حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکّی کا ایک رہ نما مکتوب

پروفیسر نثار احمد فاروقی

مسلکی جھگڑوں کی تردید اور اسلام کے دفاع وتبلیغ کی ترغیب کے متعلق حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکّی کا ایک رہ نما مکتوب

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
از امداد اللہ عفا اللہ عنہ
بہ خدمات عزیزم پیرجی مولوی خلیل احمد صاحب انبٹیوی
وعزیزم مولوی محمود حسن صاحب دیوبندی سلمہا اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تمام بلاد وممالک ہند سے مثلاً بنگال وبہار ومدراس ودکن وگجرات وبمبئی وپنجاب وراجپوتانہ ورام پور وبہاول پور وغیرہ سے متواتر اخبار حیرت انگیز وحسرت خیز اس قدر آتے ہیں کہ جس کو سن کر فقیر کی طبیعت نہایت ملول ہوتی ہے۔ اس کی علت یہی براہین قاطعہ و دیگر ایسی ہی تحریرات ہیں۔ یہ آتشِ فتنہ انوار ساطعہ کی تردید سے مشتعل ہوئی کہ تمام عالم اس کی حمایت (میں کھڑا ہوگیا)۔ فقیر نے صرف اس کے دو مسئلوں پر یعنی مجلس میلاد شریف وفاتحہ پر اتفاق رائے ظاہر کیا تھا (مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو ایسی مقبولیت عطا فرمائی کہ تمام ملک کے علما ومفاتی نے ساری کتاب کو تہہ دل سے پسند فرما کر اس پر اتفاق کیا)۔ آپ اُس کے ہر فقرے کی تردید کے ایسا درپَے ہوئے کہ معاذ اللہ امکانِ کذب باری تعالیٰ تک کے قائل ہو گئے اور یہ بلا ایسی عالم گیر ہوئی کہ سب قصے مولود شریف وغیرہ کے دَب گئے اور اس مسئلے کا چرچا ہر شہر، ہر قریہ میں حتی کہ حرمین شریفین -زادہا اللہ تشریفا وتکریما- ممالک غیر میں بھی پھیل گیا اور آپ کی تحریر کی بدولت علمائے کبار پر اشاعت کے ساتھ تکفیر ہونے لگی۔ آپ صاحبوں کو اللہ تعالیٰ نے دولت علم وفضل سے مشرف ومکرم کیا ہے۔ مجھ جیسے کو کچھ نصیحت ووصیت کرنی حکمت بہ لقمان آموختن کی مثل ہے۔ لیکن باعث جوش محبت و بہ مقتضائے جذب یک جہتی اپنی ناقص عقل کے موافق بہ نظر خیر خواہی – الدین النصیحۃ -ولا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمُ حَتَّی لَا یُحِبَّ لأَخِیہِ مَا یُحِبُّ لنفسہ- کچھ تحریر کرنا ضرور ہوا۔
عزیزم! ایسا مسئلہ جس سے عوام کا فہم اُس کی تفہیم سے قاصر ہو یا کوئی نقصان وفتنے کا خوف ہو یا بہ نسبت فائدے کے ضرر زیادہ متصوّر ہو، اس کو شائع کرنا خلاف مصلحت ہے وممنوعِ شرعی۔ جب خود شارع صلی اللہ علیہ وسلم صاحب السیف وصاحب السلطان نے خلاف بنائے ابراہیمی علیہ السلام کے کفار کے بنائے ہوئے قبلے کی مصلحت وقت کے باعث اصلاح نہیں فرمائی، بہ خوف فتنہ کعبۃ اللہ ایسی اسلام کی بنیاد کو اپنی حالتِ ناتمام پر چھوڑ دیا، تو ہم ایسے ضعیف وبے حقیقت کو یہ امر خلاف مصلحت کرنا کب سزاوار ہے؟ مقبولیت ہر عمل کی عند اللہ و عند الناس صدق واخلاص سے ہے۔ علامتِ اخلاص تحریر وتحقیق مسائل میں (یہ ہے کہ) حسنِ خلق ولینت سے بہ غرضِ استفادۂ خلق ہو، کسی کا ساکت کرنا یا نقصان وعجز ظاہر کرنا (یا اپنے) فضل وبرتری کا اظہار نہ ہو۔ نہ اپنے کلام کی تائید کے در پے ہو، نہ مجادلہ ونہ مراء ہو۔ (جب کسی) کی رائے کسی محبت ودلائل کی وجہ سے اُس کی تحقیق کے خلاف ہو تو اس سے ضد وبغض وعناد نہ ہو اور نہ اس کی نسبت الفاظ توہین وتحقیر کے مستعمل ہوں۔
عزیزم! یہ نہایت تعجب کی بات ہے کہ ایک چھوٹا سا گروہ تو اپنے کو برسرصواب وحق وہدایت کے سمجھے اور دنیا کے علما وصلحا کو، جمہور وسواد اعظم کو خطا وناحق وضلالت پر جانے۔ کیا انسان سے خطا وغلطی نہیں ہوتی؟ تو یہ انصاف کی بات ہے کہ جو کچھ زبان وقلم سے نکل جائے، اُس کی تائید میں عمر بھر اپنی ہمت مصروف کر دی جائے؟ دیانت وحقانیت وعند اللہ وعند الناس بڑی قدر وبڑی کمال کی یہ بات ہے کہ جب اپنے قول کی غلطی ظاہر ہو جائے تو اُس سے رجوع کیا جائے۔
عزیزم! کیا کسی عالم کو یہ حق ہے کہ دوسرے علما کو اپنے اتباعِ رائے کے واسطے پابند ومجبور کرے؟ پھر بار بار ایک مسئلے کو لکھنا کس مصلحت سے ہے؟ اس نصِ صریح کے خلاف (لا تمار أخاک) اپنے عالم بھائیوں کی بات کاٹنی، تردید کرنی (آپ جیسے) متورّع عالم کو کب لائق ہے؟ ویسا ہی اپنی تحریر وتقریر کو مجادلہ بنانا اور (۔۔۔۔۔) اس نہی کے (ما ضل قومٌ بعد ان ہداہم اللہُ تعالی إلاأوتوا الجدل) کرنا کب زیبا ہے؟آپ صاحبوں کی عالی شان یہ ہے کہ اس حدیث شریف پر عمل ہو: مَنْ تَرَکَ المِرَاء وَہُوَ بحقّ بُنِی لَہُ بَیْت فِی اعلی الجَنَّۃِ وَمَن تَرَکَ المراء وَہُو مبطلٌ بنیَ بَیْتٌ فِی رَبضِ الجَنَّۃ.
عزیزم! بہت بڑا شرک اللہ تعالیٰ اور رسول کے احکام مقدس میں اپنی خواہش نفس کو شریک کرنا ہے اور اپنے نفس کے مطابق احکام شریعت کی تاویل کرنا۔ نفس کو شریعت کے تسلیم ومتبع کرنا سچا اسلام ہے واطاعت احکام الٰہی میں نفس کو فنا کرنا عالی مقام ہے۔ آپ علما چراغِ ہدایت ہو کہ سب لوگ آپ صاحبوں سے نور حاصل کریں بہ شرطے کہ دودِ نفسانیت سے اُس میں ظلمت کو راہ نہ ہو۔
