بنی نوعِ انسان کی بقا کے دو محرکات
وہ جسمانی محرکات جن کے ذریعے نسل انسانی کی بقا کا فریضہ انجام پاتا ہے، ان میں سے ایک جنسی محرک اور دوسرا مادری محرک ہے۔ ہم یہاں صرف پہلا یعنی جنسی محرک بیان کریں گے۔
جنسی محرک انسان اور حیوان کی زندگی میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جنسی محرک ہی نر اور مادہ میں سے ہر ایک کو دوسرے کی طرف کھینچتا ہے، جس کے نتیجے میں خاندان وجود میں آتا ہے۔ توالد و تناسل کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ ایک نسل سے دوسری نسل تیار ہوتی ہے۔ اس طرح نسل باقی رہتی ہے۔ قرآن کریم میں نوع انسانی کی بقا کے سلسلے میں جنسی محرک کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاللَّہُ جَعَلَ لَکُمْ مِنْ أَنْفُسِکُمْ أَزْوَاجاً وَجَعَلَ لَکُمْ مِنْ أَزْوَاجِکُمْ بَنِیْنَ وَحَفَدَۃً۔(۱)
اور اللہ نے تمھیں میں سے تمھارے لیے بیویاں بنائیں اور تمھارے لیے تمھاری بیویوں سے بیٹے اور پوتے پیدا کیے۔
یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیرًا وَنِسَاء۔(۲)
اے لوگو! اپنے پروردگار سے تقویٰ اختیار کرو، جس نے تم سب کو ایک ہی جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بہ کثرت مرد اور عورتیں پھیلا دیے۔
اللہ کے رسول ﷺ نے مسلمانوں کو شادی کرنے کی ترغیب دی اور فرمایا کہ میں کثرت سے قیامت کے روز فخر کروں گا۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:
’’نکاح میری سنت ہے۔ جو شخص میری سنت پر عمل نہ کرے، وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘(۳)
ایک حدیث میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’تم لوگ شادی کرو، کیوںکہ میں تمھاری کثرت سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔‘‘
ایک بار آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص اخراجات نکاح کی طاقت رکھتا ہو، وہ نکاح کر لے اور جو شخص نکاح کے اسباب نہ رکھتا ہو، وہ روزوں کو لازم پکڑے، کیوںکہ روزہ اس کے لیے حفاظت کا ذریعہ ہے۔‘‘
رسول اللہﷺ ایسی عورت سے نکاح کرنے کی تلقین فرماتے تھے، جو خوب محبت کرنے والی اور خوب بچے جننے والی ہو۔ چناں چہ آپﷺ نے فرمایا:
’’ایسی عورت سے شادی کرو، جو خوب محبت کرنے والی اور خوب بچے جننے والی ہو، کیوںکہ میں تمھارے ذریعے سے امت محمدیہ کی کثرت چاہتا ہوں۔‘‘(۴)
لڑکوں اور لڑکیوں کا پیدا ہونا اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے۔ اولاد پیدا ہونے سے والدین کا دل فرحت و مسرت سے لبریز ہو جاتا ہے اور والدین اپنے آپ کو سعادت مند سمجھنے لگتے ہیں، کیوںکہ یہی اولاد خاندان کی بقا کا سبب بنتی ہے۔ اولاد والدین کے لیے طاقت اور اثر و نفوذ کا سرچشمہ ہے اور والدین کی نفع رسانی اور تعاون کی اہم عامل ہے۔ علامہ ابن قیمؒ لکھتے ہیں کہ اولاد خواہ زندہ رہے یا وفات پا جائے اس کے بڑے فوائد ہیں، کیوںکہ اولاد اگر زندہ ہے تو اپنے والدین کے لیے معاون اور نافع ہوتی ہے اور اگر بچپن ہی میں ان کا انتقال ہو گیا تو بھی والدین کو نفع پہنچاتی ہے، کیوںکہ نابالغی میں مرنے والی اولاد والدین کو جنت میں داخل کیے جانے کا سبب بنتی ہے۔(۵)
