قرآن مجید پر ہمالٹن گب کے اعتراضات کا تنقیدی جائزہ

سید فاروق عزیز* ڈاکٹر بلال احمد

 

ہمالٹن گب (۱۸۹۵-۱۹۷۱)اپنے زمانے کا ایک جانا پہچانا مستشرق ہے۔ دوسرے مستشرقین کی طرح اس نے بھی اسلامی تعلیمات کی طرف خصوصی توجہ دی اور اپنے علمی کام میں اسلام کے بارے میں مختلف قسم کے اعتراضات کا اظہار کیا۔ اسلام پر تنقید کے ساتھ ساتھ اس نے قرآن مجید کے اوپر بھی مختلف اور من گھڑت اعتراضات اٹھائے۔ قرآن کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ قرآن عام خطبات اور اقوال پر مشتمل ہیں جب کہ محمد ﷺ اور آپ کے اصحاب نے اسے وحی من اللہ کا درجہ دے دیا۔
وہ قرآن کے وحی کا منکر ہے اور اسے انسانی تخلیق قرار دیتا ہے اور ساتھ ہی وہ قرآن کی مقدس تعلیمات کو ایک تھکا دینے والا، الجھا ہوا اور ناقص قرار دیتا ہے۔ گب نے وحی کے بارے میں کچھ یوں لکھا ہے کہ محمدﷺ نے وحی کو بطور آلہ استعمال کیا، تاکہ دوسروں پر اپنی مرضی کے مطابق فیصلے مسلط کرے۔ وہ قرآنی عقائد کے بارے میں الزام تراشی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ یہود اور عیسائیوں کی تعلیمات سے اخذ کیے گئے ہیں اور ساتھ ہی قرآن میں مذکور انبیاء کو بھی یہود و نصاری کی مذھبی کتب سے ماخوذ گردانتا ہے۔ قرآن میں نظریہ حیات بعد الموت کا جو تذکرہ ہے، گب اسے سریانی عیسائی پادریوں اور راہبوں کی تحریروں میں مذکور نظریہ حیات بعد الموت کے متوازی قرار دیتا ہے، یعنی گب کے نزدیک مسلمانوں نے یہ نظریہ عیسائی تعلیمات سے اخذ کیا ہے۔ قرآن میں مذکور خوف خدا کے بارے میں لکھتا ہے کہ محمد نے اسے بطور ایک ہتھیار استعمال کیا، کیوں کہ اس خوف خدا کے رو سے محمد نے اپنے اصحاب کو جوڑے رکھا اور ایک بڑا گروہ تشکیل دے دیا جو اپنے آپ کو مسلمان کہنے لگا۔ وہ قرآن میں آپﷺ کی تعلیم کے اس دعوے کو بھی مسترد کرتا ہے کہ محمد سے پہلے بھیجے گئے تمام انبیاء ورسل نے اس توحید کی تعلیم دی ہے جو مسلمانوں کے ہاں مشہور ہے۔ وہ اپنے بغض اسلام اور قرآن میں مذکور قصص الانبیاء کے بارے میں اس حد تک بڑھ گیا کہ یہ جو قرآن میں مختلف اقوام کے ہلاکتوں کا ذکر ہے، مثلاً، قوم نوح، قوم لوط اور مصری وغیرہ، ان اقوام کے ذکر سے محمد ﷺ صرف ایک ہی مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے اور وہ یہ کہ وہ اپنے علم کی مافوق الفطرت اور اصل وحی من اللہ قرار پائے اور لوگ اسے تسلیم کر لیں۔(1)
مختصر یہ کہ گب نے نزول القرآن، قرآن میں مذکور انبیاء، قرآن میں یوم آخرت کا تذکرہ، قرآن میں خوف خدا کا تذکرہ، قرآن میں الرحمن کا تذکرہ و غیرہ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ مسلمان گب کو جانیں کہ وہ کون ہے؟ اور اس نے کیوں قرآن کو تنقید کا نشانہ بنایا؟
زیر نظر مقالہ گب اور قرآن کے بارے میں اعتراضات کا عقلی اور نقلی جائزہ لے گا اور قاری پر واضح کرے گا کہ گب کے اعتراضات کی حقیقت کیا ہے۔
سابقہ تالیفات کا جائزہ
Critical Study on the Fallacies of H.A.R. Gibb’s View on Modernity of Islamic Thought )2021( .Imam Toriqor Rahmansyah.
