حدیثِ نبوی کے راویوں کے حالات اور سوانحِ حیات سے جس علم میں بحث کی جاتی ہے وہ ’’علم اسماء الرجال‘‘ کہلاتا ہے۔ آپ چاہیں تو اسے ’’تاریخ رجال حدیث‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ تاریخ رواۃ حدیث جتنی تحقیق وتدقیق، جتنی کاوش وکاہش اور جس قدر استقصا کے ساتھ لکھی گئی ہے، اس کی مثال دنیا کی کسی قوم میں نہیں ملتی۔ یوں تو اسماء الرجال یا تاریخ رواۃ حدیث پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں، لیکن ان میں سے چند اہم کتابوں کا ہم یہاں ذکر کرتے ہیں تاکہ حضرات محدثین کی بے مثل اور محیر العقول مساعئ جمیلہ کا اندازہ کیا جاسکے اور مخالفین حدیث کی شکوک آفرینیوں کے علی الرغم ذخیرۂ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتماد محفوظ رہے۔
۱۔ تاریخ الرّواۃ ،مصنفہ امام یحییٰ بن معین المتوفی ۲۳۳ ھ۔یہ تاریخ حروف تہجی کے اعتبار سے مرتب کی گئی ہے۔
۲۔ معرفۃ من نزل من الصحابۃ سائر البلدان ، مصنفہ امام ابوالحسن علی بن عبداللہ المدینی المتوفی ۲۳۴ھ۔ یہ کتاب پانچ ضخیم جلدوں میں ہے۔
۳۔ التاریخ، مصنفہ امام احمد بن حنبل المتوفی ۲۴۱ھ۔
۴۔ التاریخ الکبیر، مصنفہ امام بخاری المتوفی ۲۵۶ھ۔ امام محمدبن اسماعیل البخاری نے صحیح بخاری لکھنے سے پہلے یہ تاریخ رجال حدیث لکھی ہے اور صحابہ کے زمانے سے لے کر اپنے زمانے تک کے حاملین حدیث اور مشائخ کے حالات اس میں جمع کیے ہیں، جن کی تعداد تقریباً ۴۰۰۰۰ (چالیس ہزار) ہے۔ یہ تاریخ چار ضخیم جلدوں میں ہے اور حروف تہجی کے اعتبار سے ہے۔
امام بخاری کی اس تاریخ کو امام بخاری کے مشائخ اور معاصرین نے بہت زیادہ قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ خصوصاً امام بخاری کے جلیل القدر شیخ اسحاق بن راہویہ تو امام بخاری کے اس کارنامے کو دیکھ کر بہت زیادہ خوش ہوئے ہیں اور امیر وقت کے پاس لے جا کر کہا کہ ’’ایھا الأمیر أراک سحرا‘‘ یعنی اے امیر! میں آپ کو ایک سحر دکھاتا ہوں۔ اس سے بڑھ کر اس کی کیا خوبی ہو سکتی ہے کہ یہ تاریخ مدینۃ الرسول میں روضۂ اطہر کے پہلو میں بیٹھ کر چاندنی راتوں میں لکھی گئی ہے۔ پھر اس کے بعد امام بخاری نے ۱۶؍ سال کی مدت میں اسی کی روشنی میں صحیح بخاری لکھی۔
۵۔ التاریخ، مصنفہ ابوالحسن احمد بن عبد اللہ بن صالح العجلی المتوفی ۲۶۱ھ۔
۶۔ کتاب الرجال ، مصنفہ ابو الفضل عبداللہ بن محمد بن حاتم المتوفی ۲۷۱ھ۔
۷۔ التاریخ، مصنفہ احمد بن زہیر بن حرب، المتوفی ۲۷۹ھ۔
۸۔ کتاب المعرفۃ ، یعنی صحابۂ کرام کی تاریخ مصنفہ ابو محمد عبداللہ بن عیسیٰ المروزی المتوفی ۲۹۳ھ۔ یہ کتاب سو جلدوں (اجزاء) میں لکھی گئی ہے۔
۹۔ التاریخ الکبیر ،مصنفہ ابو عمر احمد بن سعید بن حزم الصدفی الاندلسی المورخ، المتوفی ۳۵۰ھ۔ یہ تاریخ پچاسی جلدوں میں لکھی گئی ہے۔
۱۰۔ الوفیات ،مصنفہ عبداللہ بن احمد بن ربیعۃ الربعی الدمشقی المتوفی ۳۷۳ھ۔ عبد اللہ بن احمد دمشقی نے اس کتاب میں آغاز ہجرت سے لے کر ۳۳۸ھ تک کے تمام رواۃ حدیث کی تاریخ لکھی ہے۔ اس کتاب کی اہمیت کی بنا پر اس کتاب کے حواشی اور حواشی در حواشی بہ کثرت لکھے گئے، جن کا ذکر باعث طوالت ہے۔
۱۱۔ الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ، مصنفہ حافظ ابوعمر یوسف بن عبداللہ بن محمد بن عبدالبر القرطبی المتوفی ۴۶۳ھ۔ یہ تاریخ مصر میں چار جلدوں میں چھپ چکی ہے۔ اس کتاب کے نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں بالاستیعاب تمام صحابہ کے حالات لکھے گئے ہیں، حالاںکہ درحقیقت ایسا نہیں ہے بلکہ بہت سے صحابۂ کرام کے نام رہ گئے ہیں۔ اس میں کل تراجم -حالات- تین ہزار ہیں۔
۱۲۔ السابق واللاحق فی تباعد ما بین وفاۃ الراویین عن شیخ واحد ، مصنفہ ابوبکر احمد بن علی بن ثابت بن احمد البغدادی، جو خطیب بغدادی کے نام سے مشہور ہیں، المتوفی ۴۶۳ھ۔
۱۳۔ تاریخ دمشق ، مصنفہ حافظ مورخ ابوالقاسم علی بن الحسین بن عساکر الدمشقی المتوفی ۵۷۱ھ۔ یہ کتاب تقریباً اسّی جلدوں میں ہے۔ اس میں مصنف نے خطیب بغدادی کے طریقے کو اپنایا ہے۔
۱۴۔ المعجم ، (محدثین کی تاریخ میں) مصنفہ ابوالمظفر عبد الکریم بن منصور السمعانی المتوفی ۶۱۵ھ۔ یہ کتاب آٹھ جلدوں میں ہے۔
۱۵۔ التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید ، مصنفہ حافظ محمد بن عبدالغنی بن ابی بکر معین الدین بن نقطہ الحنبلی البغدادی المتونی ۶۲۹ھ۔
۱۶۔ اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابہ ، مصنفہ مؤرخ عزالدین ابوالحسن علی بن محمد بن الاثیر المتوفی ۶۳۰ھ۔ یہ تاریخ پانچ جلدوں میں ہے اور اس میں ۷۵۵۴ (سات ہزار پانچ سو چون) تراجم -رجال حدیث کے حالات- ہیں۔
