اپنی زندگی کے آخری برسوں میں فخر المحدثین مولانا سید محمد انظر شاہ مسعودی کشمیری(شیخ الحدیث دار العلوم دیوبند وقف) نے حرمین شریف کا سفر کیا تھا۔ اس مناسبت سے وہاں کےمعروف رسالے ’’اردو نیوز‘‘کے لیے جناب روؤف طاہر نے انٹرویو لیا تھا۔اپنی اہمیت کی وجہ سے یہ انٹر ویو تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔(ادارہ)
سوال:آپ کے والد محترم حضرت علامہ انور شاہ کشمیری کا ایک اہم حوالہ علامہ اقبال سے ان کے تعلقات اور باہم خط و کتابت بھی ہے۔ کچھ علامہ اقبال کے حوالے سے آپ کو یاد ہو؟
جواب: ڈاکٹر اقبال سے متعلق کچھ چیزیں تو مجھے یاد ہیں۔ والد صاحب نے اپنے دروس میں بارہا ڈاکٹر اقبال کی عبقریت کو تسلیم کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے مدراس میں جو خطبات دیے، ان میں فرمایا کہ اس دور میں اسلام کے جید ترین محدث علامہ انور شاہ کشمیری ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کسی مسئلے پر والد مرحوم سے استفسار کیا تو انھوں نے جواب میں پندرہ صفحات پر مشتمل خط بھی لکھے۔ یہ خطوط عربی یا فارسی میں تھے۔ میں نے انھیں بہت تلاش کیا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال سے بھی معلوم کیا۔ عبداللہ چغتائی دونوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ تھے۔ ان کے خاندان سے بھی میں نے رابطہ کیا مگر یہ خطوط مل نہ سکے۔ ابھی پاکستان میں ایک کتاب شائع ہوئی ہے’ اقبال کے ممدوح علما‘، اس میں بھی والد صاحب کا مفصل ذکر ہے۔ اس میں شک نہیں کہ والد صاحب ہی نے اقبال کو فتنہ قادیانیت سے آگاہ کیا اور اس میں کچھ سختی سے بھی کام لیا۔ کشمیر میں تحریک چلی تو وہاں کے مہاراجہ نے عوام کے مسائل اور ان کی شکایات کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی بنادی اور اس کا سر براہ غلام احمد قادیانی کے بیٹے محمود کو بنادیا۔ ڈاکٹر اقبال بھی اس کمیٹی کے رکن تھے۔ والد صاحب لاہور گئے تو ڈاکٹر صاحب نے عبداللہ چغتائی کے ذریعے پیغام بھیجوایا کہ رات کا کھانا میرے ہاں تناول فرمائیں۔ اس کے لیے میں سواری بھی بھجوادوں گا۔ والد صاحب نے یہ دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہاکہ اقبال نے ایک ایسی کمیٹی کی رکنیت قبول کر لی ہے، جس کا سر براہ ایک قادیانی ہے۔ ڈاکٹر اقبال نے فوراً خط بھیجا اور کہا کہ میں اس کمیٹی کی رکنیت سے مستعفی ہوتا ہوں۔ اس پر والد صاحب ڈاکٹر صاحب کے ہاں کھانے پر تشریف لے گئے ۔ اقبال سے ان کی مسلسل ملاقاتیں رہیں،جو کئی گھنٹے جاری رہتیں۔
سوال:ان ملاقاتوں میں عموما کن مسائل پر بات ہوتی؟
جواب: زیادہ تر ڈاکٹر اقبال کے فلسفے پر بات ہوتی۔ مسئلہ ختم نبوت اور قادیا نیت بھی زیر بحث آتی ۔ اسلامی فقہ کی تدوین جدید بھی اہم موضوع تھا، جس پر تبادلہ خیال ہوتا ۔ والد صاحب دارالعلوم دیو بند سے الگ ہوئے تو ان کے ایک شاگرد خاص مولانا سعید احمد اکبر آبادی اس وقت لاہور میں تھے۔ ڈاکٹر اقبال نے ان سے کہا کہ مجھے علامہ انور شاہ کشمیری کی دارالعلوم دیو بند سے علاحدگی پر خوشی ہے کہ اب وہ اسلامی فقہ کی تدوین جدید کا کام کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے خیال میں والد مرحوم اس کام کے لیے ہندستان میں موزوں ترین شخصیت تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی خواہش تھی کہ والد صاحب اس کام کے لیے لاہور میں قیام فرمائیں۔ انھوں نے انھیں بادشاہی مسجد کی خطابت اور پنجاب یونی ورسٹی کے شعبہ دینیات کی سربراہی کی پیش کش بھی کی۔
