علمی دنیا کی معروف شخصیت پروفیسر نثار احمد فاروقی(۱۹۳۴-۲۰۰۴)نے یہ گراں قدر مقالہ۴؍مارچ۱۹۹۷ کو شعبۂ عربی ممبئی یونی ورسٹی کے دو روزہ سمینار میں پیش کیا تھا۔ مدت سے نایاب تھا۔ اس کی معروضیت و جامعیت کی وجہ سے نذرقارئین کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)
قرآن ہماری زندگی کا ایک حصہ ہی نہیں، ہماری پوری زندگی ہے۔ یہ خود ایک زندہ کتاب ہے جو ہمیں زندہ رہنا سکھاتی ہے۔ اچھی صاف ستھری پاکیزہ اور پسندیدہ زندگی کے آداب وقواعد بتاتی ہے۔ یہ کتابِ مقدس ہماری سچی خیرخواہ اور بہترین رہبر ہے۔ اس سے ہمیں زندگی کے مادّی اور روحانی دونوں پہلو سنوارنے کے لیے ہدایت ملتی ہے۔ یہ علوم کا خزانہ ہے۔ شریعت کا سرچشمہ ہے۔ اخلاقی امراض اور روحانی بیماریوں کا بے خطا علاج ہے۔ اِس سے ایک عام اور نہایت معمولی انسان بھی فیض پا سکتا ہے اور یہ بڑے بڑے علما، فقہا، حکما اور فلاسفہ کے لیے بھی ایک ایسا حیرت زار ہے جس کی بے کراں پہنائیوں میں پچھلے ڈیڑھ ہزار برسوں سے ہزاروں مفسرین اپنی عاجزی اور درماندگی کا اعتراف کر کے چلے گئے۔ دنیا کے ہر قانون میں کبھی کبھی ترمیم، اصلاح اور اضافے کا عمل کر نا ہی پڑتا ہے مگر یہ ابدی قانون ہے جس میں کوئی کھوٹ نہیں۔ کسی تبدیلی کی حاجت نہیں۔ جس کے قانون کو اُس سے بہتر قانون سے بدلنا ممکن نہیں۔ یہ آخری آسمانی صحیفہ ہے اور اس دعوے کی صداقت کے لیے یہی ایک بات کافی ہے کہ آج تک دوسرا کوئی الہامی صحیفہ پیش نہیں کیا جا سکا۔ جنھوں نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا، وہ سب ملیامیٹ ہوگئے۔ جنھوں نے اپنی تصانیف کو فرمان خداوندی کہہ کر دنیا کے سامنے رکھا، وہ خود رسوا ہو گئے اور وقت کے سیلاب میں کھو گئے۔
قرآن کریم کا ایک ایک لفظ سچا ہے۔ اس میں حکمت وموعظت ہے۔ غیب کی خبریں ہیں اور شریعت کے قوانین ہیں۔ یہ ہمیں سلسلۂ انبیا کی خبر دیتا ہے۔ گذرے ہوئے رسولوں کی تصدیق کرتا ہے۔ اُن پر ایمان رکھنا ہمارا فرض بتاتا ہے۔ عیسائی مذہب کے ماننے والے حضرت محمد مصطفی ﷺ کی رسالت سے انکار کر کے بھی عیسائی رہتے ہیں۔ دینِ موسوی کے ماننے والے یہودی حضرت محمد مصطفی ﷺکے مقام نبوت کو نہ پہچان کر بھی یہودی رہتے ہیں، مگر قرآن کریم کو آسمانی صحیفہ ماننے والا کوئی مسلمان اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پیغمبر نہ مانے تو وہ مسلمان نہیں رہتا۔
قرآن کریم میں سب انبیا اور رسولوں کا ذکر نہیں، مگر جن کا نام نہیں آیا ہے، ایمان اُن پر لانا بھی واجب ہے۔ قرآن نے واضح الفاظ میں کہا ہے:
’’ ولِکُلِ قومٍ ہاد۔‘‘(الرعد:۷)
’’ہر قوم میں ہدایت دینے والے بھیجے گئے ہیں۔‘‘
یہ بھی کہہ دیا ہے کہ ہم نے کچھ پیغمبروں کا ذکر کیا ہے، کچھ وہ بھی ہیں جن کا ذکر نہیں کیا۔ اسی طرح قرآن کریم سب آسمانی کتابوں کا تصدیق کرنے والا ہے۔ ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ وہ انجیل اور تورات کو بھی اللہ کی کتاب مانے۔ مگر ہوا یہ ہے کہ ان آسمانی صحیفوں کے اصل نسخے ناپید ہو گئے۔ اب جو ہیں وہ ترجمہ در ترجمہ ہیں۔ اُن کے بھی Revised versions آتے رہے ہیں۔ خود ان کتابوں کے ماننے والے یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ ان میں تحریف اور ردّ و بدل ہوا ہے۔ اس کی تفصیل ہمارے موضوع سے خارج ہے۔
ان قدیم آسمانی صحیفوں کے لیے آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہزاروں برس گزر گئے، کتنی سیاسی آندھیاں چلیں، کتنے انقلاب آئے، کتنی جنگیں ہوئیں اور کتنی ہجرتیں ہوئیں۔ اس زمانے میں نہ کا غذ تھا، نہ پریس تھے اور نہ اَمی جَمی زندگی تھی۔ اُس اتھل پتھل میں وہ اصلی صحیفے غائب ہو گئے بل کہ وہ زبانیں بھی ختم ہوگئیں، جن میں وہ نازل ہوئے تھے۔
مغرب کے کھوج لگانے والے عالموں نے ارض بائبل یعنی فلسطین میں بڑے پیمانے پر کھدائیاں کیں اور زمین کے طبقوں سے بہت کچھ اُگلوا لیا، تاکہ وہ عہد بائبل کی ذرا روشن تصویر تیار کر سکیں۔ ان Excavations کے نتیجے میں انھیں کچھ الواح یعنی Baked Briks اور پتھر کے ٹکڑے بھی ملے، جن میں عبارتیں کندہ کی ہوئی ہیں مگر وہ زبان اور رسم الخط قطعاً ناپید ہو چکے ہیں۔ درجنوں اسکالرز نے برسوں محنت کر کے اُن مردہ زبانوں کے حروف تہجی ترتیب دیے۔ اس زبان کے قواعد یعنی Grammar کی تشکیل نو کی۔ ان کی لغت Glossary بنائی اور یہ کام ہنوز جاری ہے۔