عزیزم! جائے غور ہے کہ جب ایک عالم معتمد علیہ ومقتدائے وقت ہو اور خلق اللہ اُس کی ہدایت وفیوض ظاہر وباطن سے مستفیض اور ہزاروں فائدوں سے مستفید ہوتے ہوں، پس ایسے عالم ہادی زماں کو ایک ایسے مسئلہ غیر ضروری کا اظہار واشاعت جس کے فہم کا عوام متحمل نہ ہو سکے اور اس کے باعث خلق میں انتشار پیدا ہو کر مخالف وبدظن وبدعقیدت ہو جائیں اور اس کے فیوض وفوائد عظیمہ وبرکات ظاہر وباطن سے محروم ہو جائیں تو کتنے بڑے نقصان وضرر عظیم کا باعث ہے اور مصلحت وقت کے خلاف ہے۔ جب حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسے مقرب صحابی کے قرآن شریف کے تطویل قرأت کو باعث انتشار جماعت سمجھ کر یہ ارشاد نبی ﷺزجراً ہو: اَفتان انت یا معاذ؟ تو انتشار ( ۔۔۔۔) کس مصلحت سے ہے؟ اور جب فقیر کے پاس بھی شکایتیں جابجا سے پہنچیں تو فقیر نے اس سوئے ظن کے (دور کرنے) کو ایک مضمون مطابق عقیدۂ اہل سنت وجماعت کے، جس کو اس شعر مثنوی شریف کی شرح سمجھنی چاہیے:
کفر ہم نسبت بہ خالق حکمت است
گر بما نسبت کنی کفر آفت است
اپنے عزیز سلمہ کو لکھنے کو بتلا دیا، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ذاتِ باری تعالیٰ کی طرف استنادِ کذب من حیث خالقیت کے ہو سکتا ہے بفواحی (القدر خیرہ وشرہ من اللہ تعالیٰ) ومن حیث فاعلیت نہیں ہو سکتا۔ خالقیت وفاعلیت میں فرق بیّن ہے، کیوںکہ ذاتِ باری تعالیٰ مستجمع کمالات ہے۔ وہاں نقائص کا امکان ووقوع دونوں ممتنع ہیں وخلاف عقائد اہلِ سنت وجماعت۔ اب عزیز نے تقریر مذکور کو فقیر کے مسلک کے خلاف اپنے طور پر لکھ کر باوجود فقیر کی ممانعت کے طبع کراکر مشتہر کرایا، اسی توجیہ القول بما لا یرضی قائلہ سے یہ حال ہوا کہ فقیر کو بھی اپنی نیک نامی میں شریک کرنا چاہا۔
عزیزم! اس مسئلہ خلاف عقائد علمائے جمہور کو بار بار لکھ کر یہاں تک بدنام کر دیا کہ جن علما کا نام بڑے ادب وعزت سے لیا جاتا تھا اور ہر قول وعمل مستند عالم تھا، (ان کی) تحقیر نے تکفیر تک کی نوبت پہنچائی، انا للہ وانا الیہ راجعون اور ان وجوہ سے اب لوگ (علمائے) دیوبند وغیرہ کے بھی مخالف ودشمن بن گئے اور اس کی خرابی کا منصوبہ وتدبیر کرنے لگے۔ ان (۔۔۔۔۔۔۔۔) بہت سی بدظنیاں پھیل گئی ہیں کہ ان میں سے ایک کا ذکر یہ ہے کہ مدینہ طیبہ میں کچھ روپے حیدرآباد کی جانب سے مستحقین کو تقسیم ہوئے۔ عزیزم مولوی رفیع الدین صاحب سلمہ کو باوجود سفارش ثقات اور رفع کرنے اس وہم کے نہیں دیا گیا کہ مدرسہ دیوبند کے مہتمم، گر وہ وہابیہ میں سے ہیں۔ ان بدظنیوں سے مدرسے کی بھی خیر نہیں معلوم ہوتی۔ وہ مدرسہ کہ کس خلوص سے قائم کیا گیا تھا اور کیا نام وعزت حاصل کر چکا تھا اور کیا معتمد علیہ ونافع خلائق ہو گیا تھا، اب وہ بھی چراغ سحری سا معلوم ہوتا ہے۔ بڑی عبرت وحسرت کا مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرما دے!
