مصاحف عثمانی کی ترتیب وتدوین: احادیث کی روشنی میں

پروفیسر محمد یٰسین مظہر صدیقی ندوی

 

خلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفان اموی ؄ (۵۷۶ – ۶۵۶ ) (خلافت نومبر ۶۴۴- جولائی ۶۵۶) کو بالعموم ’’جامعِ قرآن‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ بلاشبہ ان کی تدوینِ قرآن یا نسخ مصاحف کی خدمت اس لقب کا جواز فراہم کرتی ہے۔ اس موضوع پر کتبِ سیرت وتاریخ اور مصادرِ حدیث نبوی میں بڑا قیمتی مواد موجود ہے۔ اس کا تجزیہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ متعدد اہل علم نے اپنی تحریروں میں اس عظیم الشان کارنامۂ عثمانی سے اپنے علم وفہم اور بساط بھر بحث بھی کی ہے۔ مولانا سعید احمد اکبر آبادی مرحوم نے بہت خوب لکھا ہے:
’’۔۔۔۔۔۔۔حضرت عثمان کے تمام کارنامے دینی کارنامے ہیں، تاہم سب سے بڑا اور نہایت عظیم الشان دینی کارنامہ مصحف عثمانی کی ترتیب وتدوین ہے۔‘‘ (۱)
مولانا اکبر آبادیؒ نے جمع قرآن کے اس مختصر باب (۳۰۶-۳۱۴) میں بعض تاریخی کتب کا حوالہ تو دیا ہے، حدیث نبوی سے بحث نہیں کی ہے۔ البتہ صحیح بخاری کی کتاب فضائل القرآن باب جمع القرآن کا حوالہ ضرور دیا ہے۔
مولانا شاہ معین الدین احمدؒ نے حضرت عثمانؓ کے اس کارنامے کو ’’سب سے اہم کارنامہ‘‘ قرار دیا ہے۔ مگر ان کی بحث بہت مختصر اور تشنہ ہے۔ انھوں نے صرف ایک صفحے میں اسے سمو دیا ہے۔ البتہ ’’بخاری اور فتح الباری ابواب جمع القرآن میں اس کی پوری تفصیل ہے‘‘ کا مختصر حوالہ حاشیے میں دے دیا ہے۔(۲) کم وبیش یہی طریقۂ کار اور انداز بحث تقریباً تمام دوسرے اہلِ علم وتاریخ کے ہاں ملتا ہے۔ البتہ قرآنیات پر کام کرنے والے اصحاب علم نے مفصل بحثیں پیش کی ہیں، جیسے اسماعیل احمد الطحان وغیرہ (۳) لیکن ان کا انحصار زیادہ تر غیر حدیثی مآخذ پر ہے۔ اس مختصر مقالے میں مصاحف عثمانی کی ترتیب وتدوین پر جو مواد احادیث میں ملتا ہے، اس کو پیش کرنا اور اس کا تجزیہ کرنا مقصود ہے۔
امام بخاریؒ نے تدوینِ قرآن کریم سے متعلق کئی احادیث نقل کی ہیں۔ ان میں سے بعض کا تعلق حضرت عثمانؓ سے ہے۔ ان میں سے ایک حدیث (نمبر ۴۹۸۴) ’’کتاب فضائل القرآن‘‘ کے دوسرے باب ’’باب نزل القرآن بلسان قریش والعرب‘‘ میں مروی ہے۔ حدیث نبوی کی سند ومتن حسب ذیل ہے:
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، وَأَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ : فَأَمَرَ عُثْمَانُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ، وَسَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ أَنْ يَنْسَخُوهَا فِي الْمَصَاحِفِ، وَقَالَ لَهُمْ : إِذَا اخْتَلَفْتُمْ أَنْتُمْ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ فِي عَرَبِيَّةٍ مِنْ عَرَبِيَّةِ الْقُرْآنِ فَاكْتُبُوهَا بِلِسَانِ قُرَيْشٍ ؛ فَإِنَّ الْقُرْآنَ أُنْزِلَ بِلِسَانِهِمْ. فَفَعَلُوا.(۴)
ابوالیمان نے ہم سے بیان کیا کہ ان کو شعیب نے زہری سے روایت کی اور انھوں نے خبر دی کہ انس بن مالک نے ان کو خبر دی۔ کہا: حضرت عثمانؓ نے حضرات زید بن ثابتؓ، سعید بن العاصؓ، عبداللہ بن زبیرؓ اور عبد الرحمن بن حارث بن ہشامؓ کو حکم دیا کہ وہ ان کو مصاحف( دفاتر/ copies) میں لکھیں اور ان سے فرمایا: جب تم اور زید بن ثابت قرآن کی عربیت کی کسی عربیت میں اختلاف کرو تو اس کو قریش کی زبان میں لکھو، کیوں کہ قرآن ان کی زبان میں نازل کیا گیا ہے۔ چناںچہ انھوں نے ایسا ہی کیا۔
اسی ’’کتاب فضائل القرآن‘‘ کے تیسرے باب ’’باب جمع القرآن‘‘ میں حدیث ۴۹۸۷ حضرت عثمانؓ کی تدوین قرآن سے متعلق ہے اور محرک درجہ پر دلالت کرتی ہے۔ پوری حدیث مع سند درج ذیل ہے:
حَدَّثَنَا مُوسَى ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ ، أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ قَدِمَ عَلَى عُثْمَانَ وَكَانَ يُغَازِي أَهْلَ الشَّأْمِ فِي فَتْحِ إِرْمِينِيَةَ وَأَذْرَبِيجَانَ مَعَ أَهْلِ الْعِرَاقِ، فَأَفْزَعَ حُذَيْفَةَ اخْتِلَافُهُمْ فِي الْقِرَاءَةِ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ لِعُثْمَانَ : يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَدْرِكْ هَذِهِ الْأُمَّةَ قَبْلَ أَنْ يَخْتَلِفُوا فِي الْكِتَابِ اخْتِلَافَ الْيَهُودِ، وَالنَّصَارَى. فَأَرْسَلَ عُثْمَانُ إِلَى حَفْصَةَ أَنْ أَرْسِلِي إِلَيْنَا بِالصُّحُفِ نَنْسَخُهَا فِي الْمَصَاحِفِ، ثُمَّ نَرُدُّهَا إِلَيْكِ. فَأَرْسَلَتْ بِهَا حَفْصَةُ إِلَى