قرآن کریم کی سورۃ المائدہ(آیات ۲۷تا ۳۱)میں آدمؑ کے دو بیٹوں کا واقعہ مذکور ہے ۔ان کے نام کی صراحت کے بغیر یہ آیا ہے کہ بربنائے حسد اور ظلم قابیل اپنے بھائی ہابیل کے قتل کے جرم کا مرتکب ہوا۔حدیث نبوی میں اس اولین قتل پر یہ بلیغ تبصرہ ہے:
لَا تُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا إِلَّا کَانَ عَلَی ابْنِ آدَمَ الْأَوَّلِ کِفْلٌ مِنْ دَمِہَا وَذَلِکَ لِأَنَّہُ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ.(صحیح البخاری،کتاب أحادیث الأنبیاء ، رقم الحدیث:3335)۔
ترجمہ:’’جو قتل بھی بربنائے ظلم ہوتا ہے ،اس کے خون ناحق کا گناہ آدم کے اس پہلے بیٹے پر بھی ہوتا ہے کیوں کہ اس شخص نے پہلا قتل کیا۔‘‘
عیسائی عالم دین یحییٰ دمشقی John of Damascus (۶۷۵ء -۷۴۹ء) سیرت طیبہ کی کردار کشی کی قابل نفریں روایت کے قابیل ہیں کہ اسلام،قرآن کریم،سیرت طیبہ کو اپنی تصانیف de haeresibus اور Dialexisمیں مسخ کرنے کے فعل قبیحہ کی رسوائی ان کے اعمال نامے کے ساتھ مخصوص ہے۔ساتویں صدی سے آج اکیسویں صدی تک سیرۃ طیبہ پر بالخصوص مغرب میں نام نہاد علمی سرگرمی اور تحقیق کے بہ ظاہر مقدس اور مرعوب کن نام پر جو سب وشتم کا بازار گرم ہے، اس کا اصل ماخذ یحییٰ دمشقی ہی کی مذکورہ بالا تصانیف ہیں۔ موصوف کا عہد وفات رسول اکرم ؐ سے متصل صحابہ کرام اور تابعین عظام کا ہے۔ یعنی ساتویں صدی عیسوی کا آخر اور آٹھویں صدی عیسوی کا نصف اول ۔دمشق ان کے دادا منصور کے زمانے میں اسلام کے زیر نگیں ہوچکا تھا ۔خود یحییٰ دمشقی اموی خلفا عبدالملک،الولید اور عمر ثانی کے نمک خوار اور محکمہ محصولات میں اعلی منصب پر فائز تھے ۔مسلمانوں سے براہ راست ملاقات، مکالمے،معاملات اور استفسار کے دروازے ان کے لیے وا تھے ۔لیکن جب قلب وذہن خباثت اور شقاوت کی آماج گاہ ہوں تو حق سے یکسر بے رخی بل کہ اس کی تلبیس کچھ ایسا عجب نہیں! ابلیس بھی راندۂ درگاہ ہونے سے قبل بہ ہر کیف ایک برگزیدہ جن تھا۔اس کا بہ ظاہر تقشف اور قرب الٰہی اس کے اپنے پروردگار اور رب العلمین کی صریحاً حکم عدولی بل کہ دیدہ ودانستہ بغاوت اور سرکشی میں ہر گز دافع اور نافع ثابت نہیں ہوا بل کہ اس نے عمداً ترجیح حکم الٰہی کی خلاف ورزی کو دی۔
یحییٰ دمشقی اس لحاظ سے ابلیس اور قابیل کے مثیل ہیں کہ قرب حق کے باوصف انھوں نے قبیح اور شنیع ہی راہ کا انتخاب کیا اور صدیوں تک اپنے لاکھوں ،کروڑوں منتسبین کو اسلام،قرآن کریم، سیرۃ طیبہ کے خلاف ایسا متنفر اور منغض کیا کہ ان کے دل ودماغ میں اسلام کے لیے کوئی رغبت ،کشش یا کوئی مثبت خیال تک نہ آپائے اور وہ اسے محض شرمجسم سمجھیں۔