گِب کا مطالعہ عربی ادب، تاریخ اسلام اور اسلامی تہذیب پر مرکوز تھا اور اس کی نظر میں اسلام کا اصل عنوان محمدﷺ کی زندگی اور تعلیمات تھے۔ جدید اسلامی فکر کے بارے میں گب کا سروے دو نکات پر مشتمل تھا: ایک یہ تھا کہ اسلام کے بنیادی اصولوں سے آغاز کیا جائے اور عصری حالات کی روشنی میں ان کو دوبارہ بیان کیا جائے۔ دوسرا یہ تھا کہ ایک منتخب مغربی فلسفے سے آغاز کیا جائے اور مسلم نظریے کو اس کے ساتھ مربوط کرنے کی کوشش کی جائے۔ مصنف نے اسلام کے بارے میں گب کی تحقیق پر تنقید کی اور اس کا آغازجدیدیت اور تجدیدمیں فرق کرتے ہوئے کیا، کیوں کہ جدیدیت، اس کا دعویٰ ہے کہ ایک مغربی اصطلاح ہے جس سے مراد کسی خیال، نظریے یا رجحان کی جدیدیت کے ساتھ ساتھ اس میں ترمیم کرنا ہے۔ سائنسی ترقی اور جدید مغربی ثقافت سے پیدا ہونے والے نئے حالات کے مطابق ڈھالنے کے لیے پرانی روایات، ادارے وغیرہ۔ جب کہ تجدید سے مراد اسلام کے اصل ماخذ، قرآن اور سنت دونوں کی طرف واپسی ہے، نیز ایک ایسا نظام فکر جو سائنس کی مدد سے ثقافتی اور فلسفیانہ عناصر کے بجائے وحی سے حقیقت اور سچائی کے اپنے وژن کو پیش کرتا ہے۔ پس جدیدیت اسلامی تعلیمات میں نہیں پائی جاتی، جب کہ تجدید ہے، کیوں کہ یہ صراط مستقیم کی طرف لوٹنا ہے۔
رؤية المستشرق هاملتون جب لمعوقات الوحدة الإسلامية من خلال كتاب وجهة الإسلام، دراسة تحليلية، دكتور رمضان حميدة محمد أبو علي ، ۲۰۲۱م۔
گب نے اسلام کو ایک طاقت ور مذہب کے طور پر بیان کیا جو مفتوحہ ممالک پر اپنی ثقافت اور نظام مسلط کرتا ہے اور ان کے رسم و رواج کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مصنف نے اسلامی تعلیمات کے شواہد کے ساتھ گب کے دعوے کی تردید کی اور یہ دعویٰ کیا کہ اسلام نے مسلمانوں کو بغیر کسی وجہ کے غیر مسلموں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرنے سے منع کیا ہے۔ مسلمان دوسروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہر گز نہیں کرتے۔ گب نے خلیفہ کے اخلاق پر سوال اٹھائے اور ان پر لالچ اور بربریت کا الزام لگا کر اسلامی سیاسی ڈھانچے کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان خلفانہ بد عنوان تھے، نہ لالچی اور نہ ظالم۔ گب کے مطابق اسلامی سیاسی نظام نے اتحاد کے احساس کو ناکام بنادیا ہے لیکن مصنف نے اس کی بنیاد غلط معلومات اور غلط فہمیوں پر رکھی ہے کیوں کہ اسلام میں سیاسی مظاہر لوگوں کو متحد کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
ہمالٹن گب کا مختصر تعارف
اس اسکالر کا پورا نام ہمالٹن الیگزینڈر روسکین گب (Hamilton Alexander Rosskeen Gibb) ہے۔ وہ ۲ ؍جنوری ۱۸۹۵م کو اسکندریہ مصر میں پیداہوااور ۷۶ ؍سال کی عمر میں ۲۲ ؍اکتوبر ۱۹۷۱ م کوانگلینڈ میں وفات پائی۔(2)
اس کی تعلیم اسکاٹ لینڈ میں ایڈنبرا رائل ہائی اسکول (Edinburgh Royal High School) اور ایڈنبرا یونیورسٹی (Edinburgh University) میں ہوئی۔ جس میں اس نے سامی زبانیں (عبرانی، عربی اور آرامی) پڑھتے ہوئے ۱۹۱۲م میں داخلہ لیا۔ اور ۱۹۱۴-۱۹۱۸م کو پہلی جنگ عظیم میں رائل فیلڈ آرٹلری میں خدمات انجام دیں۔ ۱۹۲۲م کو اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز، لندن یونیورسٹی سے ایم اے عربی کی ڈگری حاصل کی۔ (3) ۱۹۲۶ م میں اس نے مشرق وسطیٰ کا اپنا پہلا طویل دورہ کیا اور عصری عربی ادب کا مطالعہ شروع کیا۔ ۱۹۲۹ میں لندن یونیورسٹی میں عربی تاریخ اور ادب کا استاد مقرر کیا گیا اور بعد میں اسکول کے چیئر پر فائز ہوا، جب کہ ۱۹۳۷ م تک یہ عہدہ اس کے پاس رہا۔ اس نے ۱۹۳۷ م سے ۱۹۵۵ م تک آکسفورڈ یونیورسٹی (Oxford University) میں بطور عربک پروفیسر خدمات انجام دیں۔(4) ۱۹۵۵م کو ہمالٹن ہارورڈ یونیورسٹی (Harvard University) میں پروفیسر مقرر ہوا اور ۱۹۵۷ء میں وہ سینٹر فار مڈل ایسٹرن اسٹڈیز (Center for Middle Eastern Studies) کے ڈائریکٹر بنا۔ ۱۹۶۴ء میں وہ ہارورڈ کی تدریسی فیکلٹی سے بطور پروفیسر ریٹائر ہوا۔(5)
