مستشرقین کا تیار کردہ اشاریۂ حدیث

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

ضخیم کتابوں میں مطلوبہ مواد تک کم وقت میں اور آسانی کے ساتھ رسائی کے لیے فہرست سازی اور اشاریہ نگاری کے فنون وجود میں آئے۔ اشاریہ نگاری کو جدید ترین فن سمجھا جاتا ہے، حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کا ایجاد کردہ ہے۔ انھوں نے مختلف علوم میں ایسی کتابیں صدیوں پہلے تیار کی تھیں جن کی مدد سے مطلوبہ مواد تک پہنچنے میں سہولت ہو۔ علمِ حدیث میں یہ کام کئی پہلوؤں سے ہوا ہے۔ مسانید میں ہر صحابی کی روایات کو یکجا کیا گیا۔ ایسی کتابیں تالیف کی گئیں جن میں اطراف حدیث (احادیث کے ابتدائی ٹکڑوں) کو حروف تہجی کی ترتیب پر جمع کیا گیا تھا۔ ایسی کتابوں میں ابو مسعود دمشقیؒ (م ۴۰۱ھ) کی ’أطراف الصحیحین‘ ،ابو العباس احمد بن ثابت اصفہانیؒ (م ما بعد ۵۲۱ھ) کی ’أطراف الکتب الخمسۃ‘، ابن عساکر (م ۵۷۱ھ) کی ’الاشراف بمعرفۃ الأطراف‘، مزّیؒ(م ۷۴۲ھ) کی ’تحفۃ الاشراف بمعرفۃ الأطراف‘، نابلسی ؒ(م ۱۱۴۳ھ) کی ’ذخائر المواریث فی الدلالۃ علی مواضع الأحادیث‘ قابل ذکر ہیں۔کچھ کتابوں کی تالیف معجم کے طور پر کی گئی کہ ان میں احادیث کے ابتدائی الفاظ کو حروف تہجی کی ترتیب پر جمع کیا گیا۔ علامہ جلال الدین سیوطیؒ (م ۹۱۱ھ) کی ’الجامع الکبیر، الجامع الصغیر اور زوائد الجامع الصغیر اسی طرز کی کتابیں ہیں۔کچھ کتابیں موضوعاتی اعتبار سے تیار کی گئی ہیں کہ ان میں کسی ایک یا دو کتابوں کو منتخب کرکے اور کچھ موضوعات متعین کرکے انھیں از سر نو مرتب کیا گیا ہے۔ مثلاً حمیدی الأندلسی (م ۴۸۸ھ) کی ’الجمع بین الصحیحین‘، رزین السرقسطیؒ (م ۵۳۵ھ) کی’ التجرید للصحاح السنۃ‘، ابن الاثیرؒ(م۶۰۶ھ) کی ’جامع الأصول من أحادیث الرسول‘، نور الدین ہیثمی ؒ(م ۸۰۷ھ) کی ’مجمع الزوائد و منبع الفوائد،حافظ ابن حجر عسقلانیؒ(م ۸۵۲ھ) کی المطالب العالیۃ بزوائد المسانید الثمانیۃ‘، علی متقی ہندیؒ (م۹۷۵ھ) کی ’کنز العمال من سنن الاقوال والافعال‘ اور احمد بن عبد الرحمن البناءؒ (م ۱۳۷۸ھ) کی ’الفتح الربّانی فی ترتیب مسند الامام أحمد بن حنبل الشیبانی اور’منحۃ المعبود فی ترتیب مسند الطیالسی أبی داؤد‘وغیرہ۔ ایک طریقہ یہ بھی اختیار کیا گیا کہ کسی متعین کتابِ حدیث کو لے کر اس میں کچھ الفاظ کو اکٹھا کرکے انھیں لغت کے انداز میں حروف تہجی کی ترتیب پر مرتب کیا گیا ہے، پھر وہ الفاظ جن احادیث میں آئے ہیں ان کا اندراج کیا گیا۔ اس سلسلے میں شیخ مصطفی بن علی بن محمد البیومی (م مابعد ۱۳۵۲ھ)کا نام لیا جاتا ہے، جنھوں نے اس طرز پر کتبِ ستّہ کی اہم کتابوں کی اشاریہ سازی کی تھی۔ مؤخر الذکر طرز پر مستشرقین کے تیار کردہ اشاریۂ حدیث المعجم المفھرس لألفاظ الحدیث النبوی کو غیر معمولی شہرت ملی ہے۔ اس مقالے میں اسی کا تعارف مقصود ہے۔
المعجم المفھرس لألفاظ الحدیث النبویکومشہور مستشرق پروفیسر اے۔جے۔ ونسنک(۱۸۸۸ء۔۱۹۳۹ء) Arent Jan Wensinkاور ان کے رفقاء نے مرتب کیا ہے۔ اس میں صحاح ستہ کے علاوہ موطا امام مالک، مسند احمد اور سنن الدارمی کے الفاظِ احادیث کی اشاریہ سازی کی گئی ہے۔ ان نوکتب حدیث میں موجود کوئی حدیث تلاش کرنی ہو ،یا یہ جاننا ہو کہ فلاح حدیث ان میں سے کس کس کتاب میں آئی ہے؟ تو اس کتاب کی مدد سے اسے بہ آسانی تلاش کیا جا سکتا ہے۔
اس کتاب کی ترتیب و تالیف کا عرصہ تقریباً پینسٹھ برسوں (۱۹۲۲ تا ۱۹۸۷ء) پر محیط ہے اور تقریباً اتنی ہی تعداد ان دانش واروں اور محققین کی ہے جنھوں نے اس پروجیکٹ میں اپنا علمی تعاون پیش کیا ہے۔ اس طرح یہ اہم علمی کام چار نسلوں کی کاوشوں کا حاصل ہے۔ مغرب میں اجتماعی تحقیق کا جو رواج چل پڑا ہے۔ یہ کتاب اس کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔
ونسنک ۔ مختصر تعارف
اے۔جے۔ونسنک ۱۹۰۸ء سے ۱۹۲۷ء تک لیدن یونی ورسٹی (University Of Leiden) میں عبرانی زبان کے استاد رہے۔ سامی زبانوں کی معرفت میں انھیں کافی شہرت ملی۔ ۱۹۲۷ء سے وہ اسی یونی ورسٹی میں عربی زبان کے پروفیسر ہو گئے۔ اس منصب پر ان سے پہلے مشہور مستشرق کرسٹان سنوک ہر خرونجہ (۱۸۵۷ء۔۱۹۳۶ء) Christian Snouck Hurgronje فائز تھے۔