۱۷۔ تجرید أسماء الصحابۃ ، مصنفہ امام شمس الدین ابوعبداللہ محمد بن احمد الذہبی المتوفی ۷۴۸ھ۔ یہ دو جلدوں میں ہے۔
۱۸۔ تاریخ الاسلام وطبقات المشاہیر والاعلام ، مصنفہ حافظ ذہبی۔ یہ کتاب چھتیس جلدوں میں ہے۔
اس میں تاریخی واقعات بھی ہیں اور رواۃ کے حالات بھی، لیکن تاریخی واقعات کو تو سنین کے اعتبار سے مرتب کیا ہے اور رواۃ کے حالات کو حروف تہجی کے اعتبار سے اور ہجرت سے لے کر ۷۰۰ھ تک کے تمام رواۃ حدیث کی تاریخ لکھی ہے۔ کتاب کو ستّر طبقات پر تقسیم کیا ہے اور ہر طبقہ دس دس برس کا بنایا ہے۔ پھر ذہبی نے خود ہی چودہ جلدوں میں اس کا اختصار بھی کیا ہے، جو ’’سیر اعلام النبلاء‘‘ کے نام سے معروف ہے۔
۱۹۔ الاصابہ فی تمییز الصحابۃ ، مصنفہ حافظ الدنیا شہاب الدین احمد بن علی الکنانی العسقلانی المتوفی ۸۵۲ھ۔ جتنی کتابیں بھی اس فن تاریخ رجال میں لکھی گئیں، یہ ان میں سب سے زیادہ جامع اور منقح کتاب ہے۔ مصر سے آٹھ جلدوں میں طبع ہو چکی ہے۔ پہلی چھ جلدوں میں رجال کے اسما ہیں، جن کی تعداد ۹۴۷۷ (نو ہزار چار سو ستتر) ہے اور ساتویں جلد میں کُنی -کنیتوں- کا بیان ہے۔ ان کی تعداد ۱۲۵۷ (ایک ہزار دو سو ستاون) ہے۔ آٹھویں جلد میں رواۃحدیث عورتوں کے تراجم -حالات- ہیں، جن کی تعداد ۱۵۴۵ (ایک ہزار پانچ سو پینتالیس) ہے۔
۲۰۔ درالسحابہ فی من دخل مصر من الصحابۃ ، مصنفہ خاتمۃ الحفاظ حافظ جلال الدین سیوطی المتوفی ۹۱۱ھ۔
۲۱۔ البدر المنیر فی صحابۃ البشیر النذیر ، مصنفہ شیخ محمد قائم بن صالح السندھی الحنفی القادری المتوفی بعد ۱۱۴۵ھ۔ یہ کتاب تیسیر المرام بذکر صحابۃ افضل من طاف ببیت الحرام اورشموس الھدی فی صحابۃ المصطفیٰ المقتدی کے ناموں سے بھی موسوم ہے۔ تاریخ رجال کی ان چند کتابوں پر یہ اجمالی تبصرہ ہے۔ تفصیل کے لیے کشف الظنون وغیرہ کی مراجعت کیجیے۔
صحاح ستہ کے رجال پر تصنیفات
تیسری صدی ہجری تک اکثر وبیشتر تصحیح روایات کو جمع کرنے اور ابواب فقہی پر مرتب کرنے کی غرض سے حدیث کی جو معروف ومشہور کتابیں مدوّن ہوئیں، وہ درج ذیل چھ کتابیں تھیں۔ یہ صحاح ستہ کے نام سے معروف ہیں۔
۱۔ صحیح بخاری، مصنفہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم البخاری امام المحدثین المتوفی ۲۵۶ھ۔
۲۔ صحیح مسلم ، مصنفہ مسلم بن الحجاج بن مسلم القشیری الامام الحافظ المتوفی ۲۶۱ھ۔
۳۔ سنن ابی داؤد ، مصنفہ سلیمان بن الاشعث السجستانی امام ابوداؤد المتوفی ۲۷۵ھ۔
۴۔ جامع ترمذی ، مصنفہ محمد بن عیسیٰ بن سورۃ الترمذی المتوفی ۲۷۹ھ۔
۵۔سن نسائی ، مصنفہ احمد بن شعیب بن علی النسائی، المتوفی ۳۰۳ھ۔
۶۔ سنن ابن ماجہ ،مصنفہ محمد بن یزید بن عبداللہ ابن ماجہ المتوفی ۲۷۳ھ۔
یا مؤطا مالک ، مصنفہ امام دار الہجرۃ مالک بن انس المتوفی ۱۷۹ھ۔
چوںکہ بیشتر راویانِ حدیث پر مشتمل اسانید ان کتابوں میں آچکی تھیں بہ الفاظ دیگر تقریباً تمام راویانِ حدیث کے نام اور ان کی مروی احادیث مدوّن ومحفوظ ہو چکی تھیں، اس لیے اب علمائے اسماء الرجال نے منتشر طور پر راویانِ حدیث کے حالات قلم بند کرنے کے بجائے ان کتابوں میں مذکور سندوں کے رجال کے حالات لکھنے شروع کر دیے۔ کسی نے صرف ایک کتاب مثلاً بخاری کے رجال پر کتاب لکھی، کسی نے دو کے رجال پر، کسی نے چار کے اور کسی نے چھ کے رجال پر۔ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
(الف) سب سے پہلے مؤطا مالک کے رجال پر حسب ذیل کتابیں لکھی گئیں:
۱۔ أسماء شیوخ مالک ، مصنفہ ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بن خلفون الازدی الأشبیلی المتوفی ۲۳۶ھ۔
۲۔ التعریف برجال المؤطا، مصنفہ ابو عبد اللہ محمد بن یحییٰ بن الحذاء التمیمی المتوفی ۴۱۰۰ھ۔
۳۔ اتحاف السالک بروایہ موطا مالک ، مصنفہ ابوعبد اللہ محمد بن ابی بکر الدمشقی المعروف بابن ناصر الدین المتوفی ۸۴۲ھ۔
۴۔ اسعاف المبطأ برجال المؤطا ، مصنفہ حافظ جلال الدین سیوطی المتوفی ۹۱۱ھ۔
۵۔ رجال المؤطا بروایۃ محمد بن الحسن ، مصنفہ حافظ قاسم بن قطلوبغا المتوفی ۸۷۹ھ۔
(ب) اس کے بعد دوسرے نمبر پر صحیح بخاری کے رجال پر درج ذیل کتابیں لکھی گئی ہیں:
۱۔ الہدایۃ والرشاد فی معرفۃ أہل الثقۃ والسداد الذین اخرج لہم البخاری فی صحیحہ ، مصنفہ ابونصر احمد بن محمد الکلاباذی المتوفی ۳۹۸ھ۔
۲۔ التعدیل والتجریح لمن خرج عنہ البخاری فی الجامع الصحیح ، مصنفہ ابوالولید سلیمان بن خلف الباجی المتوفی ۴۷۴ھ۔
۳۔ التعریف بشیوخ البخاری ، مصنفہ ابو علی الحسین بن محمد الغسانی المعروف بالجیانی المتوفی ۴۹۸ھ۔
۴۔ البیان والتوضیح لمن اخرج البخاری فی الصحیح ومس بضرب من التجریح ، مصنفہ البوزرعۃ العراقی ۸۲۶ھ۔