گب نے اسلام کے متعلق بہت سا تحقیقی کام کیا ہے۔ مگر اس نے صحیح احادیث اور سیرت النبی کی طرف توجہ نہیں دی بلکہ دیگر مستشرقین کی من گھڑت روایات اور غیر مستند تواریخ کو اپنے توجہ کا مرکز بنایا۔ علامہ شبلی نعمانی کے نزدیک آں حضرت ﷺ کی صحیح اور مستند سوانح عمری صرف احادیث صحیحہ کی کتب میں ملتی ہے، جس سے مستشرقین بالکل بے خبر ہیں۔
The Arab conquests in central Asia گب کی مشہور کتاب ہے۔ یہ کتاب آکسس(Oxus) کی تاریخ سے شروع ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں اسلامی فتوحات کا تذکرہ ہے۔ قتیبہ کی فتح، ترک کاؤنٹر اسٹروک اور ٹرانسکسانیا کی دوبارہ فتح کی تاریخ ملتی ہے۔
اس کتاب میں گب نے اسلامی فکر کی بنیاد، اسلام میں مذہبی کشیدگی، جدیدیت کا اصول، جدید مذہب، قانون اور معاشرہ اور دنیا میں اسلام کی صورت حال پر بحث کی ہے۔ اس کتاب میں سلطنت عثمانیہ اور اس کا قانون، خلافت اور سلطنت، عرب صوبوں میں حکومت اور انتظامیہ، کسان: زمین کی مدت اور زراعت، شہر کی صنعت اور تجارت وغیرہ کا ذکر ملتا ہے۔
قرآن مجید کے بارے میں گب کے اعتراضات کا تنقیدی جائزہ
گب نے جب اسلام کے بارے میں اپنا قلم اٹھایا تو اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اسلام کے بنیادی اساس یعنی قرآن پر بھی مختلف اعتراضات کیے۔(6) اولاً تو گب نے قرآن کی تاریخیت (Historicity) کا انکار کیا۔ یعنی گب نے قرآن کو منزل من اللہ نہیں مانا اور اسے محمد ﷺکی تصنیف قرار دیا، جیسا کہ وہ اپنے کتاب میں کہتا ہے:
قرآن ان رسمی کلمات اور تقریروں کا رکارڈ ہے ،جنھیں محمد اور ان کے پیروکاروں نے براہ راست وحی کے طور پر قبول کیا۔ لہٰذا مسلم آرتھوڈوکس کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ حضرت جبرئیل کے ذریعے اللہ نے نازل فرمایا۔(7)
اپنی دوسری کتاب میں وہ قرآن کے بارے میں کچھ یوں لکھتا ہے:
یہ محمد کی طرف سے اپنی زندگی کے آخری سال یا اس سے زیادہ عرصے کے دوران پیش کیے گئے خطابات کا ایک مجموعہ ہے، جس میں بنیادی طور پر مذہبی یا اخلاقی تعلیمات کے مختصر اقتباسات، مخالفین کے خلاف دلائل، موجودہ واقعات پر تبصرے اور سماجی اور قانونی معاملات پر کچھ احکام شامل ہیں۔(8)
گب کے ان آراسے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قرآن کو صرف رسمی کلمات اور تقاریر کا مجموعہ مانتا ہے۔ یعنی وہ قرآن کو اللہ جل جلالہ کی کتاب نہیں مانتااور اسے انسانی تصنیف قرار دیتا ہے۔ حالاں کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن حضرت جبرئیل کے واسطے اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمدﷺ پر انسانوں کی رہنمائی کے لیے نازل کیا۔ مسلمانوں کے اس عقیدے کے بارے میں عقلی اور نقلی دلائل موجود ہیں۔
گب نے یہ بھی لکھا ہے کہ آپﷺ نے قرآن کو مکہ، مدینہ، نجران اور یمن کے یہود و نصاریٰ کے اسکالرز سے علم حاصل کرکے خود تصنیف کیا۔ گب کا یہ اعتراض کم علمی اور تعصب پر مبنی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ حضرت محمدﷺغیر عالم تھے، پڑھنا اور لکھنا نہیں جانتے تھے۔ جو کہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ وہ کسی کے بھی تلمیذ نہیں رہے۔ اگر غور کیا جائے تو ایک انسانی تصنیف میں کوئی نہ کوئی خامی ضرور رہ جاتی ہے جو کہ ایک قاری اس کا نشان دہی کرتا ہے اور بعض اوقات اسے چیلنج بھی کرتا ہے یا اس کے رد میں جوابی تصنیف لکھتا ہے۔ جب کہ قرآن آج سے ۱۴۰۰ برس پہلے نازل ہوا اور اپنے قارئین کو کھلا چیلنج دیا ہے کہ اگر طاقت ہو تو قرآن جیسا ایک کلام یا اس سے بہتر لاکر دکھاؤ۔ قرآن کا یہ چیلنج اور اعجاز آج بھی ہے۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں:’’ أَمْ يَقُولُونَ تَقَوَّلَهُ ۚ بَل لَّا يُؤْمِنُونَ . فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِّثْلِهِ إِن كَانُوا صَادِقِينَ ‘‘یا وہ کہتے ہیں کہ اس (رسول) نے اس (قرآن) کو از خود گھڑ لیا ہے، (ایسا نہیں) بلکہ وہ (حق کو) مانتے ہی نہیں ہیں۔ پس انھیں چاہیے کہ اس (قرآن) جیسا کوئی کلام لے آئیں اگر وہ سچے ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ قرآن آپﷺکی تصنیف نہیں ہے بلکہ اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے آخری الہامی کتاب ہے جو کہ اللہ نے حضرت جبرئیل کے وساطت سے آپ پر نازل فرمائی اور اسی طرح محمدﷺخاتم النبین ہیں، اس لیے آپ کے بعد نہ کوئی نبی آیا ہے اور نہ آئے گا۔ جیسا کہ قرآن میں اللہ فرماتے ہیں: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا.( 10 )یعنی محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والاہے۔ صاف ظاہر ہے کہ قرآن کوئی انسانی تصنیف ہرگز نہیں، قرآن اس بات کا گواہ ہے کہ انکار کرنے والے طرح طرح کے بہانے ڈھونڈتے ہیں، جیسا کہ فرمایا گیا: وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا إِفْكٌ افْتَرَاهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ آخَرُونَ فَقَدْ جَاءُوا ظُلْمًا وَزُورًا. وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَىٰ عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا قُلْ أَنزَلَهُ الَّذِي يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ إِنَّهُ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا.اور کافروں نے کہا یہ تو بس خود اس کا گھڑا گھڑایا جھوٹ ہے جس پر اور لوگوں نے بھی اس کی مدد کی ہے، دراصل یہ کافر بڑے ہی ظالم اور سر تاسر جھوٹ کے مرتکب ہوئے ہیں اور یہ بھی کہا کہ یہ تو اگلوں کے افسانے ہیں جو اس نے لکھ رکھے ہیں، بس وہی صبح و شام اس کے سامنے پڑھے جاتے ہیں، کہہ دیجیے کہ اسے تو اس اللہ نے اتارا ہے جو آسمان وزمین کی تمام پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے۔ بے شک وہ بڑا ہی بخشنے والامہربان ہے۔
بعض ایسے غیر مسلم سکالرز بھی ہیں جو قرآن کو الہامی کتاب مانتے ہے۔ چند مثالیں ذیل میں دی جاتی ہیں.
کیرن آرمسٹرانگ(karen armstrong)
اس کی سوچ گب کے بر عکس ہے، کیوں کہ گب محمدﷺکے نبوت کا انکار کرتا ہے اور ساتھ میں یہ بھی اعتراض کرتا ہے کہ قرآن کو آپ ﷺ نے خود تصنیف کیا ہے لیکن کیرن آپﷺ کے نبوت کو تسلیم کرتی ہے اور قرآن کو بھی الہامی کتاب مانتی ہے، جیسا کہ اس نے اپنے کتاب میں واضح کیا ہے:
۶۱۰ عیسوی کو محمد ﷺپر قرآن نازل ہوا۔(12)
کیرن آرمسٹرانگ کے اس رائے سے معلوم ہوتا ہے، کہ وہ قرآن کے بارے میں وہی سوچ رکھتی ہے جو مسلمانوں کا ہے۔ یہ اقرار بھی کرتی ہے کہ آپﷺ ناخواندہ تھے اور یہ تسلیم کرتی ہے کہ قرآن محمد ﷺ پر وقتا فو قتا ۲۳ ؍سال کے طویل عرصے میں مکمل نازل ہوا۔
جان لوکس اسپازیٹو(John Louis Esposito)
علوم اسلامیہ میں مہارت رکھنے والے یہ مغربی مفکرنزول القرآن کو مانتے ہے ، اور آپ ﷺکو دوسرے ملت ابراہیمی میں بھی شمار کرتے ہے۔ وہ اپنے کتاب میں کچھ یوں لکھتا ہے:
ایک نئی مذہبی تحریک کا عروج اور عالمی تاریخ میں ایک نئے مرحلے کا آغاز نا قابل تصور لگتا تھا۔ لیکن یہ قرآن کے نزول کے ساتھ اور پیغمبر محمدﷺ کی قیادت میں ہوا۔ اسلامی مذہب اور مسلم کمیونٹی کی سرگرمیوں نے ایک نئی سلطنت اور ایک بھر پور تہذیب کو جنم دیا۔(13)
اسپازیٹو کے اس تحریر سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ محمدﷺکو اللہ کا نبی مانتا ہے اور ساتھ ساتھ قرآن کی حقانیت کو بھی۔ کیرن اور اسپازیٹو کی آرا گب کے رائے کے برعکس ہے، کیوں کہ ان دونوں کے نزدیک قرآن اللہ کی طرف سے ﷺ پر وحی کی صورت میں نازل ہوا، جس سے گب انکاری ہے۔
قرآن میں ذکر الانبیاء
قرآن میں اللہ تعالی نے انبیاء کا ذکر کیا ہے۔ گب اس کے اوپر تنقید کرتے ہوئے لکھتاہے کہ ان انبیاء کو آپﷺ نے اصل کتاب سے اخذ کر کے اپنے تصنیف کردہ قرآن میں ذکر کیا۔ جیسا کہ وہ لکھتا ہے :
گب کی علمی تناظر میں قرآن مجید میں مجموعی طور پر اٹھائیس انبیاء کا ذکر ہے۔ ان میں سے چار (اگر لقمان کو شامل کیا جائے ) عربی ہیں، اٹھارہ عہد نامہ قدیم کی شخصیات ہیں، تین (زکریا، یوحنا بپیٹسٹ ، اور عیسی ) نئے عہد نامہ کے ہیں۔(14)
گب کی نظر میں قرآن میں ۲۸ ؍انبیاء کا ذکر ہے، حالاں کہ وہ آپﷺکے علاوہ ۲۵ ہیں۔ یہاں سے یہ پتا چلتا ہے کہ گب قرآن کے بارے میں نہیں جانتے تھے اور من گھڑت روایات کا سہارا لیتے تھے۔ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ان ذکر کردہ انبیا کو آپﷺنے دوسرے مذاہب سے اخذ کیا۔ اگر گب کے اس انداز بیان پر غور کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ وہ بہت باریک بینی سے قرآن پر تنقید کی کوشش کرتا ہے۔ قرآن میں مذکور انبیا کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے کہ ان کو محمدﷺ نے اپنی علمی فوقیت ثابت کرنے کے لیے قرآن میں استعمال کیا ہے، جیسا کہ وہ لکھتا ہے:
نئی پیشن گوئی کی داستان نہیں، جوزف اور یوحنا بپتسمہ دینے والے کی کہانیاں، یسوع کی کہانی، داود، سلیمان، ذوالقرنین اور کہف والوں کی کہانیاں وغیرہ، اس (آپﷺ) کے علم کی مافوق الفطرت اصلیت کو ظاہر کرنے کے لیے شامل کیا گیا۔
حالاں کہ یہ بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیا کو قرآن میں ایک خاص مقصد کے لیے ذکر فرمایا ہے۔ اولاً یہ کہ مسلمانوں کو پتا چل جائے کہ تمام انبیا کو اللہ نے انسانوں کی رہ نمائی کے لیے مبعوث فرمایا، جو سلسلہ آدم علیہ السلام سے شروع ہو کر محمدﷺ کی نبوت پر ختم ہوا۔ آپ کے بعد نبوت کا سلسلہ اللہ نے اس لیے بند فرمایا کیوں کہ دین اسلام ایک حرکی مذہب (Dynamic religion) ہے۔ (17) ثانیاً یہ کہ یہ اولو العزم تھے اور ان کے واقعات سے آپﷺ کو تسلی ملے. (18)
” لأنهم قاوموا وصبروا على أذى أقوامهم في سبيل دعوتهم، وثبتوا على الاستمرار بتبليغها إلى الناس، وكان صبرهم وثباتهم مميزا ونبينا محمد أيضاً من أولي العزم، والمراد بذكر هؤلاء الأنبياء تسلية لرسولنا محمد.”(19)
کیوں کہ ان انبیا نے دعوت الی اللہ میں بہت سی تکالیف برداشت کیں اور اپنے منصب، ذمے داری اور محنت میں ثابت قدم رہے۔ اس لیے ان کے ذکر سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینا مقصود ہے۔ ثالثاً یہ کہ مسلمان ان واقعات سے عبرت حاصل کریں، یعنی کہ جن اقوام نے اپنے نبی کی تکذیب اور پیروی کرنے سے انکار کردیا اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کیا۔
قرآن میں مذکور یوم آخرت کے بارے میں مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ یہ حق اور سچ ہے۔ اس دن اللہ تعالی سب انسانوں کو اکٹھا کرے گا اور ان کے اعمال کے مطابق انھیں جزا اور سزا دے گا۔ لیکن گب کی نظر میں یہ عقیدہ محمدﷺنے عیسائیوں سے لے کر قرآن میں شامل کیا ہے، جیسا کہ وہ رقم طراز ہے:
The details about the process of the Judgement and even the pictorial presentation of the joys of Paradise and torments of Hell, as well as several of the special technical terms employed in the Koran, are closely paralleled in the writings of the Syrian Christian fathers and monks.(20)
قرآن میں یوم آخرت کے بارے میں تفصیلات، جنت کی خوشیاں، جہنم کا عذاب اور استعمال کی گئی خصوصی تکنیکی اصطلاحات، سریانی عیسائی پادریوں اور راہبوں کی تحریروں سے بہت متوازی ہیں۔
گب اعتراض کر رہا ہے کہ وہ عقیدہ، جس نے محمد ﷺ کو سب سے زیادہ اپنی طرف راغب کیا، وہ آخرت کا عقیدہ تھا، جو کہ آپ نے عیسائی روایات سے اخذ کر کے قرآن میں شامل کیا ہے۔
گب یہ اعتراض اس لیے کر تا ہے کہ وہ آپ ﷺ کی نبوت کا منکر ہے۔ لیکن محمدﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں اور تمام انسانوں کی رہ نمائی کے لیے مبعوث ہوئے۔ دیگر انبیا کی طرح آپ نے بھی لوگوں کو حقیقی توحید کا درس دیا۔ اللہ کا وہ پیغام دوسروں تک پہنچایا جو انسانوں کے لیے دونوں جہانوں میں کام یابی کا واحد ذریعہ ہے۔
سب انبیا نے اپنی قوموں کو توحید کا درس دیا تھا اور آخرت کے بارے میں آگاہ کیا۔ اس لیے قرآن میں آخرت کو اہمیت دی گئی اور اس کو اسلام میں ایک اہم مقام حاصل ہوا کیوں کہ آخرت کی زندگی لافانی اور حقیقی ہے اور دنیوی زندگی اس کے برعکس۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے : آخرت کے مقابلے میں دنیا ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈالے تو دیکھے کہ کیا لو ٹتا ہے۔(21) اصلاً زندگی تو ایک ہی ہے جو موت کے دروازے سے گزر کر شروع ہوتی ہے، پائے دار، باقی رہنے والی، دائمی اور ہمیشہ کی زندگی قرار پاتی ہے۔
