۲۰۲۴ کی چند اہم اردو تصانیف

شاہ اجمل فاروق ندوی

 

قاموس کتب سیرت (تین جلدیں)
از: حافظ محمد عارف گھانچی، ڈاکٹر محمد جنید انور
اردو زبان میں سیرت نبوی کے علمی ذخیرے میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔ اس ذخیرے میں دستاویزی نوعیت کا اضافہ حال میں منظر عام پر آنے والی فہرست قاموس کتب سیرت کے ذریعے ہوا ہے۔ اس کے مصنف جناب حافظ محمد عارف گھانچی اور ڈاکٹر محمد جنید انور ہیں۔ اس قاموس میں صرف اُن اردو کتبِ سیرت کو شامل کیا گیا ہے جو شائع ہوچکی ہیں اور آج موجود بھی ہیں۔ نثری کتابوں کے ساتھ منظوم کتبِ سیرت بھی شامل کی گئی ہیں۔ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں اردو سیرت نگاری کے آغاز سے ۱۹۸۰م تک کی کتابیں ہیں۔ دوسرے حصے میں ۱۹۸۱ م سے ۲۰۱۰م تک کی کتابیں ہیں۔ تیسرے حصے میں ۲۰۱۱م سے ۲۰۲۴م تک کی کتابیں۔ پہلا حصہ ۲۲۳ ؍صفحات پر، دوسرا حصہ ۳۵۰ ؍صفحات پر اور تیسرا حصہ ۲۱۰ ؍صفحات پر مشتمل ہے۔اسلامیات سے وابستہ اہل علم کے پاس یہ کتاب ضرور ہونی چاہیے۔ اس بڑی خدمت کے لیے علمی دنیا مدتوں مصنفین کی احسان مند رہے گی۔

روایات سیرت نبوی بلاذری کے حوالے سے
کلیم صفات اصلاحی
احادیث نبویہ، تاریخ اسلام اور انساب کی کتابوں تک بہ سہولت رسائی کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ ان پر مختلف ناحیوں سے علمی کام کیا جارہا ہے۔ عالم عرب میں اس نوعیت کے کام بڑے پیمانے پر انجام دیے جارہے ہیں۔ اللہ کے فضل سے ہمارے ہاں بھی اسی طرح کا ایک اہم کام سیرت نبوی کے متعلق انجام دیا گیا ہے۔ مولانا کلیم صفات اصلاحی نے تیسری صدی ہجری کے عظیم مؤرخ علامہ احمد ابن یحییٰ بلاذری کی فتوح البلدان اور انساب الاشراف میں موجود روایات سیرت کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔۳۰۶ ؍صفحات پر مشتمل اس کتاب کے مطالعےسےسیرت نبوی کے میدان میں متعدد اہم گوشے سامنے آتے ہیں۔ یہ کتاب اسلامیات کے طلبہ کے لیے ایک رہنما کا کام بھی انجام دے سکتی ہے۔ قدیم مآخذ کو کیسے کنگھالا جائے؟ ان کے تجزیے کا کیا طریقہ ہو؟ نتائج تک پہنچنے کے لیے کون سی راہ اختیار کی جائے؟ اس طرح کے بہت سے سوالات کا مناسب جواب اس کتاب سے حاصل ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ ہمارے ہاں اس قسم کے علمی کام بہت کم ہوتے ہیں، اس لیے اس کتاب میں ایک جامع مبسوط مقدمے کی کمی کا احساس ہوتا ہے۔ علوم اسلامی کے طلبہ اور بالخصوص سیرت نبوی سے دلچسپی رکھنے والے اسکالرز کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ آغاز میں ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کا پیش لفظ ہے۔