ونسنک نے اسلامیات پر مطالعہ و تحقیق کو اپنا خاص موضوع بنایا۔ ان کا پی ایچ ڈی مقالہ ’محمد اور یہود مدینہ‘ (طبع لیدن ۱۹۰۶ء) کے عنوان سے تھا۔ ۱۹۲۵ء میں انھوں نے انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کی تدوین میں حصہ لیا اور اس کی چار (۴) جلدیں تیار کیں۔ ان کی چند تصانیف یہ ہیں:
مشرقی (عیسائی اور اسلامی) تصوف (طبع لیدن ۱۹۲۸ء)
اہلِ مشرق کے نزدیک مشئیۃ واحدہ کا اعتقاد (طبع لیدن ۱۹۲۸ء)
سریانی ادبیات میں مشرقی تصوف (طبع لیدن ۱۹۲۸ء)
عقیدۂ اسلامی اور اس کا تاریخی ارتقاء (طبع کیمبرج ۱۹۳۲ء)
غزالی کا فکر (طبع پیرس ۱۹۴۰ء)
ونسنک کو حدیث پر بھی علمی کام کرنے سے دل چسپی تھی۔ اس موضوع پر ان کی ایک اہم کتاب Handbook of Early Muhammadan Tradition (طبع لیدن ۱۹۲۷ء) ہے۔یہ حدیث نبوی کی چودہ (۱۴) بنیادی کتابوں میں موضوعات حدیث کا اشاریہ ہے۔ حدیث پر ان کی دوسری اہم کتاب ’المعجم المفہرس لالفاظ الحدیث النبوی ‘ہے، جس کا اس مقالے میں تعارف کرایا جا رہا ہے۔
معجم کی تالیف کا ابتدائی تصور
پروفیسر ونسنک کے ذہن میں معجم کی تالیف کا خیال ۱۹۱۶ء سے قبل آیا تھا۔ اس سلسلے میں انھیں مستشرق ہر خرونجہ Hurgronje سے رہ نمائی ملی تھی۔ البتہ انھوں نے اس پروجیکٹ پر باقاعدہ کام ۱۹۲۲ء سے شروع کیا ہے۔
۱۹۲۷ء میں ونسنگ نے اپنی کتابHandbook of Early Muhammadan Tradition شائع کی۔ اس کتاب میں متون حدیث پیش کرنے کے بجائے صرف موضوعات کا تذکرہ Alphabetکی ترتیب سے کیا گیا تھا اور ان مقامات کے حوالے دیے گئے تھے جہاں کتب حدیث میں ان پر مواد مل سکتا تھا۔ اس کی تالیف کے لیے جو مواد اکٹھا کیا گیا وہی بعد میں معجم کی تالیف میں کام آیا۔ لیکن دونوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ہینڈ بُک کے برخلاف معجم کے بارے میں یہ منصوبہ بنایا گیا کہ اس کی زبان عربی ہوگی اور اس میں بنیادی کلمات کو ان کے سیاق کے ساتھ ذکر کیا جائے گا۔
معجم کی تالیف کا مقصد ونسنک اور ان کے معاونین کے نزدیک یہ نہیں تھا کہ اسے لغوی مطالعات کے لیے ایک مرجع کی حیثیت دے دی جائے، بلکہ اسے ایک ایسا ماخذ بناناان کے پیشِ نظر تھاجس کے ذریعہ اہلِ علم کو احادیثِ نبوی کی اہم کتابوں میں مطلوبہ احادیث تلاش کرنے میں آسانی ہو۔
انداز تالیف
ونسنک اور ان کے معاونین نے معجم کی تالیف کا خاکہ اس طرح بنایا کہ وہ الفاظ جن کا کتب حدیث میں بہت زیادہ استعمال ہوا ہے اور ان سے کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوتاانھیں حذف کر دیا جائے۔ اور وہ الفاظ جن کا کثرت سے استعمال ہوا ہے اور وہ مفید مطلب بھی ہیں، انھیں بغیر سیاق سے ذکر کر دیا جائے۔ اس سے علمی اور اقتصادی دونوں اعتبار سے فائدہ ہوگا۔ اس لیے کہ اگر کوئی ایک لفظ یا جملہ بھی ساقط نہیں کیا جائے گا تو کتاب کا حجم بہت زیادہ بڑھ جائے گا، اس کی وجہ سے اس سے استفادہ میں بہت دشواری ہوگی اور طباعت کے اخراجات بھی بہت بڑھ جائیں گے۔ چنانچہ اسی نہج پر وہ کام کرنے لگے۔
ونسنک کے اس کام کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ بعض لوگوں نے یہ رائے دی کہ وہ جن کتب حدیث کا اشاریہ تیار کرنا چاہتے ہیں، پہلے ان کی کے محقق ایڈیشن شائع کریں۔ اس کے جواب میں ونسنک کا کہنا تھا کہ اس قسم کے کام کے لیے ان کی عمر ناکافی ہے۔ انھوں نے نصوص کو اسی طرح نقل کیا جس طرح وہ دست یاب کتابوں میں درج تھے۔ گویا انھیں یہ بات تسلیم تھی کہ جن نصوص کی تحقیق علمی طور پر نہیں ہو سکی ہے ان میں غلطیوں کا در آنا ممکن ہے۔ چنانچہ ونسنک اور ان کے بعد کام کرنے والوں نے بھی اسی انداز پر کتب حدیث کی دست یاب غیر محقّق طباعتوں (Editions) پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنا کام جاری رکھا۔