ساتویں صدی کے ارباب کلیسا نے ان کو بہ ظاہر محرم راز اندرون خانہ کے طور پر معتبر گردانا اور ان کے ہفوات کو سند کا درجہ دیا اور جو باطل تصورات انھوں نے پیش کیے، وہی آج تک عیسائی،اہل مغرب ،بالخصوص مستشرقین(مغربی فضلائے اسلام)کے قلب پر من وعن نقش کالحجر ہیں اور ہر دور میں وہ یحییٰ دمشقی کی فکری کجی اور گمراہی پر اپنے اپنے فتنہ پرور اضافے کرتے رہے ہیں۔ البتہ اس باب میں بنیاد گزاری کی بدنامی بلا شریک وسہیم موصوف ہی کا اکتساب ہے ۔ایسی شرانگیز سیادت کا شرف شاذ ہی کسی کے حصے میں آتا ہے:
یہ منصب بلند ملا جس کو مل گیا
موصوف کے سامان رسوائی کی بعض اذیت ناک تفصیلات اکراہ کے ساتھ بہ طور مثال پیش ہیں:
۷۰۶ء میں یحییٰ دمشقی اموی دربار سے معزول یا سبک دوش ہوئے اور یروشلم کے نزد St.Sabas خانقاہ میں اسلام مخالف تصنیف اور تالیف میں مشغول ہوگئے۔ان کی تصنیف de haeresibusکا موضوع زندقہ بنی اسماعیل ہے۔دوسری تصنیف Dialexis ایک عیسائی اور بنی اسماعیل کے ایک فرد کے مابین بہ ظاہر مکالمے لیکن اصلاً مناظرے پر مشتمل ہے ۔اس مناظرے میں فاتح عیسائی اور مقہور اور معتوب فرد بنی اسماعیل کا نمائندہ ہے، جو عقل،دلیل اور حق سے مطلق عاری ہے۔ عیسائیت کے لیے نور اور اسلام کے لیے ظلمت کے استعارے مغربی بیانیے میں عام ہیں۔
اس مقام پر یہ وضاحت لازم ہے کہ یحییٰ دمشقی کی طرح ہر یہودی اور عیسائی کو بائبل کے زیراثر اسماعیلؑ اور ان کی ذریت سے بغض للہٰی تھاکہ بائبل میں اسماعیلؑ کا ذکر انتہائی مختصر اور تبعاً اور ضمناً ہے اور وہ بھی اس شرم ناک ،تحقیر آمیز پیرائے میں کہ ’’ وہ ایک کنیز زادہ ہے، جنگلی گدھے کی مانند جنگجو ، ہر ایک کے خلاف شمشیر برہنہ بر سر پیکار رہتا ہے نتیجۃً دوسری اقوام بھی اس پر حملہ آور ہوتی ہیں‘‘۔ (بائبل ،کتاب پیدائش ، باب ۱۶ آیات ۱۰ تا ۱۲)۔ بنی اسماعیل کے خلاف یہود او ر عیسائیوں کی صدیوں قدیم مخاصمت کا منبع ان کا مذہبی صحیفہ بائبل ہے اور اس کے ہول ناک مظاہر اور مناظر ایک ارض فلسطین پر کیا موقوف پورے عالم عرب میں روز مرہ کا معمول ہیں ۔ عراق اور شام کی تاراجی کے ہم سب ہی بے بس شاہد ہیں ۔ مغرب کے ہاتھوں ممالک عرب کی نوآبادیاتی غلامی کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزراہے۔ (۱)
یحییٰ دمشقی نے بنی اسماعیل کے لیے ہتک آمیز لقب Agarenes (کنیز ہاجرہ کی آل اولاد ) کا استعمال کیاہے۔ بین السطور ابراہیم سے ان کی گویا لاتعلقی، مجہول کنیز زادے جن کا مذہب ، ثقافت اور نسل ناقابل التفات ہے اور ان کا واحد مصرف صرف اشرف اور انجب بنی اسرائیل کی غلامی ہے۔ نسل پرستی کا یہ عفریت بائبل کا عطیہ ہے، جو بالواسطہ طور پر اس کے محرف ہونے کی اندرونی شہادت بھی ہے۔ اسی نسلی تفاخر سے مخمور یحییٰ دمشقی کو مسلمانوں یا عرب تک کا نام لینا بھی گوارا نہیں۔ وہ تشخص سے عاری مستقلاً کنیز زادے کے طور پر مذکور ہیں۔ نسلی عصبیت اور تفاخر کی کیسی کریہہ مثال۔