ایمان کے بعد فکر آخرت ہی انسانی زندگی کو سنوار نے، اس کو حقیقی کردار کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے ضروری ہے، کیوں کہ یہ انسانی جمود کو توڑنے کا نہایت موثر ذریعہ ہے، کیوں کہ جب انسان بے عمل بنے اور اپنے مقصد حیات کو بھول جائے، تو یہ فکر انسان کے جمود کو توڑنے اور پریشانیوں سے کاٹ کر آخرت کے شعور کی طرف لانے کے لیے نہایت موثر ذریعہ ہے۔ لہذا یہ امر ضروری ہے کہ انسان اپنی اخروی زندگی کے لیے اس دنیوی زندگی میں اچھی طرح تیاری کرلے، جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَ اتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ . (22)
اے ایمان والو! تم اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھتے رہنا چاہیے کہ اس نے کل (قیامت) کے لیے آگے کیا بھیجا ہے اور تم اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ ان کاموں سے باخبر ہے، جو تم کرتے ہو۔
یہ دنیوی زندگی ایک امتحان گاہ کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کا نتیجہ ہم آخرت میں ہی پائیں گے کہ ہم کس پوزیشن پر ہیں، جیسا کہ فرمایا گیا ہے: مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا، وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ.
جس نے نیک عمل کیا تو اس نے اپنی ہی ذات کے ( نفع کے) لیے (کیا) اور جس نے گناہ کیا سو (اس کا وبال بھی) اس کی جان پر ہے اور آپ کا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔
قرآن میں مذکور خوف خدا کے بارے میں گب باریک بینی سے اعتراض کر تا ہے۔ وہ محمدﷺکے خوف خدا کو منفی سوچ سے دیکھتاہے۔ لکھتاہے کہ قرآن میں جو خوف خدا کا ذکر ہے، وہ آپ پر تمام عمر کے لیے حاوی رہااور آپ نے اس کو بطور ہتھیار اپنے نئے مذہب کے تبلیغ کے لیے استعمال کیا۔ اس بارے میں وہ لکھتا ہے۔
The fear of God’s ‘wrath to come’ dominated his thought throughout his later life. It was for him not only, nor even chiefly, a weapon with which to threaten his opponents, but the incentive to piety and good works of every kind.(24)
خدا کے غضب کا خوف آپ ﷺ کی سوچ پر زندگی بھر حاوی رہا، یہ ان کے لیے نہ صرف ایک ایسا ہتھیار تھا جس سے اپنے مخالفین کو ڈرانا تھا بلکہ تقویٰ اور ہر طرح کے نیک کاموں کی ترغیب تھی۔
اس خوف خدا پر تنقید کرنے کے بجائے گب کو یہ سوچنا چاہیے تھا کہ یہ جو قرآن میں عیسائیوں کے نظریے کے خلاف خوف خدا پر اتنا زور دیا گیا ہے، اس کی حقیقت کیا ہے؟ اور ایک انسانی ذہن پر کیا اثرات مرتب کرتے ہیں؟
حقیقت تو یہ ہے کہ یہ اللہ تعالی اور محمد ﷺ کی انسانوں کے ساتھ محبت تھی اور وہ نہیں چاہتے کہ بنی نوع انسان اپنے اخروی زندگی میں ناکام ہو۔ قرآن میں خوف خدا کو ذکر کیا گیا، کیوں کہ اس زمانے کے لوگوں نے اللہ کو بھلا دیا تھا۔ اگر تجرباتی طور پر مشاہدہ کیا جائے کہ ایک نوکر پر اپنے مالک کا خوف نہ ہو تو پھر وہ سستی سے کام لیتا ہے اور اپنی ذمے داری کو صحیح طور پر ادا نہیں کرتا، جس طرح مالک توقع رکھتا ہے۔ اس لیے خوف خدا کا ایک انسانی زندگی کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔ اگر انسان کے دل و دماغ میں خوف خدا موجود ہو تو پھر اسے ہر وقت اپنی ذمے داری کا احساس ہوتا ہے، خواہ دنیوی معاملات ہوں یا دینی۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (25)
اے ایمان والو! اگر تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو گے (تو) وہ تمہارے لیے حق و باطل میں فرق کرنے والی حجت (و ہدایت) مقرر فرما دے گا اور تمھارے (دامن) سے تمھارے گناہوں کو مٹا دے گا اور تمھاری مغفرت فرمادے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
ہر وقت خوف خدا کا خیال رکھنے والا اس سوچ اور کوشش میں رہتا ہے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے، کہیں مجھ سے ناراض نہ ہو جائے۔ اس طرح اس دنیا میں امن قائم ہونے کا راستہ ہموار ہوتا ہے، کیوں کہ اس خوف خدا سے انسان کو اپنی ذمے داری اور حقوق کا بخوبی احساس ہوتا ہے۔ حقیقی مسلمان اللہ کے سوا کسی سے بھی نہیں ڈرتا، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ سب کچھ اللہ کے کنٹرول میں ہے۔ اس خاص وصف کو تمام انبیا نے اپنایا تھا۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللَّهِ وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا الله وَكَفَى بِاللَّهِ حَسِيبًا.