سوال:آپ کے انٹرویو میں کئی تاریخی باتیں بھی آرہی ہیں۔ یہ فرمائیے کہ علامہ کشمیری دارالعلوم دیو بندسے الگ کیوں ہوئے؟
جواب: انتظامی حوالے سے کچھ اختلافات تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ دارالعلوم کی انتظامیہ طلبہ کے مسائل ومشکلات کے حل میں تساہل سے کام لے رہی ہے۔
سوال:علامہ صاحب کی دارالعلوم میں کیا پوزیشن تھی؟
جواب: شیخ الحدیث اور صدر المدرسین ۔
سوال:ان دنوں دار العلوم کے منتظم کون تھے؟
جواب: بانی دار العلوم مولانا قاسم نانوتوی کے صاحب زادے مولانا حافظ احمد صاحب، لیکن ان کے دست راست جن کا مدر سے پر اصل غلبہ تھا مولانا حبیب الرحمن عثمانی ( نائب مہتمم ) تھے ۔ آپ مولانا شبیر احمدعثمانی کے حقیقی بھائی تھے۔
سوال:کوئی نظریاتی یا سیاسی اختلاف نہیں تھا ؟
جواب: نہیں ،ایسا کوئی اختلاف نہیں تھا۔ والد مرحوم ہمیشہ ان نظریات کے حامل رہے، جو شیخ الہند مولانامحمودحسن کے تھے۔ شیخ الہند کی تحریک کو بد قسمتی سے صحیح طور پر نہیں سمجھا گیا۔
سوال:آپ سمجھا دیجیے؟
جواب: اس تحریک کو دو حصوں میں تقسیم کرنا پڑے گا۔ تحریک کے ابتدائی حصے میں ہندستان کو خالص اسلامی ریاست بنانے کا منصوبہ پیش نظر تھا۔ لیکن مالٹا سے رہائی کے بعد واپس آئے تو ایک طبقے نے جس میں محمد علی جو ہر اور شوکت علی بھی تھے، سمجھایا کہ فی الحال ہندستان کی آزادی مقدم ہے، جو یہاں کی تمام قوموں میں اشتراک عمل کے بغیر ممکن نہیں ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شیخ الہند نے یہ نظریہ عارضی طور پر قبول کیا تھا۔
سوال:شیخ الہند کا اسلامی ریاست کا نظریہ پورے ہندستان کے لیے تھا یا الگ اسلامی ریاست کا قیام مقصود تھا ؟
جواب: وہ پورے ہندستان کو اسلامی ملک بنانے کے خواہاں تھے، جیسے کہ انگریز کی آمد سے قبل تھا۔ تب یہاں مسلمانوں کی حکومت تھی (البتہ اسے اسلامی حکومت نہیں کہا جا سکتا، اسلامی حکومت تو تاریخ میں تھوڑا عرصہ ہی رہی )۔ اس نظریے کی بنیاد اس پر تھی کہ چوں کہ انگریز نے ہندستان کا اقتدار مسلمانوں سے چھینا تھا اور اس میں ہر طرح کا تشدد روا رکھا تھا، اس لیے مسلمانان ہند میں انگریز کے خلاف شدیدنفرت تھی، جو بعد میں باقاعدہ تحریک کی شکل اختیار کر گئی۔ اس کا منشا کھوئے ہوئے اقتدار کی بازیابی تھا۔
سوال:علامہ اقبال نے مسئلہ قومیت کے حوالے سے متحدہ قومیت اور مسلم قومیت کی جو بحث کی اور اس میں مولانا حسین احمد مدنی کے متعلق ایک آدھ خاصی سخت رباعی بھی کہی، دیو بند سے حضرت کشمیری کی علاحدگی میں ایسا کوئی مسئلہ تو نہیں تھا ؟
جواب: نہیں، ایسا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ وہ اس ساری بحث سے الگ رہے۔ ان کا اصل نقطۂ نظر پشاور میں جمعیت علما کے جلسے میں سامنے آیا۔وہ خطبہ صدارت آج بھی ہمارے لیے بہت کارآمد ہے۔
