیوں اتنی شرم آئی کہ انھوں نے اس معنی ہی سے انکار کر دیا اور ازواجِ مطہرہ کی تفسیر عجیب توڑ مروڑ کر کی ہے۔ گویا بہشت میں رضائے الٰہی کے مقام میں ہر قسم کی انتہائی لذت، مسرت وراحت کے موقع پر بیویوں اور پھر پاکیزہ بیویوں کا ملنا بڑے ہی شرم وندامت کی بات ہے۔ جنت کے نفس وجود ہی سے اگر کسی کو انکار ہے تو بات ہی اور ہے اور ایسے مخاطب کے سامنے پہلے جنت کا اثبات کیا جائے گا لیکن اگر جنت کا اقرار ہے تو پھر وہاں کی کسی لذت، کسی نعمت، کسی راحت سے انکار کے کوئی معنی نہ نقل کے لحاظ سے صحیح ہیں، نہ عقل کے اعتبار سے۔ جنت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ وہ مادی وروحانی ہر قسم کی لذتوں، مسرتوں اور راحتوں کا گھر ہوگا۔ یا پھر یہ ہے کہ بیوی کے نعمت اور اعلیٰ نعمت ہونے ہی سے انکار ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس عقیدے کا رشتہ اسلام سے کہیں زیادہ رہبانیت اور مسیح علیہ السلام کی لائی ہوئی نہیں، پولوس کی پھیلائی ہوئی مسیحیت سے وابستہ ہے۔ زوجیت جب اللہ کا ایک اعلیٰ انعام ہے تو آخر جنت میں کس جرم میں اس سے محرومی ہو جائے گی؟ حقیقت یہ ہے کہ جسمانی، مادی، حسّی خصوصاً ازدواجی نعمتوں کو حقیر سمجھنا یا ان سے شرمانا تمام تر جاہلی مذہبوں خصوصاً پولوسی مسیحیت سے ذہنی مرعوبیت کا نتیجہ ہے۔ اسلام تو حسّی اور معنوی، مادی اور روحانی، جسمانی اور عقلی ہر قسم کی نعمت کی قدر کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘(۴)
مولانا مودودیؒ کا تفسیری حاشیہ بھی ’ازواجِ مطہرہ‘ کے جسمانی وجود کو نمایاں کرتا ہے:
’’عربی متن میں ازواج کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس کے معنی ہیں ’’جوڑے‘‘ اور یہ لفظ شوہر اور بیوی دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ شوہر کے لیے بیوی زوج ہے اور بیوی کے لیے شوہر زوج۔ مگر ہاں یہ ازواج پاکیزگی کی صفت کے ساتھ ہوں گے۔ اگر دنیا میں کوئی مرد نیک ہے اور اس کی بیوی نیک نہیں ہے، تو آخرت میں ان کا رشتہ کٹ جائے گا اور اس نیک مرد کو کوئی دوسری نیک بیوی دے دی جائے گی۔ اگر یہاں کوئی عورت نیک ہے اور اس کا شوہر بد، تو وہاں اس برے شوہر کی محبت سے گلوخلاصی پا جائے گی اور کوئی نیک مرد اس کا شریکِ زندگی بنا دیا جائے گا۔‘‘(۵)
جنت کے باغوں کا قرآن مجید میں متعدد مقامات پر تذکرہ ہے۔ مثلاً سورہ ۹: آیت ۱۰۰، سورہ ۳۶: آیت ۵۵، سورہ ۴۷: آیت ۱۵، سورۃ ا۵: آیت ۱۵ اور سورہ ۵۴: آیت ۵۴ وغیرہ۔ لیکن عبداللہ یوسف علی کے خیال میں اس تذکرے کو محض علامت نگاری پر محمول کرنا چاہیے۔(۶) اسی طرح قرآن مجید نے اصحاب جنت کو حاصل ہونے والے انعام واکرام اور ان کے آرام وآسائش کا انتہائی پرکشش نقشہ پیش کیا ہے۔ مثلاً سورہ ۴۴: آیات ۵۱ – ۵۵، سورہ ۳۶: آیات ۴۲ و ۴۵-۴۶، سورہ ۳۸: آیت ۵۱، سورہ ۴۳: آیت ۷۳، سورہ ۵۲: آیت ۲۲، سورہ ۶۹: آیات ۲۲-۲۴ اور سورہ ۷۸: آیات ۳۱-۳۲ وغیرہ۔ ان آیات کی تشریح کرتے ہوئے عبداللہ یوسف علی نے انعام واکرام کی قرآنی تفصیلات کو روحانی مسرت کے لیے تمثیل نگاری، مجازی طرزِ بیان، استعارہ گری اور علامت نگاری قرار دیا ہے۔(۷) ان کے بہ قول:
’’ان استعارات سے یہ مفہوم اخذ نہیں کرنا چاہیے کہ جنت میں کھانے، پینے، پہننے یا شادی کرنے یا اس قسم کی کوئی بھی مادی شے ہوگی۔‘‘(۸)
عبداللہ یوسف علی حوروں کو بھی صرف پاکیزگی، حسن، معصومیت، وقار اور دل سوزی کی علامت قرار دیتے ہوئے ان کے مادی اور جسمانی وجود سے انکار کرتے ہیں۔(۹) حالاںکہ قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی حوروں کا ذکر آیا ہے مثلاً سورۃ ۵۵: آیت ۵۶، سورہ: ۵۶، آیت ۲۲، اور سورۃ ۷۸: آیت ۳۳ وغیرہ، اس سے عبداللہ یوسف علی کی مذکورہ بالا رائے کی کسی طرح تصدیق نہیں ہوتی۔
آبِ کافور کے آمیزے سے تیار شراب، چاندی کے برتن، شیشے کے ساغر، شراب کے جام، باغ اور انگور وغیرہ کا بھی تذکرہ انعام جنت کے ذیل میں قرآن مجید میں ان مقامات پر آیا ہے۔ سورہ ۷۶: آیات ۵، ۱۵-۱۶، اور سورہ ۷۸: آیات ۳۲ و۳۴۔ لیکن عبداللہ یوسف علی کے خیال میں یہ تذکرہ تمام تر علامتی اور استعاراتی ہے۔(۱۰)
عبداللہ یوسف علی کے مطابق ترہیب سے عبارت قرآنی آیات سے مراد حسّی یا جسمانی سزا نہیں، بلکہ روحانی تعذیب ہے۔(۱۱) سورہ اعراف (آیت ۳۸) میں مذکور ہے کہ منکرین حق کو دہرا عذاب دیا جائے گا۔ لیکن موصوف کی رائے میں دہرے یا دگنے کا لفظ کمیت کے اظہار کے لیے نہیں بلکہ مجازاً استعمال ہوا ہے۔(۱۲)
انعامِ جنت کی مانند عذاب جہنم سے متعلق قرآنی تفصیلات کا مادی پہلو بالکل واضح ہے کہ عذاب کی نوعیت اور اس سے مرتب ہونے والے اثرات کو قرآن مجید نے صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے، لیکن عبداللہ یوسف علی کے نقطۂ نظر کی رُو سے یہ تمام قرآنی تفصیلات تمثیل، استعارہ اور تشبیہ ہیں۔ قرآن مجید میں جہاں جہاں منکرین حق کو عذاب دیے جانے کا ذکر ہے مثلاً سورہ ۶۹: آیات ۳۰-۳۲، سورہ ۹: آیت ۱۰، سورہ ۱۰: آیت ۴، سورہ ۱۴: آیات ۴۹-۵۰ اور سورہ ۷۴: آیت ۱۷ وغیرہ، عبداللہ یوسف علی نے ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے ان سزاؤں کو ’’روحانی سزا‘‘(۱۳) اور سارے تذکرے کو علامتی اور استعاراتی پیرایۂ بیان قرار دیا ہے۔(۱۴) ان کے بہ قول نارِ جہنم سزا کی ایک علامت محض ہے(۱۵) اور جہنم کے دہکائے جانے (سورہ ۸۱: آیت ۱۲) سے مراد ہے:
’’اندرونی آگ- شدید روحانی کرب کا احساس جو کہ بھیانک ترین آگ سے بھی بدتر ہوتا ہے۔(۱۶)
عرش (سورہ ۷: آیت ۵۴، سورہ ۴۰: آیت ۷ اور سورہ ۶۹: آیت ۱۷) اور کرسی (سورہ ۲: آیت ۲۵۵) عبداللہ یوسف علی کی رائے میں کوئی مادی وجود نہیں رکھتے بلکہ قوت واقتدار کی علامت کے طور پر قرآن مجید میں مستعمل ہوئے ہیں۔(۱۷)
عبداللہ یوسف علی کی تفسیر قرآن کا ایک اور قابل گرفت پہلو ان کا یہ نظریہ ہے کہ ابلیس درحقیقت ایک فرشتہ تھا۔(۱۸) جب کہ درج ذیل قرآنی بیان کی رُو سے ابلیس کا جِن ہونا بالکل واضح ہے:
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلائِکَۃِ اسْجُدُوا لِاٰدمَ فَسَجَدُوا إِلا إبْلِیْس کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّہ۔ (سورہ ۱۸: آیت ۴۹)
یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انھوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا۔ وہ جنوں میں سے تھا، اس لیے اپنے رب کے حکم کی اطاعت سے نکل گیا۔
عبداللہ یوسف علی کو اسی طرح ہاروت وماروت کا فرشتہ ہونا قابل قبول نہیں۔ قرآن مجید میں واضح طور پر ہاروت ماروت کے سلسلے میں مذکور ہے:
وَمَا أُنزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلَ ہَارُوتَ وَمَارُوتَ۔ (سورہ ۲: آیت ۱۰۲)
وہ پیچھے پڑے اس چیز کے جو بابل میں دو فرشتوں، ہاروت وماروت پر نازل کی گئی تھی۔
ہاروت وماروت سے متعلق اپنے تشریحی حاشیے میں عبداللہ یوسف علی لکھتے ہیں:
’’ہاروت وماروت کے لیے ’’فرشتے‘‘ کا لفظ مجازی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ’’فرشتے‘‘ سے مراد علم وحکمت اور قوت کے حامل نیک افراد ہیں۔‘‘(۱۹)
اللہ تعالیٰ انسان کے تمام اعمال وافعال کی نگرانی کرتا رہتا ہے۔ اس ضمن میں قرآن مجید کا ارشاد ہے:
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسان ونَعْلَمُ مَا تُوَسُوس بِہِ نَفْسُہُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ اِلَیْہِ مِن حَبْلِ الوَرِیْد۔ إِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیٰنِ عَنِ الیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِید۔ (سورہ ۵۰: آیات ۱۶-۱۷)
ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں تک کو ہم جانتے ہیں۔ ہم اس کی رگِ گردن سے بھی زیادہ اُس سے قریب ہیں۔ (اور ہمارے اس براہِ راست علم کے علاوہ) دو کاتب اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہر چیز ثبت کر رہے ہیں۔
یہ واضح قرآنی بیان عبداللہ یوسف علی کے خیال میں تمام تر مجازی ہے۔(۲۰)
سورہ جِن کی ابتدا میں بعض جنوں کے قرآن مجید سننے اور اس سے متاثر ہونے کا حال بالتفصیل بیان کیا گیا ہے:
قُلْ أُوحِیَ إِلَیَّ أَنَّہُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآناً عَجَباً۔ یَہْدِیْ إِلَی الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِہِ وَلَن نُّشْرِکَ بِرَبِّنَا أَحَداً۔ (سورہ ۷۲: آیات ۱-۲)
اے نبی کہو! میری طرف وحی بھیجی گئی ہے کہ جنوں کے ایک گروہ نے غور سے سنا پھر جا کر اپنی قوم کے لوگوں سے کہا: ’’ہم نے ایک بڑا ہی عجیب قرآن سنا ہے جو راہِ راست کی طرف رہ نمائی کرتا ہے، اس لیے ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں اور اب ہم ہرگز اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔
ان آیات کی تفسیر میں عبداللہ یوسف علی نے جنوں کے اس گروہ کی یہ تشریح کی ہے:
’’(یہاں مراد) ایسے اشخاص ہیں جو عرب میں نووارد تھے اور چھپ چھپ کر قرآن مجید سننے کے بعد اسلام قبول کر لیا تھا۔‘‘(۲۱)
عبداللہ یوسف علی کے بعض حواشی کے مندرجہ بالااقتباسات کی روشنی میں اس امر کا بہ خوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کے یہ نظریات مدافعانہ طرزِ فکر کے آئینہ دار ہونے کے علاوہ گم راہ کن بھی ہیں اور علما کو ایسا فوری قدم اٹھانا چاہیے کہ اس مقبول ترین انگریزی ترجمہ وتفسیر قرآن میں در آنے والے یہ تسامحات دور ہوں۔