(پہلے) لوگ (پیغمبر) اللہ کے پیغامات پہنچاتے تھے اور اس کا خوف رکھتے تھے اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے اور اللہ حساب لینے والاکافی ہے۔
خوف خدا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس سے ایک انسان کے دل میں خدا کا پیار اور ایمان بڑھتا ہے۔ اس خوف کی وجہ سے ایک انسان اللہ کے ناپسندیدہ اعمال سے دور رہتا ہے اور اچھے کاموں کی طرف تڑپ پیدا ہوتی ہے۔ اس کی منفی سوچ دفن ہوتی ہے اور وہ اپنے کردار و گفتار میں ایک آئیڈیل انسان بن جاتا ہے۔27))
گب اپنے علم کے مطابق یہ اعتراض کرتا ہے کہ محمدﷺ نے خدا کے لیے الرحمن کا لفظ استعمال کیا، جو قبل از اسلام عرب کی علمی کتابوں میں پایا جاتا ہے۔ وہ رقم طراز ہے:
ایک وقت میں، واقعی محمد نے خدا کے لیے ایک ایسا نام اختیار کیا جو قبل از اسلام کے نوشتہ جات سے ظاہر ہوتا ہے کہ الرحمن عرب میں موجود تھا، رحم کرنے والا اور یہ اصطلاح قرآن کی ہر سورت سے پہلے ایک انداز میں زندہ اور جاری رہی۔ بسم الله الرحمان الرحیم کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے بھی نقل نہیں کیا، بلکہ یہ قرآنی آیت کا حصہ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
إِنَّهُ مِنْ سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ . (28)
بے شک وہ (خط) سلیمان (علیہ السلام) کی جانب سے (آیا) ہے اوروہ اللہ کے نام سے شروع کیا گیا) ہے جو بے حد مہربان بڑا رحم فرمانے والا ہے۔
بسم اللہ سورۃ النمل کی مستقل آیت ہے اور یہ ہر سورت کے شروع میں اس لیے لائی گئی ہے کہ قرآنی سورتوں کے درمیان تفریق واقع ہوجائے، یعنی اس کلمہ کے لانے سے پتہ چل جاتا ہے کہ ایک سورت ختم ہو کر دوسری شروع ہوجاتی ہے۔
گب کو رحمن کے استعمال پر اعتراض ہے۔ اگر کلمہ رحمان پر حقیقی معنوں میں غور کیا جائے، تو یقینا انسان اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرے گا۔ کیوں کہ انسان کو اللہ نے اپنا خلیفہ بناکر کرہ ارض پر ایک خاص مقصد یعنی عبادت کے لیے بھیجا ہے۔
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ.
اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اسی لیے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں۔
بندگی سے مراد ہے کہ انسان اس دنیوی زندگی کے ہر شعبے میں اللہ تعالیٰ کے منتخب کردہ اصولوں کے مطابق عمل کرکے زندگی بسر کرے گا، جوکہ رضائے الٰہی کا سبب بنتا ہے۔ آج اگر سوچا جائے، تو وہ کون سا غلط کام اور گناہ ہے جو انسان نہ کر رہا ہو۔ ساری دنیا اللہ کی نافرمانیوں سے بھری پڑی ہے، لیکن انسان پھر بھی سکون کی زندگی جی رہا ہے۔ یہی تو رحمن ہے جو ان سب بد اعمالیوں کے با وجود انسانوں سے جینے کا حق نہیں چھینتا۔ اس کے بر خلاف اگر کوئی بندہ اپنے انسانی مالک کی کوئی نافرمانی کرے تو مالک کا غصہ بھڑک جاتا ہے۔ ایک واضح اور سادہ سی مثال پیش کیا جاتی ہے اور وہ یہ کہ اگر انسان اپنی روز مرہ زندگی کی استعمال کے لیے کوئی چیز خرید لیتا ہے اور وہ چیز اپنا فنکشن چھوڑ دے، تو اس چیز کا مقدر پھر کوڑے دان ہوتا ہے۔ اب اس کو انسان پر لاگو کرے، یعنی انسان کو بھی اللہ نے ایک خاص مقصد کے لیے تخلیق ہے اور وہ اس مقصد کی ادائیگی میں نان فنکشنل بن چکا ہے، پھر بھی رحمان اپنے بندے کو کوڑے دان میں نہیں پھینکتا بلکہ مہلت پہ مہلت دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں الرحمٰن کا کلمہ استعمال ہوا ہے اور ساتھ یہ بھی کہ انسان کو اپنے خالق و مالک کا پتہ چل جائے کہ وہ اپنے بندوں پر کتنا مہر بان ہے۔
نتائج بحث
قرآن آپ ﷺ کی تصنیف نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کی طرف سے حضرت جبرئیل کے ذریعے محمدﷺپر نازل ہواکلام ہے۔یہ لگ بھگ ۲۳؍سال کے عرصے میں مکمل ہوا۔ یہ قرآن تمام علوم کا احاطہ کرتا ہے، اس کی بنیادی تعلیمات توحید، رسالت، عبادات، معاملات اور حیات بعد الموت ہیں۔ اس کتاب کی تمام تعلیمات حق اور سچ ہیں۔ گب نے جو اعتراضات قرآن اور اس کی بنیادی تعلیمات کے بارے میں اٹھائے ہیں، ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس کے سارے اعتراضات من گھڑت ہیں۔ اپنے اعتراضات کو تقویت بخشنے کے لیے گب نے ان مستشرقین کے لٹریچر سے استفادہ اور سہارا لیا ہے، جو اسلام کے بارے میں منفی سوچ رکھتے تھے۔

حواشی
1-H.A.R Gibb, Muhammedanism: “An Historical Survey” (p: 35-53) Oxford University Press New York, 1962.
2- https://en.wikipedia.org/wiki/H._A._R._Gibb.
3- A. K. S. Lambton “Obituary: Sir Hamilton Alexander Roskeen Gibb” Bulletin of the School of Oriental and African Studies, University of London, 1972, Vol. 35, No. 2 )1972)، pp.338-345
4- Abid
5- Abid
6- مولانا شبلی نعمانی، سیرۃ النبی ﷺ ، الفیصل ناشران، لاہور پاکستان، ج 1 ص 6
7- Muhammedanism: A historical survey, 35
8- Modern trends in Islam, 3
9- سورۃ الطور : 33
10 – سورۃ احزاب، آیت : ۴۰
11 – سورۃ الفرقان، آیات: ۴-۶
12 – Armstrong, Karen. Islam: A short history. Vol. 2. Modern Library, 2007. P: xiii.
13- John Louis Esposito, Islam: The straight path. Oxford University press (1998) 3
14 – Muhammedanism: “An Historical Survey” 58
15- ان میں سے ۱۸؍انبیاء کا ذکر تو سورہ انعام ہی میں ملتا ہے وہ ہیں : اسحاق، ہارون، یوسف، ابراہيم، ايوب، يعقوب، زکريا، يحییٰ ، نوح، داؤد، موسیٰ، سلیمان، عیسی، الیاس، اليسع، اسماعیل، ولوط، ویونس؊ اور بقیہ سات انبیاء ( آدم، ادریس ، ھود، صالح، شعیب ، ذوالکفل اور محمدﷺ )آل عمران، شعراء ، بقرۃ،ھود اور انبیاءوغیرہ میں ملتا ہے 36078/https://forum.mohaddis.com) قرآن میں محمدﷺ اور دیگر – انبیاء – کا – ذکر )
16 – Muhammedanism: “An Historical Survey” 42
17 – Allama Muhammad Iqbal, Reconstruction of religious thought.Dodo press Publisher 1930),175
18- تفسير ابن كثير ، ص: 194 ، الجزء : 7
19- سید فاروق عزیز، تفسير سورة الزخرف: دراسة موضوعية تحليلة ( رسالة الماجستير ، ۲۰۱۶)، ص: 77
20- Muhammedanism: “An Historical Survey” 39
-21 أخرجه مسلم، کتاب الزهد والرقائق، (4 / 2272)، برقم(2957)
22 – سورة الحشر : 18
23- سورة فصلت: 46
24 – Muhammedanism: “An Historical Survey” 39
-25 سورة انفال: 29
-26 سورة الأحزاب : 39
27 – ہارون یحیی، خوفِ خدا (مترجم: کامران امجد خان ) ص: 22 پبلیشر : خزینہ علم و ادب، الکریم مارکیٹ، اردو بازار، لاہور۔
28 – Muhammedanism: “An Historical Survey” 41
29 – سورة النمل: 30
30- حافظ صلاح الدین یوسف (ترجمہ: مولانا محمد جونا گڑھی) تفسیر احسن البیان ، ص: 5، دار السلام پبلیشر.
31 – سورة الذاريات : 56

 

اس کیو آر کوڈ کو اسکین کرکے ادارے کا تعاون فرمائیں یا پرچہ جاری کرانے کے لیے زرِ خریداری ٹرانسفر کریں۔ رقم بھیجنے کے بعد اسکرین شاٹ ضرور ارسال کریں تاکہ آپ کو رسید بھیجی جاسکے۔ شکریہ