اللہ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ چھٹی صدی عیسوی میں دنیا میں تشریف لائے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو انسانیت کی تعمیر اور زمین پر خلافتِ الہی کے اصول و ضوابط کی تکمیل کے لیے بھیجا تھا۔ آپ نے ۲۳؍سال کی مدت میں یہ عظیم مشن مکمل فرمایا اور اس دنیا سے تشریف لے گئے۔ آپ کے تشریف لے جانے کے بعد انسانوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہونا لازمی تھا کہ اب ہم کس کی رہنمائی میں اپنا سفر آگے بڑھائیں گے؟ اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلے کو دو دو چار کی طرح حل فرما دیا۔ جانے سے پہلے مستقبل کے نظامِ حیات کی اساس کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے ارشاد ہو ا: تركتُ فيكم أَمْرَيْنِ لن تَضِلُّوا ما تَمَسَّكْتُمْ بهما: كتابَ اللهِ وسُنَّةَ نبيِّهِ ﷺ۔
اس فرمانِ نبوی سے دنیوی فلاح اور اخروی نجات کا نسخہ مل گیا۔ امت کو ہزار اختلاف کے باوجود نکتۂ اتحاد ہاتھ آگیا۔ ساتھ ہی ایک اور حقیقت کا ادراک ہوا۔ قران و سنت کا دائمی ربط۔ کلام الہی اور کلام نبوی کے درمیان جسم اور روح کا رشتہ۔ طے ہوگیا کہ اللہ کے نازل کردہ اصول اور رسول کریم کی بیان کردہ تشریحات میں ہی انسانیت کی نجات ہے۔ نہ تو کتاب و سنت کی راہ ایک لمحے کے لیے ترک کیجاسکتی ہے اور نہ ان دونوں میں کسی بھی قسم کی دوری پیدا کرنے کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح انسانیت کتاب و سنت کو اختیار کیے بغیر نجات کا خواب نہیں دیکھ سکتی، اسی طرح امت مسلمہ ان دونوں کے فطری ربط و تعلق کو باقی رکھے بغیر فلاح کا تصور نہیں کر سکتی۔ جس طرح کتاب و سنت سے دوری اختیار کرکے انسانیت بربادی کے دلدل میں پھنسی جا رہی ہے، اسی طرح قرآن و حدیث کے ازلی ربط کو توڑنے کی کوشش کرنے والے امت کے طبقات گمراہی کے غار میں سر ٹکراتے رہے ہیں۔
کتاب و سنت کی اہمیت امت محمدیہ کو ہر زمانے میں تسلیم رہی ہے۔ مشاہیرِ امت نے عرش سے جاری ہونے والے ان دونوں چشموں کی خدمت انجام دی ہے۔ ساتھ ہی ہر دور میں کچھ ایسی ناپسندیدہ آوازیں بھی اٹھتی اور اٹھ کر مرتی رہی ہیں، جن سے قران کریم اور حدیث و سنت کے کسی خاص پہلو پر یا ان کے باہمی ربط پر ضرب پڑتی ہوئی محسوس ہوتی رہی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے کلام الہی اور اس کے گرد قائم نبوی حصار کی حفاظت کا ایسا نظم فرمایا ہے کہ اس طرح کی نامسعود کوششیں ہمیشہ ناکام ہوتی رہی ہیں۔ اِنھیں امت میں نہ رواج حاصل ہوا اور نہ مقبولیت۔ آخر کار یہ سب کوششیں دم توڑ گئیں۔ یہ کوششیں کبھی غلو پر مبنی رہیں اور کبھی تخفیف پر۔ کبھی افراط کا پہلو غالب رہا تو کبھی تفریط کا۔ علمائے امت نے قرآن و حدیث کو انفرادی طور پر اور مشترکہ طور پر اسی جگہ قائم رکھنے کا اہتمام و انتظام کیا، جس جگہ انھیں اللہ اور اس کے رسول نے رکھا تھا۔ ایک انچ آگے نہ پیچھے۔