مسلم انگریزی مترجمین ومفسرین قرآن میں دوسرا اہم نام مولانا عبد الماجد دریابادیؒ (۱۸۹۲م – ۱۹۷۷م) کا ہے۔ مولانا دریابادیؒ درحقیقت ایسے پہلے مفسر قرآن ہیں، جن کا انگریزی ترجمہ وتفسیر جمہور امت کے عقائد وافکار کا آئینہ دار ہے۔ انگریزی زبان کے دیگر مسلمان مفسرین کی طرح آپ کے ہاں مدافعانہ یا معذرت خواہانہ انداز فکر نہیں پایا جاتا۔
مولانا دریابادیؒ کا ترجمۂ قرآن ۱۹۴۱م ہی میں پایۂ تکمیل کو پہنچ چکا تھا، لیکن بعض ناگزیر اسباب کی بنا پر مکمل صورت میں یہ ترجمہ ۱۹۶۱م میں تاج کمپنی، کراچی کے زیر اہتمام شائع ہوسکا۔ ادارۂ تحقیقات ونشریات اسلامی، لکھنؤ نے بھی نظر ثانی شدہ ترجمہ وتفسیر کو زیورِ طبع سے آراستہ کیا ہے۔ مولانا دریابادیؒ نے ’’تفسیر ماجدی‘‘ کے عنوان سے اردو میں بھی تفسیر قرآن تحریر کی ہے۔ یہ وضاحت ضروری ہے کہ انگریزی اور اردو تفاسیر ایک دوسرے کا چربہ نہیں بلکہ الگ الگ دو مستقل تصانیف کا درجہ رکھتی ہیں۔ انگریزی تفسیر کے اصل مخاطب اہل مغرب اور مغربی تہذیب وتمدن سے متاثر مسلمان ہیں۔ مولانا دریابادیؒ کی علوم جدیدہ بالخصوص فلسفے پر گہری اور بہ راہِ راست نظر تھی۔ وہ الحاد وتشکیک کے تجربات سے گزر چکے تھے۔ اس لیے ان کی شخصیت اِس انداز کی تفسیر قرآن کے لیے بہت ہی موزوں کہی جا سکتی ہے۔ ممتاز نومسلم مصنفہ مریم جمیلہ نے اپنے ایک مضمون میں اپنے قبولِ اسلام میں معاون عوامل کا ذکر کرتے ہوئے مولانا دریابادیؒ کی تفسیر کے اس امتیازی وصف کی تصدیق اس طرح کی ہے:
’’میرا خام اور ناپختہ ذہن قرآن مجید کو بائبل کی محض ایک مسخ شدہ شکل تصور کرتا تھا۔ میں نے مولانا دریابادیؒ کی تفسیر کو سب سے بہتر پایا۔ بالخصوص اس کے وہ حواشی جن کا موضوع مذاہبِ عالم کا تقابلی مطالعہ ہے۔ میں نے ان سے خاصا استفادہ کیا ہے۔(۲۲)
علومِ جدیدہ بالخصوص عمرانیات، نفسیات، تاریخ مذاہب وتمدن، اثریات، فلسفہ، عربی زبان وادب اور قرآن کے اعجاز وبلاغت پر عبور کے باعث مولانا دریابادیؒ کے ہاں بعض ایسے قرآنی نکات کی ایمان افروز اور روح پرور تعبیر وتشریح ملتی ہے، جسے دیگر انگریزی مفسرین کرام نظر انداز کر گئے ہیں۔ اس ضمن میں چند مثالیں پیش ہیں:
(۱) قرآن کریم میں جا بجا بنی اسرائیل کو مخاطب کیا گیا ہے اور ان کی فضیلت بھی مذکور ہے (مثلاً سورہ بقرہ آیت ۴۷)۔ اس مقام پر یہ سوال قدرۃً ذہن میں پیدا ہوتا ہے :
’’اس نسل کی افضلیت سارے عالم پر کس معنی میں ارشاد ہو رہی ہے؟ اگر کہیے کہ دولت یا حکومت یا تجارت یا کثرتِ آبادی تو اوّل تو یہ انعامات خود اس درجے کے نہیں کہ ان کا ذکر اس شان واہتمام سے کیا جائے اور پھر یہ نعمتیں تو بہت سی قوموں کو اپنے اپنے وقت میں نصیب رہ چکی ہیں۔ پھر آخر قوم اسرائیل کی وہ مخصوص فضیلت کیا تھی؟ تاریخ کی زبان سے جواب ایک ہی ملتا ہے کہ وہ دولت یا اللہ کی اعلیٰ ترین نعمت مسلک توحید کی تھی۔ یہ نسل اسرائیل ہی ایک ایسی قوم تھی، جو من حیث القوم توحید کی علم بردار رہی اور انبیا ورسل، جہاں تک کسی نسل کا تعلق ہے، نسل بنی اسرائیل ہی میں مسلسل پیدا ہوتے رہے۔ انبیاورسل اور ان کی تعلیمات کا چرچا صرف بنی اسرائیل میں تھا۔