بعد میں مصری محقق و دانش ور محمد فواد عبد الباقی نے صحیح مسلم، سنن ابن ماجہ اور مؤطا امام مالک کے محقق ایڈیشن شائع کیے تو انھوں نے احادیث پر نمبر ڈالنے میں ان نمبروں کی رعایت کی جو ونسنک نے اپنی معجم میں درج کیے تھے۔
اشاعت کا آغاز
ڈاکٹر جے۔جے وٹکام(J.J.Witkam) نے لکھا ہے:
’’۱۹۳۶ء المعجم المفھرس کی تالیف کی تاریخ کا سب سے اہم مرحلہ تھا۔ اس مرحلہ میں کتبِ حدیث کا دقّت و باریکی سے مطالعہ کرکے نصوص (الفاظ مع سیاق) کے کارڈس تیار کر لیے گئے۔ اس طرح بنیادی کام پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا۔ اس کے بعد اس خام مواد کی روشنی میں اصل کتاب کی تالیف کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔‘‘
لیکن یہ بات صحیح نہیں معلوم ہوتی، بلکہ شواہد ایسے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مرتب شکل میں تالیف کا آغاز چوتھی دہائی کے اوائل ہی سے ہو گیا تھا۔ معجم کی طباعت و اشاعت کا کام پہلے اجزاء کی شکل میں کیا گیا۔ ہر جزء اسّی صفحات پر مشتمل ہوتا تھا۔ (اسے فصل Lirvaison کا نام دیا گیا)۔ سات فصول کی اشاعت کے بعد انھیں ایک جلد کی شکل دے دی جاتی تھی۔ ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ کی لائبریری میں معجم کا جو قدیم نسخہ ہے، خوش قسمتی سے اس کی جلد اول میں فصل سوم کا سرورق موجود ہے۔ اس پر سنۂ اشاعت ۱۹۳۴ء درج ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ فصل اول کی اشاعت اس سے بھی پہلے ہو چکی ہے۔
جلد اول (ا۔ح)
سات فصول پر مشتمل جلد اول ۱۹۳۶ء میں پروفیسر ونسنگ کی نگرانی میں شائع ہوئی۔ اس کے سرورق پر مرتبین کا تذکرہ یوں کیا گیا ہے:
’’رتّبہ و نظّمہ لفیف من المستشرقین، و نشرہ الدکتور أ۔ی۔ ونسنک أستاذ العربیۃ بجامعۃ لیدن۔‘‘
مقدمہ میں ونسنک نے ذکر کیا تھا کہ وہ کتاب کی آخری جلد میں اس پروجیکٹ کی تفصیلات بیان کریں گے اور اس کے آغاز و ارتقاء کے مراحل پر روشنی ڈالیں گے۔ لیکن یہ ان کے لیے مقدر نہ تھا، کیوں کہ ۱۹۳۹ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔
جلد دوم (خب۔سز)
اپنی حیات میں پروفیسر ونسنک جلد دوم کی صرف چار فصلیں (۸،۹،۱۰،۱۱) شائع کرسکے تھے۔ ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی کی لائبریری میں فصل ۸ اور فصل ۱۰ کے سرورق محفوظ ہیں۔ فصل ۸ (خب۔خمر، ص ۱۔۸۰) پر سنۂ اشاعت ۱۹۳۷ء اور فصل ۱۰ (دوم۔ رحم، ص ۱۶۱، ۲۴۰) پر ۱۹۳۸ء درج ہے۔ ونسنک کی وفات کے بعد معجم کی تحریرو تسوید کے کام کی نگرانی ڈاکٹر جے۔ پی منسنگ (J.P.Mensing) کے سر آگئی۔ موصوف سنوک اور ونسنک کے شاگرد ہیں۔ ’فقہ حنبلی میں حدود‘ (طبع لیدن ۱۹۳۶ء) کے موضو ع پر انھوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ پھر ۱۹۳۸ء میں لیدن یونی ورسٹی میں جدید عربی کے استاد مقرر ہوئے۔ ۱۹۴۰ء میں اس پروجکٹ کو اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد تین برس کے عرصے میں انھوں نے جلد دوم کی مزید تین فصول (۱۲،۱۳،۱۴) شائع کیں۔ اس کے بعد ۱۹۴۳ء میں وہ دوسری جلد مکمل کرکے شائع کرنے میں کام یاب ہو گئے۔ اس طرح جلد دوم کی اشاعت دومحققین کی کاوشوں کی مرہونِ منت ہے۔ اس کی ابتدائی چار فصلوں ( ’ز‘ تک)ونسنک کی تیار کردہ تھیں، جب کہ آخری تین فصلیں منسنگ نے تیار کی تھیں۔ اسی لیے اس جلد کے ٹائٹل پر دونوں کا نام یوں درج ہے:
’’رتّبہ و نظّمہ لفیف من المستشرقین، و نشرہ الدکتور أ۔ ی۔ ونسک أستاذ العربیۃ بجامعۃ لیدن والدکتور ی۔ب۔منسج محاضر العربیۃ بجامعہ لیدن۔‘‘
اس جلد پر ڈاکٹر منسنگ کے دو پیش لفظ ہیں: ایک پر نومبر ۱۹۴۱ء اور دوسرے پر جولائی ۱۹۴۳ء کی تاریخ درج ہے۔ اس میں انھوں نے اپنے پیش رو پروفیسر ونسنک کی طرح وعدہ کیا کہ وہ الگ سے ایک مضمون لکھیں گے، جس میں اس پروجیکٹ کی تفصیلات بیان کریں گے اور یہ بھی ذکر کریں گے کہ معجم کی تالیف کا خیال (پروفیسر ونسنک کے) ذہن میں کیسے آیا؟ اور یہ پروجیکٹ کن مراحل سے گزرا؟ لیکن انھیں بھی اس کی توفیق نہ مل سکی۔ ۱۹۵۱ء میں ایک مرض میں مبتلا ہو کر وہ اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ اس وقت وہ اقوام متحدہ کی جانب سے ایک مہم پر لیبیا میں تھے۔
