علومِ حدیث کا محور، احادیث کی اسانید اور متون ہیں۔ یہ علوم ان دو امور کے گرد گھومتے ہیں اور اسانید سے متعلق متنوع علوم میں سے ایک مستقل علم ’’معرفۃ الإسناد العالي والنازل‘‘ کے عنوان سے کتبِ مصطلح میں ذکر کیا جاتا ہے۔ اس کی مناسبت سے مشائخ کی اسانید کو یکجا کرنے کا معمول بھی محدثین کے ہاں چلا آرہا ہے اور اس موضوع پرمرتب کردہ کتب کی کثرت کی بنا پر بلا مبالغہ مستقل کتب خانہ تیار ہوچکا ہے، جو گلہائے رنگا رنگ سے مزین گلستان کی مانند طلبۂ علومِ حدیث کو ہر دم خوشہ چینی کی دعوت دیتا ہے۔
علم الأثبات کا مختصر تعارف
علامہ محمد عبدا لحی کتانی رحمہ اللہ (۱۳۸۲ھ) اپنی شہرہ آفاق کتاب’’فہرس الفہارس والأثبات ومعجم المعاجم والمشیخات‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’تتبع وتلاش کے بعد یہ واضح ہوا کہ قدما ایسے جز کو ’’الْمَـشِیْخَۃْ‘‘ کہا کرتے تھے، جس میں کوئی محدث اپنے اساتذہ ومشائخ کے نام اور ان کی مرویات درج کرتا۔ بعد ازاں اسے ’’الْمُـعْجَمْ‘‘ کہا جانے لگا، کیوں کہ ان اجزا میں مشائخ کے ناموں کو حروفِ معجم (حروفِ تہجی) کی ترتیب پر ذکر کیا جاتا تھا۔ یوں ’’الْمَـشِیْخَاتْ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’الْمَـعَاجِمْ‘‘ کا استعمال بھی بہ کثرت ہونے لگا۔ اہلِ اندلس ایسے جز کے لیے لفظِ ’’بَرْنَامِجْ‘‘ استعمال کرتے ہیں۔ آخری ادوار میں اہلِ مشرق ایسی کتاب کو ’’ثَبَتْ‘‘ کہتے ہیں، جبکہ اہلِ مغرب اب اسے ’’الْفِہْرِسَۃْ‘ ‘ کہا کرتے ہیں۔‘‘(۱)
الإجازات الہندیۃ وتراجم علمائہاکی تالیف کا پس منظر
پیشِ نگاہ کتاب اس ذخیرے میں ایک عمدہ اور مفید تر اضافہ ہے۔ سات جلدوں اور لگ بھگ ساڑھے چار ہزار صفحات پر مشتمل یہ کتاب بحرین کے نامور محقق عالم شیخ نظام بن محمد یعقوبی حفظہ اللہ کے اہتمام سے حال ہی میں دارالمحدث ریاض سے شائع ہوئی ہے۔ کتاب کے جواں سال مؤلف شیخ عمر بن محمد سراج حبیب اللہ حفظہ اللہ نے مقدمے میں اس کی تالیف کا پس منظر کچھ یوں ذکر کیا ہے:
’’کئی سالوں سے میرے ذہن میں یہ خیال پروان چڑھ رہا تھاکہ عالمِ اسلام کے مختلف حصوں سے متعلق اجازاتِ حدیث اور ان میں مذکور شخصیات کے احوال یکجا کیے جانے چاہییں۔ اس وقت بالکل یہ خیال نہ تھا کہ میں خود اس موضوع کے کسی حصے کو متعین کرکےاس پر محنت کروں ۔ بس یوں ہی سوچتا تھا کہ عالمِ اسلام کے ہر خطے میں تحقیقی مزاج کے حامل مسندین کی ایک جماعت کو اپنے خطے کی اسانید یکجا کرکے ان کی تحقیق اور ضبط کے پہلو بہ پہلو اُن میں سے عالی سندوں کو ممتاز کرنا چاہیے اور تمام اسانید میں درج اشخاص کے احوالِ زندگی قلم بند کرنے چاہییں۔ یوں بعض سندوں کے اتصال کے حوالے سے بہت سی اُلجھنیں حل ہوں گی، نیز شیوخِ روایت اور مشائخِ درایت کے درمیان اتصال کے تئیں پیدا ہونے والا خلط بھی واضح ہوگا۔ اسنادِ روایت اوراسنادِ تصوف کے درمیان امتیاز ہوگا اور تصوف کے سلسلے میں صحبت اور خلافت کے درمیان اختلاط بھی کھل کر سامنے آجائے گا۔ مزید براں اجازاتِ عامہ وخاصہ اور اجازاتِ معینہ(خاص شخصیات کو اجازت یامخصوص کتب کی اجازت) اوراجازاتِ اہلِ زمانہ (تمام اہلِ زمانہ کو اجازت) کے درمیان فرق بھی واضح ہوگا۔ چار برس سے زیادہ ہوئے کہ بہ نامِ خدا میں نے ہندوپاک کی اجازاتِ حدیث جمع کرنا شروع کیں، کیوں کہ کتبِ سبعہ (بہ ظاہر کتبِ ستہ اور موطا مالک مراد ہیں) وغیرہ کی سماعی سندوں (جن میں تلامذہ کو اپنے مشائخ سے قرأت وسماع حاصل ہو)کا مدار ان ہی ہندی سندوں پر ہے، بلکہ کہا جاسکتا ہےکہ دواوینِ سنت کی حفاظت کا سلسلہ اب ان ہی سندوں میں سمٹ آیا ہے۔‘‘(۲)
علمی دنیا میں ارضِ ہند کی تاریخی اہمیت
شیخ محمد رشید رضا رحمہ اللہ ’’مفتاح کنوز السنۃ‘‘ کے مقدمے میں رقم طراز ہیں:
’’ اس زمانے میں اگر علمائے ہند، علومِ حدیث کی جانب توجہ نہ فرماتے تو مشرقی ممالک میں ان علوم کا خاتمہ ہوچکا ہوتا، کیوں کہ مصر وشام اور عراق وحجاز میں دسویں صدی ہجری سے یہ سلسلہ کم زور پڑ گیا تھا، جو چودہویں صدی کی ابتدا میں انتہائی ضعیف ہوچلا تھا۔‘‘(۳)
ادیبِ اریب شیخ علی طنطاوی رحمہ اللہ نے حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی آپ بیتی، بلکہ جگ بیتی ’’في مسیرۃ الحیاۃ‘‘ کے مقدمے میں بہ جا طور پر لکھا ہے:
’’ ہم (علمائے عرب) میں سے بیشتر لوگ ہندستان کی تاریخ سے ناواقف ہیں۔ تاریخِ ہند عالمِ اسلام کی عمومی تاریخ میں چوتھائی حصہ رکھتی ہے، اس لیے کہ ہم (مسلمانوں) نے اس ہندی خطے میں لگ بھگ ایک ہزار سال تک حکومت کی ہے۔ کسی زمانے میں پورا ہندستان ہمارا تھا اور ہم ہی اس کے حکمران تھے۔ اگر اسپین میں ہم نے اندلس کو گنوایا ہے تو اس خطے میں اس سے بڑا اندلس ہمارے ہاتھ میں تھا۔ اگر ہم نے اندلس میں شہدا کے (خون سے رنگین )ٹیلےاورسورماؤں کے خون کی ندیاں چھوڑی ہیں تو ہندستان میں اندلس سے کئی گنا زیادہ یادگاریں چھوڑیں ہیں۔ اگر اندلس میں مسجدِ قرطبہ اور قصرِ حمرا تھا تو ہندستان کے چپے چپے میں ہمارا پاکیزہ خون گرا ہے۔ ایک اعلیٰ تہذیب جس کے اطراف وجوانب، علم وانصاف اور کارناموں اور شجاعتوں سے مزین ہیں۔ یہاں ہمارے مدارس ومعاہد تھے، جنھوں نے نہ جانے کتنی عقلوں کو روشن کیا! اور اب تک وہ دلوں کو کشادہ کر رہے اور دانش وبینش کو منوّر کر رہے ہیں! یہاں کے ہمارے آثار اپنے جلال وجمال میں قصرِ حمراسے فائق ہیں۔ صرف ایک ’’تاج محل‘‘ ہی کافی ہے، جو اس روئے زمین کی سب سے خوب صورت تعمیر ہے۔‘‘(۴)