اُس عہد کی کچھ الواح برٹش میوزیم میں بھی رکھی ہوئی ہیں اور اُن کے Description Notes میں یہ بتایا گیا ہے کہ ان کا زمانہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے کتنا پہلے کا ہے۔ مجھے اُن تختیوں پر کندہ عبارتوں کو دیکھ کر فوراً عربی کا محاورہ ’’کالنقش في الحجر‘‘ یاد آیا، جسے ہم اردو میں پتھر کی لکیر کہتے ہیں۔ اگر کوئی بات اٹل ہو، ناقابل ترمیم وتبدیل ہو تو اُسے ’’کالنقش في الحجر‘‘ کہا جاتا ہے۔ پھر فوراً یہ خیال آیا کہ آج سے چار پانچ ہزار سال پہلے بھی انسان اتنا باشعور ہو چکا تھا کہ جن باتوں کو وہ محفوظ رکھنا چاہتا تھا، انھیں پتھر پر کندہ کر لیتا تھا۔ جیسے ہمارے ملک میں اشوک نے چٹانوں پر اور فولادی ستونوں پر ہدایت وارشاد کے کلمات کندہ کرا دیے تھے۔ اتنی صلاحیت ہونے کے باوجود بائبل اور توراۃ کی اصلیں کیوں محفوظ نہ رہ سکیں؟
اب قرآن کریم کو دیکھیے! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِکرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ. (الحجر: ۹)
’’یہ کتاب ہم نے نازل کی ہے اور ہم ہی اِس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘
عربوں کی بیشتر آبادی بدّؤوں کی تھی۔ احشا یعنی Interior میں رہتے تھے۔ وسائلِ حیات مفقود تھے۔ پانی بھی حوضوں میں جمع کر کے اُس پر مسلح پہرہ دیا جاتا تھا۔ اونٹ، بکری اور دوسرے مویشی اُن کے رفیق تھے۔ یہی اُنھیں غذا فراہم کرتے تھے۔ جہاں پانی اور چارے کی کمی ہو جاتی تھی، وہ علاقہ چھوڑ کر دوسرے علاقے کی تلاش میں نکل جاتے تھے۔ شہری زندگی بہت مختصر تھی۔ بدویانہ طرزِ حیات تھا۔ ایک دوسرے کا مال لوٹ کر بھی اپنا کام چلاتے تھے۔ ایک بہتی ہوئی رواں دواں اور اُٹھاؤ زندگی تھی۔ لکھنے پڑھنے کا رواج نہ تھا۔ کتابیں ابھی وجود میں نہ آئی تھیں۔ کاغذ کے نام سے بھی آشنا نہ تھے۔ تعلیم کا کوئی باقاعدہ نظام نہیں تھا۔ بس لے دے کے اُن کی شاعری تھی۔ وہ بھی قوم وقبیلے کے مفاخر اور کارناموں یا دوسرے قبائل کی ہجو سے جڑی ہوئی تھی اور زبانی روایت سے زندہ تھی۔
اِس ماحول میں حضرت محمد مصطفیﷺ پیدا ہوئے تھے۔ پلے بڑھے، یتیم ویسیر تھے۔ ماں باپ کا سایہ بچپن ہی میں سر سے اٹھ چکا تھا۔ دادا نے اور چچا نے پالا پوسا۔ تعلیم حاصل نہ کر سکے۔ لکھنا بھی نہیں جانتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اعلان ہوا تو قرآن کریم نازل ہونا شروع ہوا۔ تیرہ برس مکی زندگی میں اور دس برس مدنی زندگی میں قرآن کریم کا نزول ہوتا رہا۔ دونوں شہروں کے حالات ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ قرآن کریم کی بعض آیات کسی خاص واقعے سے متعلق نازل ہوئیں۔ بعض میں عام ارشاد وہدایت تھی۔ ان سب کیفیات کو ہمارے علما نے شانِ نزول کی بحث میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ آپ مختلف اصحاب سے وحی کی کتابت کرواتے رہے۔ جتنا قرآن نازل ہوتا تھا، خود بھی تلاوت فرماتے تھے اور آپ کے اصحاب بھی پڑھتے تھے بل کہ شروع سے وہ لکھا بھی جا رہا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے قرآن کی ستر سورتیں لکھ رکھی تھیں اور وہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سناکر اُن کی تصدیق حاصل کرلی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بھی قرآن لکھا ہوا اور بین الدفتین (مجلد) موجود رہا۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اُمت کو ایک قرأت پر جمع کرنے کے لیے اس کی تدوین کروائی۔ وہ مصحف عثمانی آج بھی تاشقند کے میوزیم آف ہسٹری میں محفوظ ہے۔
کچھ اسلام دشمن مغربی اسکالرز نے اپنے صحائف میں تحریف کا الزامی جواب دینے کے لیے جرمنی میں ایک ادارہ قائم کیا۔ ساری دنیا سے قرآن کریم کے پچاس ہزار سے زائد قلمی نسخے جمع کیے اور نہایت دیدہ ریزی سے اُن کا مقابلہ شروع کیا کہ کہیں کوئی اختلاف، کوئی تحریف، کوئی اضافہ ہاتھ آجائے تو اس کا خوب ڈھنڈورا پیٹا جائے، مگر سوائے مایوسی اور شرمندگی کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔
دیکھیے قرآن کریم کا دعویٰ کتنا بلند بانگ اور کتنا سچا ہے:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ۔ (الحجر۹: ۱۵)
اور یہی کیا؟ قرآن کا کون سا بیان اور کون سا دعویٰ ایسا ہے، جسے کوئی جھٹلا سکے اور جسے وقت نے سچا ثابت نہ کیا ہو؟ قرآن کریم ایک بار نہیں بار بار کہتا ہے۔ واضح اور چیلنج کے انداز میں کہتا ہے:
وَإِن کُنتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَۃٍ مِّن مِّثْلِہِ۔ وَادْعُواْ شُہَدَاء کُم مِّن دُونِ اللّہِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ۔(البقرہ: ۲۳)