جلد سوم (سنم۔طعم)
ڈاکٹر منسنگ نے لیبیا جانے سے قبل اس پروجکٹ پر کام جاری رکھنے کی ذمہ داری ہالینڈ کے دو نوجوانوں: ہاس (W.D.De Haas) اور وان لون (J.B.Vanloon)کو سونپ دی تھی۔ ان دونوں نے ۱۹۵۴ء تک کام جاری رکھا۔ لیکن جلد دوم کی اشاعت پر دس برس کا عرصہ گزر جانے کے باوجود جلد سوم مکمل شائع نہ ہو سکی، البتہ اس کی فصول شائع ہوتی رہیں۔ ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی کی لائبریری میں فصل ۱۸ ؍اور فصل ۲۰ ؍کے سرورق محفوظ ہیں۔ ان کے مطابق فصل ۱۸ ؍کی اشاعت ۱۹۵۲ء اور فصل ۲۰ ؍کی ۱۹۵۴ء میں ہوئی۔ فصل ۱۸ ؍کے ٹائٹل کو ر پر چارمرتبین کے نام درج ہیں:ی۔ پ۔ منسج (J.P.Mensing)، و۔پ۔دی۔ ہاس (W.P. De Haas)، ی۔ب۔فن لون (J.B. Van Loon)اور ک۔ ادریانسی (C.Adriaanse)،جب کہ فصل ۲۰ کے سرورق پر منسنگ کا نام نہیں ہے، بقیہ تینوں نام ہیں۔
فصل ۲۱ ؍کی اشاعت کے بعد تیسری جلد مکمل ۱۹۵۵ء میں شائع ہوئی۔ ڈاکٹر وٹکام نے لکھا ہے:
’’اس جلد کو شائع کرنے کا سہرا J.T.P.Bruyin اور H.C.Ruyter کے سر جاتا ہے۔‘‘
اس جلد کی اشاعت میں ڈاکٹر سی۔سی برگ (C.C.Berg) کی دل چسپی اور معاونت کو بڑا دخل تھا۔ موصوف لیدن یونی ورسٹی میں جاوی زبان کے استاد اور رائل اکیڈمی امستردام (Royal Academy Amsterdam) کے چیرمین تھے۔ ان کی وجہ سے معجم کے طباعتی مصارف کے لیے ہالینڈ اور دیگر ممالک کی بعض تنظیموں اور اداروں کی جانب سے مالی تعاون ملا۔ ڈاکٹر برگ ہی کی بدولت یہ پروجکٹ دشوار گزار مرحلہ طے کرسکا۔
اپنے پیش لفظ میں ڈاکٹر برگ نے اس جلد کی ترتیب و اشاعت کے مراحل پر روشنی ڈالی ہے اور معاونین کا شکریہ ادا کیا ہے۔
جلد چہارم (طعن۔ غمر)
جلد چہارم کی تیاری اور اشاعت کا کام ڈاکٹر ہاس، ڈاکٹر لون اور ڈاکٹر بروین نے انجام دیا۔ یہ جلد بھی سات فصول (۲۲۔۲۸) پر مشتمل ہے۔ ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی کی لائبریری میں اس کی آخری فصل ۲۸ ؍کا سرورق محفوظ ہے۔ اس پر انہی تینوں محققین کے نام درج ہیں اور مکمل جلد کی اشاعت کے وقت اس کے ٹائٹل پر بھی انہی حضرات کا نام ہے۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آخری مرحلے میں یہ پروجکٹ ڈاکٹر جے۔بی۔ بروخمان (J.B.Brugman) کی زیر نگرانی آگیا تھا۔ کیوں کہ اس پر انہی کا پیش لفظ (تاریخ نومبر ۱۹۶۲ء) موجود ہے۔ موصوف ۱۹۶۱ء میں لیدن یونی ورسٹی میں عربی زبان کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ انھوں نے اس پروجکٹ میں کام کرنے والے طلبہ اور اساتذہ کی ایک ٹیم تیار کرلی اور ان کے تعاون سے اس کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔
جلد پنجم تا جلد ہفتم
بقیہ جلدیں (پنجم، ششم،ہفتم) مکمل ڈاکٹر بروخمان کی زیر نگرانی شائع ہوئیں۔ جلد پنجم ۱۹۶۵ء میں، جلد ششم ۱۹۶۷ء میں اور جلد ہفتم ۱۹۶۹ء میں منظر عام پر آئی۔ جلد پنجم اور جلد ششم میں کوئی پیش لفظ نہیں ہے، البتہ جلد ہفتم میں ڈاکٹر بروخمان کے قلم سے نصف صفحہ کا مختصر پیش لفظ موجود ہے۔
مجلس مشاورت
معجم کی ابتدائی دو جلدوں میں اراکین مجلس مشاورت کے نام شائع ہوئے تھے۔ جلد اول میں درج ذیل نام ہیں:
1. M.M.Anesaki (Tokio)
2. BajrakTarevis (Beograd)
3. M.Foud Abdel Baky (Cairo)
4. Jorga (Bucarest)
5. Kratchkovsky (Leningrad)
6. Lopez (Lisbonne)
7. Marcais (Paris)
8. Moberg (Lund)
9. Nallino (Rome)
10. Nicholson (Cambridge)
11. Pedersen (Copenhague)
12. Kuzicka (Prague)
13. Schencke (Oslo)
14. Tallquist (Helsingfors)
15. Torrey (New Haven)
جلد دوم کی فہرست میں ایک نام (Rome) Nallino(نمبر شمار ۹) نکال دیا گیا ۔ جلد دوم کی فصل ۲۰ ؍میں بھی چودہ نام ہیں۔ بقیہ جلدوں میں اس پوری فہرست کو حذف کر دیا گیا ہے۔ البتہ جلد چہارم کی آخری فصل ۲۸ ؍کے سرورق کے اندرونی صفحہ پر مجلس مشاورت کے Director of Bureau کی حیثیت سے J.Brugman کا نام درج ہے۔
علمی معاونین
