فتح الباری کی عظمت

امیر الاسلام بن بحر الحق سلفی چاندپوری

امیر المؤمنین فی الحدیث ابوعبد اللہ محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ نےحدیث ِ رسولﷺکی حفاظت وصیانت اور صحیح وسقیم کے درمیان تمیز کا نیک جذبہ لے کرجس عظیم الشان کتاب کی تالیف فرمائی وہ صحیح بخاری کے نام سے معروف ہے۔اس کا پورا نام: الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامهہے۔ اس کتاب کی تالیف میں امام بخاری رحمہ اللہ نےجہاں صحیح احادیث کے انتخاب میں بے مثال دقت، محنت اور جاں فشانی سے کام لیا اور کسی حدیث کو اپنی کتاب میں اس وقت تک داخل نہ کیا جب تک کہ انھیں اس کی صحت کا یقین نہ ہوگیا ہو ، وہیں آپ نےاس کا بھی پورا خیال رکھا کہ یہ کتاب فقہی مسائل کے استخراج واستنباط سے خالی نہ رہے ، اسی لیے احادیث کو ان کے معانی و مفاہیم اوردلالت کے اعتبار سے الگ الگ ابواب وعناوین کے تحت ذکر فرمایا، جنھیں ہم تراجمِ ابواب بخاری کہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ بسا اوقات ایک ہی حدیث میں ایک سے زائد فقہی احکام ومسائل موجود ہوتے ہیں اسی لیے امام بخاری رحمہ اللہ ایک ہی حدیث کو کئی کئی باب میں ذکرکرتے ہیں، لیکن عام طور پر دوسرے باب میں ذکر کرتے وقت اس حدیث کو الگ سنداور الگ لفظ کے ساتھ ذکرتے ہیں، کبھی ایک جگہ حدیث کو مکمل ذکرکرتے ہیں، لیکن دوسری جگہ حدیث کے کسی خاص جز کو مختصرا ذکر کرتے ہیں۔ تراجم ِابواب کے تحت حدیث کو ذکر کرنے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے جو ذہانت و فطانت، علمی وسعت،قوت اجتہاد، اورفقاہت کا مظاہرہ کیا ہے، اس کی نظیر کسی دوسری کتاب میں نہیں ملتی، کہیں کہیں تو نہایت دقیق فقہی امور کی طرف اشارہ کرتےہیں، کہیں کسی محدثانہ اصول ، یا کسی مخفی علت کی طرف اشارہ کرتے ہیں، کہیں کسی اور فائدہ کی طرف اشارہ مقصود ہوتا ہے۔ ان امور کی وجہ سے صحیح بخاری اصحیت کے ساتھ ساتھ جامعیت کی بھی حامل ہے۔ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان امور کو من جملہ ان خصائص میں شمار کیا ہے جن کی بنا پر صحیح بخاری کوصحیح مسلم پر تری و فوقیت حاصل ہے۔

چناں چہ ہدی الساری(ص۱۳، طبع بیروت) میں آپ لکھتے ہیں:

وكذلك الجهة العظمى الموجبة لتقديمه وهي ما ضمنه أبوابه من التراجم التي حيّرت الأفكار ودهشت العقول والأبصار.