قوم بنی اسرائیل اور امت موسوی دو بالکل اور قطعاً علاحدہ چیزیں ہیں۔ اس لیے آیت کی تفسیر میں امت موسوی اور امت محمدیﷺ کے تقابل وتفاضل کا سوال ہی سرے سے نہیں پیدا ہوتا۔ امت محمدیﷺ کی فضیلت بہ لحاظ دین وعقیدہ ہے نہ کہ کسی نسلی یا قومی اعتبار سے اور آیت میں ذکر ایک خاص نسل کی افضلیت کا ہے۔ یہ ایک مسلّم تاریخی حقیقت ہے کہ جس وقت دنیائے تہذیب طرح طرح کی مشرکانہ وہم پرستیوں میں مبتلا تھی، موحّد اعظم ابراہیم علیہ السلام ہی کی نسل کی ایک شاخ توحید کا علم بلند کیے ہوئے تھی۔‘‘(۲۳)
(۲) مولانا دریابادیؒ نے اپنے انگریزی ترجمۂ قرآن میں عیسائیوں کے لیے عام طور سے مستعمل اصطلاح CHRISTIANS اختیار نہیں کی، بلکہ NAZARENES اختیار کی ہے اور اس کے حق میں دلیل یہ پیش کی ہے:
’’خوب خیال کر لیا جائے کہ قرآن یہاں ذکر مسیحیوں کا نہیں نصاریٰ کا کر رہا ہے اور قرآن حکیم کا ہر ہر لفظ حکمت سے پُر ہوتا ہے۔ مسیحی وہ ہیں جو ایمان اناجیل اربعہ پر رکھتے ہیں۔ مسیح کو خدا کا نبی نہیں، خدا کا بیٹا مانتے ہیں۔ آخرت میں نجات دینے والا خدا کو نہیں، مسیح ابن اللہ کو یقین کرتے ہیں۔ اس کھلے ہوئے شرک کے قائلوں کا ذکر ہرگز اس مقام پر مقصود نہیں، اسی لیے نام بھی جو مشہورا ور چلا ہوا تھا، اسے ترک کر کے نصاریٰ لایا گیا۔ نصاریٰ (NAZARENES) حضرت مسیح علیہ السلام کے سچے پیرو، توحید کے قائل تھے اور بجائے اناجیل اربعہ کے صرف انجیل متی کو مانتے تھے۔ لیکن جب مشرکانہ عقائد کا زور بندھا اور اصل مسیحیت حلولیت اور تثلیث ہی قرار پا گئی تو قدرۃً نصرانیت کا ستارہ بھی گردش میں آیا اور نصرانی ونصرانیت کے الفاظ بجائے عزت وتکریم کے تحقیر کے موقع اور ذم کے محل میں استعمال ہونے لگے۔ موجودہ مسیحیت سرتا سر پولوسیت ہے اور تمام تر پولوس (PAUL) طرسوسی کی تعلیمات پر مبنی ہے۔ یہ حضرت مسیح کے کچھ ہی روز بعد شروع ہوگئی تھی اور نصرانی اس کے بالکل منکر تھے۔‘‘(۲۴)
(۳) حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کے ذیل میں قرآن کریم میں مذکور ہے:
’’اور (وہ وقت یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی کی دعا مانگی سو ہم نے کہا (اے موسیٰ) اپنا عصا فلاں پتھر پر مارو تو اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے۔‘‘ (سورہ بقرہ: آیت ۶۰)
مذکورہ بالاآیت قرآنی پر اپنے تشریحی حاشیے میں مولانا دریابادیؒ نے غیر مسلم مغربی ماہرین اثریات اور مورخین ہی کے اقتباسات سے قرآنی بیان کی تاریخیت کو اجاگر کیا ہے(۲۵) اور یہ ثابت کیا ہے کہ قرآن کریم کے معاندین اور منکرین تک بھی قرآن کریم کی تصدیق کرنے کے لیے اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں۔
(۴) حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں ارشاد قرآنی ہے:
’’اور سلیمان نے تو کبھی کفر نہیں کیا‘‘ (سورہ بقرہ: آیت ۱۰۲)۔
اس فقرے میں مولانا دریابادیؒ کا درج ذیل تفسیری حاشیہ ان کی قرآن فہمی اور تاریخ مذاہب عالم پر اُن کی گہری نظر کا آئینہ دار ہے:
’’آیت کے اس مقام پر پہنچ کر مومن کے قلب میں ذرا کھٹک پیدا ہوتی ہے کہ یہ کہنے والی کون سی بات تھی جو قرآن نے فرما دی؟ جب سلیمان علیہ السلام پیغمبر برحق تھے تویہ کھلی ہوئی اور موٹی سی بات ہے کہ آپ شائبہ کفر و شبہ کفر سے بہ مراحل دور تھے۔ قرآن مجید کبھی کوئی چھوٹا سا بیان بھی بے ضرورت نہیں دیتا۔
سلیمان علیہ السلام کو پیغمبر ماننے والی دو قومیں یہود ونصاریٰ ایک طرف تو ان کی عظمت وپیمبری کی قائل ہیں اور دوسری طرف ان کے نامۂ اعمال میں گندے سے گندے جرائم بھی ڈال دیے ہیں۔ یہاں تک کہ کفر وشرک بھی (مثلاً سلاطین ۱۱: ۴، ۶، ۹، اور ۱۰)۔ قرآن نے آکر اعلان کیا کہ سلیمان کو معاذ اللہ کافر کہتے ہو وہ تو کفر کے قریب تک نہیں گئے تھے۔‘‘
اور اب قدرتِ حق کا اعجاز دیکھیےکہ اب جو محققانہ وفاضلانہ کتب بائبل ہی کے پرستاروں کے قلم سے نکل رہی ہیں وہ تائید اور تصدیق، بائیل کی الزام دہی کی نہیں، قرآن کے جواب صفائی کی کر رہی ہیں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا، جلد۲، ص ۹۵۲، طبع چہاردہم اور انسائیکلوپیڈیا ببلیکا کالم ۴۸۹۹)(۲۶)
(۵) ہاروت وماروت کے بارے میں قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہ دونوں فرشتے تھے اور عوام کو نجات کی تعلیم دیتے تھے۔ کسی فرشتے کا جادو سکھانا بہ ظاہر ایک ناقابل یقین امر محسوس ہوتا ہے۔ اسی لیے عبداللہ یوسف علی نے ہاروت اور ماروت کو فرشتہ ماننے سے بھی انکار کیا ہے۔ لیکن مولانا دریابادیؒ نے اپنے تشریحی حواشی میں اوّل تو ماہرین اثریات اور مورخین کے حوالے سے اس تاریخی حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ اس دور میں فلسطین اور بابل میں سحر وکہانت کا زبردست چلن تھا اور پھر مصلحت قرآنی کی اس طرح وضاحت کی ہے:
’’فرشتوں کے اوپر حقیقت سحر کا نزول ان کی نزاہت کے ذرا بھی منافی نہیں، خصوصاً جب کہ اس فن کے الہام کیے جانے سے مقصود ہی تمام تر اصلاح خلق تھا۔ یعنی لوگوں کو سحر وکہانت سے بچانا۔ مجسٹریٹوں، پولیس کے افسروں کو جرائم سے عملی واقفیت حاصل کرتے کس نے نہیں دیکھا ہے؟ ظاہر ہے یہ اس لیے نہیں ہوتا کہ وہ خود جرم کریں بلکہ اس لیے کہ وہ اپنی علمی واقفیت کو مجرموں کے ارتکاب جرم سے باز رکھنے میں کام میں لائیں۔‘‘(۲۷)
(۶) سورۃ بقرہ: آیت ۶۱ میں بنی اسرائیل کی فرد جرم میں انبیا کو ناحق قتل کرنے کا بھی تذکرہ ہے۔ ’وَمَا کَفَرَ سُلَیْمَانُ‘ کی مانند قتل ناحق کی تصریح بہ ظاہر حشووزائد معلوم ہوتی ہے۔ اس فقرے میں پنہاں قرآن کریم کے اعجاز بلاغت کو مولانا دریابادیؒ نے مندرجہ ذیل الفاظ میں نہایت عمدگی کے ساتھ آش کارر کیا ہے:
’’نبی کا قتل جب بھی ہوگا، ناحق ہی ہوگا۔ نبی کے قتل کے جائز کی کوئی صورت ہی نہیں۔ پھر قرآن جس میں ایک لفظ بھی بے کار یا بہ طور حشو نہیں، اسے کیوں لایا؟ قرآن کا مقصود اس اضافے سے یہ ہے کہ خود ان قاتلوں کے معیار سے بھی یہ قتل ناحق وناجائز تھے، یعنی خلاف عدل تو خیر ہوتے ہی قانون وقت کے لحاظ سے بھی خلافِ قانون اور بے ضابطہ تھے۔‘‘(۲۸)