عُثْمَانَ، فَأَمَرَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، وَسَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، فَنَسَخُوهَا فِي الْمَصَاحِفِ، وَقَالَ عُثْمَانُ لِلرَّهْطِ الْقُرَشِيِّينَ الثَّلَاثَةِ : إِذَا اخْتَلَفْتُمْ أَنْتُمْ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ فِي شَيْءٍ مِنَ الْقُرْآنِ فَاكْتُبُوهُ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ ؛ فَإِنَّمَا نَزَلَ بِلِسَانِهِمْ. فَفَعَلُوا حَتَّى إِذَا نَسَخُوا الصُّحُفَ فِي الْمَصَاحِفِ رَدَّ عُثْمَانُ الصُّحُفَ إِلَى حَفْصَةَ، وَأَرْسَلَ إِلَى كُلِّ أُفُقٍ بِمُصْحَفٍ مِمَّا نَسَخُوا، وَأَمَرَ بِمَا سِوَاهُ مِنَ الْقُرْآنِ فِي كُلِّ صَحِيفَةٍ، أَوْ مُصْحَفٍ أَنْ يُحْرَقَ. قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : وَأَخْبَرَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، سَمِعَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ قَالَ : فَقَدْتُ آيَةً مِنَ الْأَحْزَابِ حِينَ نَسَخْنَا الْمُصْحَفَ قَدْ كُنْتُ أَسْمَعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ بِهَا، فَالْتَمَسْنَاهَا، فَوَجَدْنَاهَا مَعَ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيِّ : { مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ } ، فَأَلْحَقْنَاهَا فِي سُورَتِهَا فِي الْمُصْحَفِ.(۵)
موسیٰ نے ہم سے بیان کیا، (انھوں نے کہا کہ) ہم سے ابراہیم نے بیان کیا۔ (انھوں نے کہا) کہ ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا (اور انھوں نے فرمایا) کہ ان سے حضرت انس بن مالکؓ نے بتایا کہ حضرت حذیفہ بن الیمانؓ حضرت عثمانؓ کے پاس آئے۔ وہ اہل شام کے ساتھ آرمینیہ اور آذربیجان کی فتح میں عراق والوں سے جنگ آزمائی کرتے رہے تھے۔ حضرت حذیفہؓ کو ان کی قرأ ت کے اختلاف نے خوف زدہ کر دیا تھا۔ حضرت حذیفہؓ نے حضرت عثمان سے عرض کیا: امیرالمومنین، اس امت کو بچا لیجیے، اس سے پہلے کہ وہ یہود ونصاریٰ کی طرح کتاب میں اختلاف کریں۔ حضرت عثمانؓ نے حضرت حفصہؓ سے درخواست کی کہ ہمارے پاس وہ صحیفے بھیج دیجیے۔ ہم ان کو مصاحف (دفاتر، کاپی) میں لکھ لیں اور وہ (صحیفے، صحف) آپ کو واپس کر دیں گے۔ چناں چہ حضرت حفصہؓ نے وہ صحیفے حضرت عثمانؓ کو ارسال کر دیے۔ انھوں نے زید بن ثابتؓ، عبد اللہ بن زبیرؓ، سعید بن العاصؓ اور عبد الرحمن بن حارث بن ہشامؓ کو حکم دیا اور انھوں نے ان صحیفوں کو مصاحف میں لکھ ڈالا۔ حضرت عثمانؓ نے تینوں قریشی اکابر سے کہا کہ جب تم اور زید بن ثابتؓ قرآن کی کسی چیز میں اختلاف کرو تو اس کو قریش کی زبان میں لکھنا، کیوں کہ وہ ان کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ چناںچہ انھوں نے تعمیل کی۔ جب انھوں نے صحیفوں کو مصاحف میں لکھ لیا تو حضرت عثمانؓ نے صحیفے حضرت حفصہ کو واپس کر دیے اور ان لوگوں نے جو لکھے تھے ان میں ایک مصحف ہر افق کو روانہ کیا اور حکم دیا کہ اس کے سوا جو کچھ قرآن کسی صحیفے یا مصحف میں لکھا ہو وہ جلا دیا جائے۔
ان دونوں احادیث میں حضرت حفصہؓ کے پاس موجود صحیفوں (صحف) کا حوالہ موجود ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مصاحفِ عثمانی ان صحیفوں پر مبنی تھے اور ان سے مصاحف میں لکھے گئے تھے۔ ان صحیفوں کا ذکر دوسری احادیث میں آتا ہے اور وہ عہد عثمانی کے مرتّب ومدوّن مصاحف کا پس منظر اور بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ لہٰذا ان کا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ یہ بنیادی حدیث امام بخاریؒ نے مصاحف عثمانی کی تدوین والی حدیث (۴۹۸۷) سے معاً قبل نقل کی ہے اور وہ درج ذیل ہے:
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ مَقْتَلَ أَهْلِ الْيَمَامَةِ فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عِنْدَهُ قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنَّ عُمَرَ أَتَانِي فَقَالَ إِنَّ الْقَتْلَ قَدْ اسْتَحَرَّ يَوْمَ الْيَمَامَةِ بِقُرَّاءِ الْقُرْآنِ وَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّاءِ بِالْمَوَاطِنِ فَيَذْهَبَ كَثِيرٌ مِنْ الْقُرْآنِ وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ الْقُرْآنِ قُلْتُ لِعُمَرَ كَيْفَ تَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عُمَرُ هَذَا وَاللَّهِ خَيْرٌ فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِي حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِذَلِكَ وَرَأَيْتُ فِي ذَلِكَ الَّذِي رَأَى عُمَرُ قَالَ زَيْدٌ قَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ لَا نَتَّهِمُكَ وَقَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ الْوَحْيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَتَبَّعْ الْقُرْآنَ فَاجْمَعْهُ فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفُونِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنْ الْجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا أَمَرَنِي بِهِ مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ قُلْتُ كَيْفَ تَفْعَلُونَ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ فَلَمْ يَزَلْ أَبُو بَكْرٍ يُرَاجِعُنِي حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ لَهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَتَتَبَّعْتُ الْقُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنْ الْعُسُبِ وَاللِّخَافِ وَصُدُورِ الرِّجَالِ حَتَّى وَجَدْتُ آخِرَ سُورَةِ التَّوْبَةِ مَعَ أَبِي خُزَيْمَةَ الْأَنْصَارِيِّ لَمْ أَجِدْهَا مَعَ أَحَدٍ غَيْرِهِ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَتَّى خَاتِمَةِ بَرَاءَةَ فَكَانَتْ الصُّحُفُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَيَاتَهُ ثُمَّ عِنْدَ حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.(۶)
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے ابراہیم بن سعد کے حوالے سے بیان کیا کہ ان سے ابن شہاب نے عبید ابن السباق سے روایت کی کہ حضرت زید بن ثابتؓ نے کہا: اہل یمامہ کی جنگ کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے مجھے بلا بھیجا۔ ان کے پاس عمر بن خطاب بھی موجود تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: عمر میرے پاس آئے اور کہا کہ جنگ یمامہ نے قارئین قرآن کو موت کے آغوش میں خاص طور سے پہنچا دیا ہے اور میں ڈرتا ہوں کہ اگر دوسرے مواقع (جنگ) پر قتل وشہادت نے قارئین کے ساتھ یہی سلوک کیا تو بہت سا قرآن چلا جائے گا۔ لہٰذا میرا خیال ہے کہ آپ قرآن کو جمع کرنے کا حکم دیں۔ میں نے عمر سے کہا: ہم وہ کام کیسے کر سکتے ہیں جسے رسول اللہ نے نہیں کیا۔ عمر نے کہا ’’یہ تواللہ کی قسم نیک کام ہے۔‘‘ عمر برابر مجھ سے بحث ومباحثہ کرتے رہے، تاآں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لیے میرا سینہ کھول دیا اور میں عمر کی رائے سے متفق ہوگیا۔ زیدؓ کا کہنا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: تم بلاشبہ ایک نوجوان سمجھ دار شخص ہو اور ہمیں تم پر کوئی شبہ نہیں ہے اور تم رسول اللہﷺ کے لیے وحی لکھتے رہے ہو، لہٰذا قرآن کو تلاش کر کے جمع کردو۔ اللہ کی قسم اگر وہ مجھ پر پہاڑوں میں سے کسی پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی ذمے داری ڈالتے تو وہ زیادہ بھاری نہ ہوتی جس قدر قرآن کو جمع کرنے کا ان کا حکم بھاری تھا۔ میں نے عرض کیا: آپ حضرات وہ چیز کیسے کر سکتے ہیں جس کو رسول اللہ نے نہیں کیا؟ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: ’’وہ تواللہ کی قسم کارِ خیر ہے۔‘‘ حضرت ابوبکرؓ بھی مجھ سے برابر بحث کرتے رہے حتی کہ اللہ نے میرا سینہ اس کام کے لیے کھول دیا جس کے لیے حضرات ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کو شرحِ صدر ہو چکا تھا۔ لہٰذا میں نے قرآن کو تلاش کرنا شروع کر دیا اور کھجور کی چھال، نرم پتھر کی سلوں اور لوگوں کے سینوں سے اس کو جمع کیا۔ میں نے سورۂ توبہ کی آخری آیت ابو خزیمہ انصاری کے پاس پائی اور ان کے علاوہ کسی دوسرے کے پاس وہ نہیں پاسکا: یعنی لقد جَاءکمْ رسولٌ مِنْ اَنفُسِکُم عَزِیزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتم سے سورۂ برأ ت کے خاتمے تک۔ وہ صحف (صحیفے) حضرت ابوبکر کے پاس ان کی وفات تک رہے، پھر حضرت عمر کے پاس تا زندگی رہے، پھر حضرت حفصہ بنت عمرؓ کے پاس رہے۔
یہ حدیث حضرت زید بن ثابتؓ سے مروی ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ وہی ان صحیفوں کے کاتب تھے جن میں مختلف چیزوں سے قرآنی آیات اور سورتیں جمع کر کے لکھی گئیں تھیں۔ حدیث میں لفظ ’صُحُف‘ استعمال کیا گیا ہے اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ عہد صدیقی میں قرآن مجید ایک مصحف میں بشکلِ کتاب مرتب نہیں ہوا تھا بلکہ مختلف صحیفوں (کتابچوں/ اوراق) میں وہ لکھ لیا گیا تھا اور ان کو مختلف چیزوں سے جمع کیا گیا تھا۔ حدیث میں مذکورہ چیزوں کے علاوہ دوسری احادیث وروایات میں کاغذ کے ٹکڑوں، پسلی کی ہڈیوں، کجاوے کی لکڑیوں، شانے کی ہڈیوں، چمڑے کے نرم ٹکڑوں وغیرہ کا ذکر بھی آیا ہے۔