فقیر نے ابتدا ہی میں منع کیا تھا کہ نزاعی تحریرات میں فتوے سے کنارہ کیا جاوے اور وہابی و غیرمقلد کے دستخط ومہر کیے ہوئے فتوے پر دستخط ومہر نہ کی جاوے۔ اس پر محققین نے اعتراض کیے کہ اثباتِ حق کی ممانعت کی جاتی ہے۔ اب خلاف مصلحت اثباتِ حق کا یہ نتیجہ ہوا کہ ہزار خرابیاں پیدا ہوگئیں۔ کینہ، حسد، بغض، عداوت، غیبت، مجادلہ، مراء، نفسانیت، تعصب، تائید کلام، اختلاف باہمی، انتشار، طمع خلق وخود، وقطع اخوت واتخام خلق وبدظنی، سامانِ زوال مدارس جو اکثر ان میں سے گناہ کبیرہ ہیں۔ (دیکھو! ہندستان میں سیکڑوں مذاہب کفریہ وعقائد باطلہ، مخالفِ دین وبیخ کن سلام ظاہر ہوتے جاتے ہیں اور کیسے کیسے الزام واعتراض وشبہات وشکوک مذہب اسلام پر وارد کرتے جاتے ہیں) اُس سے ہزاروں (مسلمان) کوئی شبہ وشط میں، کوئی متردّد ومتوہم کوئی مرتد تک ہوتے جاتے ہیں۔ (پس ایسے) وقت میں آپ علما پر فرض ہے کہ آپس کے جھگڑوں سے کنارہ کر کے سب متفق ہو کر اُن کے (شکوک) شبہات کو دینِ اسلام پر سے اٹھا کر خلق کو اطمینان وتشفی دیتے رہیں۔ دیکھو! ابھی مذہب آریہ والوں نے ایک رسالہ مسمّی تکذیب براہین احمدیہ کیسی توہین وتحقیر اسلام کے ساتھ چھاپ کر تمام دنیا میں مشتہر کیا ہے۔ پس ایسے وقت میں آپس کے مجادلے کی جگہ اس کی تردید کرنی چاہیے اور قرآن شریف کی خوبیاں وفضائل اور رسول اللہ ﷺ کے محامد ومکارم اخلاق ومحاسن اوصاف کو ہر مقام وہر شہر وقریے میں نہایت زور وشور سے مشتہر کرنا چاہیے۔ ایسے وقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محامد اوصاف ومکارم اخلاق کو مشتہر واشاعت کرنے کے لیے ہر مقام میں ایسے مضامین میں مجلس مولود شریف کا چرچا بڑا عمدہ ذریعہ ومستحسن وسیلہ ہے۔ اب ان شاء اللہ تعالیٰ یہ فقیر کی اخیر تحریر ہوگی۔ تمھارے حسن خلق کے اعتماد پر یہ جرأت ہوئی ہے۔ (اگر) کوئی خطا ہوئی ہو تو معاف فرماؤ- اللہم الّف بین قُلُوبِنَا وَاصْلِحَ ذَاتَ بَیْنِنَا وَاہْدِنَا سُبل السلام وَنَجّنَا مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ- وَصَلے اللہ تعالے عَلَی خَیْرِ خَلْقِہِ سیدنا مُحَمَّد وَآلِہِ أَجْمَعِینَ، وَالحمدُ للّہ ربِّ العالمین – فقط
محمد امداد اللہ فاروقی
از مکہ معظمہ
۱۳؍ ذی قعدہ ۱۳۰۷ھ
(ماخوذ: نوادرِ امدادیہ، ترتیب وتحقیق: پروفیسر نثار احمد فاروقی، مطبع حضرۃ سید محمد گیسو دراز تحقیقاتی اکیڈمی،، گلبرگہ، کرناٹک)

اس کیو آر کوڈ کو اسکین کرکے ادارے کا تعاون فرمائیں یا پرچہ جاری کرانے کے لیے زرِ خریداری ٹرانسفر کریں۔ رقم بھیجنے کے بعد اسکرین شاٹ ضرور ارسال کریں تاکہ آپ کو رسید بھیجی جاسکے۔ شکریہ