۵۔ غایۃ المرام فی رجال البخاری الی سید الأنام ، مصنفہ محمد بن داؤد الباذلی الحموی الشافعی المتوفی ۹۲۵ھ۔
۶۔ فوائد الاحتفال فی احوال الرجال المذکورین فی البخاری ممن لیس فی تہذیب الکمال ، مصنفہ حافظ ابن حجر العسقلانی المتوفی ۸۵۲ھ۔
(ج) تیسرے نمبر پر صحیح مسلم کے رجال پر کتابیں لکھی گئیں:
۱۔ رجال صحیح مسلم ، مصنفہ ابو بکر احمد بن علی الاصفہانی المعروف بابن منجوبہ المتوفی ۴۲۸ھ۔
(د) چوتھے نمبر پر سنن ابی داؤد کے رجال پر کتابیں لکھی گئیں:
۱۔ سابق الذکر ابو علی الحسین بن محمد نے مستقل کتاب لکھی۔
(ہ) پانچویں نمبر پر سنن ترمذی وسنن نسائی کے رجال پر ابو محمد الدورقی نے مستقل کتاب لکھی۔
(و) چھٹے نمبر پر جمع بین رجال الصحیحین پر حسب ذیل کتابیں لکھی گئیں:
۱۔ الجمع بین رجال الصحیحین ، مصنفہ ابو الفضل محمد بن طاہر المقدسی المتوفی ۵۰۷ھ۔ اس کتاب میں مصنف نے ابونصر کی کتاب -الہدایۃ والارشاد- اور ابن منجویہ کی کتاب -رجال صحیح مسلم- کو جمع کیا ہے اور اُن پر استدراک -نقد- بھی کیا ہے۔
۲۔ اسی طرح ابوالقاسم ہبۃ اللہ بن الحسن الطبری المعروف باللالکافی المتوفی ۴۱۸ھ نے بھی صحیحین کے رجال کو جمع کیا ہے۔
۳۔ ابوالحسین شہاب الدین احمد بن احمد الکردی الھکاری المتوفی ۷۶۳ھ نے بھی رجال صحیحین پر کتاب لکھی۔
۴۔ ذکر التابعین ومن بعدہم ممن صحت روایۃ عند البخاری ومسلم ، مصنفہ ابوالحسین الدار قطنی المتوفی ۳۷۵ھ۔
۵۔ المعلم بأسماء شیوخ البخاری ومسلم ، مصنفہ سابق الذکر ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل الازدی۔
۶۔ ابوحفص سراج الدین عمر بن رسلان البلقینی، المتوفی ۷۰۵ھ نے بھی صحیحین کے رجال کو جمع کیا ہے۔
(ز) ساتویں نمبر پر سنن أربعۃ کے رجال پر حسب ذیل کتابیں لکھی گئیں:
۱۔ رجال السنن الأربعۃ -سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ ، مصنفہ سابق الذکرالھکاری۔
۲۔ تعجیل المنفعہ فی رجال الاربعہ -موطا مالک، مسند شافعی، مسند احمد، مسند ابی حنیفہ- کے رجال پر مستقل کتاب، مصنفہ سابق الذکر حافظ ابن حجر عسقلانی۔
(ح) آٹھویں نمبر پر کتب ستہ کے رجال پر حسب ذیل کتابیں لکھی گئیں:
۱۔ الکمال فی أسماء الرجال، مصنفہ محمد بن محمود البغدادی المتوفی ۶۴۳ھ۔ یہ مصنف خطیب بغدادی کی مایۂ ناز کتاب ؎تاریخ بغداد کے محشی بھی ہیں۔
۲۔ المعجم المشتمل علی اسماء الشیوخ النبل ،مصنفہ ابوالقاسم علی بن الحسن بن عبد اللہ بن العساکر ۵۷۱ھ۔
۳۔ نہایہ السئول فی رواۃ الستۃ الاصول ، مصنفہ برہان الدین حلبی المتوفی ۸۴۱ھ۔
۴۔ رجال الکتب الستۃ، مصنفہ سراج الدین الملقن المتوفی ۸۰۴ھ۔
۵۔ کتاب الکمال فی اسماء الرجال ،مصنفہ عبدالغنی بن عبدالواحد المقدسی الجماعیلی الحنبلی المتوفی ۶۰۰ھ۔
کتاب الکمال للمقدسی کا مختصر تعارف
کتب ستہ کے رجال پر جتنی بھی کتابیں اس کتاب کے بعد لکھی گئی ہیں، ان سب کا سرچشمہ اور اصل اسی کتاب کو سمجھا گیا ہے۔ مقدسی کے بعد آنے والے تمام مصنّفین سب اسی کے خوشہ چین ہیں۔ مگر اس میں رواۃ کی تاریخ ولادت ووفات کے بیان میں بہت زیادہ طوالت سے کام لیا گیا ہے۔ بعض مقامات پر اندازِ تحریر اور استدراکات نے اس کو اور بھی پے چیدہ بنا دیا ہے۔ بہرحال اس باب میں اوّلیت کا سہرا مقدسی ہی کے سر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد اس موضوع پر کوئی مستقل کتاب نہیں لکھی گئی، بلکہ اسی کی تلخیص درتلخیص اور تہذیب درتہذیب ہوتی رہی۔ چناں چے سب سے پہلے حافظ جمال الدین ابوالحجاج یوسف بن عبدالرحمن المزی المتوفی ۷۴۲ھ نے اپنی کتاب ’’تہذیب الکمال فی اسماء الرجال‘‘ میں اس کی تلخیص وتہذیب کی۔
تہذیب الکمال للمزی کا مختصر تعارف
اس کتاب کی تالیف میں ۷؍ برس ۱۱ ؍ماہ صرف ہوئے اور حافظ مزّی اس کی تسوید سے عیدالاضحی کے دن ۷۱۲ھ میں فارغ ہوئے۔ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ مزّی نے خود اس کتاب کو مکمل نہیں کیا تھا بلکہ حافظ علاؤ الدین مغلطائی المتوفی ۷۶۲ھ نے اس کو مکمل کیا ہے۔ واللہ اعلم
حافظ مزّی نے عام طور پر جس راوی کے حالات لکھے ہیں، اس کے تمام شیوخ اور تمام تلامذہ کا استقصا کرنے اور پھر ان کو حروف تہجی کے اعتبار سے مرتب کرنے کا قصد واہتمام بھی کیا ہے اور اکثر وبیشتر اس میں وہ کام یاب بھی رہے۔ اس کے علاوہ مزّی نے اپنی کتاب میں تین فصلیں بھی اضافہ کی ہیں۔ پہلی فصل ائمہ ستہ کے شروط کے بیان میں، دوسری فصل راویانِ حدیث کو ثقات سے روایت کرنے پر برانگیختہ کرنے کے بیان میں اور تیسری فصل سرور کائنات ﷺ کے ترجمے (حالات زندگی) کے اور سیرت کے بیان میں۔ اسی واسطے حافظ تقی الدین سبکی کو اس کتاب کے بارے میں کہنا پڑا:
اجمع علی انہ لم یصنف مثلہ ولا یستطاع.