حافظ ابن حجرؒ نے صحف کی تشریح میں لکھا ہے کہ ’’موطا ابن وہب‘‘ میں ایک روایت امام مالکؒ نے امام ابن شہاب زہریؒ کے واسطے سے حضرت سالم بن عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے نقل کی ہے اور اس کے مطابق ’’حضرت ابوبکر نے قرآن کو قراطیس (کاغذات) میں جمع کیا تھا ۔۔۔ (جمع أبوبکر القران فی قراطیس)‘‘۔ موسیٰ بن عقبہ کی مغازی کے حوالے سے بھی یہی لکھا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ اوّلین شخص تھے جنھوں نے قرآن کو صحف (صحیفوں) میں جمع کیا تھا اور عہد صدیقی میں ورق میں یعنی لکھائی میں جمع کر لیا گیا تھا: (۔۔۔۔ حتی جمع علی عہد أبی بکر في الورق فکان ابوبکر اوّل من جمع القران في الصحف)۔ حافظ موصوف کے مطابق یہ صحیفے حضرت حفصہؓ کے پاس اس لیے تھے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے اس کی وصیت کی تھی۔ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عمرؓ کے بعد خلیفۂ سوم کا انتخاب ہونا باقی تھا۔ اس لیے خلیفۂ دوم نے بہ طورِ امانت ان کو ام المومنین حضرت حفصہؓ کے پاس رکھوا دیا تھا۔ بہرحال وہ سرکاری امانت تھی، نہ کہ ذاتی وراثت۔(۷)
مختلف صحیفوں (صحف، قراطیس) میں قرآن مجید کے عہد صدیقی میں جمع کیے جانے کا ایک واضح مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حضرت زید بن ثابتؓ نے پورا قرآن مجید اپنے ہاتھ سے نہ لکھا ہو، کیوں کہ متعدد صحابۂ کرام کے پاس ان کے اپنے لکھے ہوئے یا کتابت شدہ صحیفے تھے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس موجود صحیفۂ قرآن سے ثابت ہوتا ہے۔ صحابی گرامی قدر کے مطابق ان کے صحیفے میں قرآن مجید کی ستّر یا پچھتّر
سورتیں لکھی ہوئی تھیں، جوانھوںنےرسول اکرمﷺ کی تعلیم وقرأ ت کی بنا پر تحریر فرمائی تھیں۔ ستّر یا پچھتّر سورتوں کی کتابت پر مشتمل صحیفۂ عبداللہ بن مسعود ہذلی کا ایک راز یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انھوں نے بقیہ سورتوں کی تعلیم رسول اکرمﷺ کے سوا دوسرے صحابہ سے حاصل کی ہو اور تعلیمات نبوی سے تعلیماتِ غیر کو ملانا پسند نہ کیا ہو۔(۸)
یہ بات تاریخی استدلال واستشہاد سے بھی ثابت ہوتی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ اگرچہ السابقون الاوّلون میں ہیں لیکن بہرحال وہ نزولِ قرآن کریم کے آغاز کے بعد اسلام لائے تھے۔ یعنی ان کے اسلام لانے سے قبل کئی سورتیں مثلاً سورۂ علق، سورۂ ضحی، سورۂ مدثر وغیرہ نازل ہو چکی تھیں اور ان کی تعلیم ان کو صحابۂ کرام سے ملی تھی، بہ راہِ راست رسول اکرم ﷺ سے نہیں۔ اسی طرح وہ ہجرتِ حبشہ کے دوران مکہ مکرمہ سے غیر حاضر رہے اور اس دوران جو آیات اور سورتیں نازل ہوئیں ان کی قرأ ت وتعلیم زبانِ نبوی سے نہیں ہوئی۔ وہ مدینہ منورہ ہجرت کر کے گئے تھے اور پھر بعض غزوات واسفار میں بھی معیتِ نبوی سے مشرف نہیں رہے، لہٰذا یہ یقینی ہے کہ بہت سی آیات اور سورتیں ان کو جنابِ نبوی سے بہ راہ راست نہیں ملی تھیں۔(۹)
امام بخاریؒ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ’’مصحف‘‘ کا ذکر کیا ہے، جس سے انھوں نے ایک عراقی کو سورتوں کی آیات املا کرائی تھیں۔(۱۰)حافظ ابن کثیرؒ کے اس خیال پر کہ عراقی کو مصحفِ عائشہؓ سے املا کرانے کا واقعہ مصاحفِ عثمانی کی تدوین سے قبل کا ہے، حافظ ابن حجر نے روایتی بنیادوں پر اتفاق نہیں کیا ہے، کیوں کہ راوی یوسف بن ماہک نے مصاحف عثمانی کے ارسال کا زمانہ نہیں پایا تھا۔ دوسری وجوہ بھی ذکر ہیں۔ غالباً اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ عراقی قرأ تِ ابن مسعودؓ کی عادت کی بنیاد پر قرأ تِ مصاحف عثمانی سے متفق نہیں تھے۔ وجہ کچھ بھی ہو، مصحف کا ذکر اس روایت میں پایا جاتا ہے اور دوسرے مصاحفِ صحابہ کی موجودگی بھی ایک تاریخی واقعہ ہے جیسے مصحف ابی بن کعب وغیرہ۔(۱۱)
حافظ ابن حجرؒ نے ’’صحف‘‘ اور ’’مصحف‘‘ کے فرق سے بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ صحف وہ مجرّد (الگ الگ) اوراق ہیں جن میں قرآن مجید عہد صدیقی میں جمع کیا گیا تھا۔ تمام سورتیں بکھری ہوئی تھیں۔ ہر سورت اپنی آیات کے ساتھ علاحدہ علاحدہ مرتب تھی اور وہ ایک ترتیب سے یکے بعد دیگرے مرتب نہیں تھیں۔ جب ان کو لکھ لیا گیا اور بعض سورتوں کو بعض کے بعد مرتب کردیا گیا تو وہ مصحف کہا گیا ہے۔(۱۲) اس سے قبل ایک جگہ مزید وضاحت کی ہے کہ قرآن مجید (عہد نبوی میں) مختلف صحف میں لکھا ہوا تو تھا لیکن وہ منتشر صحیفوں میں تھا یا ان کے صحیفے الگ الگ تھے۔ ان کوحضرت ابوبکرؓ نے ایک جگہ جمع کر دیا تھا۔(۱۳)