سوال:یہ کس سال کی بات ہے؟
جواب: ۱۹۲۷ء کی۔
سوال:اس خطبے کے بنیادی نکات کیا تھے؟
جواب: وہ متحدہ قومیت کو ایک محدود درجے میں لے جاتے ہیں، جب کہ مولانا حسین احمد مدنی اسے وسیع ترین حیثیت دیتے ہیں۔ علامہ کشمیری یہ وسعت قبول نہیں کرتے ۔ مولانا مدنی پوری دیانت داری کے ساتھ سمجھتے تھے کہ دور بدل گیا ہے۔ آج کا سیاسی نظریہ موجودہ دور کے مطابق ہونا چاہیے۔
سوال:محدود متحدہ قومیت سے علامہ کی کیا مراد تھی ؟
جواب: وہ یہ چاہتے تھے کہ مسلمان غیر مسلموں سے صرف اس حد تک اشتراک کریں، جو آزادی کے لیےمفید اور کارآمد ہو۔
سوال:مولانا مدنی کا نقطۂ نظر کیا تھا ؟
جواب: ان کے خیال میں متحدہ قومیت کا مطلب تھا کہ جس طرح برطانیہ میں رہنے والاہر شخص خود کو برطانوی کہتا ہے، چاہے وہ عیسائی ہو یا غیر عیسائی ، جرمنی کا ہر باشندہ خود کو جرمن اور فرانس کا ہر شہری خود فرانسیسی کہتا ہے، اسی طرح ہندستان کے تمام باشندے ہندستانی ہیں۔
سوال:علامہ کشمیری کے محدود نظر یۂ متحدہ قومیت کے مطابق انگریز سے آزادی کے بعد کیا ہو؟ پورے ہندستان کو اسلامی ریاست کیسے بنایا جائے؟ تب ایک نظریہ تو یہ تھا کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہ ہندستان سے الگ ہو کر آزاد اسلامی ریاست قائم کر لیں۔
جواب: ان تمام حضرات کے متعلق آپ یقین رکھیں کہ انھیں جب بھی اور جہاں بھی موقع ملے گا، وہ اسلا م کو اس کے خدو خال کے مطابق قائم کرنا چاہیں گے ۔ یہ اس میں نہایت درجہ پختہ ہیں، لیکن اس منزل تک پہنچنے کے لیے اگر انھیں غیر مسلموں کی مدد بھی لینا پڑتی ہے تو اس حد تک لیں گے جتنی ضرورت ہے۔ قائد اعظم کے متعلق بھی آپ ہرگز یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کوئی سیکولر گورنمنٹ قائم کرنا چاہتے تھے۔ اگر قائد اعظم سیکولر گورنمنٹ قائم کرنا چاہتے تو قیام پاکستان کے بعد کراچی میں علامہ شبیر احمد عثمانی سے اور ڈھاکے میںمولانا ظفر احمد عثمانی سے پاکستان کا پرچم نہ لہر واتے۔
سوال:جی ہاں قائد اعظم کی بے شمار تقاریر ہیں قیام پاکستان سے پہلے بھی اور بعد میں بھی ، جن میں ڈاکٹر اسرار احمد کے بہ قول وہ اسلام کی قوالی کرتے نظر آتے ہیں۔ اسلام کا معاشی نظام، اسلام کا سیاسی نظام، اسلام کا نظام معاشرت ، اسلام کا نظام عدل ، اسلامی تہذیب و تمدن ، اسلامی تاریخ۔
جواب: ہم قائد اعظم کو ایک مسلمان اور کامل مسلمان مانتے ہیں، جن کے اسلام اور ایمان میں رتی برابر شبہ نہیں۔
سوال: لیکن دیو بند میں ایک طبقے کا نقطہ نظر شاید خاصا مختلف تھا ؟
جواب: جی! اس سے میں شدید اختلاف کرتا ہوں اور انھیں اس سلسلے میں بہت بڑے غلط کار اور غلط گو سمجھتا ہوں۔ مجھے بچپن ہی سے سیاست کا چسکا ہے۔ میں اس پیرانہ سالی میں بھی سیاست میں سرگرم ہوں۔ یوپی کانگریس کا نائب صدر ہوں اور کانگریس کی کئی کمیٹیوں کا ممبر ہوں۔ موجودہ ہندستان کی سیاست کے حوالے سے میری رائے بالکل جدا ہے۔ وہ رائے یہ ہے کہ اگر کانگریس ٹوٹ جاتی ہے تو ہندستان میں ہندو کا کوئی کوئی نقصان نہیں ہوگا، اس لیے کہ ان کے لیے آرایس ایس ہے، بی جے پی ہے، ملائم سنگھ ہے، مایاوتی ہے وغیرہ وغیرہ لیکن اگر کانگریس ٹوٹ گئی تو اس کا اصل نقصان ہندستان کے مسلمانوںکو پہنچے گا۔ یہ بری بھلی جس حالت میں بھی ہے، مسلمانان ہند کے لیے غنیت ہے۔ دوسری طرف میں کانگریس والوں کو بھی سمجھاتا ہوں۔ یہی بات میں نے سونیا گاندھی سے کہی کہ آپ یہ بات سمجھ لیجیے کہ اگر کانگریس نہ رہی ، تو اس میں ہندستان کا نقصان ہے ۔ کانگریس کا سیکولر ازم ہندستان کی تمام اقوام کو مربوط رکھنے کا ذریعہ ہے۔ یہاں سیکولرازم کی بجائے فرقہ واریت کو فروغ ہوگا تو تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق یہاں کی مظلوم اقلیتیں بھی اٹھ کھڑی ہوں گی اور ملک ٹوٹ جائے گا۔
سوال:لیکن یہ حقیقت بھی تو ہے کہ پچھلے ستاون اٹھاون برس میں مسلمانان ہند نے کانگریس کو بھی آزمایا اوربی جے پی میں واجپائی صاحب جیسے سافٹ لیڈر کو بھی۔ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ کانگریس بھی نام کی حد تک سیکولر ہے۔ اس نے بھی سیکولر ازم کے حقیقی تقاضے پورے نہیں کیے۔
جواب: دیکھیں ! ایک ہے فطرت کے اندر زہر ہونا اور دوسرا ہے بعض عوامل کے تحت تھوڑا ساز ہر اپنے اوپر ڈال لینا۔ کانگریس اور فرقہ پرست جماعتوں میں یہی فرق ہے۔ فرقہ پرست جماعتیں مسلم دشمنی کو اپنا کاز بنائے ہوئے ہیں۔ کانگریس مشکل میں ہے۔ وہ مسلمانوں کو سو فی صد خوش کرے تو ہندو ناراض۔ مسلمان کاجو ۲۰؍ فی صد ووٹ ہے، وہ مختلف علاقوں میں تقسیم ہے۔ کانگریس صرف اس پر انحصار کر کے کام یابی حاصل نہیں کر سکتی ۔ چناں چہ وہ ہندو ووٹ بھی حاصل کرنے کے لیے ترازو کے دونوں پلڑے برابر بھی رکھ لےتو بڑی بات ہے۔
سوال:اس وقت برابر رکھ رہی ہے؟
جواب: کچھ اونچ نیچ ہو جاتی ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ بی جے پی نے بڑے دیر پا کام کیے ہیں۔ اس نے رفتہ رفتہ اپنے دل ، اپنے دماغ اور اپنی فکر کو کانگریس میں داخل کر دیا ہے۔
سوال:کیسے؟
جواب: اپنے افراد کو گورنمنٹ کے دفاتر میں داخل کر کے۔ آپ ہندستان آئیں اور سرکاری دفاتر میںآکر دیکھیں توآپ کو وہ لوگ بڑی تعداد میں ملیں گے، جو فکری طور پر بی جے پی کے قریب ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ سونیا گاندھی کو کانگریس کی بھی تطہیر کرنا پڑے گی کہ فرقہ واریت کا جو گند اس میں بھی داخل ہو گیا ہے، اسے صاف کریں اور میں اس سلسلے میں سونیا کو بہت مفید سمجھتا ہوں۔ قرآن میں عیسائیوںکو مسلمانوں کے اقرب کہا گیا ہے۔
سوال:جی ہاں ! ہمارے کزن ہیں۔ ان کی خواتین سے مسلمانوں کی شادی بھی ہو سکتی ہے؟
جواب: میں سمجھتا ہوں کہ سونیا جی سے کام لیا جائے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اہم شخصیات کے گرد ایسے لوگ جمع ہو جاتے ہیں جن کی نظر اپنے مقاصد پر ہوتی ہے، ملک وملت کے مفادات پر نہیں۔
سوال:آپ کا مطلب ہے کہ سونیا جی نہرو ، اندرا اور راجیو کی نسبت زیادہ لبرل ہیں ؟