اس بات پر اجماع ہو چکا ہے کہ اس جیسی کتاب نہ لکھی گئی ہے اور نہ لکھی جاسکتی ہے۔
لیکن مزّی نے اس میں صحاح ستہ کے مصنّفین کی دیگر تمام کتابوں کے رجال کا ذکر نہیں کیا، گویا فن تاریخ رجال میں ان کی تصانیف کے رجال کو ترک کر دیا ہے۔ حافظ ابن حجر تو فرماتے ہیں کہ ’’صحاح ستہ‘‘ کے مصنّفین کی بعض ایسی تصانیف کے رجال کا تذکرہ بھی باقی رہ گیا ہے کہ جو صحاح ستہ کی طرح ابواب فقہیہ پر مرتب تھیں۔ مثلاً
برّ الوالدین، مصنفہ امام بخاریؒ
کتاب الانتفاع باہب السباع ،مصنفہ امام مسلم
کتاب الزہد، مصنفہ امام ابوداؤدؒ
دلائل النبوۃ، مصنفہ امام ابوداؤدؒ
الدعا ،مصنفہ امام ابوداؤدؒ
ابتداء الوحی،مصنفہ امام ابوداؤدؒ
اخبار الخوارج، مصنفہ امام ابوداؤدؒ
عمل الیوم واللیۃ، مصنفہ امام نسائی
خصائص علی، مصنفہ امام نسائی
حافظ ابن حجر یہ بھی فرماتے ہیں:
حافظ مزّی نے بعض رجال کا پورا تعارف نہیں کرایا۔ بلکہ بعض دفعہ تو ’’روی عن فلان‘‘ اور ’’روی عنہ فلان‘‘ اور ’’اخرج لہ فلان‘‘ کے علاوہ اور کچھ کہتے ہی نہیں اور ظاہر ہے کہ اتنی سی بات نہ تو علمی پیاس بجھا سکتی ہے اور نہ ہی جہالت کی بیماری سے شفا بخش سکتی ہے۔
بہرحال کتاب مجموعی لحاظ سے اپنی نظیر آپ ہے۔ اسی لیے علما نے مزّی کی تہذیب کو ہی اہمیت دی اور اسی کو ملخص ومہذب کیا۔ یہاں تک کہ اس کے بعض مخصوص رواۃ کی تو الگ تلخیص وتہذیب بھی کی گئی۔ چناں چہ اسی کی مختصرات میں سے ایک کتاب شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان الذہبی المتوفی ۷۴۸ھ کی کتاب -تذہیب تہذیب الکمال- ہے۔
تذہیب تہذیب الکمال کا مختصر تعارف
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
تذہیب میں ذہبی نے عبارت کو طول دیا ہے اور مزّی نے جو کچھ اپنی تہذیب میں ذکر کیا تھا اس سے ذہبی نے غالباً تجاوز نہیں کیا اور جہاں کہیں اپنی طرف سے زیادتی کی ہے تو وہاں بعض مقامات پر وفیات اپنے اندازے اور اٹکل سے لکھ دی ہیں۔ یا بعض مترجمین کے مناقب ذکر کیے ہیں اور توفیق وتجریح کہ جن پر تضعیف وتصحیح کا مدار ہے، ان میں بہت اہمال سے کام لیا ہے۔
چناںچہ ذہبی نے خود ہی پھر تذہیب کو مختصر کیا اور اس کا نام کاشف رکھا، ابوزرعہ احمد بن عبدالرحیم العراقی المتوفی ۸۲۶ھ نے اس پر حاشیہ اور تعلیقات کا اضافہ کیا۔
ذہبی کے علاوہ ان کی تذہیب کو کچھ ضروری زیادات کے ساتھ صفی الدین احمد بن عبیداللہ الخزرجی الساعدی المتوفی ۹۳۳ھ نے بھی مختصر ومہذب کیا اور اس کا نام خلاصہ تذہیب رکھا۔ ذہبی کی تذہیب کے علاوہ خود مزی کی تذہیب پر اور بھی بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ چناںچہ:
۱۔ حافظ ابوبکر بن ابی المجد الحنبلی المتوفی ۸۰۴ھ نے تذہیب للمزی کی تلخیص کی۔
۲۔ حافظ شمس الدین محمد بن علی الدمشقی المتوفی ۷۶۵ھ نے بھی اس کا اختصار کیا اور ساتھ ساتھ رجال مؤطاکا اس میں اضافہ کر دیا۔
۳۔ حافظ جلال الدین سیوطی المتوفی ۹۱۱ھ نے بھی اس پر کچھ کام کیا اور اس کا نام زوائد الرجال علی تہذیب الکمال رکھا۔
۴۔ قاضی تقی الدین ابو بکر احمد بن شہبہ الدمشقی المتوفی ۸۵۱ھ نے بھی اس کا اختصار لکھا۔
الغرض مزی کی تہذیب کی بہت سی تلخیصیں لکھی گئیں مگر سب سے زیادہ اچھی اور کامل ونافع تلخیص حافظ ابن حجر عسقلانی کی تہذیب التہذیب نامی تلخیص ہے۔
تہذیب التہذیب کا مختصر تعارف
یہ علم اسماء الرجال کی ایک جامع تالیف ہے۔ خود مصنف کو بھی بہ قول ان کے تلمیذ -سخاوی- بہت پسند تھی۔ مزی نے جن غیر ضروری لمبی چوڑی ابحاث کا ذکر کیا تھا، حافظ ابن حجرؒ نے ان سب کو چھوڑ کر فقط انھی باتوں کے ذکر کرنے پر اکتفا کیا ہے جن کا تعلق خاص جرح وتعدیل سے تھا۔ چناں چہ مزی نے جو مرویاتِ عالیہ، موافقات وابدال وغیرہ انواع علوکے قبیل سے ذکر کی تھیں، ان سب کو حذف کر دیا۔ اس لیے کہ یہ چیزیں کتب اسماء الرجال کے بجائے کتب معاجم ومشیخات سے زیادہ مناسبت رکھتی ہیں۔ اس لحاظ سے مزی کی کتاب کا تقریباً ایک ثلث حافظ نے حذف کر دیا ہے اور جس راوی کا بھی ترجمہ لکھا ہے اس کے شیوخ وتلامذہ میں سے اُنھی شیوخ وتلامذہ کوذکر کیا ہے، جو زیادہ مشہور ومعروف تھے اور حفظ وضبط حدیث میں ممتاز حیثیت کے مالک تھے۔
