مسلمانوں نے اپنے نبی پاک جناب محمد مصطفی ﷺ کی مبارک تعلیم کو جس طرح بعینہٖ اپنی اصلی شکل میں محفوظ رکھا، دنیا کی تمام دوسری قومیں اس کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہیں۔ ترجمانِ وحی ﷺ کی زبان مبارک سے جو الفاظ ادا ہوئے، امت کے مختلف طبقوں نے ان کی حفاظت کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا۔ قارئین ومحدثین نے ان کو اپنے سینوں میں جگہ دی۔ اربابِ تجوید نے مخارج حروف کو، صرفیوں نے صیغے کی ساخت کو اور نحویوں نے ترکیب کلام کو منضبط کیا۔ اہلِ معانی نے اعجازِ کلام کو سمجھنے کے لیے فن معانی وبیان کی تدوین کی اور لغویوں نے مفردات کی تشریح کی۔ متکلمین نے مابعد الطبیعیاتی حقائق کی توضیح کی اور اُصولیوں نے استنباط کے گُر بتائے۔ فقہا نے ضوابط حیات کو متعین کیا۔ صوفیہ نے قلبی کیفیات کو محفوظ رکھا اور تنویر باطن پر متوجہ ہو گئے۔
عاملانِ دین کے یہ طبقے عہد رسالت سے لے کر آج تک اس طرح مسلسل چلے آئے ہیں کہ ان میں کبھی ایک لمحے کے لیے بھی انقطاع واقع نہیں ہوا۔ ان مبارک بزرگوں کے حالات میں جنھوں نے حفاظت دین کی یہ عظیم الشان خدمت انجام دی ہے، آپ کو تاریخ اسلام میں سیکڑوں ہزاروں کتابیں ملیں گی۔
اس وقت ہمارے پیش نظر ان ہی خادمانِ دین میں سے اپنے ملک کی ایک ایسی عظیم شخصیت کا تعارف کرانا ہے، جس کو اپنی جلالت علمی کی بنا پر ان مختلف طبقات میں خاص حیثیت حاصل ہے۔ یہ شیخ الحرم امام ابوالحسن کبیر سندھی ہیں، جو نحو، معانی، منطق، اصول، حدیث، تفسیر، فقہ ان تمام علوم میں ایک بلند پایہ محقق سمجھے جاتے ہیں۔
سندھ کی سرزمین پر ۹۲ھ میں مسلمانوں نے اپنا قدم جمایا اور جب تک اس صوبے کا تعلق مسلمانوں کی مرکزی حکومت سے رہا، یکے بعد دیگرے متعدد اہل علم یہاں کی خاک سے اٹھے اور علمی دنیا میں خاص شہرت کے مالک ہوئے، جن میں خاص طور پر قابل ذکر ہیں:
(۱) قاضی منصور ابو العباس احمد بن محمد تمیمی منصوری فقیہ داؤدی۔
(۲) حافظِ حدیث خلف بن سالم سندھی ،المتوفی ۳۳۱ھ۔
(۳) فقیہ ابونصر فتح بن عبد اللہ
(۴) محدث ابو جعفر محمد بن ابراہیم ویبلی، المتوفی ۳۲۲ھ
(۵) امام مغازی و سیر ابو معشر نجیح بن عبدالرحمن سندھی، المتوفی ۱۷۰ھ
تاہم اس دور میں سندھ کو کبھی بھی یہ حیثیت حاصل نہیں ہوئی کہ جس طرح دیگر بلاد اسلامیہ کی طرف تشنگانِ علم نبوی سماعِ حدیث کے لیے سفر کیا کرتے تھے، سندھ کی طرف بھی کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین نے جس طرح ان شہروں کی تاریخ پر کہ جن کو اس عہد میں کتاب وسنت کی مرکزی درس گاہ ہونے کی حیثیت حاصل تھی اور جہاں دور دراز سے طلبا تحصیل حدیث کی غرض سے آیا کرتے تھے اور رواۃ ومسندین اور دیگر مشاہیر اہل علم کی نمایاں تعداد وہاں موجود ہوتی تھی، ان پرمستقل کتابیں لکھی ہیں۔ سندھ یا ہند کی تاریخ پر کوئی کتاب نہیں لکھی اور پھر جب سندھ کا تعلق دارالخلافہ سے کٹ گیا تو یہاں ہر شعبے میں علمی انحطاط شروع ہو گیا اور علمی ترقی اس مقام سے آگے نہ بڑھ سکی کہ جتنی محکمۂ قضا کو باقی رکھنے کے لیے اس وقت ضرورت تھی۔ اس لیے سندھ کو اس زمانے میں وہ درجہ نصیب نہ ہو سکا جو دیگر ممالک عجم فارس وخراسان و ماوراء النہر وغیرہ کو نصیب ہوا۔ حتی کہ حافظ شمس الدین محمد بن احمد ذہبی نے جب اپنا مشہور رسالہ ’’الامصار ذوات الآثار‘‘ (۱)قلم بند کیا، جو ان شہروں کے حالات میں ہے کہ جو ایک زمانے تک علم حدیث کی نشر واشاعت کا مرکز رہ چکے ہیں تو برصغیر ہند وسندھ کے متعلق ان کو یہ رائے ظاہر کرنا پڑی:
فالاقالیم التي لا حدیث بہا یروی ولا عرفت بذلک: الصین اغلق الباب والہند والسند۔
اور وہ ممالک کہ جہاں حدیث کی روایت نہیں کی گئی اور نہ اس علم میں ان کی شہرت ہے، چین ہے کہ جس نے دروازہ ہی بند کر رکھا ہے اور ہند اور سندھ ہیں۔
حافظ ذہبی نے ۷۴۸ھ میں وفات پائی ہے۔ اس بنا پر یوں سمجھنا چاہیے کہ آٹھویں صدی کے وسط تک علم حدیث کے سلسلے میں ہندستان کی کچھ شہرت نہ تھی۔ باقی یہ ایک الگ بات ہے کہ اس دور میں بھی ایک آدھ محدث اس برصغیر ہند وپاک کے طویل وعریض علاقے میں کہیں نہ کہیں موجود ہو۔ چناںچہ امام حسن بن محمد صغانی لاہوری( المتوفی۶۵۰ھ) اور شیخ الاسلام عمادالدین سعود بن شیبہ سندھی، مصنف ’’کتاب التعلیم‘‘ و ’’طبقات الحنفیۃ‘‘ تو اس پائے کے محدث گزرے ہیں کہ ان کی تالیفات سے خود عربی دنیا نے فائدہ اٹھایا ہے بلکہ حافظ عبدالقادر القرشی( ۷۷۵ھ) نے الجواہر المضیئہ في طبقات الحنفیہ میں امام صغانی کے تذکرے میں جو یہ لکھا ہے کہ ’’سمع بمکۃ وعدن والہند‘‘ (انھوں نے مکہ معظمہ، عدن اور ہندستان میں حدیث کی سماعت کی ہے)، اس سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ خود ہندستان میں بھی ساتویں صدی میں درس حدیث کا سلسلہ موجود تھا۔ تاہم چوں کہ اس ملک میں علم حدیث کی عام اشاعت نہ تھی، اس لیے حافظ ذہبی نے اس کا شمار ان ممالک میں نہیں کیا کہ جو حدیث وروایت کا مرکز سمجھے جاتے تھے۔ محدث سخاوی نے بھی ’’الاعلان بالتوبیح ‘‘میں حافظ ذہبی کے مذکورہ بالا بیان کو نقل کر کے اس پر کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے زمانے تک ہندستان کی اس فن میں وہی حالت تھی، جو ذہبی نے بیان کی ہے۔ سخاوی کی وفات ۹۰۲ھ میں ہوئی ہے۔ اس لحاظ سے ہم کو یوں سمجھنا چاہیے کہ نویں صدی کے اخیر تک یہاں علم حدیث کا رواج نہ تھا۔