میاں بیوی کے درمیان حلال جنسی تعلق کا مقصد اسلام کی نظر میں صرف یہی نہیں کہ میاں بیوی ایک دوسرے سے لطف اندوز اور لذت گیر ہوں بلکہ اس سے بڑھ کر یہ جنسی تعلق محبت و رحمت اور سکینت کا تعلق ہے۔ اس تعلق میں انسان امن و اطمینان محسوس کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمِنْ آیَاتِہِ أَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِنْ أَنْفُسِکُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْکُنُوا إِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَوَدَّۃً وَرَحْمَۃً إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ۔(۶)
اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس کی بیویاں بنائیں، تاکہ ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمھارے یعنی میاں بیوی کے درمیان محبت و ہم دردی پیدا کر دی۔ بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں، جو غور و فکر سے کام لیتے رہتے ہیں۔
اسلام میاں بیوی کے جائز جنسی تعلق کو صدقہ اور عمل صالح کی سطح پر پہنچاتا ہے، جس کی ادائیگی پر انسان کو ثواب ملتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے:
’’تمہاری شرم گاہ میں صدقہ ہے۔‘‘
صحابہ کرامؓ نے حیرت سے سوال کیا:
’’یار سول اللہ! کیا ہم میں سے کوئی شخص اپنی شہوت پوری کرتا ہے، اس پر بھی اسے اجر ملے گا؟‘‘
آپﷺ نے جواب دیا :
’’تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر وہ شخص حرام طریقے پر شہوت پوری کرتا تو اس پر گناہ ہوتا یا نہیں؟ اسی طرح جب اس نے جائز طریقے پر اپنی خواہش پوری کی تو اسے اجر ملے گا۔‘‘(۷)
میاں بیوی کے درمیان جنسی رشتہ محض صدقہ ہی نہیں ہے جس پر انسان کو ثواب دیا جائے بل کہ یہ جنسی رشتہ بلند ہو کر عبادت کی سطح تک پہنچ جاتا ہے، جسے ادا کرنے والاجنت میں داخل ہو گا۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے :
’’جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اللہ تعالیٰ سے گناہوں سے پاک وصاف و پاکیزہ ہو کر ملے وہ آزاد عورتوں سے شادی کرے۔(۸)
اسلام کی نظر میں میاں بیوی کے درمیان جنسی رشتہ ایک انسانی رشتہ ہے، جس میں میاں بیوی محبت و مودت اور دوسری جنس کی قدر دانی کے جذبات کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جنسی تعلق قائم کرنے سے پہلے ان دونوں کے درمیان لطیف و دل چسپ باتیں، خوش گوار ملاعبت اور پیار بھری باتیں ہوتی ہیں، جس سے میاں بیوی میں محبت اور سعادت کے احساسات بھڑکتے ہیں۔ رسول اللہﷺ صحابہ کرام کو نصیحت فرماتے تھے کہ جنسی عمل سے پہلے اپنی بیویوں سے ملاعبت اور خوش گوار تفریح کریں۔