ہاں چھوٹے چھوٹے تراجم میں سے غالباً کچھ بھی حذف نہیں کیا ہے اور طویل تراجم میں انھی شیوخ وتلامذہ کو ذکر کیا ہے جن پر صحاح ستہ کی علامت تھی۔ متوسط تراجم میں ان شیوخ وتلامذہ پر اکتفا کیا ہے، جن پر صحاح ستہ میں سے کسی ایک کی بھی علامت تھی۔ بعض رواۃ کے حالات میں مزّی سے خلاف بھی کیا ہے لیکن عموماً اور اکثر وبیشتر اسی نہج پر حالات لکھے ہیں اور مزّی کی طرح ایک ہی ترجمے میں صاحب ترجمہ کے شیوخ ورواۃ کو ذکر کرنے میں حروف تہجی پر ان کو مرتب کرنے کا التزام بھی نہیں کیا۔ اس لیے کہ اس سے پھر یہ لازم آتا ہے کہ بڑے درجے کے شیخ وتلمیذ مؤخر ہو جائیںاور چھوٹے درجے کے مقدم۔ اس کے بجائے حافظ نے شیوخ وتلامذہ کو اُن کے مرتبے اور درجے کے اعتبار سے ذکر کیا ہے۔ ہاں اگر کسی راوی کا بٹیا یا کوئی قریبی رشتے دار اس کا شیخ یا تلمیذ ہو تو اس کو پھر مقدم ہی کیا ہے، خواہ درجے میں مقدم ہو یا مؤخر۔ علاوہ ازیں اکثر وبیشتر تلامذہ کے ذکر ہیں۔ آخر میں اس تلمیذ کو ذکر کیا ہے جس نے اس شیخ سے سب سے آخر میں روایت کی ہو۔ یعنی صاحب ترجمہ کے سب سے آخری شاگرد کو تلامذہ کی فہرست میں سب سے آخر میں جگہ دی ہے اور بسا اوقات حافظ اس کی تصریح بھی کر دیتے ہیں۔ نیز مزّی کی طرح صاحب ترجمہ کی وفات میں زیادہ اختلافات کو بھی ذکر نہیں کیا، بس مشہور اور زیادہ قرینِ قیاس اقوال کے ذکر کرنے پر اکتفا کیا ہے۔
حافظ نے بعض ایسے رجال کے تراجم بھی اپنی طرف سے ذکر کیے ہیں، جو مزّی کی شرط پر تو تھے لیکن مزّی نے ان کو ذکر نہیں کیا تھا۔ نیز ان رجال کے تراجم کا بھی اضافہ کیا ہے، جو مقدسی کی کتاب میں تو تھے مگر مزّی نے ان کو حذف کر دیا تھا۔ اسی طرح ذہبی کی تہذیب کے بعض رجال کا بھی اضافہ کیا لیکن بہت کم اور کتب صحاح ستہ کے بعض ایسے رجال کا ذکر بھی کر دیا ہے کہ ان جیسے رجال کا ترجمہ مزّی نے اپنی کتاب میں لکھا تھا۔ اسی طرح حافظ علاؤ الدین مغلطائی نے جو کام مزّی کی تہذیب پر کیا تھا اس سے بھی ابن حجر نے انتفاع کیا ہے۔
لہٰذا یہ کتاب تہذیب التہذیب فقط مزّی کی تہذیب کا اختصار نہ رہی بلکہ ابن حجرؒتک لکھی گئی تمام کتب کا اختصار بن گئی اور اُن پر زیادتی بھی اس میں آگئی۔
حافظ ابن حجر اس علمی شاہ کار سے ۹؍ جمادی الاخری ۸۰۸ھ میں فارغ ہوئے اور یہ کتاب ۱۳۲۶ھ میں حیدرآباد دکن (ہند) میں دائرۃ المعارف النظامیہ کے تحت چھپ چکی ہے۔ پھر حافظ نے خود ہی اپنی اس کتاب کا اختصار تقریب التہذیب کے نام سے کیا ہے۔
تقریب التہذیب کا مختصر تعارف
یہ تلخیص ہے حافظ ابن حجر کی کتاب تہذیب التہذیب کی۔ اس میں حافظ ابن حجرؒ نے صحاح ستہ کے رجال کے علاوہ مصنّفین صحاح ستہ کی دوسری کتابوں کے رجال کا ذکر بھی کیا ہے، جن میں سے امام بخاری کی حسب ذیل کتابوں کے رجال ہیں۔
(۱) الأدب المفرد (۲) خلق افعال العباد (۳) جزء القراء ۃ (۴) جزء رفع الیدین۔
امام مسلم کی صحیح مسلم کے’’ مقدمے‘‘ کے رجال کا بھی اضافہ کیا ہے۔
امام ابوداؤد کی حسب ذیل کتب کے رجال کا بھی اضافہ کیا ہے۔
(۱) کتاب المراسیل(۲) فضائل الانصار(۳) کتاب الناسخ(۴) کتاب القدر(۵) کتاب المسائل (۶)مسند مالک(۷) کتاب التفرد۔
اسی طرح امام نسائی کی حسب ذیل کتب کے رجال کے حالات بھی اس میں لکھے ہیں:
(۱) مسند علی(۲) خصائص علی(۳) مسند مالک(۴) عمل اللیوم واللیلۃ۔
امام ابن ماجہ کی کتاب التفسیرکے رجال بھی زیادہ کیے ہیں۔
الغرض تقریب میں حافظ نے صحاح ستہ کے رجال کے علاوہ مذکورہ بالا سترہ کتب کے رجال کے حالات وتراجم کا بھی اضافہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ حافظ نے تقریب میں ایک ایسی فصل کا بھی اضافہ کیا ہے، جس میں مبہم عورتوں کا ذکر اُن سے روایت کرنے والوں کی ترتیب سے کیا ہے۔ ان اسما کی تالیف سے حافظ ۸؍ ربیع الثانی ۸۲۶ھ کو فارغ ہوئے۔ تقریب میں بعض ایسی خصوصیات بھی ہیں، جو اسماء الرجال کی دوسری کسی کتاب میں نہیں ہیں۔
(۱) منہا:- دریا کو کوزے میں بند کر دینے کے علاوہ ہر راوی کا ترجمہ اور اس پر جرح وتعدیل کا مکمل بیان بھی انتہائی جامع ومانع مگر مختصر عبارت میں پیش کیا ہے، جو اپنے اختصار کے باوجود جامعیت کی وجہ سے راوی کو دوسروں سے بالکل ممتاز اور نمایاں کر دیتی ہے۔
(۲) ومنہا:- کتاب میں جتنے بھی اسما، کنی، انساب اور القاب آئے ہیں، ان میں سے اکثر کو حرف کے ساتھ ضبط کرنے کا ایسا اہتمام کیا ہے جیسے یہ کتاب لکھی ہی اس لیے گئی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ابن عبد الہادی المتوفی ۹۰۹ھ نے جو ضبط من غیر فیمن قیدہ ابن حجر نامی کتاب لکھی ہے، وہ اسی تقریب سے ہی انتخاب کی گئی ہے۔
(۳) ومنہا:- سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ تقریب میں تقریباً ہر راوی کا طبقہ بھی ذکر کیا ہے، تاکہ ایک ہی نظر میں اجمالاً صاحب ترجمہ کے شیوخ وتلامذہ اور اس کے سن ولادت اور سن وفات کا علم ہو جائے۔