اسناد وروایت میں سند وہند کے ترقی نہ کرنے کے کچھ قدرتی اسباب بھی ہیں۔ سندھ ایک مدت سے دارالخلافہ سے کٹا ہوا تھا۔ پھر باطنیوں کی تحریک یہاں زوروں پر تھی، جس نے آگے چل کر ملک پر مکمل اقتدار جما لیا اور طویل عرصے تک باطنیہ نے یہاں حکومت کی۔ ادھر ہندستان میں مسلمانوں کو جب اطمینان سے سانس لینے کا موقعہ ملا اور فارغ البالی کے ساتھ حکم رانی کرنے کا وقت آیا، جو علوم وفنون کی نشو ونما کے لیے بہترین وقت ہوتا ہے تو عالم اسلام پر زوال آچکا تھا۔ تاتاری وحشیوں نے خوارزم سے لے کر بغداد تک تمام بلاد اسلامیہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی اور مسلمانوں کا وہ قتل عام کیا تھا کہ تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس خونی انقلاب میں سب سے زیادہ نقصان حنفیوں کو اٹھانا پڑا۔ ان کے تمام علمی مراکز تباہ ہوگئے، کتب خانے برباد ہو گئے اور علما تہ تیغ کر دیے گئے۔ اس لیے دینی علوم کی وہ سیادت جو اس سے پہلے عراق وفارس اور خراسان وماوراء النہر میں علمائے احناف کو حاصل تھی، تمام تر علمائے دماشقہ(۲) ومصاریہ کو منتقل ہو گئی۔
حنفیوں نے زوالِ بغداد پر علمی حیثیت سے اتنا بڑا نقصان اٹھایا تھا کہ اس کی تلافی صدیوں کے بغیر ناممکن تھی۔ چناںچہ یہی ہوا۔ تین سو سال تک علوم اسلامیہ میں صرف مصر وشام سے کیا بہ لحاظ کثرت اور کیا بہ لحاظ جلالت مرتبت جس قدر اور جس شان کے علما پیدا ہوئے، سارے عالم اسلام سے نہ ہوسکے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت کسی قوم کے ساتھ مخصوص نہیں۔ دسویں صدی ہجری سے آہستہ آہستہ یہ سیادت ہند وسندھ کی طرف منتقل ہونا شروع ہوگئی اور ان قرونِ متأخرہ میں جیسے اکابر علما یہاں کی سرزمین سے اٹھے، سارا عالم اسلام ان کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔
علم حدیث ہی کو لیجیے! اس سلسلے میں ہندوسندھ کے بارے میں ابھی حافظ ذہبی کی تصریح آپ کے گوش گزار کی جاچکی ہے۔ اب ذہبیِ وقت، محدثِ ناقد علامہ محمد زاہد الکوثری علیہ الرحمہ کا وہ اعترافِ عظمت بھی ملاحظہ ہو، جو انھوں نے اس عظیم اقلیم کی خدمت حدیث وسنت پر کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
وکان حظ اقلیم الہند من ہذا المیراث منذ منتصف القرن العاشر ہو النشاط في علوم الحدیث۔ فأقبل علماء الہند علیہا إقبالا کلیا بعد أن کانوا منصرفین إلی الفقہ المجرد والعلوم النظریۃ۔ ولو استعرضنا ھا لعلماء الہند من الہمۃ العظیمۃ في علوم الحدیث من ذاک الحین – مدۃ رکود سائر الأقالیم – لوقع ذلک موقع الإعجاب الکلي والشکر العمیق۔ وکم لعلمائہم من شروح ممتعۃ وتعلیقات نافعۃ علی الأصول الستۃ وغیرہا وکم لہم من مؤلفات واسعۃ في أحادیث الإحکام۔ وکم لہم من أیاد بیضاء في نقد الرجال وعلل الأحادیث وشرح الآثار وتألیف مؤلفات في شتی الموضوعات۔ واللہ سبحانہ ہو المسئول أن یدیم نشأطہم في خدمۃ مذاہب أہل الحق ویوفقہم لامثال أمثال ما وقفوا لہ إلی الاٰن وأن یبعث ہذا النشاط في سائر الأقالیم من جدید۔ (مقالات الکوثری، صفحہ ۷۳، طبع قاہرہ ۱۳۷۲ھ)