حضرت جابر ابن عبداللہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ملاعبت سے پہلے جماع کرنے سے منع فرمایا۔(۹)
رسول اللہﷺ نے صحابۂ کرام کو بیویوں سے جماع کرنے سے پہلے ملاعبت کرنے کی تلقین عصر حاضر کے ان محققین سے بہت پہلے فرمائی، جنھوں نے میاں بیوی کے جنسی تعلق کے موضوع پر کتابیں لکھیں اور جماع سے پہلے بیوی سے ملاعبت کی اہمیت بیان کی، کیوںکہ ملاعبت کرنے سے دونوں کی جنسی خواہش بھڑک اٹھتی ہے اور اس کے نتیجے میں میاں بیوی میں سے ہر ایک کی جنسی خواہش اچھی طرح پوری ہوتی ہے۔ اس کے بر خلاف اگر ملاعبت کے بغیر ہی جماع کر لیا گیا تو اس سے یہ ہو سکتا ہے کہ مرد کی جنسی خواہش پوری ہو جائے لیکن عورت کی جنسی خواہش پوری نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے عورت کشیدگی اور تنگی محسوس کرتی ہے اور کبھی اس کی وجہ سے ازدواجی زندگی ناپائے دار ہو جاتی ہے۔
اب ہم اپنے مضمون کی طرف آتے ہیں۔ فحاشی سے متعلق ارشادِ نبویﷺ ہے:
عن عبداللہ بن عمر قال: اقبل علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال یا معشر المہاجرین خمس اذا ابتلیتم بہن واعوذ باللہ ان تدرکوہن لم تظہر الفاحشۃ فی قوم قط حتی یعلنوابہا الافشافیہم الطاعون والاوجاع التی لم تکن مضت في أسلافہم الذین مضوا ولم یقضوا المکیال والمیزان الا أخذو بالسنین وشدۃ المئولۃ وجور السطان علیہم ولم یمنعوا زکاۃ أموالہم إلا منعوا القطر من السماء ولولا البہائم لم یمطروا ولم تنقصوا عہد اللہ وعہد رسولہ إلا سلط اللہ علیہم عدوا من غیرہم فاخذ وابعض ما في أیدیہم ومالم تحکم المتہم بکتاب اللہ ویتخیروا مما أنزل اللہ إلا جعل اللہ بأسہم بینہم۔(۱۰)
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آںحضرتﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ اے مہاجرین کے گروہ! پانچ باتیں ہیں کہ جب تم ان میں مبتلا ہو اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ تم ان میں مبتلا ہو، جب کسی قوم میں علانیہ فحاشی پھیلتی ہے تو ان میں طاعون آتا ہے (یعنی وبائی بیماریاں) اورایسی ایسی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں کہ اگلے لوگوں میں وہ بیماریاں کبھی نہیں ہوئی تھیں اور جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو ان پر قحط اترتا ہے اور سخت مصیبت پڑتی ہے اور بادشاہ وقت ان پر ظلم کرتا ہے اور جب کوئی قوم اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دیتی تو اللہ تعالیٰ ان پر بارش روک دیتا ہے۔ اگر دنیا میں چوپائے نہ ہوتے تو پانی بالکل نہ اترتا اور جب کوئی قوم اللہ اور اس کے رسول کا عہد توڑتی ہے تو اللہ ان پر ایک دشمن مسلط کر دیتا ہے جو ان کی قوم کا نہیں ہوتا اور وہ اس مال کو چھین لیتا ہے جو ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور جب مسلمان حاکم اللہ تعالیٰ کی کتاب پر نہیں چلتے اور اللہ نے جو اتارا ہے اسے اختیار نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کے اندر لڑائی ڈال دیتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر پرسوڈ (Dr. Presaud) نے قرآن و سنت اور جدید سائنس کے تعلق سے جو ریسرچ کی ہے، مذکورہ حدیث ان کے اس موضوع پر مطالعے کا واضح ثبوت ہے۔ پروفیسر کے الفاظ میں حدیث کی وضاحت ملاحظہ فرمائیے:
یہ بات ہمہ گیر طریقے سے تسلیم شدہ ہے کہ رحم کے نچلے حصے میں یہ مہلک تبدیلیاں عورت کی عمر، کثرت مباشرت اور شریک کاروں کی تعداد سے تعلق رکھتی ہیں۔ مختلف وبائی امراض کے مطالعے سے یہ بات صاف طور پر ظاہر ہوتی ہے کہ کثیر الافراد جنسی تعلق، رحم کے ورم اور رحم کے خبیث نسیجی پھوڑے میں ایک خاص تعلق وہم آہنگی ہے۔
مخلوط جنسی تعلقات اور (فطری) جنسی عمل سے انحراف کے نتائج وخطرات کو اس حدیث میں چودہ سو سال پہلے دو ٹوک بیان کر دیا گیا ہے۔ لفظ Lewdness حرام کاری و زنا وبدکاری کا احاطہ کرتا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اغلام بازی، بہیمیت و درندگی اور دوسرے جنسی بگاڑ تصور سے کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر پھیل رہے ہیں۔ امراضیات تبخالہ اور ایڈز جیسی نئی بیماریوں کے بارے میں ہمیں غور و فکر کرنا چاہیے۔ حقیقتاً موجودہ وقت میں ان نئی نئی بیماریوں کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں ہے۔
آج ہم اس حدیث کی اہمیت اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں، کیوںکہ اغلام بازی، طوائفیت اور شہوت پرستی نہ صرف وسیع پیمانے پر پھیل چکی ہے بل کہ بہت سے مغربی ممالک میں قانونی طور پر مباح ٹھہری ہے۔
پروفیسر پرسوڈ نے جن بیماریوں کی نشان دہی کی، وہ جنسی انقلاب (Sexual Revolution) کے کچھ سال بعد ہی سامنے آنے لگیں اور جلد ہی بہت سے ممالک میں پھیل گئیں جیسے ایڈز جو کہ آج بڑا سنگین مسئلہ ہے۔
پیغمبر خدا حضرت محمدﷺ کے الفاظ قطعی طور پر درست ہیں۔ ایڈز (AIDS) اس کی بڑی مناسب مثال ہے اور یہ وہ بیماری ہے جو پچھلی نسلوں میں نہیں تھی۔ لیکن یہ اب انتہائی پر خطر انداز میں تیزی سے بڑھ رہی ہے اور بہت سے افراد اس سے نہایت خوف زدہ ہیں کہ وہ کہیں اس کا شکار نہ ہو جائیں۔ ایڈز کے متعلق اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے ایڈز کی رپورٹ کا خلاصہ پیش خدمت ہے:
نئے ہزاریہ کا سورج نکلتے ہی ایڈز سے اموات میں اضافہ
اس سال ۲۶؍ لاکھ افراد ایڈز کے وبائی مرض سے ہلاک ہوئے۔ یہ تعداد جب سے یہ مرض پھیلا ہے، سب سے زیادہ ہے اور یہی نہیں بل کہ ایڈز کے ماہرین نے خبر دار کیا ہے کہ نئے ہزاریے میں اس تعداد میں اضافے کا امکان ہے۔