(اے نبی! کہہ دیجیے کہ) ہم نے جو کچھ اپنے بندے پر نازل کیا ہے، اگر اس میں تمھیں شک ہے تو اس جیسی ایک ہی سورہ گھڑ کر لے آؤ اور (فیصلہ کرنے کے لیے بھی) اپنے ہی ججوں کو بلا کر دکھا لو، اگر تم سچے ہو۔
اس چیلنج کو بار بار دہرایا گیا ہے:
قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَی أَن یَأْتُواْ بِمِثْلِ ہَـذَا الْقُرْآنِ لاَ یَأْتُونَ بِمِثْلِہِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْراً۔ (الإسراء: ۸۸)
اے نبی! کہہ دیجیے کہ اگر سارے انسان اور جنات بھی جمع ہو جائیں کہ اس قرآن کا جواب پیدا کرلیں تو اس جیسا نہ لا سکیں گے، چاہے ایک دوسرے کی کتنی ہی مدد کرے۔
یہ چیلنج اُس معاشرے میں اور اس ماحول میں ہو رہا ہے، جس کے باسیوں کی گھٹی میں فصاحت وبلاغت پڑی تھی، جو اپنے سوا دوسروں کو عجم یعنی گونگا سمجھتے تھے اور جن کے شعرا ایک سانس میں پورا قصیدہ کہہ ڈالتے تھے۔ کسی نے بھی یہ جرأت نہ کی کہ اس چیلنج کو قبول کر لیتا اور ایک چھوٹی سی سورہ ہی تصنیف کر کے دکھا دیتا۔
زمانۂ جاہلی کے ماحول میں شعرا کی بڑی قدر تھی۔ انھیں اپنے قبیلے کی عزت ووقار کا رکھوالااور ناطق بلسان Spokesman یا ترجمان سمجھا جاتا تھا اور یہ عقیدہ رکھا جاتا تھا کہ ایک جنّ شاعر کے تابع ہو جاتا ہے۔ وہ اشعار موزوں کرا دیتا ہے۔ اسی لیے قرآن نے کہا:
لَوِاجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ
انسان ہی نہیں جنات بھی مل کر کوشش کر کے دیکھیں۔
شاعر ہونا بڑے فخر کی بات تھی، مگر قرآن نے کہا:
وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنبَغِي لَهُ (یٰس: ۶۹)
ہم نے انھیں (محمد ﷺ کو) شعر کہنا نہیں سکھایا اور اُنھوں نے بھی اس کی خواہش نہیں کی۔
شاعر تو خیالی دنیا میں رہتے ہیں۔ ادھر اُدھر کی ہانکتے ہیں۔ کوئی بات حکمت وموعظت کی اُن کی زبان سے نکل سکتی ہے، مگر وہ تو کبھی رزم میں ہیں، کبھی بزم میں۔ کبھی محبوب کے کوچے کی خاک اُڑا رہے ہیں تو کبھی کس کی مدح میں نقد سخن لُٹا رہے ہیں۔ کبھی کسی کے ماتم میں آنسو بہارہے ہیں تو کبھی ہجو لکھ کر کسی کی پگڑی اچھال رہے ہیں۔ قرآن حکیم جیسی ایک آیت بھی لکھنا اُن کے بس کی بات نہیں۔ اُن کی پیروی بھی کون کرتا ہے؟
والشعراء یَتَّبِعُہُمُ الْغَاوُونَ۔ أَلَمْ تَرَ أَنَّہُمْ فِی کُلِّ وَادٍ یَہِیمُونَ۔ (الشعراء: ۲۲۴)
یہ بھی قرآن کریم کا زندہ جاوید معجزہ ہے کہ اس کی زبان، بیان، محاورہ، ترکیب، قواعد، سب آخری سند ہیں۔ قرآن سے سند لی جاتی ہے۔ قرآن کوکسی سند کی ضرورت نہیں۔
فصاحت، بلاغت، سلاست، صنائع اور بدائع میں بھی قرآن آخری سند ہے۔ اُس نے جس بات کو جن لفظوں میں بیان کیا ہے، اُن لفظوں اور اُس اُسلوب سے بہتر کوئی اسلوب ممکن نہیں۔ چند مثالیں دینا چاہتا تھا۔ پھر یہ خیال آیا کہ پورا قرآن، اس کا ایک ایک لفظ، ایک ایک حرف اس کی مثال ہے۔ سورۂ فاتحہ ہی کو لیجیے۔ علما نے کہا ہے کہ قرآن میں دس موضوعات ہیں۔ اُن میں سے آٹھ سورۃ الفاتحہ میں موجود ہیں۔ صرف جہاد اور احکام شرع اس میں نہیں۔
قرآن کریم کا اعجاز یہ بھی ہے کہ یہ نہ نظم ہے نہ نثر ہے۔ اس کا اپنا ہی اُسلوب ہے۔ اس انداز واسلوب کی کوئی کتاب نہ اس سے پہلے موجود تھی، نہ آج ہے اور نہ کل ہو سکے گی۔ اس میں موسیقی نہیں ہے مگراس کی ترتیل وتجوید کا بھی منفرد انداز ہے۔ دنیا کی کوئی کتاب ایسے پر اثر، کیف آگیں، روح پرور اور وجد آور انداز میں نہیں پڑھی جاتی۔ اِس کے مضامین بھی سدا بہار ہیں۔ اِسے ساری عمر پڑھتے رہیے۔ اس کی تازگی، شادابی، وجد انگیزی اور تاثیر میں کبھی کمی محسوس نہیں ہوتی۔
قرآن کریم میں سجع نہیں ہے۔ یہ کاہنوں کا طریقہ تھا۔ اِس میں کہیں قافیہ ضرور ہے، مگر اس سے آہنگ اور Rythm پیدا ہوتا ہے۔ وہ شاعری نہیں بنتا جیسے:
أَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ. وَوَضَعْنَا عَنکَ وِزْرَکَ. الَّذِیْ أَنقَضَ ظَہْرَکَ. وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ. (الإنشراح:۱-۴)
ترنّم اور موسیقیت بل کہ لہجے کی حد درجہ موزونیت کے لیے پوری سورۂ رحمن کی تلاوت کر لیجیے۔
قرآن کے الفاظ کہیں نرم ہیں کہیں گرم ہیں۔ کہیں بشارت دیتے ہیں، کہیں عذابِ آخرت سے ڈراتے ہیں۔ کہیں ان میں جلال ہے جیسے:
فَدَمْدَمَ عَلَیْہِمْ رَبُّہُم بِذَنبِہِمْ فَسَوَّاہَا (الشمس: ۱۴)