اور اقلیم ہند کے حصے میں اس میراث نبوی میں سے دسویں صدی ہجری کے وسط میں علوم حدیث کی سرگرمی آئی ہے۔ چناںچہ (اس عہد سے) ہندستان کے علما خالص فقہ اور علوم نظریہ میں مشغول رہنے کے بعد علوم حدیث پر بالکلیہ متوجہ ہوئے۔ اگر ہم علوم حدیث کے متعلق علمائے ہند کی اس عظیم توجہ کا اس قت سے جائزہ لیں کہ جب سے تمام ممالک اسلامیہ میں اس علم کی ترقی کا سلسلہ رک گیا تو یہ پوری تحسین اور گہرے تشکر کا موجب بنے گا۔ چناںچہ اندازہ کیجیے کہ وہاں کے علما نے صحاح ستہ وغیرہ پر کتنی مفید شرحیں اور کتنے مزید حواشی لکھے ہیں۔ احادیث احکام پر ان کی کتنی وسیع تالیفات موجود ہیں۔ تنقید رجال، عللِ حدیث اور شرح احادیث میں ان کے کس قدر شان دار کارنامے ہیں۔ نیز حدیث کے متعلق مختلف موضوعوں پر انھوں نے کس قدر تالیفات چھوڑی ہیں۔ دعا ہے کہ حق سبحانہ وتعالیٰ مذاہب حقہ کی خدمت کے سلسلے میں ان کی سرگرمی کو مدام جاری رکھے اور اب تک جو کچھ ان کو کرنے کی توفیق ملی ہے، اس سے کئی گنی کرنے کی مزید توفیق ارزانی فرمائے اور اس سرگرمی کو دوسرے ممالک میں بھی نئے سرے سے پیدا فرمائے۔ آمین!
پھر احادیث احکام کی مشہور ترین کتابوں کا ذکر کر کے فرماتے ہیں:
ثم یأتي دور إخواننا الہنود – من أہل السنۃ – فمآثرہم في السنۃ في القرون الأیرۃ فوق کل تقدیر وشروحہم في الأصول الستۃ تزخر بالتوسع في أحادیث الأحکام۔ (صفحہ ۷۴)
پھر ہمارے اہل سنت ہندی بھائیوں کا دور آیا، جن کے شان دار کارنامے پچھلی صدیوں میں علم سنت کے متعلق ہر اندازے سے بڑھ کر ہیں اور صحاح ستہ پر ان کی شرحیں احادیث احکام کی وسیع معلومات سے بھرپور ہیں۔
مصر کے مشہور صحافی سید رشید رضا نے تو یہاں تک لکھ دیا:
ولو لا عنایۃ إخواننا علماء الہند بعلوم الحدیث في ہذا العصر لقضی علینا بالزوال من أمصار الشرق فقد ضعفت في مصر والشام والعراق والحجاز منذ قرن العاشر للہجرۃ حتی بلغت منتہی الضعف في أوائل ہذا القرن الرابع عشر۔ (مقدمہ مفتاح کنوز السنہ: ص ۶، طبع مصر)
اگر ہمارے بھائی ہندستانی علما کی توجہ اس زمانے میں علوم حدیث کی طرف مبذول نہ ہوتی تو ان علوم کے زوال کا بلادِ مشرق میں فیصلہ ہو چکا تھا۔ کیوں کہ یہ علوم مصر، شام، عراق اور حجاز میں دسویں صدی ہجری سے ضعیف ہو چکے تھے حتی کہ اس چودھویں صدی کے اوائل میں تو انتہائی ضعف کو پہنچ چکے تھے۔
علمائے سندھ میں ’’ابوالحسن‘‘ نامی چار بزرگ زیادہ نامی وگرامی گزرے ہیں:
۱۔ میاں ابوالحسن صاحبِ منظومہ، جن کے بارے میں علی شیر قانع کے تحفۃ الکرام میں یہ الفاظ ہیں:
میاں ابوالحسن کامل وقت صاحب علم وعمل بودہ، منظومہ سندھی در عقاید اسلام و فرائض ایمان کہ ورد خاص و عام است از و یادگار، بزرگیش را عالمے قائل (۲۲۷، ج۳)
ان کے باپ کا نام عبدالعزیز اور ان کا سنہ وفات ۱۱۳۳ھ ہے۔
۲۔ میاں غلام حسن المعروف بہ ابوالحسن المتوفی ۱۱۸۷ھ، جو اپنے استاذ الاستاذ ابوالحسن کبیر سے امتیاز کی بنا پر ’’ابوالحسن صغیر‘‘ کہلاتے ہیں۔ قانع نے تحفۃ الکرام میں ان کا تعارف ان الفاظ میں کروایا ہے:
میاں غلام حسن المعروف بہ بمخدوم ابوالحسن بحرمین شریفین زادہما اللہ شرفاً وتعظیماً رفتہ نمود وافی کرد۔ بعد فوت مخدوم محمد حیات سندی کہ مدرسہ آرائے مدینہ منورہ بود در آں سرزمین اعلم علماء و افضل فضلاء زیستہ جانشین سرآمد محدثان باکمال و سرکردہ مدرسان صاحب قال و حال می باشند۔ (صفحہ ۲۳۶، جلد ۳)
۳۔ حاجی ابوالحسن سندھی النقشبند، قرشی داہری مصنف کتاب ینابیع الحیاۃ الابدیۃ لطلاب الطریق النقشبندیہ۔ ان کا سلسلۂ طریقت صرف دو واسطوں سے حضرت خواجہ معصوم بن مجدد الف ثانی علیہما الرحمہ تک پہنچتا ہے۔ داہری نے ’’ینابیع‘‘ کی تصنیف سے جیسا کہ خاتمۂ کتاب میں مصرح ہے ۱۱۵۶ھ میں فراغت پائی ہے۔ ان کی تاریخ وفات ۱۲؍ ربیع الاول ۱۱۸۱ھ ہے۔
۴۔ یہی ہمارے ابوالحسن کبیر جو علو مرتبت وجلالت قدر کے اعتبار سے ان سب پر فائق تھے اور ہمارے مقالے کا مقصد موصوف کا اجمالی تعارف ہے۔
نام ونسب
ان کا نام محمد، کنیت ابوالحسن اور لقب نورالدین ہے۔ سلسلۂ نسب یہ ہے: محمد بن عبدالہادی السندی التتوی ثم المدنی الحنفی۔
ٹھٹہ میں پیدا ہوئے۔ وہیں نشو ونما پائی اور تعلیم حاصل کی تا آں کہ اپنے وطن ہی میں ایک محقق عالم کی حیثیت سے شمار ہونے لگے اور طلبہ کا مرجع بن گئے۔ ان کے شاگرد رشید شیخ محمد حیات کا بیان ہے:
کان مولدہ في السند في بلدۃ یقال لہا تتہ لشأبہا عالماً محققاً مرجعاً للطلبۃ۔(۳)
علامہ مرادی کی سلک الدرر کا جو نسخہ مصر میں طبع ہو کر شائع ہوا ہے، اس میں ابوالحسن کے ترجمے میں اس مقام پر عبارت میں کچھ گڑبڑ معلوم ہوتی ہے۔ مطبوعہ نسخے کی عبارت حسب ذیل ہے:
’’ولد بتتۃ قریۃ من بلاد السند ونشأ بہا ثم ارتحل الی تستر واخذ بہا عن جملۃ من الشیوخ۔‘‘
یعنی یہ ٹھٹہ میں پیدا ہوئے جو دیار سندھ کا ایک گاؤں ہے۔ وہیں نشو ونما پائی، پھر تستر کا سفر کیا اور وہاں کے شیوخ کی ایک جماعت سے تحصیل علم کی۔