یعنی اصحیت کے علاوہ صحیح بخاری کو صحیح مسلم پر مقدم کرنے کا ایک امتیازی پہلو وہ بھی ہے جو اس کتاب کے ابواب کے (دقیق وباریک ) عناوین و تراجم ہیں، جن سے فکر ونظر اور عقل وخرد حیران وپریشان ہے۔
صحیح بخاری کی جامعیت اورمذکورہ خصائص کی بنا پر اس کی شرح لکھنے والے بڑے بڑے اجلہ مصنفین اور فحول علما بھی بسا اوقات اس کتاب کے جامع وعالی مقاصد اور باریک نکتوں اور گرہوں کو کھولنےا و ر ان کی کما حقہ وضاحت سےعاجز نظر آتے ہیں۔ جیسا کہ اس کی شہادت مشہور مورخ وعالم علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ نے بھی دی ہے، آپ نے صحیح بخاری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
فأمَّا البخاريُّ -وهو أعلاها رتبةً- فاستصعب النّاس شَرْحَه، واستغلقوا منحاه من أجل ما يحتاج إليه من معرفة الطرق المتعددة، ورجالها من أهل الحجاز والشام والعراق، ومعرفة أحوالهم واختلاف الناس فيهم، وكذلك يحتاج إلى إمعان النظر في التفقه في تراجمه؛ لأنه يترجم .
الترجمة ويورد فيها الحديث بسندٍ أو طريقٍ، ثم يترجم أخرى ويورد فيها ذلك الحديث بعينه؛ لما تضمنه من المعنى الذي ترجم به الباب، وكذلك في ترجمة وترجمة إلى أن يتكرر الحديثُ في أبواب كثيرة بحسب معانيه واختلافها، ومَنْ شَرَحه ولم يستوف هذا فيه؛ فلم يوفّ حقّ الشّرح كابن بطّال وابن المهلّب وابن التّين ونحوهم. ولقد سمعتُ كثيرًا من شيوخنا رحمهم الله يقولون: شرح كتاب البخاريّ دَيْنٌ على الأمّة؛ يعنون أنّ أحدًا من علماء الأمّة لم يوفّ ما يجب له من الشّرح بهذا الاعتبار»
جہاں تک صحیح بخاری کی بات ہے جوکہ حدیث کی کتابوں میں سب سے بلند پایہ ہے، تو لوگ اس کی شرح کو سخت مشکل خیال کرتے ہیں اور اس کے مقاصد تک پہنچنےکومشکل گردانتے ہیں؛ کیوں کہ صحیح بخای کے مقاصد تک پہنچنے کے لیے ایک ہی حدیث کے متعدد طرق کی معرفت، ان طرق واسانیدکے رجال کا علم ہونا کہ کون حجازی ہے، کون عراقی ہے اور کون شامی؟ پھر ان کے حالات سے آگاہ ہونے کے علاوہ یہ جانناکہ لوگ ان میں کیا اختلاف رکھتے ہیں ؟۔ اسی طرح تراجمِ ابوا ب کے سمجھنے میں بھی بڑی دقیق نگاہ کی ضرورت ہے۔
امام بخاری ایک ترجمۃ الباب قائم کرتے ہیں اور اس میں ایک سند سے حدیث لاتے ہیں۔پھر دوسرا ترجمۃ الباب قائم کرتے ہیں اور وہی حدیث دوسری سند سے لاتے ہیں۔ اس وجہ سے کہ یہ دوسرے ترجمۃ الباب کی بھی دلیل ہے۔ اسی طرح متعدد تراجم ابواب میں بوجہ کثرت معانی واختلاف سند حدیث مکرر ہوجاتی ہے۔ اب جنھو ں نے بھی اس کتاب کی شرح کی ہے اورمذکورہ امور کا احاطہ نہیں کیا۔ جیسے: ابن بطال، ابن التین یا ابن المہلب وغیرہ ، وہ سب کے سب اس کا مکمل حق ادا نہیں کر پائے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنے بہت سے مشایخ( رحمہم اللہ) کو کہتے ہو ئے سنا ہے کہ(بخاری کی شرح امت پر قرض ہے) یعنی ان امور کے مطابق امت کے کسی عالم نے بھی اس کتاب کی شایان شان شرح نہیں لکھی ہے۔