ترتیب مصاحفِ عثمانی
چوںکہ ’’صحف قرآنی‘‘ میں، جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد میں مرتب کیے گئے تھے، الگ الگ اوراق تھے، لہٰذا ان میں سورتوں کی موجودہ ترتیب نہیں تھی۔ قاضی باقلانیؒ کا قول حافظ ابن حجر عسقلانیؒنے نقل کیا ہے کہ سورتوں کی ترتیب نہ تو تلاوت میں واجب ہے، نہ نماز میں اور نہ ہی درس وتعلیم میں۔ اس لیے مصاحف ایک دوسرے سے مختلف تھے۔(۱۴) ابن بطال کا خیال ہے کہ ہم کسی کے قول سے واقف نہیں، جس نے سورتوں کی ترتیب کو واجب قرار دیا ہو نماز کے اندر یا باہر۔ مثال کے طور پر یہ جائز ہے کہ سورۂ کہف کو سورۂ بقرہ سے پہلے اور سورۂ حج کو سورۂ کہف سے قبل پڑھا جائے۔ ائمۂ سلف سے جو قرآن کو الٹا پڑھنے کی ممانعت آئی ہے تو اس سے یہ مراد ہے کہ سورت کی آخری آیت سے تلاوت شروع کر کے پہلی آیت تک تلاوت ہو۔ یعنی ترتیب الٹ کر پڑھا جائے۔ ہر سورت کی آیات کی ترکیب توقیفی اور واجب ہے اور ان کو آغاز سے خاتمے تک اسی ترتیب سے پڑھنا ضروری ہے۔ یعنی اس کی اندرونی ترتیب آیات کو بگاڑنا یا خراب کرنا حرام وممنوع ہے۔ ایک سورت کے بعد دوسری سورت کی تلاوت و قرأ ت میں ترتیب ضروری نہیں۔ اسی بنا پر قاضی عیاضؒ نے حضرت حذیفہؓ کی حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ نبی اکرمﷺ نمازِ شب میں سورۂ آل عمران سے قبل سورۃ النساء پڑھا کرتے تھے۔
حضرت عثمانؓ کا مصحف جب مرتب ہوا تو اس میں سورتوں کی موجودہ ترتیب رکھی گئی تھی۔ لہٰذا جمہور علما کا قول ہے کہ سورتوں کی ترتیب اجتہادی ہے اور نبی اکرمﷺ کی توقیف پر مبنی ہے۔ مصحفِ حضرت ابی بن کعب میں سورۃ النساء، سورۃ آل عمران سے پہلے تھی، کیوںکہ وہ قرأ تِ نبوی پر مبنی تھی۔ لہٰذا علما کے لیے حجت بن گئی۔ مصحف عثمانی میں تدوین یا ترتیبِ سور کی بنا پر صحابہ کے مصاحف سے اختلاف ہوا اور اسی بنا پر بعض صحابۂ کرام نے اپنے مصاحف سے دست کشی پسند نہیں کی تھی۔ لیکن بعض روایات سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ سورتوں کی ترتیب بھی رسول اکرمﷺ کے عہد میں موجودہ ترتیب کے مطابق ہو چکی تھی اور وہ بھی اس صورت میں توقیفی ہوگی، اجتہادی نہیں۔(۱۵)
اس بحث سے بعض حقائق ثابت ہوتے ہیں جن کو ترتیب وار نکات کی صورت میں رکھا جاتا ہے، کیوں کہ ان ہی پر اگلی بحث کا مدار ہوگا:
۱۔ عہد صدیقی میں مرتب کردہ قرآن مجید ایک کتاب یا مصحف کی صورت میں نہیں تھا، مختلف اوراق میں جمع کیا گیا تھا۔
۲۔ صحف قرآنی میں ایک سورت یا سورتوں کی اندرونی آیات کی ترتیب پائی جاتی تھی اور وہ توقیفی تھی۔
۳۔ صحف قرآنی میں سورتوں کے درمیان موجودہ ترتیب نہیں تھی، کیوںکہ وہ توقیفی نہیں اجتہاد پر مبنی تھی۔ لہٰذا مصاحفِ صحابہ مختلف تھے۔
۴۔ مصحف عثمانی میں سورتوں کی موجودہ ترتیب قائم کی گئی جو بعض مصاحف صحابہ سے مختلف تھی۔ اصلاً وہ نبوی ترتیب ہے۔ حضرت عثمانؓ نے رسول اکرمﷺ کے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ آخری معارضۂ قرآن کے مطابق ترتیب قائم کی تھی۔ وہ صحابہ کا اجماع ہے۔
۵۔ قرأ ت کے اختلاف کی صورت میں قریشی عربیت کو ترجیح دینے، بلکہ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
۶۔ مصحف عثمانی کی تدوین کے ذمے داروں میں تین قریشی تھے اور ایک خزرجی مدنی۔ اختلاف خزرجی یا غیر قریشی کا ہوتا۔
۷۔ صحف صدیقی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ خزرجی مدنی نے جمع کیے تھے۔
۸۔ ان صحف / اوراق میں بہت سے صحابہ کے لکھے ہوئے اوراق شامل تھے۔ ان میں مدنی / غیر قریشی بھی تھے اور قریشی بھی۔
۹۔ سفینوں کے علاوہ سینوں (صدور الرجال) سے جو آیات یا حصۂ قرآن جمع کیا گیا تھا، وہ غالباً خزرجی مدنی کا لکھا ہوا تھا۔
۱۰۔ لازمی نہیں تھا کہ غیر قریشی اوراق میں قریشی قرأ ت سے اختلاف ہی کیا گیا ہو۔ وہ قریشی زبان میں بھی ہو سکتے تھے اور ہوتے تھے۔
۱۱۔ سورۂ فرقان کی قرأ ت میں دو قریشیوں، حضرت عمرؓ اور حضرت ہشام بن حکیمؓ نے اختلاف کیا تھا اور دونوں نے قریشی رسولِ اکرمﷺ سے، جو افصح العرب تھے، الگ الگ قرأ توں کے ساتھ پڑھا تھا۔ یہ سات حروف پر قرآن کی تنزیل تھی۔
صحابہ کی قرأ ت میں اختلاف