اس پروجکٹ میں مشہور مصری محقق اور دانش ور محمد فؤاد عبد الباقی کا عملی تعاون بہت اہم اور غیر معمولی ہے۔ موصوف متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم کے نام سے قرآن کا انڈکس ان کا قابل قدر اور لائق ستائش کار نامہ ہے۔ انھوں نے ونسنک کی کتابA Hand book of early Muhammadan Tradition ’مفتاح کنوز السنۃ‘ کے نام سے عربی میں ترجمہ کیا ہے۔ (طبع قاہرہ، ۱۹۳۴ء) زیر تعارف معجم کے سلسلے میں انھوں نے متعدد پہلوؤں سے تعاون کیا ہے۔ ان کا ایک تعاون یہ ہے کہ انھوں نے حدیث نبوی کی متعدد بنیادی کتابوں، مثلاً صحیح مسلم، سنن ابن ماجہ اور مؤطا مالک کے محقق ایڈیشن شائع کیے اور ان میں احادیث کے نمبر ڈالنے میں ان نمبروں کی رعایت کی جو ونسنک نے اپنی معجم میں درج کیے تھے۔ ان کا دوسرا تعاون یہ ہے کہ انھوں نے اس معجم اور ونسنک کی دوسری کتاب ’مفتاح کنوز السنۃ‘ سے صحیح طریقے سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک کتاب تصنیف کی، جس کا نام ہے:’تیسیر المنفعۃ بکتابی مفتاح کنوز السنۃ وا لمعجم المفہرس لالفاظ الحدیث النبوی‘ (طبع قاہرہ ۱۹۳۵ء۔۱۹۳۹ء) ونسنک کی ان دونوں کتابوں میں چوں کہ مصادر حدیث کے غیر محقق اور غیر مرقّم نسخوں پر انحصار کیا گیا ہے، اس لیے ابواب و احادیث کے حوالوں میں کہیں کہیں ایک دو نمبروں میں فرق ہوجاتا ہے۔ فؤاد عبد الباقی نے تفصیلی جدول تیار کیے، تاکہ ان کتابوں کے حوالوں تک بآسانی رسائی ہو سکے۔
اس کے علاوہ خود اس معجم کی تیاری کے دوران بھی انھوں نے تعاون کیا ہے اور مرتبین کو وقتاً فوقتاً اپنے مشوروں سے نوازا ہے۔ ان کا نام مجلس مشاورت میں شامل تھا اور جلد سوم اور جلد چہارم (اسی طرح فصل ۱۸، ۲۰ ،۲۸) کے سرورق پر ان جلدوں میں ان کی مشارکت کی صراحت موجو دہے۔ ڈاکٹر وٹکام نے ان کے تعاون کا ان الفاظ میں اعتراف کیا ہے:
’’انھوں نے معجم کے مرتبین کا ہمیشہ تعاون کیا اور سنت نبوی کے بارے میں اپنی وسیع معلومات سے انھیں مستفید کیا۔ انھوں نے متعدد مواقع پر اور خاص طور سے پروجکٹ کے نصف اول میں ترتیب و تدوین کے اہم اور بنیادی مسائل میں مرتبین کو انتہائی قیمتی مشوروں سے نوازا۔‘‘
دوسرے اہم معاون ڈاکٹر جون بول (G.H.A Juynboll) ہیں۔ انھوں نے اس پروجکٹ میں ۱۹۶۱ء سے پروفیسر بروخمان کے ساتھ کام کرنا شروع کیا، جب کہ اس وقت وہ شعبۂ اسلامیات میں طالب علم تھے۔ اس کام میں ان کی دل چسپی اور انہماک اس حد تک بڑھا کہ آئندہ زندگی میں انھوں نے حدیث نبوی کو اپنی علمی تحقیقات کا خاص موضوع بنا لیا۔
ڈاکٹر وٹکام نے لکھا ہے:
’’فصول کی اشاعت کے وقت ان کے سرورق کے اندرونی صفحہ پر علمی معاونین کے نام لکھے جاتے ہیں، مگر افسوس ہے کہ مکمل جلد کی تجلید(جلد سازی)کے وقت وہ اوراق ضائع ہوگئے۔‘‘
مقام شکر ہے کہ ادارئہ تحقیق وتصنیف اسلامی میں موجود معجم کی جلدوں میں ایسے چار سرورق محفوظ ہیں جن میں معاونین کے نام درج ہیں۔ فصل ۳ ؍کے سرورق پر ۳۷،فصل ۸ ؍کے ٹائٹل پر ۳۹،فصل۲۰ ؍کے سرورق پر ۴۳ اور فصل ۲۸ ؍کے سرورق پر ۴۵ معاونین کے نام ہیں۔
مکمل جلدوں کی اشاعت کے وقت، جلد اول کے آخر میں ۳۸ ؍اور جلد دوم کے آخرمیں ۴۲ ؍معاونین کی فہرست دی گئی ہے۔ جلد پنجم میں یہ تعداد ۵۱ ؍تک پہنچ گئی ہے۔ جلد ۳،۴،۶ اور ۷ میں فہرست معاونین موجود نہیں ہے۔
ڈاکٹر وٹکام نے لکھاہے کہ پروفیسر ونسنک نے ۱۹۲۲ء میں اس پروجکٹ کی ایک رپورٹ تیار کی تھی، جس میں معاونین کی ایک فہرست دی تھی، لیکن معلوم ہوتاہے کہ اس سے ان کی مراد پروجکٹ میں صرف علمی تعاون کرنے والے نہ تھے، بلکہ اس میں انہوں نے ان لوگوں کا بھی نام درج کردیاتھا جنہوں نے کسی بھی حیثیت سے اس میں تعاون کرنے کا وعدہ کیاتھا، یا اس پروجکٹ کے سلسلے میں اپنی تائیدی رائے پیش کی تھی۔‘‘
ڈاکٹر وٹکام نے اس پروجکٹ کے عملی معاونین کی ایک جامع فہرست تیار کی ہے۔ اس میں ان کی تعدادچونسٹھ تک پہنچ گئی ہے۔(اس فہرست میں خود ڈاکٹر وٹکام اور ڈاکٹر راون(جنہوں نے فہارس کی جلد نمبر۸ ؍تیار کی ہے‘کے نام بھی شامل ہیں)یہ فہرست درج ذیل ہے:

H.A.WINKLER
مالی تعاون
ڈاکٹر وٹکام نے لکھاہے کہ ’’اس پروجکٹ میں علمی تعاون کرنے والوں کے معاوضہ اور طباعت کے مصارف ہالینڈی تنظیم برائے فروغ تحقیق علمیNETHERLANDS ORGANISATION FOR THE DEVELOPMENT OF SCIENTIFIC RESEARCHنے برداشت کیے۔
اس سلسلے میں ابتدائی دو جلدوں میں کوئی صراحت نہیں ملتی، لیکن جلد۳ ؍سے جلد ۷ ؍تک ہر جلد کے سرورق پر یہ عبارت درج ہے:
’’والمساعدات المالیۃ ھی من المجامع العلمیۃ البریطانیۃ والدنیمرکیۃ والسویدیۃ والھولندیۃ والانیسکووالمجلس الأممی للفلسفۃ والآداب والھیئۃ الھولندیۃ للبحث العلمی البحث والا تحادالأممی للمجامع العلمیۃ۔‘‘
معجم کی کمپوزنگ اور طباعت کا کام دو اداروں کے تعاون سے انجام پایا۔جلد چہارم کے صفحہ نمبر ۳۲۰ ؍تک(یعنی معجم کا تقریباً نصف حصہ)لیدن کے مطبع بریل (E.J.BRILL)میں کمپوز اور طبع کیاگیا۔ بقول ڈاکٹر وٹکام’’اس مطبع میں کام کرنے والوں کو عربی زبان سے زیادہ واقفیت نہیں تھی، اس لیے انہیں بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘چوتھی جلد کے بقیہ حصہ اور دیگر جلدوں کی کمپوزنگ اور طباعت کا شرف ہندوستان کو حاصل ہوا۔ یہ کام الدارالقیمۃ بھیونڈی میں ہوا۔ اس کے مالک شیخ عبدالصمد شرف الدین (م۱۹۹۶ء؍۱۴۱۶ھ) نے اس میں غیر معمولی دل چسپی لی اور بڑے اہتمام سے اسے طبع کرایا۔ڈاکٹر وٹکام نے لکھاہے:
’’آخری چار جلدوں کی کمپوزنگ اور طباعت کا کام ناشرین نے الدار القیمۃ بھیونڈی (ہندوستان) سے کروایا۔ وہاں کے لوگ اور خاص کر اس ادارہ کے ڈائرکٹر عالم ومتقی جناب عبدالصمد شرف الدین اپنے علمی سرمایہ سے گہری واقفیت رکھتے تھے۔انہوں نے بڑی باریکی اور دل چسپی سے یہ کام انجام دیا اور بہت سے اضافات اور تصحیحات کیں۔ ان کی وجہ سے یقینا معجم کی اشاعت بہتر ڈھنگ سے ہوسکی۔‘‘
اس سلسلے میں جلد ۵ ؍اور جلد۶؍کے آخر میں یہ صراحت ملتی ہے:
“Arabic Text has Printed by Ad-Darul- Qayiimah, Bhiwandi-India”
آخری جلد(فہارس)
جلد ہفتم کی اشاعت کے ساتھ یہ پروجکٹ مکمل ہوگیاتھا۔اس کے آغاز ہی سے اس کے تحت اعلام واماکن کے اشاریوں سے زیادہ دل چسپی کا اظہار نہیں کیاگیاتھا۔ونسنک اور ان کے معاونین کے پیش نظر صرف معجم کی تیاری تھی۔ ونسنک نے اپنے ایک مقالے (شائع شدہ ۱۹۲۲ء) میں اشارہ کیاتھا کہ انہوں نے ’فہارس‘کی تیاری اور اشاعت کو کسی آئندہ مرحلے کے لیے مؤخر کردیاہے۔ اسی لیے پروفیسر برخمان نے فہارس کے بغیر اس پروجکٹ کو ختم کرنے کا ارادہ کرلیا۔ چنانچہ انہوں نے ۱۹۶۹ء میں جلد ہفتم کی اشاعت کے فوراً بعد اس کا دفتر بندکردیا اور معاونین ومرتبین سے کیے گئے معاہدوں کو منسوخ کردیا۔
بعد میں ڈاکٹر جے ۔جے۔وٹکام(J.J.Witkam)نے معجم کے ساتھ فہارس کی اہمیت محسوس کی اور ان پر مشتمل مزید ایک جلد شائع کرنے کا ارادہ کیا۔ اس کے لیے انہوں نے ۱۹۷۲ء میں معجم کی ترتیب میں کام آنے والے پرانے کارڈس(جن پر دھول جم گئی تھی اور وہ فراموش کردیے گئے تھے) کا جائزہ لیا۔ انہوں نے پایا کہ پیش نظر مقصد کے لیے یہ مواد کافی نہیں ہے۔ اس لیے انہوں نے فہارس کی تیاری کے لیے ازسرنو کام کا آغاز کیا۔۱۹۷۴ء میں وہ لیدن یونی ورسٹی کی لائبریری میں مشرقی مخطوطات کے شعبہ کے انچارج بنادیے گئے۔ا س وقت تک وہ صحاح ستہ اور سنن الدارمی کا بالاستیعاب مطالعہ کرکے اعلام، جغرافیائی اسماء اور قرآنی شواہد کی فہارس تیار کرچکے تھے۔
اشاریہ سازی کا بقیہ کام ڈاکٹر وم راون(Wim Raven)نے سنبھالا۔ امستردام یونی ورسٹی(University of Amsterdam)میں منصب تدریس پر فائز ہونے کے بعد بھی وہ اسے انجام دیتے رہے۔انہوں نے موطامالک اور مسند احمد سے فہرستیں تیار کیں۔اس کام سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے اپنے اور ڈاکٹر وٹکام دونوں کے کام پر نظرثانی کی اور تمام فہرستوں کو حروف تہجی کی ترتیب سے تیار کیا۔
اس آخری جلد(فہارس)کی اشاعت ہالینڈی تنظیم برائے فروغ علمی تحقیق اور Royal Academy Amsterdamکے فیاضانہ مالی تعاون کی بدولت ممکن ہوسکی ہے۔ پرنٹنگ ٹکنالوجی میں انقلاب آجانے کی وجہ سے اس کی کمپوزنگ اور طباعت مطبع داربریل(E.J.BRILL)میں ہوئی، جہاں نصف صدی قبل اس کی جلد اول طبع ہوئی تھی۔
معجم میں مصادرِ حدیث کے اشارے
اس معجم میں حوالہ دینے کا طریقہ یہ اختیار کیاگیا کہ مصادر حدیث کے مختصر اشاراتی نام ذکر کرنے کے بعد کتاب کا مختصر نام پھر باب کا نمبر تحریر کیا گیا۔ سوائے صحیح مسلم، موطا مالک اور مسند احمد کے۔ صحیح مسلم اور موطامالک کے ذیل میں(باب کا نمبردینے کے بجائے)حدیث نمبر درج کیاگیاہے، جب کہ مسند احمد کے حوالہ میں جلد نمبر اور صفحہ نمبر ذکر کیاگیا ہے۔ مثلاً
خ شرکۃ۱۶ سے مراد صحیح بخاری، کتاب الشرکۃ، باب نمبر ۱۶ ؍ہے۔
م فضائل الصحابۃ ۱۶۵ سے مراد صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، حدیث نمبر ۱۶۵ ؍ہے۔
د طہارۃ ۷۲ سے مراد سنن ابی دائود، کتاب الطہارۃ، باب نمبر ۷۲ ؍ہے۔
ت ادب ۱۵ سے مراد جامع ترمذی، ابواب الادب، باب نمبر ۱۵ ؍ہے۔
ن صیام ۷۸ سے مراد سنن النسائی، کتاب الصیام، باب نمبر ۷۸ ؍ہے۔
جہ تجارات ۳۱ سے مراد سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب نمبر ۳۱؍ ہے۔
دی صلاۃ ۷۹ سے مراد سنن الدارمی، کتاب الصلاۃ، باب نمبر ۷۹ ؍ہے۔
ط صفۃ النبی ۳ سے مراد موطامالک، صفۃ النبی، حدیث نمبر ۳ ؍ہے۔
حم۴،۱۷۵ سے مراد مسند احمد، جلد چہارم، صفحہ نمبر ۱۷۵ ؍ہے۔