کہیں نہایت شیریں اور شفقت سے بھرپور لہجے میں خطاب کرتے ہیں جیسے:
يَـٰٓأَيَّتُهَا ٱلنَّفْسُ ٱلْمُطْمَئِنَّةُ. ٱرْجِعِىٓ إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةًۭ مَّرْضِيَّةًۭ. فَٱدْخُلِى فِى عِبَـٰدِى. وَٱدْخُلِى جَنَّتِى. (الفجر:۲۷-۳۰)
کہیں پورا جہانِ معنی ایک ہی لفظ میں سمٹ آیا ہےجیسے:
وَکَلِمَۃُ اللّہِ ہِیَ الْعُلْیَا (التوبہ: ۴۰)
’’اور اللہ ہی کا بول بالا ہے۔‘‘
قرآن کا منطقی استدلال بھی ایسا مستحکم اور فہم انسانی سے قریب ہے کہ عقل سلیم اس پر غور کرے تو اس کی تردید کی جرأت نہیں کرسکتی جیسے:
یَا صَاحِبَیِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُونَ خَیْرٌ أَمِ اللّہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ۔ (یوسف: ۳۹)
قرآن کریم تاریخ کی کتاب نہیں، مگر اس نے عبرت کے لیے پرانی قوموں کا تذکرہ کیا ہے۔ ان میں سے بعض کے بارے میں ہمیں کچھ آثار وشواہد ملے ہیں اور وہ سب قرآن کے بیان کی تائید ہی کرتے ہیں۔ ابھی دو تین سال قبل عمان اور نجد کے درمیان رُبع الخالی کے کنارے پر وہ جگہ بھی دریافت ہو گئی، جسے قرآن نے ارم ذات العماد کہا ہے۔ ۶۵ – ۷۰؍ سال قبل محکمہ آثار قدیمہ کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر نے عمان میں وہ غار دریافت کیا، جس میں اصحاب کہف روپوش ہوئے تھے۔ وہاں ایک بڑے بورڈ پر وہ سب آیات لکھ دی ہیں، جو قرآن میں اصحاب کہف کے بارے میں وارد ہوئی ہیں اور پھر لکھا ہے کہ دیکھ لیجیے یہ سب آیات اس مقام پر صادق آرہی ہیں اور واقعی ایسا ہی ہے۔ فرعونِ موسیٰ کے لیے قرآن نے اشارہ کیا ہے کہ اس کو ہم نمونۂ عبرت بناکر رکھیں گے۔ اُس کی لاش برآمد ہوگئی اور وہ آج بھی موجود ہے۔ روم کے لیے قرآن نے کہا:
غُلِبَتِ الرُّومُ۔ فِیْ أَدْنَی الْأَرْضِ وَہُم مِّن بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُونَ۔(الروم: ۲،۳)
ارض کا آخری حرف ض ہے، جس کے عدد ۸۰۰ ہوتے ہیں اور وہ ۸۰۰ء میں فتح کر لیا گیا۔
قرآن کریم سائنس کی کتاب نہیں، مگر سائنس اس کے کسی قول کی تردید نہیں کر سکی۔ انسان کی پیدایش کا جو فطری عمل قرآن نے اپنے انداز میں بیان کر دیا ہے، سائنس اُس کی تائید، تشریح اور تفسیر کر رہی ہے۔ اس موضوع پر موریس بوکائے کی کتاب ’’بائبل، قرآن اور سائنس‘‘ پڑھ کر دیکھ لیجیے۔
اجرام سماوی، شمس وقمر اور دوسرے ستاروں کے بارے میں قرآن نے جو کچھ کہا ہے، آج کے ماہرین فلکیات بھی اپنا سر کھپانے کے بعد اسی نتیجے پر پہنچ رہے ہیں۔ اتنی لامحدود کائنات کے اربوں کھربوں ستاروں کو اللہ نے اپنے حکم سے صرف کشش کی ایک ڈوری میں باندھ رکھا ہے۔ ایک دن اُسی کے حکم سے یہ ڈوری ٹوٹ بھی جائے گی۔ إِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ۔ وَإِذَا النُّجُومُ انکَدَرَتْ۔ وَإِذَا الْجِبَالُ سُیِّرَتْ۔ (سورۃ التکویر: ۱-۳) کا منظر ہو کر رہے گا۔
انسان کیسا مغرور، بد دماغ، سرکش اور غافل ہے! مگر دیکھیے اس کی زندگی بھی ہوا کے ڈورے پر چل رہی ہے۔ وہ عدمِ محض تھا۔ پانی کا ایک قطرہ تھا۔ اُسے مختلف مدارج سے گزار کر انسان بنا دیا۔ اس کی ساری تگ ودَو اور تحقیق اور ریسرچ بھی ایک دانت ٹوٹ جائے تو دوسرا ویسا ہی اُگا نہیں سکتی۔ ایک ناخن جھڑ جائے تو اس کی جگہ دوسرا ناخن لگا نہیں سکتی۔ قرآن کہتا ہے کہ جس نے تمھیں یہ زندگی دی ہے أَلَیْسَ ذَلِکَ بِقَادِرٍ عَلَی أَن یُحْیِیَ الْمَوْتَی (سورۃ القیامۃ: ۴۰)۔ جس نے عدم کو وجود دیا ہے، وہی وجود کو عدم کرے گا اور عدم سے پھر وجود میں لائے گا۔
قرآن فلسفے کی کتاب نہیں ہے، مگر فلسفے میں ہے کیا؟ وجود کی بحث، حیات وکائنات کا تجزیہ، اسباب وعلل کی جستجو ؎
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں
ملے کیسے؟ خدا تو ہماری رگِ جاں سے بھی زیادہ قریب ہے۔ اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ (سورۃ ق: ۱۶)۔ وہ ہر طرف ہے۔ فَأَیْنَمَا تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجْہُ اللّہِ (سورۃ البقرۃ: ۱۱۵)۔ قرآن نے فلسفے کے دقیق ترین مسائل کو بھی ایسے بیان کر دیا ہے کہ فلاسفہ یا تو اپنی بھول بھلیوں میں کھوئے رہیں گے یا اگر ایمان کی روشنی میں دیکھیں گے تو فلسفی سے عارف باللہ ہو جائیں گے۔