جواب: جی بالکل ! اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ عیسائی ہیں ۔ دوسری بات یہ کہ ہندستان میں جس کش مکش میں ہم ( مسلمان ) مبتلا ہیں، وہ بھی مبتلا ہیں۔ فرقہ پرست اور فرقہ پرست پارٹیاں ان کی وزارت عظمی کو قبول کرنے کو تیار نہیں ۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس پر ان کا تاثر کیا ہوگا؟
سوال:اب جب کہ کانگریس ۲۰۰۴ کے الیکشن میں طویل عرصے کے بعد دوبارہ برسر اقتدار آئی ہے،جس میں مسلمان ووٹ نے بہت اہم رول ادا کیا تو کیا اب کانگریس کا رویہ مسلمانوں کے حوالے سےاس کے گذشتہ رویے سے بہتر ہوگا ؟
جواب: کانگریس تو مخلص ہے لیکن وہ مختلف جگہوں پر اقتدار جن لوگوں کے سپر د کر رہی ہے، وہ مخلص نہیں۔ عوامی رابطہ ٹوٹ گیا ہے اور اگر لیڈرشپ اور پارٹی کا عوام سے رابطہ نہ رہے تو پارٹی کام یاب نہیں ہو سکتی۔
سوال:یہ جو کانگریس کا روائیول (Revival) ہو رہا ہے، اب سونیا ہیں، اس کے بعد ان کے بچوں راہل یا پرینکا کے آنے کی باتیں بھی ہوتی رہتی ہیں، تو کیا آپ کے خیال میں کانگریس اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرلے گی کہ یہ مرکز میں بھی کسی سہارے کے بغیر برسراقتدار ہو اور صوبوں اور ریاستوں میںبھی اس کی حکم رانی ہو ؟
سوال: یہ بہت دیر کے بعد اور بڑی محنت کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ اس وقت ملک ایک ایسی روش پر چل پڑا ہے، جس میں اسے نہ کانگریس سے تعلق ہے نہ بی جے پی سے۔ اسے تعلق ہے اپنی خوش حالی سے، اچھے مکان سے، تعلیم سے اور دوا سے۔ اگر ملک سو فی صد مذہبی ہوتا توآج مرکز میں کانگریس کی نہیں بی جے پی کی حکومت ہونی چاہیے تھی، مگر چوں کہ بی جے پی عوامی مطالبات پورے نہ کر سکی اور عوام کو وہ زندگی نہیں دے سکی جو وہ چاہتے ہیں، چناں چہ عوام نے اسے مستر د کر دیا۔ اسی طرح اگر کانگریس عوام کی اقتصادی خواہشات پوری نہ کر پائی تو یہ بھی مسترد ہو جائے گی۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ کانگریس اگر اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا چاہتی ہے اور وہ دوبارہ حقیقی معنوں میں ایک ملک گیر جماعت بننا چاہتی ہےتو عوام سے اور ورکر سے اپنا رابطہ مضبوط بنائے۔
سوال:سونیا کا خاتون ہونا تو اس میں رکاوٹ نہیں؟
جواب: نہیں! ہندستان میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں۔ اس سے پہلے بھی یہاں کئی خواتین بہت اونچے عہدوں پررہی ہیں ۔ خود سونیا جی کی ساس اندرا گاندھی کی مثال بھی ہے۔
سوال:کچھ ہمیں یوپی کے بارے میں بتائیے، جہاں آپ کا نگریس کے نائب صدر ہیں ۔ یہ ہمیشہ ہندستان کے اقتدار کا منبع رہا ہے اور کانگریس کا نہایت مضبوط گڑھ بھی، مگر اب کانگریس وہاں بھی بر سر اقتدار نہیں؟
جواب: اس میں نرسمہا راؤ کی خالص سازش کا دخل تھا، جس نے یو پی میں کانگریس کو برباد کیا۔ وہ چاہتا تھا کہ کانگریس کو صرف اپنے علاقے (جنوب) میں محدود کر دے۔ وہ سمجھتا تھا کہ اسی طرح اسے اپنی وزارت سازی کا موقع ملے گا۔ چناں چہ اس نے یوپی کی طرف کوئی توجہ نہ دی ۔ جن معززین کو آگے لانے کی ضرورت تھی، انہیں پیچھے دھکیلا ۔ بابری مسجد کو گرانے میں یوں مدد کی کہ مرکزی حکومت خاموش تماشائی بنی رہی۔ چناں چہ یوپی کا مسلمان مکمل طور پر ناراض ہو گیا اور آج تک اس سانحے کو فراموش نہیں کر پایا۔