جن نمبروں پر ستارہ کی علامت٭بنائی گئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نمبر کے باب، حدیث یا صفحہ پر وہ لفظ ایک سے زائد بار آیاہے۔
معجم کی ترتیب کے دوران پیش نظر رہنے والے مصادر حدیث کے ایڈیشن
معجم کی ترتیب کے دوران مصادر حدیث کے درج ذیل ایڈیشن مرتبین کے پیش نظر رہے ہیں:
صحیح بخاری:
(۱) طبع قاہرہ، ۱۳۴۵ھ،۹جلدیں۔
(۲)تحقیقT.H.W. Juynboll/l.Krehlطبع لیدن ۱۸۶۲۔۱۹۰۸ء،۴جلدیں۔
صحیح مسلم:
(۱) تحقیق محمد فؤاد عبدالباقی، طبع قاہرہ، ۱۳۷۴۔۱۳۷۵ھ؍ ۱۹۵۵۔ ۱۹۵۶ء، ۵جلدیں۔
سنن ابی دائود:
(۱)باہتمام محمد محی الدین عبدالحمید، طبع قاہرہ، بدون تاریخ(۱۹۳۵ء کے آس پاس)۴ جلدیں۔
(۲)محمود محمد خطاب السبکی، المنہل العذب المورود شرح سنن ابی دائود، طبع قاہرہ، ۱۳۵۱۔۱۳۵۳ھ، ۱۰ جلدیں۔
(۳)امین محمود خطاب، فتح الملک المعبود تکملۃ المنہل العذب المورود، طبع قاہرہ، ۱۳۷۵۔ ۱۳۷۹ھ؍۱۹۵۵۔۱۹۵۹ء،۳جلدیں۔
جامع ترمذی:
(۱)شرح الامام ابن العربی المالکی، طبع قاہرہ، ۱۳۵۰۔۱۳۵۲ھ؍ ۱۹۳۱۔۱۹۳۴ء، ۱۳جلدیں۔
سنن النسائی:
(۲)شرح جلال الدین السیوطی، باہتمام شیخ حسن محمد المسعودی ،طبع قاہرہ ،بدون تاریخ، ۸ جلدیں۔
سنن ابن ماجہ:
(۱)تحقیق محمد فواد عبدالباقی، طبع قاہرہ ،۱۳۷۲۔۱۳۷۳ھ؍ ۱۹۵۲۔۱۹۵۳ء، ۲جلدیں۔
سنن الدارمی:
(۱)طبع کان پور(ہندوستان) ۱۲۹۳ھ
(۲)مطبع داراحیاء السنۃ النبویۃ، طبع بیروت، بدون تاریخ، ۲جلدیں۔
موطامالک:
(۱)تحقیق محمد فواد عبدالباقی، طبع قاہرہ ،۱۳۷۰ھ؍۱۹۵۱ء، ۲جلدیں۔
مسند احمد:
(۱)طبع قاہرہ، ۱۳۱۳ھ؍۱۸۹۵ء،۶جلدیں۔
(۲)تحقیق احمد محمد شاکر، طبع قاہرہ ،۱۳۶۸۔۱۳۷۵ھ؍۱۹۴۹۔۱۹۵۶ء، ۱۵جلدیں نامکمل (اس ایڈیشن سے استفادہ کیاگیاہے لیکن حوالہ صرف قدیم ایڈیشن کا دیاگیاہے)
فہارس کے مشتملات
آٹھویں جلد، جو فہارس پر مشتمل ہے، بہت اہم ہے۔اس میں بنیادی طورپر تین فہرستیں پیش کی گئی ہیں:
(۱)اعلام کے اسماء
(۲)جغرافیائی اسماء
(۳)قرآنی سورتوں اور آیات کے اسماء
اسماء اعلام کے مشتملات درج ذیل ہیں:
۱۔سند کا آخری راوی(عموما صحابی)
۲۔وہ حضرات جن کے نام متون احادیث میں آئے ہیں۔
۳۔قوموں، قبیلوں اور ان کی شاخوں، قبائلی اور مذہبی گروہوں کے نام
۴۔ملائکہ، جن، شیاطین، بتوں، حیوانات، اور تلواروں کے نام۔ اسی طرح ہر وہ چیز جس کا کوئی مخصوص نام ہو۔
۵۔اشخاص یاگروہوں کی جانب منسوب صفات۔
اعلام کے سلسلے میں دوباتوں کا تذکرہ ضروری ہے:
(الف):اعلام کی فہرست تیارکرنے میں ایک دشواری یہ تھی کہ حدیث کی مختلف کتابوں میں ایک ہی شخص کا تذکرہ مختلف ناموں کے ساتھ مختلف مقامات پر آیاہے۔اس اختلاف کو باقی رکھتے ہوئے اشاریہ سازی مفید نہیں تھی۔ اس لیے مرتبین نے طے کیا کہ ایک شخص کے مختلف ناموں کی تحقیق کرکے انہیں صرف ایک جگہ ذکر کیاجائے اور دیگر ناموں کی جگہ اسی کا حوالہ دے دیاجائے۔ مثلاً:
-محمد بن مسلم بن شہاب الزہری
-ابن شہاب (ملاحظہ کیجیے محمد بن مسلم بن شہاب الزہری)
-زہری(ملاحظہ کیجیے محمد بن مسلم بن شہاب الزہری)
اعلام کا اشاریہ کس طرح تیار کیاگیا ہے؟ اس سلسلے میں دیگر ضروری معلومات مرتبین نے شروع میں ذکر کردی ہیں۔
(ب):اسانید میں مذکور اعلام کا اشاریہ نہیں تیار کیاگیاہے، اس لیے کہ بقول مرتبین علم اسماء الرجال کا ایک بہت وسیع میدان ہے اور اسانید میں مذکور اسماء اور متون حدیث میں مذکور اسماء کے درمیان خلط ملط کرنا مناسب نہیں ہے۔ احادیث کے تجزیاتی مطالعہ کے لیے اسانید میں مذکور اسماء کا مطالعہ نہایت ضروری ہے، لیکن یہ کام اس قسم کی سادہ فہرست میں ممکن نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں روایتی طرز پر فہرستیں تیار کرنے کے بجائے الواح تیار کرناضروری ہے۔ امید ہے کہ آئندہ اسلامیات کے میدان میں کام کرنے والے حضرات یہ کام انجام دیں گے۔ اس میدان میں کمپیوٹر سے مددلینا ضروری ہے۔
جغرافیائی اسماء میں درج ذیل چیزیں شامل ہیں:
۱۔اماکن وبلدان
۲۔پہاڑ، سمندر،دریا، چشمے
۳۔اجرام سماوی
۴۔غیر انسانی مظاہر، مثلاًزبانیں، لباس وغیرہ کی جانب منسوب صفات
فہرست اسماء وآیات قرآنی کو حروف تہجی کی ترتیب سے تیار کیاگیاہے۔
فہرست شواہد قرآنی:یہ ان آیات قرآنی کا اشاریہ ہے جو متون احادیث میں بطور شواہد وارد ہوئی ہیں۔اس فہرست کو مصحف کی ترتیب سے تیار کیاگیاہے اور پوری آیت ذکر کرنے کے بجائے صرف اس کا نمبر درج کردیاگیاہے۔
خاتمہ
اس کتاب کی صورت میں مستشرقین کی برسوں کی علمی کاوش کا جوثمرہ سامنے آیا ہے اس پر وہ علمی ودینی حلقوں کی جانب سے از حدشکریہ کے مستحق ہیں۔ لیکن اس سے استفادہ اور اس سے متعلق رائے قائم کرنے میں احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی انسانی کام خامیوں سے بالکلیہ مبرانہیں ہوسکتا اور خاص طور سے وہ کام جس کی انجام دہی میں مختلف مزاجوں اور صلاحیتوں کے افراد شریک رہے ہوں۔ شروع میں ذکر کیاگیا کہ کتاب کا حجم محدود رکھنے کے مقصد سے مرتبین نے بہت سے ایسے الفاظ کو، جو احادیث میں کثرت سے آئے ہیں، حذف کردیاہے۔ اس لیے اگر کسی حدیث کا کوئی لفظ اس کتاب میں نہ ملے توقطعی طور سے یہ فیصلہ کرلینا مناسب نہ ہوگا کہ وہ حدیث مذکورہ نو کتب حدیث میں(جن کی اس کتاب میں اشاریہ سازی کی گئی ہے)موجود نہیں ہے۔اسی طرح اگر کسی حدیث کا حوالہ اس کے کسی ایک لفظ کے تحت نہ ملے تواس کے دوسرے الفاظ کے تحت اسے تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