(۴) ومنہا:- کتاب کے شروع میں ایک مقدمہ ذکر کیا ہے، جس میں مراتب جرح وتعدیل کے اصطلاحی الفاظ تفصیل کے ساتھ بیان کیے ہیں لیکن بعض کلمات کو ضبط کرنے میں تو حافظ منفرد نظر آتے ہیں۔ کوئی دوسرا اُن کا ثانی نہیں ملتا۔ محشی حضرات نے اپنے اپنے مقامات پر اس پر تنبیہ کر دی ہے۔ مثلاً یحمدی، یحصبی، طہاوی وغیرہ اور بعض مقامات پر عبارت کو ایسا مشکل بنا دیا ہے کہ اس کو صحیح بنانے کے لیے بہت کچھ تکلفات کرنا پڑتے ہیں۔ مثلاً یا تو مبتدا کو محذوف ماننا پڑتا ہے یا مفعول کے عامل کو یا نائب فاعل کو۔ مثلاً کہتے ہیں:- رمی بالارجاء اور طعن فیہ اور اتہم وغیرہ اور بعض مقامات پر بعض رواۃ کے طبقوں کی تحدید وتعیین میں بھی سہو ہو گیا ہے۔ بہرحال کتاب مختصر ہونے کے باوجود نہایت جامع ومانع اور بڑی حد تک شافی وکافی ہے۔ اس کے سات نسخے غیر مطبوعہ مصر میں موجود ہیں اور چار نسخے مطبوعہ ہیں۔
تقریب التھذیب میں مصنف کا منہج
اس کتاب میں حافظ نے ہر شخص پر نہایت ہی مختصر عبارت اور بہت ہی لطیف اشارے کے ساتھ وہ حکم لگایا ہے، جو اس کے بارے میں کہے گئے مختلف اقوال میں سب سے زیادہ صحیح قول ہے اور اس کے بیان کیے گئے اوصاف میں سے سب سے زیادہ توثیق کے بارے میں کار آمد ہے۔ یعنی اگر کسی راوی کی جرح وتعدیل یا مراتب جرح وتعدیل میں ائمہ کے مابین اختلاف دیکھا تو حافظ نے دوسری مفصل کتابوں سے جرح کی تفصیلات معلوم کر کے اور خود اس راوی کی مرویات کا جائزہ لے کر اسی قول کو اختیار کیا، جو سب سے زیادہ صحیح تھا۔
ہر ترجمے میں درج ذیل چیزوں کو ذکر کرنے کا اہتمام کیا ہے:
(۱) راوی، اس کے باپ اور اس کے دادا کا نام۔
(۲) راوی کی سب سے زیادہ مشہور نسبت اور مشہور نسب، کنیت اور لقب۔
(۳) ہر مشکل لفظ کا حروف کے ذریعے انضباط۔
(۴) جرح وتعدیل میں سے جس کے ساتھ راوی خاص ہو، اس صفت کا ذکر۔
(۵) ہر راوی کے زمانے اور عصر کا ذکر ایسے طریق پر کہ راوی کے حذف کردہ تمام شیوخ وتلامذہ کے قائم مقام ہو جائے۔
(۶) اگر کسی راوی کے بارے میں التباس کا خوف تھا تو اس کو مزید وضاحت سے بیان کیا ہے۔
ان تمام ضروری امور کے بیان کے ساتھ ساتھ اس کا بھی اہتمام کیا ہے کہ کسی راوی کا ترجمہ ایک سطر سے زائد نہ ہونے پائے۔
ان مختصر عبارات اور لطیف اشارات کو سمجھنے کے لیے شروع میں مقدمے کے طور پر احوال رواۃ کے بارہ مراتب اور ان کے بارہ طبقات بنا دیے ہیں۔
مراتب حسب ذیل ہیں:
سب سے پہلا مرتبہ صحابۂ کرام کا مرتبہ ہے۔ صحابۂ کرام کے شرف کی وجہ سے حافظ نے ان کی تصریح کردی ہے۔ دوسرا مرتبہ وہ راوی جن کی تعریف وتوصیف مؤکد طریقے سے کی گئی ہو۔ اس کی تین صورتیں ہوتی ہیں:
(۱) اوّل یہ کہ اسم تفضیل کا صیغہ استعمال کیا گیا ہو جیسے ’’اوثق الناس‘‘۔
(۲) دوم یہ کہ صفت لفظاً مکرر ذکر کی گئی ہو جیسے ’’ثقۃ ثقۃ‘‘۔
(۳) سوم یہ کہ صفت معنی مکرر لائی گئی ہو جیسے ’’ثقۃ حافظ‘‘۔
تیسرا مرتبہ ان رواۃ کا، جن کی توثیق میں ایک ہی صفت ذکر کی گئی ہو جیسے ’’ثقۃ ‘‘یا ’’متقن‘‘ یا ’’عدل‘‘۔ چوتھا مرتبہ وہ راوی جو مرتبہ ثالثہ سے کچھ کم ہوں۔ ان کی طرف لفظ ’’صدوق‘‘ یا ’’لا بأس بہ‘‘ یا ’’لیس بہ بأس‘‘ سے اشارہ کیا جاتا ہے۔ پانچواں مرتبہ ان رواۃ کا، جو درجہ رابعہ سے کچھ کم ہوں۔ ان کی طرف ’’صدوق سئی الحفظ‘‘ یا ’’صدوق لیہم‘‘ یا ’’لہ اوہام‘‘ یا ’’یخطئ‘‘ یا ’’تغیر بآخرہ‘‘ سے اشارہ کیا جاتا ہے۔
اس مرتبے میں حافظ ابن حجر نے ان راویوں کو بھی ذکر کیا ہے جو تشیع، ارجاء، نصب، قدر اور تجہم وغیرہ گم راہ فرقوں میں سے کسی فرقے کے عقائد کے ساتھ متصف تھے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتلا دیا ہے کہ کون سا بدعتی راوی اپنی بدعت کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا تھا اور کون سا نہیں۔ چھٹا مرتبہ ان رواۃ کا،جن کی احادیث تو اگرچہ تعداد کے اعتبار سے کم ہوں لیکن اس کے متعلق کوئی ایسی موجب جرح چیز ثابت نہ ہو، جو اس کی حدیث کو قبول کرنے سے مانع ہو۔ ان کی طرف ’’مقبول‘‘ یا ’’حدیث یتابع‘‘ کے لفظ سے ورنہ ’’لیّن الحدیث‘‘ کے لفظ سے اشارہ کرتے ہیں۔ ساتواں مرتبہ ان رواۃ کا،جن سے حدیث کے روایت کرنے والے بہ کثرت ہوں لیکن ان کی توثیق مطلق نہ کی گئی ہو۔ ان کی طرف ’’مجہول الحال‘‘ یا ’’مستور‘‘ کے لفظ سے اشارہ کیا جاتا ہے۔ آٹھواں مرتبہ ان رواۃ کا، جن کی توثیق تو کسی معتبر امام نے نہ کی ہو، ہاں جرح ثابت ہو، اگرچہ وہ غیر مفسر ہی ہو۔ ان کی طرف لفظ ’’ضعیف‘‘ سے اشارہ کیا جاتا ہے۔ نواں مرتبہ ان رواۃ کا،جن سے روایت کرنے والابھی ایک سے زائد نہ ہو اور ان کی توثیق بھی نہ کی گئی ہو۔ ان کی طرف ’’مجہول‘‘(۱) سےاشارہ کرتے ہیں۔ دسواں مرتبہ ان رواۃ کا، جن کی توثیق قطعاً نہ کی گئی ہو بل کہ کسی موجب جرح کے ساتھ تضعیف ضرور کی گئی ہو۔ ان کی طرف ’’متروک‘‘ یا ’’متروک الحدیث‘‘ یا ’’واہی الحدیث‘‘ یا ’’ساقط‘‘ سے اشارہ کیا جاتا ہے۔ گیارہواں مرتبہ ان رواۃ کا، جن پر کذب کا اتہام ہو۔ بارہواں مرتبہ ان رواۃ کا ہے، جن پر وضع اور کذب دونوں کا الزام ہو۔