سورتوں کی باہمی ترتیب میں اختلاف صحابہ کا معاملہ اتنا اہم نہیں تھا، کیوں کہ متعدد مصاحف قرآنی میں ان کی ترتیب مختلف تھی تو متعدد میں متحد وہم آہنگ بھی۔ مثال کے طور پر حضرت ابی بن کعبؓ کے مصحف میں سورۂ نساء پہلے تھی اور سورۂ آل عمران بعد میں۔ تو ممکن ہے کہ مصحف ابن مسعود میں یا مصحف عائشہ میں یا کسی اور مصحف میں ان دونوں کی ترتیب برعکس ہو۔ بعض احادیث نبوی سے ثابت ہوتا ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے سورۂ بقرہ کے بعد سورۂ آل عمران کی تلاوت فرمائی اور اس کے بعد سورۂ نساء کی۔ گویا ان تینوں سورتوں کی موجودہ ترتیب قائم رکھی۔ لہٰذا یہ قرین قیاس ہے کہ بعض مصاحف صحابہ میں یہی ترتیب تھی۔
اصل مسئلہ قرأ تِ قرآن کے اختلاف کا تھا اور اس نے حضرت عثمانؓ کے زمانے تک خطرناک صورت اختیار کرلی تھی۔ حضرت حذیفہ بن الیمانؓ کے فتح آرمینیہ اور آذربیجان کی جنگوں میں جو اختلاف قرأ ت دیکھا تھا وہ تو بہت معمولی نوعیت کا تھا۔ اصل اختلافِ قرأ ت مختلف امصارِ اسلام میں پیدا ہوا جو مختلف صحابۂ کرام کی قرأ توں نے پیدا کیا تھا اور نہ صرف پیدا کیا تھا بلکہ اس نے اتنی شدت اختیار کرلی تھی کہ ایک قرأ ت کے پابند لوگ دوسری قرأ ت کے عامل لوگوں پر طعن وتشنیع کرتے۔ حضرت حذیفہؓ کی رپورٹ میں بعض اضافات کا ذکر حافظ ابن حجرؒ نے کیا ہے۔ ان سے اختلافات کی نوعیت معلوم ہوتی ہے:
ا۔ اہلِ شام حضرت ابی بن کعبؓ کی قرأ ت کے مطابق پڑھتے تھے۔
۲۔ اہل عراق حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے مطابق قرأ تِ قرآن کرتے تھے۔
۳۔ دونوں کی جب ملاقات ہوتی تو اہل شام کی عراق والوں کو اور اہل عراق کی قرأ ت شامیوں کو اجنبی لگتی۔
۴۔ لہٰذا وہ نہ صرف اختلاف کرتے بلکہ ایک دوسرے کی تردید اور تکفیر کرتے (فیکفر بعضہم بعضاً)۔
۵۔ ایک روایت کے مطابق حضرت ولید بن عقبہ اموی ؓان کے زمانۂ امارت کے دوران مسجد کے ایک حلقے میں حضرت حذیفہ بن یمانؓ بھی تشریف فرما تھے۔ انھوں نے ایک شخص کو حضرت عبداللہ بن مسعود کی قرأ ت کے مطابق پڑھتے ہوئے سنا۔ ایک دوسرے شخص کو حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کی قرأ ت کے مطابق پڑھتے ہوئے سماعت کیا۔ حضرت حذیفہؓ نے اس پر غصے کا اظہار کیا اور لوگوں کو پیش رؤوں کی طرح اختلاف کرنے سے باز رہنے کی تاکید کی اور حضرت عثمانؓ کو اس سے باخبر کیا۔
۶۔ ایک اور روایت کے مطابق اختلافِ قرأ ت کی نوعیت یہ تھی کہ ایک شخص نے سورۂ بقرہ۔۱۹۶ کو پڑھا :’’واَتِمُّوا الحَجَّ وَالعُمرۃَ لِلّٰہِ‘‘ اور دوسرے نے اس کی تلاوت کی: ’’واَتِمُّوا الحَجَّ وَالعُمرۃَ لِلْبَیْتِ‘‘۔ حضرت حذیفہؓ کو اس پر غصہ آیا، کیوں کہ آیت کریمہ میں لفظ کا اختلاف پیدا کر دیا گیا تھا۔ اصل آیت میں ’’لِلّٰہ‘‘ ہے مگر بہ طور تشریح ’’لِلْبَیْت‘‘ کی قرأ ت کی گئی اور اسے قرآنی لفظ سمجھا گیا۔
۷۔ اہل عراق و اہل شام کے اختلاف کا کیا ذکر! خود عراق کے دو بڑے شہروں بصرہ اور کوفہ میں اختلاف تھا۔ اہل کوفہ قرأت ابن مسعودؓ کہتے اور اہل بصرہ قرأ ت ابو موسی اشعریؓ۔
۸۔ امصار و دیار اسلام تو درکنار خود مدینہ منورہ مرکز قرآن میں اختلافِ قرأ ت پایا جاتا تھا۔ اس کا حضرت عثمان کو عینی مشاہدہ ہوا۔ مختلف معلّمین واساتذۂ قرآنِ کریم اپنے اپنے شاگردوں کو اپنی پسندیدہ قرأ ت کے مطابق پڑھاتے تھے۔ بچے، طلبہ (غلمان) اپنے اساتذہ کی قرأ ت اختیار کرلیتے۔ پھر ملاقات ہوتی تو ایک دوسرے کی تردید کرتے۔ حضرت عثمانؓ کو صورتِ حال کی خبر ہوئی تو فرمایا کہ میرے پاس تم لوگ اتنا اختلاف کرتے ہو، تو جو لوگ مجھ سے دور امصار میں بس رہے ہیں وہ اور زیادہ اختلاف کریں گے۔ حضرت حذیفہؓ نے جب اختلافِ امصار سے آگاہ کیا تو حضرت عثمانؓ کا گمان یقین میں بدل گیا۔
۹۔ لہٰذا حضرت عثمانؓ نے اس مسئلے میں صحابہ سے مشورہ کیا (فکلّم عثمان في ذٰلک)۔
۱۰۔ ان کے مشورے واجماع سے حضرت عثمانؓ نے فیصلہ کیا کہ صحف صدیقی کو جمع کرکے ان کی بنیاد پر معیاری مصحف قرآن مدوّن کیا جائے۔
۱ا۔ حضرت عثمانؓ نے بڑی دیدہ وری سے حضرت زید بن ثابت خزرجیؓ کو تدوین مصحف عثمانی کا نگرانِ اعلیٰ یا جامع اوّل مقرر کیا، کیوں کہ وہ صحف صدیقی کے جامع ومدوّن تھے اور اس سلسلے کے تمام معاملات و امور سے واقف تھے۔
۱۲۔ نسخ / لکھنے کے کام میں تین قریشی حضرات کو شامل کیا کہ وہ لسانِ قریش کے سب سے بڑے ماہرین بھی تھے اور نوجوان کاتبین تھے۔ کیوں کہ معیاری مصحف قرآن صرف قریشی زبان میں ہی ممکن تھا۔ غیر قریشی زبانوں کی کثرت کے سبب اتحاد ناممکن تھا۔