UNAIDS کے مطابق جو یو این کی جانب سے ایک ہلاکت خیز HIV وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کا ذمے دار ہے، اس سال چھپن لاکھ افراد اس موت میں گرفتار ہوئے۔ گویا اس طرح تمام دنیا میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑ ۳۶؍ لاکھ ہو جاتی ہے۔ اس ادارے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر پیٹ پالیوٹ نے بتایا کہ اس کے اختتام کا کیا ذ کر، یہ تو ابھی بڑھ رہا ہے۔ ۱۹۸۱ء میں اس مرض کی ابتدا سے اب تک پچاس لاکھ افراد اس سے متاثر ہو چکے ہیں۔ یہ بات انھوں نے ادارے کے سالانہ پروگرام کے اختتام کے موقع پر کہی۔
W.H.O(ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) کے مطابق ۱۹۹۹ء میں منشیات کے استعمال کی وجہ سے مشرقی یورپ اور وسطیٰ ایشیا کے ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ افریقہ میں صحرائے اعظم کے زیریں علاقے میں ستر فیصد ایڈز کے مریض ہیں۔ واضح رہے کہ یہ علاقہ دنیا کی دس فی صد آبادی پر مشتمل ہے۔ اس ادارے نے بتایا کہ بیس سال قبل جب اس مرض کی نشان دہی ہوئی تھی، تب سے اب تک صورت حال میں شدید انحطاط ہوا ہے اور اگر روک تھام کے لیے متعدد ملکوں میں موثر اقدامات نہ کیے گئے تو مزید ہلاکت خیزی کی توقع ہے۔
اس مرض میں گرفتار آدھے مریض تو وہ ہیں جو ۲۵؍ سال کی عمر تک پہنچ ہی نہیں پاتے جب کہ باقی آدھے ۳۵؍ سال کی عمر تک جیتے ہیں۔ یہ صورت حال نو عمروں کے لیے اندوہ ناک ہے، کیوںکہ توقع ہے کہ ۱۹۹۹ء تک ایڈز کے ایسے یتیموں کی تعداد ایک کروڑ ۱۲؍ لاکھ ہو جائے گی، جو ابھی ۱۵؍ سال کے بھی نہ ہوئے ہوں گے۔ اگر نو عمر اپنے والدین میں اس مرض کی وجہ سے یتیم نہیں ہوتے تو وہ خود اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ پانچ لاکھ ستر ہزار نو عمر اس مرض میں گرفتار ہیں جب کہ ان میں سے ستر فیصد ایسے ہیں، جن کو یہ مرض ولادت کے وقت یا تو ماں سے ملا یا ماں کے دودھ سے۔
پیٹر پایوٹ نے مزید یہ بتایا کہ افریقہ میں خواتین اس مرض میں زیادہ گرفتار ہیں، کیوںکہ مرض مردوں سے عورتوں میں آسانی سے منتقل ہو جاتا ہے اور لڑکیاں لڑکوں سے زیادہ نو عمری میں اس سے متاثر ہو جاتی ہیں۔ دس مردوں کے مقابلے میں ۱۳؍ عورتیں اس سے متاثر ہوتی ہیں۔ یہ بات واضح رہے کہ عمر رسیدہ افراد لڑکیوں کو جنسی ترغیبات کے لیے آسانی سے راضی کر لیتے ہیں اور یہی لڑکیوں میں HIV وائرس کا ایک ذریعہ ہوتا ہے۔
امکان یہ ہے کہ اس وائرس کے نتیجے میں جنوبی افریقہ میں اوسط عمر جو گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں ۵۹؍ تھی، ۲۰۰۵ سے ۲۰۱۰ کے درمیان ۴۵؍ سال رہ جائے گی۔ یہ اس اضافے سے کچھ ہی زیادہ ہو گا، جو ۱۹۵۰ء میں حاصل کیا گیا تھا۔ پیٹر پایوٹ نے بتایا کہ اوسط عمر ڈرامائی طور پر کم ہو رہی ہے، ان صنعتی ممالک میں بھی جہاں وائرس سے محفوظ رکھنے کی ادویات نے مریضوں کی عمر میں اضافہ کیا ہے۔ رند مشرب انسانوں میں نئی اور بے جاعدم تو جہی پائی جاتی ہے۔
ان سب اعداد و شمار کے باوجود احتیاط سب سے اچھی پالیسی ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ مرض بہ دستور مہلک ہے اور امریکہ و یورپ سے اس مرض میں وائرس سے محفوظ رکھنے کی ادویات کے استعمال سے کمی کی اطلاعات بھی محدود ہوتی جارہی ہیں۔ مقوی نشہ آمیز مشروبات کے استعمال سے اس مرض میں کام یابی کی اطلاعات کے باوجود یہ کہنا مشکل ہے کہ مریضوں میں اس وائرس کے اثرات کو بالکل ختم کیا جا سکے گا۔(۱۱)