علمائے ہند کے تراجم و احوال سے قلتِ اعتنا
خطۂ ہند کی اس قدر اہمیت کے باوجود عربی مآخذ میں یہاں کے اہلِ علم اور مختلف مسالک سے وابستہ رجالِ علم کے تذکرے بہت کم ملتے ہیں۔ اس بنا پر مؤلف جو عمر ی الاصل ہیں، ان کے اجداد ہندستان میں رہ چکے ہیں، پھر حجاز میں منتقل ہوئے ہیں۔ مؤلف عالمِ عرب میں پلے بڑھے، وہیں نشو ونما اور تعلیم وتربیت پائی ہے، لیکن ان کے مشائخ میں بہت سے ہندی علما بھی ہیں۔ اس لیے انھوںنے اپنے مشائخ سے وفا کا تقاضا نبھاتے ہوئے اس کام کا بیڑا اُٹھایا۔ ان کا مقصد استیعاب کا دعویٰ کیے بغیر اپنی وسعت کے مطابق علمائے ہند کی اجازاتِ حدیث کو ایک کتاب میں یکجا کرکے ان کی روشنی میں ان کی مقروءات ومسموعات (مشائخ کے سامنے پڑھی یا سنی گئی احادیث اور کتب ورسائل) کی تعیین کرنا ہے۔ یہ دوسرا نکتہ اس لیے بھی اہم ہے کہ عام طور پر کتبِ أثبات میں اسانید کی تو بہتات ہوتی ہے، لیکن بہت کم ہی متعین ہو پاتا ہے کہ صاحبِ ثبت نے کون کون سی کتب کِن مشائخ سے پڑھی یا سنی ہیں؟ محدثین واصولیین نے کتبِ مصطلح و اُصول میں علمِ حدیث کے حصول کے جو مختلف طریقے تحریر فرمائے ہیں، ان میں سے ایک نوع ’’اجازت‘‘ بھی ہے، لیکن اس کا درجہ ’’القراءۃ علی الشیخ‘‘ (استاذ کے سامنے شاگرد کا پڑھنا) اور ’’السماع من لفظ الشیخ‘‘ (شاگرد کا استاذ سے سننا) سے بعد کا ہے۔ قراءت وسماع کے متعدد فوائد ذکر کیے گئے ہیں، جن میں ایک اہم فائدہ احادیث کا درست ضبط بھی ہے۔
کتاب کا منہج
مؤلف کےبیان کی روشنی میں کتاب کا منہج درجِ ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے :
۱- مؤلف نے ایسی خطی اور طبع شدہ اجازاتِ حدیث کو یکجا کرنے کی تگ ودو کی ہے، جن کی کسی ایک جانب میں کوئی ہندی عالم ہوں اور حسبِ استطاعت ان کی عبارات کی تصحیح کا اہتمام کیا ہے۔ان میں سے بیشتر اجازات اب تک شائع نہیں ہوئیں۔ نیز ’’ہند‘‘ سے ان کی مراد تقسیم سے پہلے برصغیر میں داخل پورا خطہ ہے، جس میں موجودہ ہندستان، پاکستان، بنگلہ دیش، بھوٹان اور نیپال شامل ہیں۔
۲- بلادِ سندھ کی اجازات اس مجموعے سے مستثنا ہیں۔ اس لیے کہ سندھ اور ہند کے درمیان تاریخی اعتبار سے فرق کیا جاتا ہے۔ مؤلف کے بہ قول بلادِ سندھ کی اجازات کے متعلق معروف محقق عالم م%