۱۳۔ ان چار مرتبینِ کرام کا انتخاب بھی مشورے، سوچ بچار اور پوری چھان بین کے بعد کیا گیا تھا۔ اصحابِ رائے وعلم سے مشورے سے معلوم ہوا کہ لوگوں میں سب سے عظیم کاتب (من اکتب الناس) کا تبِ رسول اللہﷺ حضرت زید بن ثابتؓ تھے۔ لوگوں میں سب سے زیادہ فصیح واعرب (افصح / اعرب) حضرت سعید بن العاص امویؓ تھے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق قرآن کریم کی عربیت حضرت سعید بن العاص امویؓ کی لسان پر قائم کی گئی، کیوں کہ وہ رسول اللہﷺ کے لہجے کے سب سے زیادہ قریب اور مشابہ تھے۔ (لانہ کان أشبہم لہجۃً برسول اللہﷺ)
۱۴۔ حضرت عثمانؓ نے اس مشورے واجماع کے بعد فیصلہ فرمایا کہ حضرت سعید بن العاص امویؓ املا کرائیں اور حضرت زید بن ثابت خزرجیؓ کتابت فرمائیں۔ ان دونوں نے کام کا آغاز کیا۔ حضرت عثمانؓ نے کام کی تعیین بھی کر دی تھی۔
۱۵۔ لیکن کتابت قرآن مجید کا کام کافی دقت طلب اور مشکل تھا۔ لہٰذا دوسروں کی امداد واعانت کی ضرورت پڑی۔ لہٰذا حضرت عثمانؓ کے حکم اور صحابہ کے مشورے اور اجماع سے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ اور عبد الرحمن بن حارث بن ہشامؓ کا نام بڑھایا گیا۔
۱۶۔ روایات کے مطابق حضرت ابی بن کعبؓ خزرجی کو بھی املا کے کام میں شامل کیا گیا اور بعض دوسرے صحابہ کا اضافہ بھی ممکن ہے، کیوں کہ مصاحف کی تعداد کے مطابق ان کی تعداد ہونی ضروری تھی۔ بلکہ ایک ہی مصحف کی کتابت کے لیے کئی کاتبوں کی ضرورت تھی، خواہ املا کرانے والے دو ہی حضرات ہوں۔ املا یا کتابت میں حضرت ابی بن کعب خزرجیؓ مدنی کی شمولیت بھی معنی خیز ہے۔ وہ غیر قریشی ہونے کے باوجود حضرت زید کی مانند کاتبِ رسول اللہﷺ اور کاتبِ وحی تھے اور ان کا انتخاب اسی بنا پر ہوا تھا۔
۱۷۔ بعض صحابہ کو بعض روایات کے مطابق املا وکتابتِ قرآن مجید کے کام میں شامل نہ کیے جانے پر شدید قلق ہوا۔ ان میں سب سے اہم گرامی شخصیت حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی تھی۔ ان کو حضرت زید بن ثابتؓ جیسے نوجوان کے ترجیح دیے جانے پر شکوہ تھا۔ کیوں کہ وہ مرد بزرگ اور معلّمِ قرآن کبیر تھے لیکن وہ ہذَلی تھے، اگرچہ مدتوں سے مکہ ومدینہ کے باشندے تھے۔ قبیلۂ ہذیل کا لہجہ وقرأت اور تلفظ مختلف تھا اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہذلی حضرات اپنے تلفظ پر قابو نہیں پا سکتے تھے۔
۱۸۔ حضرت عثمانؓ اور بعض افاضلِ صحابہ کو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے اعتراضات ناپسند ہوئے اور بجا طور سے ناپسندیدہ ٹھہرے، کیوںکہ اوّل تو حضرت ابن مسعودؓ کوفہ میں تھے اور تدوین مصاحف کا کام مدینہ میں ہوا۔ مگراس سے بڑی وجہ یہ تھی کہ مصحف صدیقی کے کاتب بھی تو حضرت زید بن ثابت خزرجیؓ ہی رہے تھے، جو عہد صدیقی میں تو اور بھی نوجوان تھے۔ ان کی وجہِ انتخاب ان کا کاتبِ نبوی ہونا تھا۔
۱۹۔ مصاحف عثمانی کی تدوین کی مدت کے بارے میں ابھی تک ہماری معلومات ناقص ہے، لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ یہ کام دینی اور دنیاوی تمام معاملات امت کی بنیاد بلکہ منبعِ حیات تھا، لہٰذا وہ جلد از جلد مکمل کر لیا گیا تھا۔ فتحِ آرمینہ اور آذربیجان کا زمانہ خلافتِ عثمانی کے اوّلین دو برسوں کا ہے۔ لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ خلافت عثمانی کے تیسرے سال (۲۵ھ/ ۶۴۶ء) میں یا اس کے معاً بعد پورا ہو گیا تھا۔
۲۰۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ قائم و دائم ہے کہ خلیفۂ وقت امیر المومنین حضرت عثمانؓ بن عفان اور ان کے دوسرے اصحابِ شوریٰ اور اربابِ علم وتقویٰ نے ان مصاحف عثمانی کا غائر مطالعہ کیا ہوگا۔ ان کے اتفاق و تصدیق کے بغیر استناد کی مہر نہیں لگائی جاسکتی تھی۔ روایات میں واضح طور سے ذکر آتا ہے کہ صحابۂ کرام کے اجتماع سے یہ کام ہوا۔ لہٰذا اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی نظر سے تمام مصاحف گزرے۔
۲۱۔ مصاحف عثمانی کی تعداد میں روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض اہل علم نے اس کی طرف اشارہ کر کے تشنہ چھوڑ دیا ہے۔ جیسے مولانا سعید احمد اکبرآبادی۔ مصحف عثمانی کے نسخوں کی تعداد میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک چار، بعض کے ہاں پانچ تھے، لیکن ابوحاتم نے سات نسخوں کا ذکر کیا ہے۔ جو علی الترتیب مکہ بحرین، یمن، شام، کوفہ، بصرہ بھیجے گئے اور ایک نسخہ مدینہ میں روک لیا گیا۔(۱۶) لیکن ثقہ روایات سے واضح ہوتا ہے کہ مصاحف عثمانی کی تعداد سات تھی۔ چھ ولایاتِ کبیرہ (Divisions of The Khilafat) میں ایک ایک مصحف ارسال کیا گیا تھا اور ساتواں مصحف پایۂ تخت۔