قرآن طب کی کتاب بھی نہیں، مگر اس کے لفظوں میں اللہ نے شفا رکھی ہے۔ ڈیڑھ ہزار برس میں کروڑوں انسانوں نے اُس کی آیات کا ورد کر کے یا انھیں تعویذ کے طور پر استعمال کر کے اس کی برکت کا تجربہ اور مشاہدہ کیا ہے۔ کسی بہ زعمِ خویش ’’روشن خیال‘‘ شخص نے ایک درویش کے سامنے اپنا یہ ’’روشن خیال‘‘ ظاہر کیا کہ وظیفے اور تعویذ وغیرہ میں کچھ نہیں۔ یہ سب سادہ لوح عوام کو بے وقوف بناکر ٹھگنے کی باتیں ہیں۔ اُس درویش نے نہایت متانت اور نرمی سے کہا:
’’چوںکہ آپ گدھے ہیں اس لیے آپ اسے سمجھ نہیں سکتے۔‘‘
یہ بات سن کر اعتراض کرنے والے کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ دل ہی دل میں سخت رنجیدہ ہوا کہ انھوں نے مجھے گدھا بنا دیا۔ درویش اُس کے چہرے کو دیکھتے رہے، پھر گویا ہوئے:
’’اللہ نے بے شمار مخلوقات پیدا کی ہیں۔ ان میں ایک ادنیٰ اور مسکین سی مخلوق گدھا بھی ہے۔ اُس کا میں نے نام لیا تو ابھی آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، اِس سے سوچ لو کہ خالق کے نام میں کس غضب کی تاثیر ہوگی۔‘‘
یہ بھی قرآنی معجزہ ہے کہ اُس کے الفاظ میں بجلی سی بھر ی ہے۔ کوئی صاحبِ دل اہل نظر بتانے والاہو اور کوئی اللہ پر سچا بھروسا رکھنے والا مخلص عامل ہو تو ممکن ہی نہیں کہ الفاظِ قرآن کی قوت شفائیہ اپنا کام نہ کرے۔
قرآن کتابِ قانون ہے۔ صحیفۂ شریعت ہے۔ اس میں بچے کی ولادت سے لے کر جوانی، بڑھاپے اور پھر موت تک ہر منزل اور ہر مرحلے کے آدابِ زندگی سکھائے گئے ہیں۔ علم حاصل کرنے کی ترغیب ہے۔ کائنات پر غور وفکر کرنے کی تاکید ہے۔ تجارت کے اُصول ہیں۔ نکاح وطلاق کے مسائل ہیں۔ اچھا معاشرہ بنانے اور حسنِ سلوک کی تعلیم ہے۔ اپنی حقیقت کو پہچانو، اکڑ فوں مت دکھاؤ، گھمنڈ نہ کرو، کسی کا حق نہ مارو، مساکین اور محرومین کا خیال رکھو، اپنے رشتے داروں کے حقوق ادا کرو، پڑوسی کے دکھ سکھ میں شریک رہو، امانت میں خیانت نہ کرو، اصلاح کے نام پر فساد نہ پھیلاؤ، حق وانصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دو چاہے اُس کی زَد تمہارے کسی رشتے دار پر ہی پڑتی ہو، ماں باپ کا ادب کرو، اُن کے لیے دعا مانگو، اُن سے ذرا بھی اونچی آواز میں نہ بولو، چوری نہ کرو، کم مت تولو، دھوکا مت دو، شراب نہ پیو، زنا سے بچو، ایک منظم مربوط باضابطہ زندگی گزارو، جو اللہ کا حق ہے اللہ کو ادا کرو، جو اُس کے بندوں کے حقوق ہیں وہ بندوں کو دو وغیرہ وغیرہ۔ ایسی ہزاروں باتیں قرآن کریم میں بار بار اور طرح طرح سے کہی گئی ہیں۔ ان میں سے کون سی بات ایسی ہے، جسے آپ جھٹلا دیں گے یا یہ کہیں گے کہ اس سے بہتر یہ بات ہوسکتی ہے؟
قرآن کریم معاشیات (Economics) کی کتاب نہیں، مگر اس میں اقتصادیات کے وہ بنیادی اصول بیان کر دیے گئےہیں، جن میں ساری انسانیت کی صلاح وفلاح ہے۔ وہ مال جمع کرنے سے روکتا ہے:
وَیْلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃٍ۔ الَّذِیْ جَمَعَ مَالاً وَعَدَّدَہُ۔ یَحْسَبُ أَنَّ مَالَہُ أَخْلَدَہُ۔ (سورۃ الہمزۃ: ۱-۳)
مال کے خرچ کرنے کو تقویٰ اور ہدایت کی شرط بتاتا ہے:
ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْبَ فِیْہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ۔ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُونَ الصَّلاۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ۔ (سورۃ البقرۃ:۲،۳)
اس کتاب میں کوئی شک نہیں ہے، یہ متقیوں کے لیے ہدایت ہے۔ یعنی وہ لوگ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ نماز قائم کرتے ہیںاور جوہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
اور
لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّی تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ۔ (سورۃ آل عمران: ۹۲)
تم نیکی حاصل کر ہی نہیں کر سکتے جب تک وہ چیز خرچ نہ کرو، جس سے تمھیں محبت ہے۔
اور
وَأَنفِقُوا مِن مَّا رَزَقْنَاکُم مِّن قَبْلِ أَن یَأْتِیَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ۔ (سورۃ المنافقون: ۱۰)
جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے، اُسے خرچ کر لو اس سے پہلے کہ تمھیں موت آجائے۔
پھر معاشرے کے کم زور طبقے کے لیے زکوٰۃ مقرر کر دی اور عبادات میں اسے نماز کے بعد دوسرے نمبر پر رکھا ہے اور یہ فرمایا :
فِیْ أَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ۔ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ۔ (سورۃ المعارج: ۲۴ ،۲۵)
ان کے مال میں سوال کرنے والوں اور محروموں کا حق ہے۔
امداد کے لیے نہایت انصاف سے مدارج مقرر کر دیے:
ذوی القربی والیتامیٰ والمساکین وابن السبیل.