رسول اللہ ﷺ شعب ابی طالب میں
ڈاکٹر مفتی محمد مشتاق تجاروی
اللہ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اور آپ کے خاندان والے تین سال تک شعب ابی طالب میں محصور رہے۔ لیکن نہ جانے کیوں اکثر سیرت نگاروں نے اس واقعے پر تین صفحے بھی نہیں لکھے۔ ہماری اردو سیرت نگاری کا یہ ایک بڑا خلا تھا۔ اس کو پُر کرنے کی توفیق اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر مفتی محمد مشتاق تجاروی کو عطا فرمائی۔ اُن سے پہلے اس موضوع پر مولانا ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کی کتاب بھی آئی تھی۔ لیکن اُس پر دعوت و تربیت کا غلبہ تھا۔ کیوں کہ مصنف ایک داعی و مربی تھے۔ سیرت و تاريخ کے مآخذ کو کنگھال کر علمی و تحقیقی گوشے نکالنے اور ابھارنے کی ضرورت باقی تھی۔ مصنفِ کتاب ڈاکٹر مفتی محمد مشتاق تجاروی نے اس ضرورت کی تکمیل کرکے علمی دنیا پر احسان کیا ہے۔ ایک واقعے کا متعدد پہلوؤں سے جائزہ لیا گیا ہے اور واقعے کی اکثر معلومات کو مرتب انداز میں پیش کردیا گیا ہے۔ ۲۱۶؍صفحات پر مشتمل یہ کتاب اردو سیرت نگاری کے ایک خلا کو پُر کرتی ہے۔

دہلی کے چشتی مشائخ
پروفیسر شریف حسین قاسمی
آج لوگ دلّی کو صرف مادیت کا اڈہ سمجھتے ہیں، لیکن ایک وقت میں یہ روحانیت کا نمایاں ترین مرکز تھی۔ آج بھی یہاں کے چپّے چپّے سے بے شمار نورانی وجودوں کی خوش بو محسوس ہوتی ہے۔ ان نورانی وجودوں میں اکثریت چشتیوں کی تھی۔ اسی لیے ان دہلوی چشتی بزرگوں کو مختلف لوگوں نے موضوع بنایا۔ انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی۔ چشتی مشائخ کی عمومی تاریخ کے ذیل میں بھی دہلوی مشائخ کا تذکرہ ہوتا رہا۔ ایک ایسے جامع تذکرے کی واقعی ضرورت تھی، جو صرف دہلی کی مشائخ چشت کے تذکروں پر مشتمل ہو اور اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں کا احاطہ بھی کرتی ہو۔ پروفیسر شریف حسین قاسمی جیسی بلند و بالا اور موقر شخصیت نے دہلی کے چشتی مشائخ لکھ کر اس بڑی ضرورت کی تکمیل کردی۔ کتاب میں دہلی کے۱۸۱؍چشتی بزرگوں کا تذکرہ ہے۔ ۲۳؍صفحات پر مشتمل مقدمہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ کتاب ۳۴۲؍صفحات پر مشتمل ہے۔ اپنے موضوع پر اس کتاب کو تادیر سند کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔

شیخ الہند مولانا محمود حسن: شخصیت و افکار
مولانا ابو عمار زاہد الراشدی
شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کو اس دنیا سے رخصت ہوئے ایک صدی سے زائد مدت گزر چکی ہے. اس درمیان اُن کے فکر و منہج کی معنویت میں تو کئی گنا اضافہ ہوا، لیکن اُن کی حقیقی علمی دریافت نہ ہوسکی. صحیح معنوں میں عملی طور پر انھیں اپنا مقتدا بنانا تو بہت دور کی بات ہے. مخدومِ گرامی قدر علامہ زاہد الراشدی اُن موجود شخصیات میں سرِ فہرست ہیں، جنھیں شیخ الہند کا عارف، متبع اور مبلغ کہا جاسکتا ہے. مسلمانانِ برصغیر پر اُن کا احسان ہے کہ انھوں نے شیخ الہند کے متعلق اپنے متفرق مضامین کو مستقل کتاب کی شکل میں پیش کردیا. یہ کتاب اپنے موضوع پر منفرد حیثیت کی حامل ہے. معرفتِ شیخ الہند کے لیے اس کا مطالعہ تادیر ناگزیر سمجھا جائے گا. مرتب حافظ خرم شہزاد ہیں۔