سوال:ہندستان میں مسلمانوں کی اپنی کوئی سیاسی جماعت نہیں ہو سکتی؟ شاہی مسجد دہلی کے امام احمدبخاری صاحب نے بھی یہ تجویز پیش کی تھی ؟
جواب: احمد بخاری کا یہ اعلان تو فضا میں یا اخباری کالموں میں تحلیل ہو کر رہ گیا اور شیو سینا دندناتی پھر رہی ہے۔ میں آپ کو بتاؤں کہ دور بدل گیا ہے۔ اس کے تقاضے بدل گئے ہیں۔ ایک دور تھا جو ۱۹۴۷ پرختم ہو گیا ۔ ہندستان کی تقسیم پر ختم ہو گیا ۔ آپ نے یوپی کی بات کی تھی۔ اب مسلمانوں کو یہاں کانگریس کے قریب لانے میں بڑی مشکلات پیش آتی ہیں۔ یہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد کی بات ہے۔ میں مرکزی وزیر داخلہ چوہان سے ملنے گیا۔ پوچھا کیسے آئے؟ میں نے کہا کہ مبارک باد دینے آیا ہوں ۔ آپ نے بابری مسجد گرادی۔ ہزاروں مسلمانوں کو شہید کرا دیا۔ ہزار ہا عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہو گئے۔ مسلمانوں کی اقتصادیات زیر و زبرہوگئیں۔ چوہان کہنے لگے کہ مولانا یہ چیزیں تو مبارک باد کی نہیں۔ میں نے کہا کہ ہماری نظر میں مبارک باد کی ہیں کہ آپ نے مار مار کر ہمیں مسلمان بنا دیا۔ اگر آپ ہم سے محبت کا معاملہ کرتے تو آجہمارے سر پر چوٹیاں اور جسم پر دھوتیاں نظر آتیں۔
سوال:یہ ملاقات کسی سلسلے میں تھی ؟ کیا آپ یہی مبارک باد دینے گئے تھے؟
جواب: حکومت نے دینی تعلیم کے لیے آنے والے بنگلہ دیشی بچوں کا ویزہ ختم کر دیا تھا۔ میں اس سلسلے میں ان سے ملنے گیا تھا۔ میں نے چوہان صاحب سے جو بات کہی ، وہ آپ ضرور لکھیے تا کہ جنرل مشرف صاحب بھی اس پر غور فرمائیں ۔
میں نے کہا اداکار اور اداکارائیں آئیں تو آپ ویزہ دیں، کرکٹر آئیں تو ان کا استقبال کریں ، انھیں عزت اور سہولت دیں، ناچنے گانے والے آئیں تو ان کی پذیرائی کریں، لیکن کوئی علم دین حاصل کرنے کے لیے آئے جو ہمارے ملک کا اعزاز ہے تو انھیں اپنے ملک سے نکال دیں۔ انھیں ویزہ نہ دیں۔ میں ڈرتا ہوں اس رویے سے کہیں خدا تعالیٰ کا عذاب نہ آجائے!
سوال: ایک اور بات کرتے ہیں ۔ قائد اعظم کوئی تنگ نظر مولوی تو نہیں تھے۔ نہایت روشن خیال اور لبرل شخصیت تھے۔ ایک دور میں مسلم ہندو اتحاد کے زبردست داعی بھی رہے۔ پھر وہ ایک الگ ریاست کے مطالبے پر کیوں مجبور ہو گئے؟ شاید اس لیے کہ کانگریس اور اس کی قیادت متحدہ ہندستان یا مسلمانوں کے حقوق کے لیے کوئی تحفظ اور کوئی ضمانت دینے پر آمادہ ہی نہیں تھی؟
جواب: ۱۹۷۱ء کی مثال لے لیں۔ مشرقی پاکستان کے عوام کا احساس محرومی پاکستان کی تقسیم کی بنیاد بن گیا۔ بعض اہل نظر کے نزدیک اسی طرح متحدہ ہندستان میں کانگریسی قیادت کی غلطی اورہندو اکثریت کا تعصب قیام پاکستان کا اہم سبب بن گیا۔
سوال:اب پاکستان بن گیا ہے تو ؟
جواب: اب اس کی حفاظت اور اس کا تحفظ ہم ہندستانی مسلمانوں پر تو اس لیے فرض ہے اور ہمیں اس لیے مطلوب و محبوب ہے کہ مسلمانوں کا ملک ہے، لیکن غیر مسلم حکومتوں کو بھی پاکستان کے تحفظ اور دفاع کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اس لیے کہ پاکستان بہت بڑا حصار ہے۔ خدانہ خواستہ یہ ٹوٹے گا تو ہندستان بھی زد میں آئے گا۔