ہمارے خیال میں یہ عبارت کئی طرح سے محل نظر ہے۔ تستر کی طرف سفر کا کوئی بھی تذکرہ نگار ذکر نہیں کرتا۔ ویسے بھی تستر کی طرف سفر کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی۔ اس زمانے میں اس کی کوئی علمی شہرت نہ تھی کہ وہاں سفر کر کے جایا جاتا۔ ہمارے خیال میں مصنف (کمپوزیٹر) یا کاتب کی عنایت سے یہاں تتہ کا تستر ہوگیا ہے اور ولد بتتہ میں اس گاؤں کی نشان دہی ہے، جو ٹھٹہ کے حوالی میں شیخ کا مولد تھا اور شاید تستر کی طرح اس کو بھی تتہ سے تجدیس خطی کا شرف حاصل ہوگا، ورنہ ظاہر ہے کہ تتہ کی حیثیت اس عہد کی تاریخ میں قریہ کی نہیں بلکہ بلدۂ عظیمہ کی تھی۔ صاحب نزہتہ الخواطر کا ماننا ہے کہ ابوالحسن کے تذکرے میں یہی سلک الدرر ہے۔ وہ تتہ کو قریہ بتانے پر تو چونکے ہیں اور اس لیے انھوں نے عبارت میں تصرف کرکے ولد بتتۃ قریۃ من بلاد السند کی بجائے ولد ببلدۃ تتہ من اقلیم السند لکھا ہے، لیکن اس طرف ان کا ذہن منتقل نہ ہوا کہ سفر تستر کی کیا ضرورت تھی، اس لیے اس کو برقرار رکھا۔
اساتذہ وشیوخ
علامہ موصوف نے سوائے علم حدیث کے جملہ علوم وفنون کی تحصیل اپنے وطن ہی میں کی تھی۔ سلسلۂ روایت کی بنا پر ان شیوخ کے نام تو محفوظ ہیں، جن سے حرمین شریفین میں سماعِ حدیث کیا تھا لیکن مقامی علما جن کی بدولت شیخ کی علمی استعداد علوم متداول میں کمال کو پہنچی اور وہ علامہ کہلائے، ان میں سے کسی ایک کا بھی نام معلوم نہیں۔ مرادی کی مذکورہ بالاعبارت میں اگر تستر کے بجائے تتہ پڑھا جائے تو صرف اتنا معلوم ہوتا ہے واخذ بہا عن جماعۃ من الشیوخ یعنی انھوں نے وہاں کے اساتذہ کی ایک جماعت سے علم کی تحصیل کی تھی۔ ملا عابد سندھی بھی یہی لکھتے ہیں :
اخذ عن جماعۃ من العلماء الاعلام في بلدہ والحرمین وغیرہما۔ (۴)
انھوں نے علمائے اعلام کی ایک جماعت سے اپنے وطن میں اور حرمین وغیرہ میں علم حاصل کیا۔
ان علمائے اعلام میں جو مشاہیر حرم تھے، وہ یہ ہیں:
۱۔ برہان الدین ابراہیم بن حسن الکردی الکورانی المتوفی ۱۱۰۲ھ۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے انسان العین فی مشائخ الحرمین میں ان کا تذکرہ لکھا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’شیخ ابراہیم کردی قدس سرہ عالم بود و عارف در فنون علم از فقہ شافعی و حدیث و عربیت واصلین ید طولی داشت و در ہر یکے تصانیف دارد۔۔۔۔ زبان فارسی و کردی و ترکی و عربی ہمہ می دانست و بتوقد ذہن و تبحر علم و زہد و تواضع و صبر و حلم منتصف بود ۔۔۔۔۔ عبداللہ عیاشی گفت کہ کان مجلسہ روضۃ من ریاض الجنۃ چوں تقریری مسائل حکمت کر دے البتہ حقائق صوفیہ در ضمن آں ذکر کردے و ترجیح کلام صوفیہ برتحقیق آنہا بیان فرمودے و گفتے ہؤلاء(۵)الفلاسفۃ قاربوا عثورا علی الحق ولم یہتدوا الیہ۔
تاریخ وفات وے یکے از خطبائے زمانہ ازیں لفظ بر آورد:
’’أنا علی فراقک یا ابراہیم لمحزونون‘‘
(صفحہ ۷-۸، مطبوعہ مطیع احمدی – دہلی)