برصغیر ہند میں جدید علم کلام
ڈاکٹر وارث مظہری
ہمارے ہاں علم کلام اور متکلمین کو بہت کم موضوع بنایا گیا ہے۔ ظلم تو یہ ہے کہ موجودہ مدارس اور تنظیموں نے علم کلام کے متعلق اپنے اپنے بانیوں اور نمائندہ شخصیات کے پیش کردہ کام سے بھی واسطہ نہیں رکھا۔ اس علم سے دوری کے اسباب بھی ہیں اور اثرات بھی۔ یہ گفتگو کبھی اور ہوسکتی ہے۔ حال میں ڈاکٹر وارث مظہری کی تصنیف برصغیر ہند میں جدید علم کلام نےاس میدان میں قائم سناٹے کا ماحول توڑا ہے۔ یہ کتاب برصغیر کے ۱۶متکلمین کے نظریات اور منہاہج عمل سے بحث کرتی ہے۔ کتاب کا مقدمہ اور برصغیر میں کلام و فلسفے کی روایت کے عنوان سے پہلا باب بہت اہمیت کا حامل ہے۔ پوری کتاب میں پیش کیے گئے تجزیے بالعموم بہت متوازن ہیں۔ عبارتوں میں تہ داری کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ اکثر مضامین مختلف مناسبتوں سے لکھے گئے ہیں، اس لیے اپنی اہمیت کے باوجود کتاب میں تصنیف پَن کی کمی محسوس ہوتی ہے۔۲۵۶ ؍صفحات پر مشتمل یہ کتاب اسلامیات کے طلبہ اور بالخصوص طلبۂ مدارس کو ضرور پڑھنی چاہیے۔ چاہے مصنف کی آرا سے اتفاق ہو یا اختلاف۔ کتاب میں ڈاکٹر عمار خان ناصر کا پیش لفظ اور پروفیسر محمد فہیم اختر ندوی کے تاثرات بھی شامل ہیں۔

مفتی عبداللطيف رحمانی -احوال وآثار
فیصل احمد بھٹکلی ندوی
ندوۃ العلماء اور اس کے بانی امام سید محمد علی مونگیری سے وابستہ ہونے والے قدیم لوگوں میں مولانا عبداللطيف رحمانی کا اسمِ گرامی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اُن پر اب تک کوئی مفصل علمی مقالہ بھی نہیں لکھا جاسکا تھا۔ مولانا رحمانی زندگی کے مختلف مراحل میں ندوۃ العلماء لکھنؤ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، جامعہ عثمانیہ حیدرآباد، دائرۃ المعارف حیدرآباد اور خانقاہ رحمانی مونگیر سے وابستہ رہے۔ نہ جانے کیوں کسی کو اُن کے بھرپور تعارف کی طرف توجہ نہ ہوئی۔ اب محسن شناسی کا فریضہ سب سے پہلے ندوۃ العلماء میں انجام دیا گیا۔ ندوے کے محقق استاد مولانا فیصل احمد بھٹکلی ندوی نے مولانا رحمانی کے متعلق ۶۳۲؍صفحات پر مشتمل کتاب علمی دنیا کی نذر کی ہے۔ اس کتاب میں بحث و تحقیق کا اعلیٰ معیار ملحوظ رکھا گیا ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کتاب تحقیق بھی ہے اور رہنمائے تحقیق بھی۔ البتہ ٹائپنگ کے لحاظ سے پوری کتاب کی سیٹنگ اور معیار طباعت بالکل کتاب کے معیار سے میل نہیں کھاتا۔ کتاب میں مولانا سید بلال عبدالحی حسنی ندوی کا مقدمہ بھی شامل ہے۔