حافظ نے ہر راوی کی پوری حالت بیان کرنے کی بجائے تقریب میں اِن مذکورہ بالاالفاظ وعبارات میں سے کسی لفظ وعبارت سے ہی راوی کی حالت اور اس کے مرتبے کو بیان کر دیا ہے۔
اسی طرح طبقات بھی بارہ ہیں جو درج ذیل ہیں:
پہلا طبقہ صحابۂ کرام کا ہے۔ دوسرا کبار تابعین کا جیسے سعید بن المسیب۔ تیسرا طبقہ ابن سیرین اور حسن بصری جیسے اوساطِ تابعین کا ہے۔ چوتھا طبقہ ان حضرات کا ہے، جو تیسرے طبقے کے زمانے کے قریب ہیں جیسے زہری اور قتادہ۔ پانچواں طبقہ اعمش جیسے صغار تابعین کا ہے۔ چھٹا طبقہ ابن جریج جیسے ان راویوں کا ہے، جو صغار تابعین کے معاصر تو ہیں لیکن صحابہ میں سے کسی سے ان کی ملاقات ثابت نہیں۔ ساتواں طبقہ توری ومالک جیسے کبار تبع تابعین کا ہے۔ آٹھواں طبقہ ابن عیینہ اور ابن علیہ جیسے متوسط درجہ کے تبع تابعین کا ہے اور نواں طبقہ امام شافعی جیسے کم سن تبع تابعین کا ہے۔ دسواں طبقہ امام احمد جیسے کبار حضرات کے صغار اتباع تابعین سے حدیث لینے والوں کا ہے۔ گیارہواں طبقہ اوساط آخذین عن صغار اتباع تابعین کا ہے جیسے امام بخاری اور بارہواں طبقہ صغارِ آخذین عن صغار اتباع تابعین کا ہے جیسے امام ترمذی۔ اس طبقے کے ساتھ ساتھ حافظ نے ائمہ ستہ کے ان باقی شیوخ کو بھی ملحق کر دیا ہے، جن کی وفات اس طبقے والوں کی وفات سے کچھ ہی بعد میں ہوئی جیسے امام نسائی کے بعض شیوخ۔
ان طبقوں کے ذکر کے ساتھ ساتھ جن راویوں کے سن وفات کا علم ہو سکا، حافظ نے ان کا سن وفات بھی ذکر کیا ہے اور جن کا سن وفات معلوم نہ ہو سکا، ان کا فقط طبقہ ہی ذکر کر دیا ہے۔ طبقے سے اگرچہ پوری پوری تاریخ وفات معلوم نہیں ہوتی لیکن حدود کی تعیین ہو جاتی ہے۔ اس لیے کہ طبقۂ اولیٰ وثانیہ کی حد ۱۰۰ھ تک ہے۔ان دونوں طبقوں کے رواۃ کی وفات ۱۰۰ھ سے قبل قبل ہوئی ہے۔ طبقۂ ثالثہ سے ثامنہ تک کے رواۃ کی وفات ۱۰۰ھ کے بعد ہوئی ہے اور طبقۂ تاسعہ سے بارہویں تک کے راویوں کی وفات ۲۰۰ھ کے بعد ہوئی ہے۔ اس لحاظ سے صرف طبقے کا ذکر بھی سن وفات کی تعیین کی طرف رہ نمائی کے لیے کسی نہ کسی درجے میں کافی ہوگا۔ نیز سن وفات کے ذکر میں حافظ نے لفظ مائۃ اور مائتین کو ذکر نہیں کیا۔ مثلاً اگر کوئی راوی طبقۂ ثالثہ یا رابعہ کا ہے اور اس کی وفات ۱۵۰ھ میں ہوئی ہے، تو حافظ ابن حجر طبقہ ذکر کرنے کے بعد صرف اتنا کہیں گے کہ ’’مات سنۃ خمسین‘‘۔ اختصارکے لیے مائۃ کو حذف کر دیا، حالاںکہ مراد اس سے بعد المائۃ ہی ہوتا ہے۔ اس کا پتا طبقے سے ہی چلے گا۔ جہاں کہیں اس مذکورہ اصول کے خلاف آیا ہے یعنی راوی کا طبقہ تو کوئی اور ہے اور اس کی وفات کسی دوسرے طبقے کے راویوں کے ساتھ ہوئی ہے تو وہاں حافظ نے اس کی وفات کی بھی تصریح کردی ہے۔
علم تاریخ الرواۃ کے چند فوائد
علمائے کرام نے رواۃ حدیث کی تاریخ، اُن کے رحلات واسفار اور اُن کے مواطن ومساکن کی تفصیلات پر بہت کچھ کام کیا ہے۔ نیز ان کے موالید ووفیات کو واضح کر کے اُن کے ضبط وانتباہ کے اوقات اور زمانوں کو، ان کی غفلت اور اختلاط کے اوقات وازمنہ سے بالکل ممتاز کر کے رکھ دیا ہے اور ان تمام باتوں کو ایسا کھول کھول کر بیان کیا ہے کہ اب ان راویوں کے بارے میں کسی قسم کے شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ مثلاً یوں کہتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں سن میں پیدا ہوا، اس کی عمر اتنی تھی، فلاں فلاں شہر کا تھا، فلاں فلاں وقت میں اس نے سفر کیا، فلاں شیخ سے فلاں وقت میں حدیث کا سماع کیا، فلاں شیخ سے ملاقات ہوئی اور فلاں سے نہیں ہوئی، فلاں راوی کو اپنی موت سے اتنے عرصے پہلے اختلاط ہوگیا تھا، یعنی حافظے میں فرق آگیا تھا، فلاں راوی نے فلاں شیخ سے اس کے اختلاط سے پہلے حدیثیں سنی ہیں، لہٰذا اس کی روایتیں مقبول ہیں اور فلاں راوی نے اسی شیخ سے بعد الاختلاط حدیثیں سنی ہیں، لہٰذا اس کی روایتیں غیر مقبول ہیں وغیر ذالک۔ علما کی اس تحقیق وتفتیش کا حدیث کو جو فائدہ پہنچا، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ یہ تحقیق وتفتیش فنونِ حدیث میں سے اسی فن تاریخ الرواۃاور اسماء الرجال کے ذریعے ہو سکتی ہے۔ حق یہ ہے کہ ان علمائے حدیث نے تحقیق وتفتیش کا پورا پورا حق ادا کر دیا ہے۔ ہم چند فوائد ذکر کرتے ہیں تاکہ ناظرین کو اس فن کی اہمیت وعظمت معلوم ہو جائے:
۱۔ اس فن کی معرفت کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ اس سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ اُن ثقہ راویوں کی کون سی حدیث مقبول اور کون سی غیر مقبول ہے کہ جن کو اختلاط لاحق ہو گیا تھا۔ یعنی جب اختلاط کے لاحق ہونے کا وقت معلوم ہو گا تو بہ خوبی یہ فیصلہ کیا جا سکے گا کہ فلاں عمر سے قبل کی روایات مقبول ہیں اور فلاں وقت کے بعد کی غیر مقبول۔