قرابت دار، یتیم ، مساکین اور مسافر
سود خوری کو مطلق حرام کر دیا، جو غریب اور ضرورت مند طبقے کا استحصال (Exploitation) ہے۔ جوئے، لاٹری اور سٹے جیسی خرابیوں پر روک لگا دی۔ فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی بتایا اور کہا کہ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
معاشرے کی خوش حالی کا راز گردشِ زر میں ہے۔ جمع کرنے کے لیے کنکر پتھر اور سونے کی ڈلیاں برابر ہیں۔ اس لیے کہ دونوں کا حکم ایک ہوگیا۔ دونوں میں کوئی منفعت نہیں۔ روپیہ تو اس وقت روپیہ ہے، جب وہ آپ کی جیب سے نکل جائے اور ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں جاتا رہے، تو اُس کو قیمت کو ضرب لگتی رہے گی اور وہMultiply ہوتا رہے گا۔ ایک روپیہ اگر سو ہاتھوں میں جائے تو سو روپے کی مالیت کا ہوا اور سو روپے اگر کسی کے پاس جمع رکھے ہیں تو ان کی منفعت ایک روپیہ بھر بھی نہیں۔ذرا سوچیے! قرآن کریم نے گردشِ زر کا یہ حکم اس وقت دیا ہے، جب مسلمان زیادہ خوش حال نہ تھے۔ مالِ غنیمت تو عجمی علاقوں کے فتح ہونے کے بعد آیا ہے، پھر دولت کی ریل پیل ہوئی ہے۔ خود رسول اللہﷺ کی مالی حالت مضبوط نہ تھی۔ اکثر فاقہ بھی ہو جاتا تھا۔ چند اصحابِ رسول ہی ایسے تھے، جو مالی طور پر آسودہ تھے۔ اُس وقت قرآن یہ اصول بتا رہا ہے کہ معاشرے میں خوش حالی اور فراغت لانی ہے تو مال کو جمع کر کے نہ رکھو۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی تاکید ہے کہ اکلِ حلال کھاؤ۔ حرام اور مشتبہ مال سے پرہیز کرو۔ یہ نہیں جو آج ہوڑ لگی ہوئی ہے کہ جائز وناجائز کسی طریقے سے، مکاری سے، عیاری سے، دھوکا دھڑی سے، بے ایمانی سے، کسی صورت سے ہو دولت ملنی چاہیے۔ قرآن نے دنیا اور دولت دنیا کو نہایت حقیر اور قلیل، فانی اور آنی جانی بتایا:
قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیلٌ۔ ( النساء: ۷۷)
ہمیں چار پیسے ہاتھ لگ جائیں تو زمین پر پاؤں نہیں ٹکتے۔ اللہ ساری دنیا کی کل پونجی کو قلیل بتا رہا ہے۔ سچ ہے! اُسی کے علم میں ہے کہ اربوں کھربوں سیاروں میں جو زمین سے بھی کروڑوں گنا بڑے ہیں، کیسی کیسی دولت دبی پڑی ہوگی۔ ہم دو چار تولے سونے چاندی کو دولت سمجھ لیتے ہیں۔
قرآن کریم سیاست (Politics) کی کتاب بھی نہیں، مگر اس میں وہ سب انسانی حقوق (Human Rights) بتا دیےگئے ہیں، جو آج ایک فیشن اور نعرے کے طور پر اچھالے جا رہے ہیں۔ قرآن نے ماں باپ کے، رشتے داروں کے، بیوی بچوں کے، عورتوں کے، غلاموں کے، سب کے حقوق وضاحت سے بتا دیے ہیں۔ دشمنوں کے لیے بھی یہ کہا ہے:
وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلاَّ تَعْدِلُواْ۔ اعْدِلُواْ ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی۔ (المائدۃ: ۸)
کسی قوم سے عداوت تمھیںانصاف کرنے سے نہ روکے۔ عدل کرو۔ یہی تقویٰ سے نزدیک تر ہے۔
معاہدے کی اہمیت بتائی۔ عہد کی خلاف ورزی کرنے والے کی مذمت کی۔
ساری تعلیم کا جوہر یہ ہے کہ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اعتدال رہے۔ خوش معاملگی اور انصاف رہے۔ اللہ کے راستے میں جہاد کا حکم دیا اور اس کی بار بار تاکید کی اور کہا:
إِنَّ اللّہَ اشْتَرَی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنفُسَہُمْ وَأَمْوَالَہُم بِأَنَّ لَہُمُ الجَنَّۃَ یُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ فَیَقْتُلُونَ وَیُقْتَلُونَ. (التوبہ:۱۱۱)
اللہ نے مومنوں سے اُن کا مال اور اُن کی جانیں جنت کے بدلے میں خرید لی ہیں، وہ اللہ کے راستے میں جنگ کرتے ہیں، قتل کرتے ہیں اور قتل ہو بھی جاتے ہیں۔