C.ADRIAANSE
1.MUHAMMAD FU’AD ABD AL-BAQI

R.BELL

C.VAN ARENDONK

E.J.VAN DEN BERG

C.C.BERG

S.A.BONEBAKKER

W.B.JORKMAN

J.BRUGMAN

G.BOS

J.ROBERTSON BUCHANAN

J.T.P.DE BRUYN

A.A.CENSE

V.F.BUCHNER

A.A.FOKKER

R.F.CHISOLM

J.FUCK

H.FUCHS

A.GUILLAUME

E.GOBEE

W.HEFFENING

W.P.DE HAAS

M.HIDAYAT HOSAIN

W.HENNING

J.HOROVITZ

T.P.HOFSTEE

T.HUITEMA

A.J.W. HUISMAN

B.JOEL

MME.J.JANSE

W.KERN

G.H.A.JUYNBOLL

H.KINDERMANN

A.KERSTEN

F.KRENKOW

I.KRATCHKOVSKY

MME.R.KRUK

L.B.KRETZSCHMAR

A.MANSUR

J.B.VAN LOON

E.VAN MOURIKBROEKMAN

J.P.M.MENSING

J.PEDERSEN

R.PARET

A.RICHTER

W.RAVEN
48.H.C.RUYTER

MME M.TH. ROMIJN

A.SCHAADE

A.SARLOUIS

A. SIDDIQI

D.W. SCHAAFSMA

J.L.SWELLENGREBEL
53.P.SMOOR

MOHAMED TAHTAH

F.TAOUTEL

MME.V.VACCA-DE BOSIS

A.S.TRITTON

M.WEISWEILER

P.VOORHOEVE

W.D.VAN WIJNGAARDEN
61.A.J.WENSINCK

J.J.WITKAM

اس کیو آر کوڈ کو اسکین کرکے ادارے کا تعاون فرمائیں یا پرچہ جاری کرانے کے لیے زرِ خریداری ٹرانسفر کریں۔ رقم بھیجنے کے بعد اسکرین شاٹ ضرور ارسال کریں تاکہ آپ کو رسید بھیجی جاسکے۔ شکریہ