اس کے علاوہ مولانا دریابادیؒنے بائبل کے متعدد اقتباسات (یرمیاہ ۲:۲۹-۳۰، ۲تواریخ ۳۶: ۱۶، نحمیاہ ۹: ۲۶، متی ۲۳: ۳۱-۳۷ اور لوقا ۱۳: ۳۴) کی مدد سے یہ صراحت بھی کر دی ہے کہ توہین انبیا اور پیمبر کشی کا الزام صرف قرآن مجید ہی نے یہود پر عائد نہیں کیا ہے بلکہ اس کا ذکر خود ان کے اپنے نوشتوں میں بھی جا بجا ملتا ہے۔
(۷) قرآن حکیم میں یہ مضمون بہ کثرت وارد ہوا ہے کہ مشرق ومغرب دونوں ہی اللہ کے ہیں اور اصل عبادت مشرق یا مغرب کی جانب منہ کرنا نہیں بلکہ تقویٰ اور پرہیزگاری ہے (البقرہ: آیات ۱۱۵، ۱۷۷ وغیرہ)۔ بالعموم مفسرین کرام نے ان آیات کے ظاہری معنی ہی پر اکتفا کیا ہے لیکن تاریخ مذاہب عالم کی تفصیلات وجزئیات سے واقف ہونے کے باعث مولانا دریابادیؒ نے ان آیات کی تعبیر وتشریح کے ذیل میں ایک بالکل نیا اور اہم نکتہ پیش کیا ہے، جو قرآن کریم کے اعجاز اور حقانیت کو مزید روشن کرتا ہے:
’’مذاہب جاہلی کی تاریخ انسانی حماقتوں، جہالتوں، وہم پرستیوں کی ایک مسلسل تاریخ ہے۔ ایک مشترک گم راہی مشرک قوموں میں یہ رہی ہے کہ خدا چوںکہ متمکن ہے اور متجسم ہے، اس لیے لازمی ہے کہ اس کی ہستی کسی نہ کسی متعین سمت یا جہت میں ہو اور اسی تلبّس کی بنا پر خود وہ سمت یا جہت مقدس ہے۔ مصری، ہندی، رومی تمام مشرک قوموں نے خدا کو کسی نہ کسی جہت میں فرض کر کے اسی جہت کو مقدس مانا ہے۔ مشرکوں ہی کے اثر سے سمت پرستی کا یہ شرک اہل کتاب میں سرایت کرگیا اور مسیحی مذہب چوںکہ عقائد وعبادات دونوں میں اپنے وقت کے رائج وشائع رومی مذہب ہی کا مثنیّٰ یا پرتو ہے، اس لیے وہ تو کھلم کھلا مشرق پرستی میں مبتلا ہو گیا۔ یہود بھی تمام تر محفوظ نہ رہ سکے بلکہ ان کے بعض فرقے تو پوری طرح اس صف میں آگئے۔ چناںچہ یہ دونوں سمتیں خوب پُجتی رہیں۔ مشرق زیادہ اور مغرب اس سے کچھ کم۔ دنیا کی دنیا اس سمت پرستی کے شرک، اس مشرق پرستی اور مغرب پرستی کی ضلالت میں مبتلا تھی کہ توحید نے ساری دنیا کے عقائد کو چیلنج کر کے، اس مشرکانہ عقیدے پر ضرب لگا کر ایک عالم کو چونکا دیا۔‘‘(۲۹)
اسلام اور مذاہب عالم بالخصوص یہودیت اور عیسائیت کا تقابلی مطالعہ اور موازنہ مولانا دریابادیؒ کی تفسیر قرآن کی ایک امتیازی خصوصیت ہے۔ اس موضوع پر تقریباً ڈھائی تین سو حواشی ملتے ہیں، جن کا مقصد رائج الوقت بائبل کی تحریفات اور تسامحات کو دور کرنا اور ارشادات قرآنی کی حقانیت اور برتری کو ثابت کرنا ہے۔ اسی طرح جدید فلسفے اور نفسیات میں درک رکھنے کے باعث مولانا دریابادیؒ کے تفسیری حواشی بھی اہل مغرب اور مغرب زدہ مسلمانوں کے لیے خاصے کی چیز ہیں۔ اس نکتے کی وضاحت کے لیے ایک دو مثالیں درج ہیں:
تخلیق انسان کے ضمن میں ارشاد قرآنی ہے :
’’جب تیرے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین پر اپنا نائب بنانے والا ہوں، وہ بولے کیا تو اس میں ایسے کو بنائے گا جو اس میں فساد برپا کرے گا اور خون بہائے گا۔‘‘ (سورہ بقرہ: آیت ۳۰)
اپنے تشریحی حاشیے میں مولانا دریابادیؒ نے جدید نفسیات کے ان مطالعات کی تحقیقات کا ذکر کیا ہے جن کی رُو سے سرشت انسانی میں خوں ریزی اور قتل وغارت گری کے عناصر کی موجودگی ثابت ہوتی ہے۔