مکاتیب مرشد الامت
محمد ناصر سعید اکرمی
مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی وفات کو ابھی دو سال مکمل نہیں ہوئے۔ انھوں نے زندگی بھر خود کو انتہائی اخفا میں رکھا۔ شاید اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اُن کی وفات کے بعد انھیں ظاہر کرنے کا انتظام فرما دیا۔ اس کے نتیجے میں اُن کے متعلق علمی کاموں کا ایک سلسلہ چل پڑا ہے۔ حال میں سامنے آنے والی کتاب “مکتوبات مرشد الامت” بھی اس سلسلے کی اہم کڑی ہے۔ مؤلفِ کتاب مولانامحمد ناصر سعید اکرمی نے اس کتاب میں ۸۰؍ لوگوں کے نام لکھے گئے ۳۶۸؍مکتوبات جمع کیے ہیں۔ مکتوبات کے مطالعے سے شخصیت و تاریخ کے متعدد گوشے سامنے آتے ہیں۔ یہی معاملہ اس کتاب کا بھی ہے۔ ان مکتوبات کے لکھنے والے کی شخصیت ایک ہشت پہل نگینے جیسی تھی۔ لہٰذا ان کے مطالعے سے مکتوب نگار کی زندگی کے ذاتی، ملّی، تعلیمی، تربیتی، روحانی اور ادبی پہلو سامنے آتے ہیں۔ اس اہم کام کے لیے ہم مؤلفِ گرامی کے شکر گزار ہیں۔ مرشد الامت کے ادنیٰ ترین منتسب کی حیثیت سے ہمارا احساس ہے کہ اگر اُن کے مکتوبات کو جمع کرنے کا کام مزید وسعت کے ساتھ کیا جائے تو اتنی ہی ضخیم ایک دو جلدیں بآسانی تیار ہوسکتی ہیں۔

اصولِ تحقیق
ڈاکٹر ظفرالاسلام خان
اردو زبان میں تحقیق کے اصول و ضوابط پر بہت سی چھوٹی بڑی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان میں ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کی کتاب اصولِ تحقیق کو ہندستان کے مسلم علمی حلقوں میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ کتاب ہے تو کافی پرانی، لیکن اب نئے قالب میں سامنے آئی ہے۔ اردو زبان میں اس کا پہلا ایڈیشن ۱۹۹۸م میں اور دوسرا ۲۰۰۷م میں شائع ہوا تھا۔ اب سترہ سال بعد تیسرا ایڈیشن سامنے آیا ہے۔ تازہ طباعت میں کافی اضافہ کیا گیا ہے۔ کتاب چھ ابواب اور تین ضمیموں پر مشتمل ہے۔۱۸۶ ؍صفحات پر مشتمل اس اہم کتاب میں تحقیق کے متعلق تقریباً تمام ضروری معلومات آگئی ہے۔ تحقیقی کام کرنے والے نئے لوگوں کو اسے مستقل اپنے ساتھ رکھنا چاہیے۔ اگرچہ بعض مقامات پر تشنگی کااحساس ہوتا ہے اور ٹائپنگ کے لحاظ سے کتاب کی سیٹنگ بھی کئی مقامات پر چبھتی ہے، اس کے باوجود اردو زبان میں تحقیق کے جدید اصولوں پر ایسی جامع کتاب مشکل ہی سے ملے گی۔

کراچی نامہ
ندیم ماہر
سفرناموں کا مطالعہ کرنے میں بہت مزہ آتا ہے۔ لیکن یہ سفرنامہ نویس کے اوپر ہوتا ہے کہ اس نے کیسا لکھا ہے۔ بعض سفرنامے پڑھ کر لطف آجاتا ہے۔ جب کہ بہت سے سفرنامے مکمل پڑھنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ ایک درمیانی نوعیت کا سفرنامہ کراچی نامہ بھی ہے۔ ۲۰۸ ؍صفحات مشتمل یہ سفرنامہ ہمیں کراچی کی سیر کراتا ہے۔ مصنفِ کتاب جناب ندیم ماہر نے سفرنامے میں جو زبان استعمال کی ہے، وہ بالعموم صاف ہے۔ اکثر ذیلی عناوین دل چسپ ہیں۔ اس سفرنامے کے مطالعے سے کراچی کے ماحول، بعض اہم مقامات کی تاریخ، کچھ ادبی شخصیات اور ادبی سرگرمیوں کا علم ہوتا ہے۔ مصنف کی دیگر کتابوں کی طرح اس کتاب کی طباعت بھی بہت عمدہ ہے۔ بعض مضامین میں غیر ضروری طول، کچھ مباحث میں غیر مدلل باتیں اور کتابتی لحاظ سے کچھ اسقام نہ ہوتے تو کتاب کی ضخامت کم ہوسکتی تھی اور ترسیل بڑھ سکتی تھی۔