کتاب و سنت الہی امانت ہیں۔ امتِ محمدیہ ان کی امین ہے۔ اس امانت کی حفاظت کے لیے ہمیشہ بے نظیر قربانیاں دی جاتی رہی ہیں۔ اس امانت کے کسی پہلو کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو کبھی برداشت نہیں کیا گیا۔ کیوں کہ امت محمدیہ کے لیے یہ نجات کا واحد نسخہ ہے۔ نسخہ نہ رہا تو امت نہ رہے گی۔ نسخہ کسی پہلو سے متاثر ہوا تو امت متاثر ہوگی۔ گویا کتاب و سنت کی حفاظت امت کے لیے وجود کے تحفظ کا مسئلہ ہے۔ الحمدللہ یہ جدوجہد آج بھی جاری ہے اور اسے ہمیشہ جاری رہنا بھی چاہیے۔ حفاظت کی جدوجہد کسی ایک پہلو سے نہیں، ہر پہلو سے۔ علمی پہلو سے بھی اور عملی پہلو سے بھی۔ ظاہری پہلو سے بھی اور معنوی پہلو سے بھی۔ انفرادی پہلو سے بھی اور مشترکہ پہلو سے بھی۔ غرض یہ کہ کتاب و سنت کے الفاظ اور معانی اور ان دونوں کے باہمی ازلی و فطری ربط کے تحفظ کی جدوجہد جس طرح ماضی میں جاری رہی ہے اسی طرح مستقبل میں بھی جاری رہنی چاہیے۔
موجودہ دور میں اردو زبان کے متعدد اسلامی علمی مجلات جاری ہیں۔ بعض مجلات قرآن و سنت کے متعلق بھی نکل رہے ہیں، یعنی اسلامیات کی وسیع تر کائنات کو چھوڑ کر صرف اس کی اساس یعنی قرآن و سنت کو اپنی تحقیقات کا موضوع بناتے ہیں۔ لیکن موجودہ اردو دنیا سے نکلنے والاکوئی ایسا علمی و تحقیقی مجلہ نظر نہیں آتا، جس میں قرآن و سنت کے ربط کو اپنی اساس قرار دیا گیا ہو۔ پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ قرآن و سنت کی مرکزیت ایسی ناگزیر چیز ہے، جس کا ہر قلبِ مومن میں جاگزیں ہونا ضروری ہے۔ اس لیے ان کے متعلق جتنی علمی کوششیں بھی ہو جائیں، ناکافی ہی رہیں گی۔ ہمیں اس ضرورت کا احساس تھا۔ ساتھ ہی اس خلا کا بھی، جو قرآن و سنت کے باہمی ربط کے متعلق پایا جا رہا تھا۔ سماجی ذرائعِ ابلاغ (Social media) کے دور میں اس طرح کے مجلّے کی ضرورت زیادہ محسوس ہو رہی تھی، جس میں کتاب و سنت کی انفرادی اہمیت اور عصری معنویت کو پیش کیا جائے۔ ان کے باہمی ربط کی حفاظت و تبلیغ انجام دی جائے اور کتاب و سنت کو مشترک طور پر انسانیت کے لیے واحد نسخۂ نجات کے طور پر پیش کیا جائے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے سہ ماہی کتاب و سنت کا اجرا عمل میں آرہا ہے۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سہ ماہی کتاب و سنت، دہلی قرآن و سنت کے متعلق قدیم علمی ذخیرے اور جدید مباحث کا بہترین سنگم ہے۔ اس میں قرآن اور صاحبِ قرآن جل جلالہ اور سنت اور صاحبِ سنت علیہ الصلاۃ والسلام کے متعلق قدیم و جدید مباحث کو ایک لڑی میں پرو کر پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی، تاکہ ہماری قدیم علمی وراثت بھی لائقِ استفادہ رہے اور عصری معنویت کی پَرتیں بھی کھلتی چلی جائیں۔
سہ ماہی کتاب و سنت کے اجرا کے ذریعے ارادہ سنانے سے کہیں زیادہ سننے کا ہے۔ اسٹیج بنانے کے بجائے اسٹیج فراہم کرنے کا ہے۔ اس لیے اہل علم سے قوی امید ہے اور گزارش بھی کہ وہ مذکورہ مقاصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی گراں قدر تحقیقات، قیمتی مشوروں اور دعاؤں سے نوازیں گے۔ ساتھ ہی اس مجلّے کو اپنا مجلّہ سمجھ کر اس کی اشاعت و ترقی میں بھرپور حصہ لیں گے۔
شاہ اجمل فاروق ندوی