تعدد ازدواج کے ذیل میں بھی مولانا دریابادیؒ نے ماہرین حیاتیات، عمرانیات اور نفسیات کے متعدد اقوال نقل کیے ہیں، جو تعدد ازدواج کے عین فطری اور ناگزیر ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس تصنیف کے بعض تفسیری حواشی نظرثانی اور اصلاح کے طالب ہیں کہ ان میں مذکور تحقیقات اور معلومات پرانی اور متروک ہو چکی ہیں۔
بہ ہرکیف قدیم وجدید علوم پر گہری نظر اور اسی کے ساتھ اسلامی عقائد پر غیر متزلزل ایمان ویقین کی وجہ سے مولانا دریابادیؒ کا انگریزی ترجمہ وتفسیر قرآن ایک امتیازی شان رکھتا ہے۔ یہ امر حیرت انگیز بھی ہے اور افسوس ناک بھی کہ اس وقیع ترجمہ وتفسیر کو انگریزی داں حلقوں میں اب تک وہ مقام نہیں مل سکا، جس کی یہ بجا طور پر مستحق ہے۔
حواشی
۱۔ شاہ عبداللہ یوسف علی The Holy Quran: Text, Translation & Commentary (الراجحی کمپنی، میری لینڈ، ۱۹۸۳ء؁)، ص ص ۱۴۶۴- ۱۴۶۵۔
۲۔ ایضاً۔ ص ۱۶۶۴، حاشیہ نمبر ۵۸۶۷، اور ص ۱۷۰۹، حاشیہ نمبر ۶۰۳۱۔
۳۔ ایضاً ص ۲۲، حاشیہ ۴۴۔
۴۔ مولانا عبد الماجد دریابادی، تفسیر ماجدی، (صدق جدید یک ایجنسی، لکھنؤ ۱۹۶۷ء؁)، جلد اوّل، ص ۵۴،۵۵۔
۵۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، (مرکزی مکتبہ اسلامی، دہلی ۱۹۸۲ء؁)، جلد اوّل، ص ۵۸۔
۶۔ عبداللہ یوسف علی، ص ۴۷۱، حاشیہ ۱۳۴۹، ص ۹۲۸، حاشیہ ۳۰۶۵، ص ۱۱۸۲، حاشیہ ۲۰۰۱، ص ۱۳۸۱، حاشیہ ۴۸۳۳، ص ۱۴۲۲، حاشیہ ۴۹۹۸، ص ۱۴۶۳، حاشیہ ۵۱۶۸۔
۷۔ ایضاً ص۷۸۰، حاشیہ ۲۵۱۳، ص ۱۳۳۹، حاشیہ ۲۵۱۳، ص ۱۱۹۶، حاشیہ ۴۰۶۲، ص ۱۲۲۸، حاشیہ ۴۲۰۸، ص ۱۴۲۶، حاشیہ ۵۰۵۶، ص ۱۵۹۹، حاشیہ ۵۶۵۴، ص ۱۶۷۵، حاشیہ ۵۹۰۵، ص ۱۳۵۲، حاشیہ ۴۷۲۸۔
۸۔ ایضاً ص ۱۲۵۲، حاشیہ ۴۷۲۸۔
۹۔ ایضاً ص ۱۴۸۰، حاشیہ ۵۲۱۰، ص ۱۴۸۶، حاشیہ ۵۲۳۳، ص ۱۶۷۶، حاشیہ ۵۸۳۵۔
۱۰۔ ایضاً ص ۱۶۵۶، حاشیہ ۵۸۳۵، ص ۱۶۵۸، حاشیہ ۵۸۴۷، ص ۱۶۵۸، حاشیہ ۵۸۴۹-۵۸۵۴، ص ۶-۱۶۷۵، حاشیہ ۵۹۰۵، اور ۵۹۰۸۔
۱۱۔ ص ۲۱۰، حاشیہ ۶۱۲۔
۱۲۔ ص ۳۵۰، حاشیہ ۱۰۱۹۔
۱۳۔ ایضاً ص ۱۶۰۱، حاشیہ ۵۶۶۱، ص ۴۷۱، حاشیہ ۱۳۵۱، ص ۱۶۴۲، حاشیہ ۵۷۸۸۔
۱۴۔ ایضاً ص ۴۸۴، حاشیہ ۱۳۹۰۔ ص ۶۳۳، حاشیہ ۱۹۲۶-۱۹۲۸۔
۱۵۔ ایضاً ص ۱۷۴، حاشیہ ۴۹۹۔
۱۶۔ ایضاً ص ۱۶۹۵، حاشیہ ۵۹۸۰۔
۱۷۔ ایضاً ص ۱۰۳، حاشیہ ۲۹۸۔ ص ۳۵۵، حاشیہ ۱۰۳۲، ص ۱۲۶۳، حاشیہ ۴۳۶۵، ص ۱۵۹۹، حاشیہ ۵۶۵۱۔
۱۸۔ ایضاً ص ۳۱۹، حاشیہ ۹۲۹۔
۱۹۔ ایضاً ص ۴۵، حاشیہ ۱۰۴۔
۲۰۔ ایضاً ص ۱۴۱۲، حاشیہ ۴۹۵۳۔
۲۱۔ ایضاً ص ۱۶۲۵، حاشیہ ۵۷۲۸۔
۲۲۔ مریم جمیلہ، Why I Embraced Islam، (کریسنٹ پبلشنگ کمپنی، دہلی، ص ۳،۵۔
۲۳۔عبدالماجد دریابادی، Tafsirul Quran (ادارۂ تحقیقات ونشریات اسلامی، لکھنؤ، ۱۹۸۱ء؁)، جلد اوّل، ص ۲۶ و۲۷، حاشیہ ۱۷۳۔
۲۴۔حوالۂ مذکور، جلد اوّل، ص ۴۵، حاشیہ ۲۷۵۔
۲۵۔ ایضاً، جلد اوّل، ص ۳۹، حاشیہ ۲۵۰ و۲۵۱۔
۲۶۔ ایضاً، جلد اوّل، ص ۶۸-۶۷، حاشیہ ۴۴۲ و۴۴۳۔
۲۷۔ ایضاً، جلد اوّل، ص ۶۸، حاشیہ نمبر ۴۴۷ و۴۴۹۔
۲۸۔ایضاً، جلد اوّل، ص ۴۳-۴۲، حاشیہ نمبر ۲۷۲-۲۶۹۔
۲۹۔ ایضاً، جلد اوّل، ص ۷۷-۷۶، اور ۱۱۰-۱۰۹، حاشیہ ۵۱۷-۵۱۶، اور ۱۶۶۔

 

اس کیو آر کوڈ کو اسکین کرکے ادارے کا تعاون فرمائیں یا پرچہ جاری کرانے کے لیے زرِ خریداری ٹرانسفر کریں۔ رقم بھیجنے کے بعد اسکرین شاٹ ضرور ارسال کریں تاکہ آپ کو رسید بھیجی جاسکے۔ شکریہ