سہ ماہی کتاب و سنت کا پہلا شمارہ منظر عام آیا اور پسند کیا گیا۔ مقاصد اور پیش کش کی انفرادیت کی وجہ سے اسے بہت سراہا گیا۔ ملک و بیرونِ ملک کی مقتدر علمی شخصیات نے اس کوشش کی ستائش کرکے ہماری حوصلہ افزائی فرمائی۔ بعض دوستوں نے مشورے دیے اور کچھ نے سوال اٹھائے۔ ہم ان تمام کرم فرماؤں کے شکر گزار ہیں کہ انھوں نے ہماری اس کوشش پر توجہ دی۔ اس کے مطالعے کے لیے وقت نکالا۔ اس کے حسن و قبح کا جائزہ لیا۔ اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال رہی تو ہم اسے خوب سے خوب تَر بنانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ اِس وقت ایک سوال پر گفتگو کرنی ہے۔ یہ سوال ہمارے کچھ احباب کی طرف سے آیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آزمائشوں کے نازک دور میں دادِ تحقیق دینا کہاں کی دانش مندی ہے؟ قومی اور بین الاقوامی سطح پر امت سخت مصیبتوں کا شکار ہے۔ عالمی پیمانے پر صہیونیت (Zionism) اور ملکی سطح پر ہندتوا (Hindutva) کی منحوس آگ اسلام اور مسلمانوں کو بھسم کرنے کو تیار ہے۔ مسلمانوں کو ضرورت ہے اپنے دفاع کی، اپنے بچاؤ کی اور ایک مضبوط لائحہ عمل کی۔ ایسا لائحہ عمل جس کے ذریعے وہ پیش آمدہ مسائل سے نمٹ سکیں۔ لیکن آپ مسلمانوں کی اس اہم ترین ضرورت کو پورا کرنے کے بجائے علم و تحقیق کا راگ الاپ رہے ہیں۔ اس بے وقت کی راگنی سے کیا حاصل ہوگا؟ امت کا کیا بھلا ہوگا؟
اگر ہم جذبات کی رو میں بہتے ہوئے اس سوال پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اس میں بڑا دم لگتا ہے۔ لیکن سنجیدگی اور کچھ گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں تو یہ سوال بالکل پھسپھسا نظر آتا ہے۔ اس سلسلے میں دو نکتوں پر توجہ دینی چاہیے:
الف: اس دنیا میں علم و تحقیق کی حیثیت ثانوی درجے کی نہیں ہے۔ علم و تحقیق میں کائنات اور انسانیت کی بقا کا راز مضمر ہے۔ خالقِ کائنات نے انسان کو دوسری مخلوقات پر فضیلت دینے کے لیے جو انفرادیت رکھی ہے، وہ علم و تحقیق کی انفرادیت ہے۔ سورۂ بقرہ کی اِن تین آیات میں اسی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے:
وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَٰؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ۔ قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ۔ قَالَ يَا آدَمُ أَنبِئْهُم بِأَسْمَائِهِمْ فَلَمَّا أَنبَأَهُم بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ۔ (البقرة)
اور اللہ نے آدم کو ہر چیز کے نام سکھائے، پھر اُن چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ مجھے ان چیزوں کے نام بتاؤ اگر تم سچے ہو۔ انھوں نے کہا کہ آپ کی ذات پاک ہے ہمیں بس وہی معلوم ہے جو آپ نے ہمیں سکھایا ہے، بے شک آپ ہی جاننے والے اور حکمت والے ہیں۔ ارشاد ہوا کہ اے آدم ! تو ان کو ان چیزوں کے نام بتا، تو جب اُس نے انھیں ان چیزوں کے نام بتا دیے تو ارشاد ہوا کہ میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین میں چھپی ہر چیز کو جانتا ہوں اور میں ان باتوں کو بھی جانتا ہوں جن کو تم ظاہر کرتے ہو اور جن کو تم چھپاتے ہو۔
ان آیات سے حاصل ہونے والے بے شمار حقائق میں سے ایک بنیادی حقیقت یہ بھی ہے کہ دوسری مخلوقات کے پاس علم کی گہرائی اور جستجو کا ذوق نہیں ہے۔ اُن کی معلومات یک رخی اور محدود ہے۔ وہ تلاش اور کھوج کی صلاحیت سے بھی محروم ہیں۔ انسان کا علم بھی دوسری مخلوقات سے ہزارہا درجے وسیع ہے اور وہ ذوقِ جستجو کا بھی حامل ہے۔ اسی لیے وہ روز اس کائنات کی تہیں کھول رہا ہے۔ مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ جتنا کائنات کو کھول رہا ےاُتنا خالقِ کائنات کے عرفان سے قریب ہو رہا ہے۔ خالق کا عرفان ہی مخلوق کی معراج ہے۔ اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فنونِ لطیفہ کے کچھ شعبوں کی طرح علم و تحقیق کا عمل بھی صرف وسعت و کشادگی کے زمانے کا عمل ہے۔ علم و تحقیق ایک ثانوی نہیں اولین کام ہے۔ وقتی نہیں، عملِ مسلسل ہے۔ اسے ہر دور اور ہر حال میں جاری رہنا چاہیے۔ ورنہ ارتقا کا عمل رک جائے گا۔
ب: دوسری بات یہ کہ امت کا زوال کسی ایک زاویے سے نہیں، ہر زاویے سے ہوا ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ میں ہوتا بھی یہی ہے۔ کوئی قوم ہر لحاظ سے آگے بڑھتی ہے، تبھی سب سے آگے نکلتی ہے۔ زندگی کے دو چار پہلوؤں میں ترقی کرکے عروج کی منزل پر نہیں پہنچا جاتا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عربوں کو زندگی کے ہر میدان میں اونچا اٹھایا۔ تبھی روم و فارس پسپا ہوئے، عباسی اور عثمانی حکومتیں وجود میں آئیں، اندلس اور صقلیہ نے تہذیب و تمدن کا رخ موڑا، بیت الحکمت اور جامعہ نظامیہ بغداد کی بنیاد پڑی۔ زندگی کے کسی ایک زاویے میں ترقی کرکے یہ شش جہاتی عروج ممکن نہیں تھا۔ لہٰذا آج امت کے زوال کو ختم کرنے کی کام یاب حکمت عملی یہ نہیں ہوسکتی کہ زندگی کے کسی گوشے پر ہی توجہ دی جائے۔ جو پہلو اہم نظر آتے ہوں، انھیں اولیت دی جائے۔ جو پہلو اہم نہ لگیں، انھیں دوسرے تیسرے درجے میں رکھا جائے۔ جب زوال ہر پہلو سے ہے تو عروج بھی ہر پہلو سے حاصل کرنا ہوگا۔ اس کے لیے ہر پہلو پر کام کرنا ہوگا۔ زندگی کے ہر گوشے سے تعلق رکھنے والے افراد کو اُن کے اختصاصی میدانوں میں کام کرنے کے لیے لگانا ہوگا۔ ہر کام کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔ تبھی مجموعی زوال سے نکل کر مجموعی عروج حاصل کیا جاسکے گا۔
ان دو بنیادی نکات کے ادراک نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم آج کے عہدِ زوال میں کتاب و سنت کے مدار پر گھومنے والے علم و تحقیق کا آوازہ بلند کریں۔ اللہ کے فضل سے یہ آوازہ سنا بھی جا رہا ہے۔
عہد زوال میں علم وتحقیق
شاہ اجمل فاروق ندوی