۲۔ محمد بن عبد الرسول برزنجی۔ یہ ملا کورانی مذکور صدلہ کے شاگرد خاص تھے۔ چناںچہ شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے ان کے ترجمے میں لکھا ہے :
’’سید محمد برزنجی کہ یکے از اجلہ تلامذۂ شیخ بود۔‘‘ (صفحہ۷)
۳۔ عبداللہ بن سالم بصری۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے انسان العین میں ان کا بھی ترجمہ لکھا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’شیخ عبداللہ بن سالم البصری ثم المکی احیاء بسیارے از کتب حدیث کرد۔ از انجملہ مسند امام احمد….. و از کتب ستہ نیر اصول مصححہ ساخت….. و بر بخاری شرح دارد مسمّی بضیاء الساری کہ بہ سبب ضعف پیری اتمام آں نتوانست کرد، و ہمہ عمر بروایت کتب حدیث سرداً وبحثاً گزرانید، بالجملہ بحقیقت حافظ درین زمانہ متأخر دے بود۔۔۔۔ وسبب بقائے ایں سلسلہ وے شد از ابتدا صبارغبت علم علماء وصلاح وورع پیشۂ مرضیہ وے بود ۔۔۔۔۔ وہیچ وقت خالی نبودے از درس یا تلاوت یا نماز یا سخن ضروری ۔۔۔۔۔ عمرے طویل یافت وآن ہمہ در مرضیات الٰہی گزاشت وتا آخر عمر بوفور عقل وحفظ وصحت حواس متصف الإسامتہ کہ فی الجملہ فتور یافتہ بود ۔۔۔۔۔۔۔ اہل مکہ اکثر ایشان بروے سماع کردندد رابع رجب ۱۱۳۴ھ اربع وثلاثین ومائۃ بعد الالف برفت از دنیا۔‘‘ (صفحہ ۱۲ و۱۳)
یوں تو علامہ سندھی نے اس طبقے کے بعض اور اکا بر سے بھی علم حدیث کی تحصیل کی ہے لیکن مشہور یہی تین ہیں۔ شیخ عبدالحی کتانی فاسی فہرس الفہارس والاثبات و معجم المعاجم والمشیخات میں شیخ ابوالحسن کبیر کے ترجمے میں لکھتے ہیں:
’’یروی عن الشمس محمد بن عبد الرسول البرزنجی والبرہان الکوراني وعبداللہ البصري وتلک الطبقۃ‘‘ (صفحہ ۱۰۳- جلد ۱)
ان تمام شیوخ واساتذہ میں سب سے زیادہ جس کا اثر علامہ سندھی کے ذہن وفکر پر ہوا، وہ شیخ ابراہیم کورانی ہیں۔ یاد رہے کورانی کی اس درس گاہ سے سندھ وہند کے دو مشہور امام متاثر ہو کر نکلتے ہیں: ایک امام ابوالحسن کبیر سندھی اور دوسرے امام ولی اللہ دہلوی۔ ابوالحسن نے باپ سے تحصیل حدیث کی ہے اور شاہ ولی اللہ صاحب نے ان کے بیٹے ابوطاہر بن ابراہیم کر دی سے۔ یہی درس گاہ ہے جہاں ان دونوں اماموں کی ماتریدیت میں اشعریت کا اور حنفیت میں شافعیت کا اور تصوف میں فلسفے کا اور تنزیہ میں تشبیہ کا اور توحید شہودی میں توحید وجودی کا پیوند لگایا گیا ہے۔ ان حضرات کی تصانیف میں ہمارے اہل علم کو جو بعض مقامات پر فقہائے حنفیہ اور متکلمین سے شدید اختلاف نظر آتا ہے، وہ اسی کا اثر ہے۔ اس تاثر کی بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ دونوں بزرگ اگرچہ سندھ وہند میں علوم معقول ومنقول کی پوری تحصیل کر کے گئے تھے لیکن ان کی معلومات میں دو بڑے خلا تھے۔ ایک یہ کہ مشکوٰۃ سے آگے علم حدیث میں رسائی نہ تھی۔ دوسرے قدمائے حنفیہ کی تصانیف پر سرے سے نظر نہ تھی، اس لیے ان دونوں باپ بیٹوں سے جو اپنے عہد کے وسیع النظر عالم تھے، امام سندھی وہندی کا متأثر ہونا ضروری تھا۔