یحییٰ دمشقی نے اسلام ،قرآن کریم،سیرۃ طیبہ کے خلاف معاندانہ بل کہ صریحاً مناظرانہ اور سب و شتم کی روایت کی بنیادرکھی۔ گزشتہ کئی صدیوں میں اس نے استشراق(Orientalism) اور ہمارے دور میں اسلام کے خلاف نفرت(Islamophobia) کی شکل اختیا ر کی ہے۔ یحییٰ نے رسول اکرم ﷺ کے خلاف یہ زہرافشانی کی ہے: ’’ ان کا دعوی نبوت صریح کذب ہے۔ بائبل کے مطالعے اور چوتھی صدی عیسوی کے اسکندریہ کے زندیق عیسائی آریوس(Arian) کے پیرو بحیرہ راہب کے زیر اثر انھوں نے ایک نئے زندقے یعنی اسلام کا باب وا کیا ‘‘۔[جوش مخالفت میں یحییٰ کو یہ ہوش بھی نہیں رہا کہ رسول اکرم ﷺ خواندہ نہیں، اُمّی تھے ۔ مزید برآں ، عالم عرب میں بائبل کا عربی ترجمہ آٹھویں صدی سے قبل منظر عام پر آیا ہی نہیں تھا۔ جہاں تک بحیرہ راہب کی اتالیقی کا بہتان ہے، اس کی حقیقت یہ ہے کہ شام کے ایک تجارتی سفر میںرسول اکرم ﷺ اپنے شفیق چچا ابو طالب کے ہم راہ تھے اور آپ ﷺ کی عمر اس وقت صرف بارہ سال تھی اور سرراہ بحیرہ نے اس نوعمر لڑکے میں آثار نبوت شناخت کرتے ہوئے آپ ﷺ کے چچا کو مطلع کیا تھا۔ کیا کوئی شحص بہ حالت ہوش و حواس اس واہمے کو لائق اعتنا بھی سمجھ سکتا ہے کہ ایک غیر زبان کانمائندہ محض بارہ سالہ لڑکا چند لمحوں میں ایک اجنبی شخص سے ایسے اسرار اور رموز کے حصول پر قادر ہوگیا کہ اسی کی بنیاد پر ۲۸ ؍سال بعد اس نے ایک مکمل جامع نیا مذہب، ایک منفرد اور بے مثل مصحف ، ایک مبسوط آئین عقائد، احکام اور آداب اور ایک نیا طریقۂ عبادت مع مفصل مناسک وضع کرلیے؟یحییٰ مزید رقم طراز ہیں :
’’ ان کی تصنیف مضحکہ خیز ہے۔ البتہ انھوں نے اپنے متبعین کو اس کی تعظیم اور تکریم پر مجبور کیا۔ توحید، عیسی اور مریم سے متعلق ان کے بیانات طفلانہ ہیں۔ انھوں نے حالت نوم میں وحی الٰہی سے سرفراز ہونے کا ناقابل یقین دعوی کیا۔ وہ خدا کی ذات کو منقسم اور مجروح کرنے کے مجرم ہیں کہ انھوں نے عیسی کو کلمۃ اللہ اور روح اللہ تسلیم کرنے کے باوصف عیسی کو خدا سے جدا ایک ممیز شخصیت متصور کیا جب کہ بہ طور کلمہ اور روح وہ خدا کا جزو لاینفک ہیں۔ توحید کے بلند و بانگ دعوی کے باوجود وہ اور ان کے پیرو بدترین مشرک ہیں ۔ وہ کعبہ، مکہ میں حجر اسود کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ یہ پتھر ان کے لیے باعث متبرک ہے کہ اسی پتھر پر ابراہیم نے ہاجرہ کے ساتھ جنسی فعل انجام دیا تھا اور جب ابراہیم اسحٰق کو قربان کرنے کے لیے آئے تو اسی پتھر سے انھوں نے اپنا اونٹ باندھا تھا۔ اسی طرح اس زندقے کے شکار افراد Aphrodite ( زہرہ نامی دیوی) کے پرستار ہیں اور اپنی زبان میں اسے ’’ اکبر‘‘ سے موسوم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’’ اکبر ‘‘ کی اصطلاح ان کے مراسم عبادت میں نمایاں طور پر مستعمل ہے‘‘۔ [حیرت اور عبرت کا مقام ہے کہ سلطنت امیہ کا عربی داں عہدے دار ’’ اکبر‘‘ جیسے سادہ عربی لفظ کے بارے میں یہ معنی آفرینی کرے !] وہ سراپا فریب اور جنس زدہ انسان تھے۔ انھوں نے مردوں اور عورتوں کے ختنے کا حکم دیا۔ یوم سبت کے تقدس کا انکار کیا۔بپتسمہ کی رسم کو ختم کیا۔ شریعت موسوی میں مذکور حرام اشیا کو حلال اور حلال کو حرام قرار دیا اور شراب کو ممنوع کیا ۔‘‘