ڈاکٹر ہنلی کنسے نے اپنے فیلوز کے ساتھ مل کر ایک رپورٹ تیار کی ہے۔ اس رپورٹ میں انھوں نے بارہ ہزار سے زائد افراد کی نجی زندگی کے حالات معلوم کیے۔ اس رپورٹ میں یہ بات واضح طور پر تحریر ہے کہ خلاف وضع غیر فطری فعل (لواطت) کے شوق کی تکمیل امریکی مردوں کی ایک تہائی آبادی نے کم از کم اپنی زندگی میں ایک مرتبہ ضرور کی ہے۔ ایک بڑی تعداد میں امریکی تمام عمر لواطت کے مرتکب رہتے ہیں۔
ان مغربی ممالک میں مردوں کی طرح عور تیں بھی اس فعل بد (سحق) میں مبتلا ہیں۔ ایسی عورتوں کو (Lesbian) کہتے ہیں۔ یعنی جس طرح مرد ناجائز طور پر اپنی جنسی خواہش کی تکمیل مردوں سے پوری کرتے ہیں، عورتیں اپنی جنسی تسکین عورتوں سے حاصل کیا کرتی ہیں۔ عورتیں ایسے ماحول میں اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتی ہیں؟ کیوںکہ جس مرد کو ہم جنس پرستی کی عادت پڑ جائے اور وہ ہم جنس پرست (Homo Sexual) بن جائے وہ اپنی عورت سے غیر فطری فعل ہی کا خواہش مند ہوتا ہے۔ جماع میں اسے لذت حاصل نہیں ہوتی۔ اب جرمنی، فرانس اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی اکثر ریاستوں میں مرد کی مرد سے شادی اور عورت کی عورت سے شادی کو قانونی تحفظ حاصل ہے اور یہ حیاسوز قانون پارلیمنٹ سے منظور ہو چکے ہیں۔ ان ہم جنس پرستوں کی شادیوں میں بھی باقاعدہ ایجاب و قبول کی رسم ادا کی جاتی ہے۔
شریعت اسلامی ایسے قبیح فعل کے مرتکب لوگوں کے لیے شدید سزا کا تعین کرتی ہے۔ چناں چہ ارشاد ربانی ہے:
وَالَّذَانِ یَأْتِیانِہَا مِنکُمْ فَآذُوْہُمَا.(۱۲)
اور جو کہ ایسے دو شخص بھی تم میں سے وہ بے حیائی کا کام کریں تو تم ان دونوں کو اذیت پہنچاؤ۔
اور اذیت کے لیے شریعت میں کوئی خاص سزا متعین نہیں۔ حضور اکرمﷺ نے تو یہ فرمایا کہ ایسے لوگوں کو قتل کر ڈالو۔
امام اعظم امام ابوحنیفہؒ کا قول یہ ہے کہ غیر فطری فعل کے مرتکب افراد کی سزا امام یا حکومت وقت کی صواب دید پر ہے۔ خواہ وہ اسے جلا ڈالے یا پہاڑ سے گرا کر ہلاک کرے یا قتل کر دے یا کوئی اور سزا تجویز کرلے۔ چناں چہ صاحب تفسیر مظہری لکھتے ہیں:
والإیذاء غیر مقدر في الشرع فہو مفوض الی رأی الإمام کذا قال أبوحنیفۃ یغررہما علی حسب ما یری۔(۱۳)
اذیت شریعت میں کوئی متعین نہیں ہے بل کہ یہ امام اور حکام وقت کی رائے پر ہے۔ جیسا کہ امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ ان دونوں غیر فطری فعل کے مرتکب لوگوں کی مناسب تعزیر کی جائے۔
احادیث مبارکہ میں عالم انسانیت کی سب سے محترم شخصیت اور معلم اخلاق جناب محمد رسول اللہﷺ نے اس غیر فطری برائی کو روکنے کے لیے سب سے بلیغ پیرایہ اختیار فرمایا۔ آپﷺ نے فرمایا:
إن اخوف ما اخاف علی امتی عمل قوم لوط.