(تاریخ ابن خلدون:1/560، ط: دار الفکر)
ابن خلدون کی وفات نویں صدی کے شروع میں ۸۰۸ ہجری میں ہوئی ۔ اس اعتبار سے یہ بات صحیح بخاری کی تالیف کے پانچ سو سال سے زائد کا عرصہ گذر جانے کے بعد کہی گئی۔ حالاں کہ اس وقت تک بہت سارے اہل علم نے اس عظیم کتاب کی شرح لکھ دی تھی۔تاہم ابن خلدون کے مطابق صحیح بخاری کا جو علمی مقام تھا اس کی شایان شان کوئی شرح نہیں لکھی جا سکی تھی ،اسی لیے اسے امت پر باقی رہنے والاقرض قرار دیا ۔ اللہ کا کرشمہ دیکھیے کہ اُسی نویں صدی ہجری میں اللہ نے ایک عبقری شخصیت کو اس قرض کے ادائیگی کی بھرپور توفیق مرحمت فرمائی۔ یہ شخصیت حافظ ابو الفضل شہاب الدین احمد بن علی بن محمد بن حجر کنانی شافعی (متوفی:۸۵۲ ہجری) کی ہے۔جو اہل علم کے نزدیک ابن حجر عسقلانی کے نام سے مشہور ہیں۔
آپ نے سیکڑوں کی تعداد میں عمدہ ترین کتابیں تصنیف کیں اور اللہ کی توفیق سے تقریبا ہر کتاب نے اہل علم کے نزدیک خوب پذیرائی حاصل کی۔ لیکن شاید اس میں کوئی مبالغہ نہ ہو کہ اگر آپ کی تصنیفات میں فتح الباری کے علاوہ کوئی اور تالیف نہ بھی ہوتی تو یہی فتح الباری آپ کی شہرت اور آپ کے عظیم المرتبت ہونے کے لیے کافی ہوتی ہے۔
فتح الباری کی عظمت واہمیت
یہ مکمل صحیح بخاری کی شرح ہے اور کتاب کے شروع سے لے کر آخر کتاب تک مؤلف  کے اسلوب ومنہج میں کوئی فرق نہیں آیا ہے، بلکہ ایک ہی مستحکم اسلوب ومنظم انداز میں شرح کو پایۂ تکمیل تک پہنچادیا ہے۔
۱-یہ وہ عظیم الشان شرح ہے جس کی تالیف میں مؤلف نے۲۵؍ سال سے زائد کا عرصہ صرف کیا ہے۔
۲- اس میں انھوں نےسابقہ شروحات سے بھر پور استفادہ کیا ہے، نیز اصحاب شروح سے سرزد ہونے والی لغزشوں کی نشان دہی اور ان کی اصلاح بھی کی ہے۔
۳- شروحات کے علاوہ دیگرہزاروں مصادر سے آپ نے استفادہ کیا ہے اور ہر فن کے اصل مصادر کی طرف رجوع کرنے کی حتی المقدور کوشش کی ہے۔
۴-کتاب کونہایت محرر ومستحکم اسلوب میں پیش کرنے کے لیے آپ نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ سب سے پہلے شرح کا کچھ حصہ اپنے ماہر ترین تلامذہ کو املا کراتے، پھر ان کے ساتھ اس کا مقابلہ کرتے، اور مسائل کا مدارسہ ومناقشہ اور خوب بحث وتمحیص کےبعد اسے شاملِ کتاب کرتے۔
۵-یہ کتاب مؤلف کی ان کتابوں میں سےایک ہے جن پر خود آپ نے دلی اطمینان ورضامندی کا اظہار کیا ہے۔ بلکہ آپ اس کتاب سے اس قدر خوش تھے کہ اس کی تکمیل پر آپ نے ایک نہایت شاندار دعوتِ عام کا اہتمام کیا، جس میں عام و خاص مسلمان شریک ہوئے۔ اور اس دعوت پر آپ نے تقریبا پانچ سو دینار خرچ کیے۔(ولیمہ فتح الباری کی تفصیل کے لیے دی

اس کیو آر کوڈ کو اسکین کرکے ادارے کا تعاون فرمائیں یا پرچہ جاری کرانے کے لیے زرِ خریداری ٹرانسفر کریں۔ رقم بھیجنے کے بعد اسکرین شاٹ ضرور ارسال کریں تاکہ آپ کو رسید بھیجی جاسکے۔ شکریہ