اسلام کا سپاہی
عبداللہ غازی ندوی
یہ کتاب ادب اطفال کے میدان میں ایک منفرد کتاب ہے۔ اس میں مصنفِ کتاب مولانا عبداللہ غازی ندوی بھٹکلی نے مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی زندگی کے کچھ اہم گوشوں اور قصوں کو بچوں کے لیے کہانی کے انداز میں پیش کیا ہے۔ بچوں کی نفسیات کا خیال رکھتے ہوئے کتاب میں عمدہ رنگین تصاویر، جلی حروف اور حتی الامکان آسان زبان کا اہتمام کیا گیا ہے۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی پر الگ الگ انداز سے بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ اس پورے علمی ذخیرے میں یہ کتاب الگ نوعیت کی حامل ہے۔ اس کتاب کو ادب اطفال اور بوالحسنیات دونوں حوالوں سے ایک اضافہ کہا جاسکتا ہے۔ اردو لکھنے بولنے والے ہر گھر میں اس کتاب کو ہونا چاہیے۔ بچوں کے لیے اس طرح کے کام کی بہت ضرورت ہے۔ کاش ! یہ کتاب ادب اطفال سے دل چسپی رکھنے والے افراد اور اداروں کے لیے مہمیز کا کام دے۔

کلیات شاہ فضل رحمان گنج مرادآبادی (جلد اول)
مفتی محمد جنید قاسمی
۲۰۲۴ م میں جاتے جاتے ایک اور علمی سوغات ہاتھ آگئی۔ اویسِ زمانہ مولانا شاہ فضل رحمان گنج مرادآبادی کے متعلق شائع ہونے والے سات نادر رسائل پر مشتمل کتاب کلیات حضرت مولانا شاہ فضل رحمان گنج مرادآبادی (جلد اول) منظر عام پر آئی ہے۔ کتاب میں مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی اور مولانا اختر امام عادل کی تقاریظ شامل ہیں۔ محقق کاندھلوی نے حضرت گنج مرادآبادی کے متعلق شائع ہونے والی کتب و رسائل کی فہرست بھی دی ہے۔ اس سے یہ حیران کن انکشاف ہوتا ہے کہ اُن کے متعلق مختلف نوعیتوں کی ۳۹ ؍کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مولانا محمد جنید قاسمی کو بڑا اجر عطا فرمائے کہ انھوں نے ان میں سے ساتھ رسائل کو۶۴۰ ؍صفحات کی کتاب میں جمع کردیا ہے۔ یہ بڑی خدمت ہے۔ اس کے لیے پوری علمی و روحانی دنیا کو ان کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ امید ہے کہ مؤلف محترم اس سلسلے کو آگے بڑھائیں گے اور تمام رسائل کو حیاتِ تازہ عطا کرنے کا سبب بنیں گے۔ کتاب کے نام میں کچھ تبدیلی ہوجاتی تو بہت اچھا ہوتا۔ معیار طباعت بھی موضوع کتاب کے شایان شان نہیں ہے۔

اس کیو آر کوڈ کو اسکین کرکے ادارے کا تعاون فرمائیں یا پرچہ جاری کرانے کے لیے زرِ خریداری ٹرانسفر کریں۔ رقم بھیجنے کے بعد اسکرین شاٹ ضرور ارسال کریں تاکہ آپ کو رسید بھیجی جاسکے۔ شکریہ