رسول اکرم ﷺ کے خلاف اس فرد جرم کی بنیاد پر یحییٰ کی دانست میں اسلام ایک بدترین زندقہ اور بائبل کا قابل نفریں چربہ ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ عیسائی مذہب میں پروٹسٹنٹ(Protestant) فرقے کے بانی مارٹن لوتھر(Martin Luther) ( م ۱۵۴۶ء ) نے یحییٰ کے آٹھ سو سال بعد اسلام، سیرۃطیبہ کے خلاف ان ہی الزامات کو عائد کیا۔ یحییٰ کی نظر میں ’’عیسی کی بے وقعتی اور بے توقیری محمد ﷺ کا ناقابل معافی جرم ہے۔ چوں کہ وہ شر مجسم تھے ، انھوں نے عیسائی عقائد کو اپنا ہدف بنایا ۔ اسلام ایک سرتا سر شیطانی زندقہ ہے، جس کی مکمل بیخ کنی لازم ہے‘‘۔[یہ اضافہ غالبا غیر ضروری ہے کہ مغرب آج تک یحییٰ دمشقی کے اس فتوی پر انتہائی اہتمام اور راسخ العقید گی سے کاربند ہے]۔
تعصب میں گرفتار انسان کیسا اندھا اور فاترالعقل ہو جاتا ہے، اس کا مظہر یحیی کے شاگرد Adam Francisco کے یہ شرم ناک بیانات ہیں، جو ’’ نقل کفر کفر نہ باشد‘‘ کے تحت درج ہیں :
’’ یہ جعلی ، فریبی پیغمبر شیطان کا فرزند اکبر ہے۔ جلد ہی وہ اور اس کے پیرو غضب الٰہی کا شکار ہوں گے‘‘۔
یحییٰ کو اسلام قرآن کریم ؍ سیرۃ طیبہ میں خیر کا کوئی پہلو مطلق نظر نہیں آیا۔ ان کے مطابق صرف عیسائیت حق ہے اور وہ اس کے ماسوا کسی اور عقیدے کا ذکر تک سننے کے روادار نہیں۔ اسلام کے خلاف ان کے بغض اور عناد کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ ان کے دور میں خود ان کے شہر اور اس کے اطراف اور اکناف میں بکثرت عیسائی برضاور غبت مشرف بہ اسلام ہورہے تھے ۔وہ عیسائیت کے تثلیث اور دیگر چیستاں عقائد سے دلبرداشتہ ہو کر اسلام جیسے فطری مذہب کی آغوش میں قلبی اور روحانی تسکین اور مسرت پار ہے تھے۔ ان کو متنبہ کرنے کے لیے یحییٰ نے اسلام کو عیسائیت کی ایک منحرف اور مسخ شکل سے تعبیر کیا۔ ان کے مطابق یہ زندقہ عیسائیت پر شب خون مارنے کے مرادف ہے، جو ان کو راہ نجات سے گمراہ کردے گا۔
یحییٰ کا سیرۃ طیبہ پر ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ توریت بنی اسرائیل کی نظروں کے سامنے نازل ہوا کرتی تھی اور وہ اس کے چشم دید گواہ تھے۔ اس کے برعکس نزول وحی رسول اکرم ﷺ کا اپنا ذاتی تجربہ تھا، جس میںنہ کوئی شریک تھا اور نہ اس کا کوئی شاہد ہوتا تھا۔ یحییٰ کی منطق کی رو سے جب نکاح اور تجارتی معاہدے جیسے معاملات کے لیے گواہ کی شرط لازم ہے، وحی الٰہی کے نزول جیسے مہتم بالشان امر کے لیے چشم دید گواہ ناگزیر ہیں اور ان کے بغیر وحی کا نزول مشتبہ نہیں بل کہ ایک افسانہ ہے اور اس پر مبنی مذہب فرضی اور جعلی ہے۔ یحییٰ کا دوسرا اعتراض اسلام میں مرد کے لیے تعدد ازدواج کی اجازت اور عورت کے لیے اس کی ممانعت پر ہے۔ انھوں نے رسول اکرم ﷺ کے زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح پر بھی رکیک حملے کیے ہیں اور اس رشتے کو ناپاک قرار دیا ہے کہ ان کی دانست میں یہ اپنی بہو سے نکاح کا حیا سوز معاملہ ہے۔
یحییٰ مجسمہ پرستی کے غالی حامی تھے ۔ ان ہی کی تشویق اور تحریک پر ۷۸۷ء میں نیسا (Nicea) میں منعقد ارباب کلیسا کی مجلس شوری (Council) نے مجسمہ پر ستی کو عیسائی عقیدے کا جزو تسلیم کیا۔ لہذا یہ امر چنداں حیرت انگیز نہیں کہ اسلام میں توحید پر اصرار، شرک سے نفور اور بت شکنی کے احکام ان پر سخت گراں گزرے اور اس باعث بھی انھوں نے اسلام کو یکسر مسترد کیا۔ کلیسا اور مغربی فضلا کے لیے یحییٰ دمشقی کی تصانیف اساسی اہمیت کی حامل ہیں ۔ سیرۃ طیبہ پر بعد کے ادوار کے مستشرقین کی تصانیف نظر یاتی لحاظ سے بڑی حد تک اسی پر مبنی ہیں کہ وہ یحییٰ کو انتہائی معتبر ماخذ گرد انتے ہیں۔ وہ ان کے دمشق میں مقیم ہونے ، اموی دربار سے وابستہ ہونے اور اسلام اورمسلمانوں سے براہ راست ربط ضبط کے پیش نظر ان کے فرمودات کو قول فیصل کا درجہ دیتے ہیں۔ البتہ دجل و فریب اور صریحاً کذب بیانی کے ظلم عظیم کے باعث درحقیقت یحییٰ کا شمار ابلیس اور قابیل کے زمرے میں ہوتا ہے اور یہ امر ان کے لیے دائمی ننگ و عار کا باعث ہے کہ ان کے تعصبات اور مزعومات کی بہ دولت مغرب اسلام سے متنفر ہوا جو کہ عالم اسلام پر مہلک مغربی یلغار پر منتبج ہوا۔ ان تمام مصائب کا وبال یحییٰ دمشقی کے مسموم ذہن اور اس کی زائیدہ گمراہ کن تصانیف کے سر ہے۔ یہ اولین عیسائی سیرت نگار کسی لحاظ سے بھی قابل تقلید نہیں۔
حاشیہ
۱۔ بائبل میں اسمعیل علیہ السلام کی کردار کشی کے بارے میں دیکھیں: عبدالرحیم قدوائی: ’’ اسمعیل علیہ السلام کی شخصیت: بائبل اور قرآن میں موازنہ اور تجزیہ‘‘ – مجلہ تحقیقات اسلامی ، علی گڑھ میں زیر اشاعت۔
منتخب کتابیات
- Himmerich, M.F. Deification in John of Damascus ,Marquette University, 1985.
- Janosik, D.J. , John of Damascus : First Apologist to the Muslims. Wipf and Stock, 2016 .
- Koval, B Analysis and evaluation of the arguments of John of Damascus.Adventist International Institute of Advanced Studies, 2019.
- Louth, A. St. John Damascene. Brill, 1998.
- Sahas, Dr. John of Damascus on Islam Revisited. Abr Nahrain 23 (1984) 104-118.
6.Zaid Hussain,”John of Damascus”,Global Mass Communication Review 6 4 (12-21)