۲۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺکی احادیث میں سے کون سی مقدم ہے اور کون سی مؤخر۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ دو حدیثوں میں ایسے تعارض کے واقع ہونے کے وقت کہ ان دونوں کا جمع کرنا مشکل ہو، ان میں سے ایک کا ناسخ اور دوسری کا منسوخ ہونا معلوم ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد احادیث نبویہ (علی صاحبھا الصلوۃ والسلام) میں تعارض وتناقض باقی نہیں رہے گا۔
۳۔ تیسرا فائدہ یہ ہے کہ اس علم سے حدیث کی سند کے متصل یا منقطع ہونے کا علم ہو جاتا ہے، کیوںکہ بعض رواۃ تدلیس وارسال کرتے رہتے ہیں اور اس کا پتا اسی شخص کو چل سکتا ہے جو علم تاریخ الرواۃ کا عالم ہو اور حقیقت حال سے بہ خوبی واقف ہو۔ کتنی ہی مثالیں ایسی ملتی ہیں کہ علمائے حدیث نے رواۃ پر کذب کا اور احادیث پر وضع کا حکم فقط تاریخ رواۃ پر مطلع ہونے کی وجہ سے ہی لگایا۔ اسی فن سے اس حقیقت کا انکشاف بھی ہوا کہ جن مشائخ سے یہ بعض رواۃ روایت کرتے ہیں، اُن سے ان کی ملاقات تو کیا ہوتی یہ تو پیدا ہی ان کی وفات کے بعد ہوئے ہیں مثلاً:
(الف) اسماعیل بن عیاش نے ایک آدمی سے پوچھا کہ تم نے خالد بن معدان سے کون سے سن میں حدیث لکھی ہے؟ اس نے جواب دیاکہ ۱۱۳ھ میں۔ اسماعیل نے کہا کہ اچھا تو تمھارا خیال یہ ہے کہ تم نے خالد بن معدان سے اس کی وفات کے سات سال بعد حدیث سنی اور لکھی ہے؟ اس لیے کہ ان کی وفات تو ۱۰۶ھ میں ہوگئی تھی۔ تم نے ۱۱۳ھ میں کیسے اُن سے حدیث لکھ لی؟
(ب) امام مسلم نے اپنی صحیح کے مقدمے میں ذکر کیا ہے کہ معلی بن عرفان کہتے ہیںکہ ہم سے ابن وائل نے بیان کیا کہ جنگ صفین میں عبداللہ بن مسعود ہمارے پاس آئے، تو ابونعیم یعنی فضل بن دکین نے ابن وائل سے کہا کہ اچھا؟ کیا تمہارا مطلب یہ ہے کہ ابن مسعود وفات کے بعد پھر زندہ ہو گئے تھے؟ ان کی وفات تو ۳۲ھ میں خلافت عثمانؓ کے ختم ہو نے سے بھی تین سال پہلے ہو گئی تھی اور صفین کا واقعہ خلافت علیؓ میں پیش آیا۔ تو ابن مسعود اس وقت کہاں سے آگئے؟
(ج) حاکم کے سامنے محمد بن حاتم الکسی نے جب عبد بن حمید سے روایت بیان کی تو حاکم نے اس سے پوچھا کہ تو کب پیدا ہوا تھا؟ اس نے جواب دیا کہ ۲۶۰ھ میں! حاکم نے کہا کہ لو اس کو دیکھو! اس نے عبد بن حمید سے اس کے مرنے کے تیرہ سال بعد حدیث سنی ہے (اس لیے کہ ان کی وفات تو ۲۴۷ھ میں ہوئی ہے)۔
ان تینوں مثالوں سے معلوم ہو گیا کہ حدیث کی سند کے اتصال وانقطاع پر واقفیت اسی فن تاریخ الرواۃکے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ اگر اسماعیل بن عیاش، ابونعیم اور حاکم کو تاریخ رجال سے واقفیت نہ ہوتی تو وہ کیسے راوی کی تدلیس وارسال کو معلوم کر سکتےتھے؟ اور کیسے یہ معلوم ہو سکتا تھاکہ یہ سند متصل ہے یا منقطع؟ مقبول ہے یا غیر مقبول؟ صحیح ہے یا غیرصحیح؟ علاوہ ازیں ان مثالوں سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ علمائے حدیث کو احوالِ رواۃ پر واقفیت کی کتنی حرص تھی۔ انھوں نے اس کا کتنا اہتمام کیا تھا! اور ان کو حدیث اور اسناد کے ساتھ کتنی وابستگی تھی۔ فجزاہم اللہ خیرالجزاء.
اس فن کی اہمیت کا اندازہ علمائے حدیث کے ذیل کے چند اقوال سے بھی کیا جاسکتا ہے:
۱۔ سفیان ثوری فرماتے ہیں: ’’جب رواۃ نے روایت حدیث میں جھوٹ کو استعمال کیا تو ہم نے ان کے جھوٹ کی قلعی کھولنے کے لیے تاریخ کو استعمال کیا۔‘‘
۲۔ حفص بن غیاث فرماتے ہیں: ’’جب تم کسی شیخ کو متہم کرو تو اس کی عمر اور جس سے اس نے حدیث لکھی ہے، اس کی عمر کی چھان بین کرلو۔‘‘
۳۔ حسان بن یزید فرماتے ہیں: ’’کذابین کی حقیقت کو واضح کرنے میں جتنی اعانت ہماری تاریخ نے کی ہے، اتنی اور کسی چیز نے نہیں کی۔ ہم روایت بیان کرنے والے کو کہتے تھے کہ تم کون سے سن میں پیدا ہوئے تھے؟ جب وہ اپنی پیدائش کی تاریخ کا اقرار کر لیتا تھا تو ہم فوراً اس کے صدق وکذب کو پہچان لیتے تھے۔‘‘
غور فرمائیے! جس امت نے حفاظ ورواۃِ حدیث کے حالات کو اس طرح محفوظ کیا ہو، اس نے خود حدیث کے حفظ اور اس کی یادداشت میں کیا کچھ اہتمام نہ کیا ہوگا! محدثین (شکر اللہ سعیہم) کی اس بے مثال کاوش وکاہش اور اس عرق ریزی کے بعد بھی منکرین حدیث کا اسانید واحادیث کو شکوک وشبہات کی نظروں سے دیکھنا مبنی برعناد تو ہو سکتا ہے، مبنی برحقیقت ہرگز نہیں ہو سکتا۔
حاشیہ
۱۔ یہاں مجہول سے مراد مجہول العین ہے۔ مرتبہ سابعہ میں جو مجہول تھا وہ مجہول الحال ہے نہ کہ مجہول العین، بل کہ معروف العین ہے۔