مگر راہِ خدا میں قتل ہونے والوں کو شہید کہا۔ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جب اسم فاعل فعیل کے وزن پر آئے تو اُس میں صفتِ دوام ہوتی ہے۔ شاہد گواہ کو کہتے ہیں۔ شہید کے معنی ہیں مستقل اور ہمیشہ گواہی دینے والا۔ یہ گواہی اس کی ہے کہ ہم نے جس نصب العین کے لیے اپنی جان نچھاور کی، وہ نہایت اعلیٰ و ارفع، پاکیزہ اور اللہ کا پسندیدہ ہے۔ اللہ کی راہ میں جہاد کا مطلب کیا ہے؟ دشمنانِ اسلام نے بہت شد و مد سے یہ پروپیگنڈا کیا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔ بہ قول اکبر الہ آبادی :
یہی فرماتے رہے تیغ سے پھیلا اسلام
یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے
اسلام اگر تلوار سے پھیلا ہوتا تو چھ سو برس تک مسلمانوں کا دار الحکومت بنی رہنے والی دہلی میں مسلمان ۱۵؍ فیصدی نہ ہوتے، ۹۵؍ فیصدی یا اس سے بھی زیادہ ہوتے۔
جہاد کا مطلب ہے عملی کوشش۔ یہ تلوار سے بھی ہو سکتی ہے، قلم سے بھی اور زبان سے بھی۔ جیسی جہاں ضرورت ہو۔ اس کا مقصد ہے معاشرے کو فساد سے پاک کرنا، انسانیت کو گھن کی طرح لگی ہوئی خرابیوں سے نجات دلانا، اللہ کی طرف بلانا، نور وظلمت کا فرق بیان کرنا، جو طاقت ور ہیں اُن سے ضعیفوں کے حقوق حاصل کرنا اور انسانیت کو یہ بتانا کہ تمھارا مجد وشرف کیا ہے، عظمت کیا ہے۔ تم زمین پر اللہ کے نائب ہو۔ کسی مذہب نے عظمت انسان کا درس نہیں دیا۔ یہ صرف قرآن کا فرمان ہے:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِیْ أَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۔ (التین: ۴)
بلا شبہ ہم نے انسان کو بہترین انداز پر بنایا ہے۔
اور
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِکَۃِ اسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِیْسَ أَبَی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ۔ ( البقرۃ: ۳۴)
ہم نے جب فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب سجدے میں گر گئے، مگر ابلیس نے انکار کیا اور اپنے کو بڑا بتایا۔ وہ کافروں میں سے تھا۔
ایک عقل کُل نے اپنی دانست میں بڑا معرکے کا اعتراض کیا کہ اللہ نے آدم کے بیٹے کو سجدہ کروایا۔ یہی تو بت پرستی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ ایل سریانی زبان میں دیوتا کو کہتے ہیں، جنھیں ہم فرشتہ یا ملک اور ملائکہ کہتے ہیں۔ جبرئیل کے معنی ہیں بڑا دیوتا۔ اسی طرح اسرافیل، عزرائیل، میکائیل وغیرہ۔ اللہ تویہ کہہ رہا ہے کہ ہم نے فرشتوں یعنی دیوتاؤں کوحکم دیا کہ انسان کو سجدۂ تعظیم پیش کرو۔ اگر اس کے برعکس ہوتا تو وہ بت پرستی ہوتی۔
قرآن نے انسانیت کے ہر طبقے کے لیے ہدایت کا سامان فراہم کر دیا ہے۔ اس میں بادشاہوں کے لیے فرماں روائی کے دستور بھی ہیں اور فوجی جرنیل کے لیے عسکری قوانین بھی۔ کوئی عالم ہو، فقیہ ہو، مؤرخ ہو، تاجر ہو، کسان ہو، رئیس قوم ہو، ادنیٰ آدمی ہو، غلام ہو، باندی ہو، فلسفی ہو، سیاست داں ہو، علم الافلاک کا ماہر ہو، عابد وزاہد ہو یا فاسق وفاجر ہو۔ ہر فرد اور ہر قبیلہ اس کتاب سے اپنے مطلب کی باتیں اخذ کر سکتا ہے۔ اعجاز یہ ہے کہ ایک ہی آیت سے ہر سطحِ ذہن کا انسان اپنی ہمت اور فکر کے مطابق معنی اخذ کرلے گا۔ مثلاً قرآن کا فرمان ہے:
وَتَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی (البقرۃ: ۱۹۷)
اور زاد راہ فراہم کرو۔ بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے۔
اگر یہاں زادِ راہ سے توشۂ آخرت مراد لیا جائے تو وہ نیک اعمال ہیں اور تقویٰ اس کی طرف اشارہ بھی کر رہا ہے کہ پرہیزگاری یعنی حرام سے دامن بچانا ہی آخرت کے لیے سب سے اچھا توشہ ہے۔ اگر اسے آخرت کے لیے نہیں، دنیا کے لیے سمجھو تو قرآن کا ارشاد ہے کہ سفر میں جاؤ تو زادِ راہ ساتھ رکھو اور تقویٰ بہترین توشہ ہے۔ مگر کوئی مسافر سفر میں تقوے سے پیٹ تو نہیں بھر سکتا۔ اگر یہاں عربی قواعد کی رُو سے خبر مقدم اور مبتدا مؤخر سمجھا جائے تو معنی یہ بھی ہوں گے کہ تو شہ ساتھ لے کر چلو۔ اگر اچھا اور ضرورت کے بہ قدر زادِ راہ ساتھ ہو گا تو یہی تقویٰ ہے۔ یعنی نہ رستے میں بھیک مانگو گے، نہ بے ایمانی یا چوری کرو گے اور نہ کسی کی جیب کاٹو گے۔