حواشی
۱۔ مولانا سعید احمد اکبرآبادی، عثمان ذی النورین، ندوۃ المصنّفین دہلی ۱۹۸۳ء، ۳۰۶ ’’باب جمع قرآن‘‘۔
۲۔ شاہ معین الدین احمد ندوی، تاریخ اسلام، معارف پریس، اعظم گڑھ ۱۹۸۸ء، ۱/۲۹۵۔
۳۔ اردو ترجمہ از ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی بعنوان ’’تاریخ تدوین وجمع قرآن‘‘ سہ ماہ تحقیقات اسلامی علی گڑھ، جولائی تا ستمبر واکتوبر تا دسمبر ۲۰۰۳۔
۴۔ ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، دار السلام، ریاض ۱۹۹۷ء، ۹/۱۲۔
۵۔ فتح الباری، ۹/۱۵۔
۶۔ کتاب فضائل القرآن، ۳۔ باب جمع القرآن؛ فتح الباری ۹/ ۱۴-۱۵۔
۷۔ فتح الباری: ۹/ ۲۱۔
۸۔ ابن حجر: ۹/۲۵، سمعت ابن مسعود یقول: لقد أخذت من فی رسول اللہﷺ سبعین سورۃ ۔۔۔۔ وفي روایۃ: بضعاً وسبعین سورۃ۔
۹۔ ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، دار صادر، بیروت، ۱۹۵۷، ۳؍ ترجمہ صحابی؛ استیعاب، اسدالغابہ اور اصابہ میں ترجمۂ صحابی۔
۱۰۔ کتاب فضائل القرآن۶، باب تالیف القرآن: حدیث: ۴۹۹۳، فتح الباری ۹/۴۹، فاخرجت لہ المصحف، فاملت علیہ أی السور۔
۱۱۔ فتح الباری، ۹/ ۵۰-۵۱۔
۱۲۔ فتح الباری: ۹/ ۲۴، والفرق بین الصحف والمصحف ان الصحف الأوراق المجردۃ التی جمع فیہا القران علی ید ابی بکر وکانت سوراً مفرقۃ کل سورۃ مرتّبۃ باٰیاتہا علی حدۃ، لکن لم یرتب بعضہا إثر بعض فلما نسخت ورتّب بعضہا اثر بعض صارت مصحفا۔
۱۳۔ فتح الباری: ۹/۱۷۔۔۔ وکان القراٰن مکتوبا فی الصحف، لکن کانت مفرّقۃ فجمعہا ابوبکر فی مکان واحد۔
۱۴۔ وترتیب السور لیس بواجب فی التلاوۃ ولا فی الصلوۃ ولا فی الدرس ولا فی التعلیم فلذٰلک اختلفت المصاحف۔
۱۵۔ ملا علی قاریؒ نے اس موضوع پر بہت عمدہ بحث کی ہے۔ اسے ہم یہاں اپنے الفاظ میں پیش کرتے ہیں: فرماتے ہیں کہ قرآن مجید، جتنا جس مقدار میں اور جس طریقے سے موجود ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جو تواتر سے ثابت ہے۔ اس پر اہل علم وتحقیق کا اجماع ہے۔ اس میں جو شخص کمی بیشی کرے گا وہ کافر قرار پائے گا۔ اس پر بھی اتفاق ہے کہ قرآن مجید کی آیات کی ترتیب توقیفی یعنی من جانب اللہ ہے۔ اس کا (ایک) ثبوت یہ ہے کہ آپ پر جو آخری آیت نازل ہوئی وہ ہے: وَاتَّقُوا یَوْمًا تُرْجَعُونَ فِیہِ إِلی اللہ.. (البقرہ: ۲۸۱) آپﷺ سے جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ اسے سورۂ بقرہ میں سود سے متعلق آیات اور آیتِ مداینہ (قرض کے احکام سے متعلق آیت) کے درمیان رکھا جائے۔ چنانچہ یہ اسی جگہ ہے۔ اسی لیے کسی سورت کی آیات کی ترتیب الٹ دینا حرام ہے۔ جہاں تک سورتوں کی ترتیب کا سوال ہے اس میں اختلاف ہے۔ اس لیے (حرمت کی بات تو نہیں کی جاسکتی، البتہ یہ کہا جائے گا کہ) بغیر کسی عذر کے اس کی ترتیب بدل دینا مکروہ ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے نماز (تہجد) میں سورۂ آل عمران سے پہلے سورۂ نساء پڑھی تھی، ممکن ہے آپ نے بیانِ جواز کے لیے ایسا کیا ہو۔ یہ بھول کر بھی ہو سکتا ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ سورتوں کی ترتیب بھی توقیفی ہے، گو کہ صحابۂ کرام کے مصاحف اپنی ترتیب کے لحاظ سے مختلف تھے۔ صحابۂ کرام میں سے بعض نے قرآن کو ترتیب نزول کے لحاظ سے مرتب کیا تھا، جیسے پہلے اقرأ، پھر مدثر، اس کے بعد سورۂ نون، مزمل، تبت اور تکویر۔ اسی طرح جس ترتیب سے مکی اور مدنی سورتیں نازل ہوئیں۔ حضرت عثمانؓ کے جمع قرآن کی بنیاد اس ترتیب پر تھی جس ترتیب سے رسول اللہﷺ نے دوسری مرتبہ وفات سے پہلے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو قرآن سنایا تھا اور حضرت جبرئیل نے آپ کو سنایا تھا۔ اس بات کی دلیل کہ سورتوں کی ترتیب توقیفی ہے، یہ ہے کہ ’حوامیم‘ (وہ سورتیں جو حٰم سے شروع ہوتی ہیں) ایک ترتیب سے اور مسلسل ہیں۔ اسی طرح ’طواسین‘ (جو سورتیں طٰس سے شروع ہوتی ہیں) مسلسل ہیں لیکن مسبحات (جو سورتیں سبّح اور یُسبّح سے شروع ہوتی ہیں) ان میں تسلسل نہیں ہے۔ درمیان میں دوسری سورتیں ہیں۔ اسی طرح مکی اور مدنی سورتیں الگ الگ نہیں، بلکہ ملی جلی ہیں۔ یہ تمام امور اس بات کا ثبوت ہیں کہ سورتوں کی ترتیب بھی توقیفی ہے۔ (ملاعلی قاری، مرقاۃ المفاتیح، شرح مشکوٰۃ المصابیح: ۴/۷۳۴۔ دارالفکر بیروت۔ (جلال الدین عمری)
۱۶۔ عثمان ذوالنورین۔ ۳۱۰، حاشیہ ۱۔

 

اس کیو آر کوڈ کو اسکین کرکے ادارے کا تعاون فرمائیں یا پرچہ جاری کرانے کے لیے زرِ خریداری ٹرانسفر کریں۔ رقم بھیجنے کے بعد اسکرین شاٹ ضرور ارسال کریں تاکہ آپ کو رسید بھیجی جاسکے۔ شکریہ