سب سے زیادہ خوف ناک چیز جس سے میں اپنی امت کے حق میں خوف زدہ ہوں، وہ قوم لوط کا عمل ہے۔
کس قدر گھناؤنا اور مبغوض فعل ہے کہ اللہ جل شانہ اس قبیح عمل کے مرتکب افراد پر، خواہ وہ مرد ہوں یا عورت، بار بار لعنت کرتا ہے۔ چناں چہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:
ملعون من عمل عمل قوم لوط ملعون من عمل عمل قوم لوط ملعون من عمل عمل قوم لوط۔(۱۴)
اس پر اللہ کی لعنت ہے جو لواطت کرے، اس پر اللہ کی لعنت ہے جو لواطت کرے، اس پر اللہ کی لعنت ہے جو لواطت کرے۔
تو غیر فطری فعل کے مرتکب مرد وزن کے لیے شریعت مطہرہ نے شدید ردّ عمل کا اظہار کیا ہے اور بے شمار احادیث ایسی ہیں، جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسا شخص رحمت خداوندی سے دور ہو جاتا ہے۔
انسانیت کے علاوہ بہائم بھی ایسے فرد کے شر سے پناہ مانگتے ہیں۔ ہمیں حیرت ہوتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ اور امریکہ کے جمہوریت کے چیمپئن اور نام نہاد انسانی حقوق کے علم بردار اور مصلحین قوم اس فعل قبیح میں مبتلا ہیں بل کہ وہ افراد کی گندی حرکتوں کو قانونی تحفظ دینے کی مہم میں پیش پیش رہتے ہیں۔
چناںچہ جس جگہ بھی اس قبیح فعل کو قانونی تحفظ حاصل ہے، وہاں اس کے لیے مہم اس معاشرے کے مصلحین نے چلائی اور اپنی پارلیمنٹ اور قانون ساز اداروں میں بل پیش کیے۔ چناںچے اب ان کا سارا معاشرہ اس کی سزا بھگت رہا ہے۔
اس نام نہاد نئے ہزاریے (New Millennium) پر جہاں ساری دنیا نے خوب جشن منایا اور اس کی نئی صبح (New Millennium Dawn) پر پیدا ہونے والے پہلے بچے کو خوش بخت علامت کے طور پر ساری دنیا کے ٹی وی چینلز نے بار بار دکھایا، وہاں یہ بات بھی ریکارڈ کے طور پر ہر یادداشت میں محفوظ رہنی چاہیے کہ اس نئی صبح کو مرنے والا پہلا شخص اس نام نہاد مہذب قوم کا فرد لوطی (اغلام باز) تھا، جو ایڈ زکامریض تھا اور یہی ایڈز اس کی موت کا سبب بنی۔
برطانیہ میں جنسی بیماریوں میں خطرناک اضافہ
برطانیہ میں سیکس کے باعث لگنے والی بیماری سوزاک (Gonorrhoea) کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہ شرح ٹین ایجرز (TEEN AGERS) میں بہت زیادہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے بیماری کے واقعات اس لیے بڑھ رہے ہیں کہ محفوظ سیکس (Safe Sex) سے متعلق ہدایات پر مکمل طور پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا یا پھر انھیں مکمل نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ سابقہ اعداد و شمار میں بتایا گیا تھا کہ سیکس سے منتقل ہونے والی بیماری STD مردوں میں ۲۶؍ فی صد اور عورتوں میں ۳۰؍ فی صد بڑھی ہے۔ (Gonorrhoea) سوزاک کی تعداد میں اضافے کا سلسلہ ۱۹۹۴ کے بعد سے ہوا ہے، لیکن ۱۹۹۸ میں یہ شرح بہت زیادہ ہو گئی۔ برطانوی پبلک ہیلتھ لیبارٹری سروس نے کہا ہے کہ اعداد و شمار کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا جانا چاہیے، کیوںکہ STD سے لگنے والی بیماری کے واقعات میں اضافہ تشویش ناک امر ہے۔ قبل ازیں رپورٹ میں معاملے کی سنگینی کا اندازہ نہیں لگایا گیا تھا، صرف اتنا بتایا گیا تھا کہ جنسی بیماریوں میں اضافے کی شرح پورے امریکہ میں ہرایج گروپ (AGE GROUP) میں نارمل ہے، مگر اب حال ہی میں شائع ہونے والی رپورٹ نے صورت حال کو انتہائی سنگین بتایا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ۱۶؍ سے ۱۹؍ سال کی عمر کے لڑکے، لڑکیوں میں (Gonorrhoea) کی شرح ۵۲؍ فی صد، جب کہ لڑکوں میں ۳۹؍ فی صد ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ۸۰؍ کے عشرے میں لڑکے لڑکیاں جنسی ہدایات پر زیادہ عمل درآمد کرتے تھے، مگر اب وہ ان ہدایات کو قطعی نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ۱۹۹۰ سے جنسی بیماریوں میں ایسے افراد زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، جو Gay اور Lesbians ہیں۔
افریقہ میں ایڈز (AIDS) کی صورت حال
(۱) افریقہ میں ایڈز کی صورت حال جدید ادویات و علاج کی تاریخ کا اندوہ ناک سانحہ ہے۔ اب تک بیس لاکھ افراد سے زیادہ اس چھوت چھات سے لگنے والی بیماری سے متاثر ہیں، جب کہ ہر گھنٹے میں پانچ سو افراد کا اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ تاریخ عالم میں سب سے عظیم بحران ہے، جو صحرائے اعظم سے متصل علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ اب تک بارہ لاکھ افراد صحرائے اعظم سے متصل علاقوں میں موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ ان میں سے ایک چوتھائی بچے ہیں اور روزانہ اموات کی تعداد پانچ ہزار پانچ سو خواتین اور بچے ہیں۔ آنے والے عشروں میں ایڈز سے اموات کی تعداد بیسویں صدی کی تمام جنگوں میں اموات کی تعداد سے بڑھ جائے گی۔ ۲۰۰۵ تک روزانہ اموات کی تعداد تیرہ ہزار ہو جانے کی توقع ہے۔
(۲) لاکھوں بچے یتیم ہو جائیں گے، کچھ علاقوں میں قریب قریب ایک چوتھائی بچے اپنے والدین کے ساتھ رہتے ہیں، جو ایڈز سے متاثر ہیں۔ آنے والے عشرے میں چالیس لاکھ سے زیادہ بچے ایسے ہوں گے، جن کے والدین میں ماں یا باپ ایڈز سے متاثر ہو۔
(۳) اس صورت حال نے ملکی ترقی کو متاثر کیا ہے۔ بچوں نے اسکول جانا چھوڑ دیا ہے۔ وہ اسکول جائیں یا ایڈز سے متاثرہ ماں یا باپ کی خبر گیری کریں۔ مختصراً ز ندگی کا ہر شعبہ، خواہ تجارت ہو یا تعلیم، حتی کہ افواج بھی متاثر ہیں۔
(۴) امریکہ کی انتظامیہ نے متعدد اور دور رس اقدامات کا اعلان کیا ہے، جن سے ان کے اس عزم کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ اس بحران کا کس طرح مقابلہ کریں گے اور جن سے امید افزا نتائج وابستہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے متعدد ذیلی ادارے جو صحت انسانی کے امور سے متعلق ان امور میں پوری دل چسپی کے ساتھ نبرد آزما ہیں، ان کے اقدامات سے حالات میں بہتری کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔ بہرحال بحران، بحران ہے اور حقائق سے انکار نہیںکیا جا سکتا۔(۱۵)
حواشی
۱۔ القرآن: سورہ نحل، آیت ۷۲۔
۲۔ القرآن: سورہ نساء، آیت ۱۔
۳۔ ابن ماجہ بروایت حضرت عائشہؓ، ج ا، حدیث نمبر: ۱۸۴۶۔
۴۔ ابوداؤد بہ روایت معقل بن یسار، ج ۲، حدیث نمبر ۲۰۵۱۔
۵۔ ابن قیم جوزی: تحفۃ المودود باحکام المولود، طبع دمشق، ۱۹۷۱ء/ ۱۴۱۰ھ۔
۶۔ القرآن: سورہ روم، آیت ۲۱۔
۷۔ صحیح مسلم بروایت ابوذر، ج۷، ص ۹۱- ۹۲، ابوداؤد، مسند احمد، ج۱، ص ۱۸۷۔
۸۔ ابن ماجہ عن انس بن مالک، ج ا، حدیث نمبر ۱۸۶۲۔
۹۔ ابن قیم جوزی: الطب النبوی، ص ۲۳۴۔
۱۰۔ سنن ابن ماجہ، جلد سوم۔
۱۱۔ The Muslim Observer, Dec-10-16, P-21
۱۲۔ القرآن: سورۃ النساء، آیت ۳۰۔
۱۳۔ تفسیر مظہری، ج ۲، ص ۵۴۹۔
۱۴۔ الترغیب الترہیب، منذری، ص ۴۵۰۔
۱۵۔The Minaret (Aids in Africa) P – 19