علامہ جلال الدین السیوطی اور جار اللہ الزمخشری کا قول ہے کہ بدیع کے محاسن میں سب سے اچھا توریہ ہے، جسے ایہام بھی کہتے ہیں۔ اِس میں ایک لفظ کے دو یا دو سے زیادہ معانی ہوتے ہیں۔ ایک معنی سامنے کے اور دوسرے معنی بعید، جو عبارت کا سیاق وسباق (CONTEXT) بتاتا ہے۔ قرآن کی بلاغت کا یہ بھی خاص اسلوب ہے کہ وہ توریہ سے کام لیتا ہے جیسے:
وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتَّی یَأْتِیَکَ الْیَقِیْنُ۔ ( الحجر: ۹۹)
أَفَلَا یَنظُرُونَ إِلَی الْإِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ۔ وَإِلَی السَّمَاء کَیْفَ رُفِعَتْ۔ ( الغاشیۃ: ۱۷-۱۸)
غور فرمائیے! چند الفاظ ہیں۔ بالکل واضح ہیں۔ کوئی بات مبہم نہیں مگر معانی کے اتنے پہلو تو ہم جیسے جاہل، کج فہم، ہیچ مداں کو بھی نظر آرہے ہیں۔ وہ اصحاب رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین جن کی آنکھوں کے سامنے وحی نازل ہوتی تھی اور جنھیں مرشد اعظم ﷺ اپنے قول وفعل سے اس کے معانی ومطالب سمجھاتے تھے، انھوں نے قرآن کریم کو کیا سمجھا ہو گا!
محترم حضرات وخواتین، شیخ سعدی علیہ الرحمہ کا مشہور شعر ہے :
نہ حسنش غایتے دارد نہ سعدی را سخن پایان
بمیر وتشنہ مستسقی ودریا ہم چنان باقی
یعنی نہ اس کے حسن کی حد ہے اور نہ سعدی کی باتیں ختم ہوتی ہیں۔ جلندر کا مریض پیاسا مر جاتا ہے اور دریا بہ دستور بہتا رہتا ہے۔ ’’نہ سعدی را سخن پایاں‘‘ تو شیخ سعدی ہی کہہ سکتے تھے، میں تویہ بھی نہیں کہہ سکتا۔ موضوع ہو’’قرآن کریم کا اعجاز‘‘ اور بیان ہو مجھ جیسے عاجزِ سخن کا، بس یوں سمجھ لیجیے کہ گونگا اپنا خواب کیسے بیان کرے؟ اندھا آئینے میں کیا دیکھے؟ بہرا موسیقی سے کیسے لطف اٹھائے؟ دنیا کی مختلف زبانوں میں اب تک قرآن کریم کے تراجم، تفسیریں، اُس سے متعلق موضوعات پر کتابیں ایک لاکھ سے زائد لکھی جاچکی ہیں اور لکھنے والے بھی بڑے بڑے جلیل القدر علما، ماہرین بلاغت، فلسفی، زبان داں، فقیہ اور ادیب ہوئے ہیں۔ وہ اس کتاب کے وصف کا حق شمّہ بھر ادا نہ کر سکے تو بہ قول عرفی:
من کہ باشم، عقلِ کل را، ناوک اندازِ ادب
مرغِ اوصاف تو از اوجِ بیاں انداختہ
میں نے قرآن کریم کے صرف چند پہلوؤں پر سرسری گفتگو کی ہے۔ اس کی ادبی حیثیت اور اسلوب کو نہیں چھیڑا۔ ’’اعجاز القرآن‘‘ کے مصنف قاضی ابوبکر باقلانی کا قول ہے کہ قرآن کریم کی فصاحت وبلاغت کے منتہا کو عربی کے اہل زبان اور ماہرین بلاغت بھی نہ سمجھ سکے تو عجمیوں کے لیے جن کی مادری زبان فارسی یا ترکی وغیرہ ہے، اس کے رموز ونکات، لطائف اور باریکیوں کو سمجھنا کس طرح ممکن ہوسکتا ہے؟
علامہ جلال الدین السیوطی نے اپنی نہایت قابل قدر اور جامع تصنیف ’’الاتقان فی علوم القرآن‘‘ کی دوسری جلد میں قرآن کریم کے بدائع کا ذکر کرتے ہوئے سو سے زیادہ اصطلاحات بدیع درج کی ہیں، جن پر علم البدائع اور فن بلاغت کی بنیاد ہے اور فرداً فرداً بحث کر کے بتایا ہے کہ ہر ایک کی بہترین مثال قرآن کریم میں موجود ہے۔T.W. WRIGHT نے اپنی کتاب میں عربی گرامر، عروض وبلاغت وغیرہ کی زیادہ تر مثالیں قرآن کریم ہی سے درج کی ہیں۔ اگر اس موضوع کا سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو ایک دفتر درکار ہے۔
آخری بات یہ کہ قرآن کریم نہ صرف عربی ادب کا شاہ کار ہے بل کہ عربی میں آج علوم وفنون کی جتنی شاخیں بھی ہمیں نظر آرہی ہیں، یہ سب قرآن ہی کے طفیل سے ہیں۔ اس کتاب نے مسلمان علما کی ایک کثیر تعداد ہر علاقے اور ہر شہر میں پیدا کردی اور ابتدائی سات آٹھ صدیوں میں علم اور بحث وتحقیق کی وہ گہما گہمی نظر آتی ہے، جس کی مثال اُس عہد کی تاریخ میں اور کہیں نہیں ملتی۔
قرآن کریم کا اسلوب اور اعجاز
پروفیسر نثار احمد فاروقی