سفر حرمین، مجاورتِ حرم نبوی اور درسِ حدیث
علامہ سندھی نے جب تحصیل حدیث کی غرض سے حرمین شریفین کا سفر کیا تو پھر وہیں کے ہو رہے اور مراجعت وطن کا خیال ہی دل سے نکال ڈالا۔ شروع شروع میں تو دس سال تک عزلت گزینی کی وجہ سے ان کی شہرت نہ ہو سکی لیکن بعد کو جب حرمِ نبوی میں مجلسِ درس آراستہ کی تو آسمانِ علم پر خورشید درخشاں بن کر چمکے۔ ملاحیات کے الفاظ ہیں:
’’ثم سافر الی الحرمین علی نیۃ القراء ۃ فمکث فیہا نحواً من عشر سنین لم یشتہر لکثرۃ عزلتہ ثم جلس للتدریس في الحرم النبوي۔‘‘ (درج الددر)
مدینہ طیبہ میں علامہ موصوف جن کتابوں کا درس دیا کرتے تھے۔ اربابِ تذکرہ نے ان میں حسب ذیل کتابوں کا خاص طور پر ذکر کیا ہے: تفسیر میں: قاضی بیضاوی، حدیث میں: صحاح ستہ، مؤطا امام مالکؒ، مسند امام احمد بن حنبلؒ اور فقہ میں: ہدایہ۔
حسن اخلاق ورع وتقویٰ
علم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے عمل کی دولت سے بھی نوازا تھا۔ مزاج میں انکساری عمل میں نکو کاری اور کتاب وسنت کی اتباع کا جذبہ موصوف کے خصوصی اوصاف تھے۔ چناںچہ تذکرہ نگاروں نے فضل وذکا کے ساتھ ساتھ ان کی نکوکاری، صلاح وتقوی اور زہد وورع کو بھی خاص طور پر بیان کیا ہے۔ مرادی لکھتے ہیں:
اشتہر بالفضل والذکاء والصلاح… وکان عالمًا عاملاً ورعاً زاہداً۔
ملا محمد حیات کا بیان ہے:
وکان زاہداً متورعاً کثیرًا الاتباع لکتاب اللہ تعالی وسنۃ رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم ومتواضعاً۔
تلامذہ
علامہ سندھی کے تلامذہ کی تعداد شمار سے باہر ہے۔ ملا عابد سندھی لکھتے ہیں:
واخذ عنہ جماعۃ لا یحصون
’’اُن سے اتنی بڑی جماعت نے علم اخذ کیا کہ جو شمار نہیں کی جاسکتی۔‘‘
لیکن ان تمام تلامذہ میں ان کی جانشینی کا فخر جس خوش قسمت کے حصے میں آیا، وہ محدث محمد حیات سندھی مدنی ہیں۔ آزاد بلگرامی نے سبحۃ المرجان اور مآثر الکرام میں اور نواب صدیق حسن خان نے اتحاف النبلاء المتقین میں ان کا مبسوط تذکرہ کیا ہے۔ قانع کی زبانی یہ آپ پہلے سن چکے ہیں کہ ملاحیات کے بعد ان کی مسند درس کو جس بزرگ نے سنبھالا، وہ ملا موصوف کے شاگردِ رشید شیخ ابوالحسن صغیر محدث سندھی ثم المدنی ہیں۔ اس طرح حرمِ نبوی میں درسِ حدیث کا جو سلسلہ ہمارے علامہ ابوالحسن کبیر نے جاری کیا تھا، وہ ان کے شاگرد تک برابر قائم رہا اور ایک عالم اس سے فیض یاب ہوا۔
علما کا ان کی خدمت میں خراج تحسین
علامہ مرادی کے سلک الدرر (جلد ۴، صفحہ ۶۶) میں ان کے بارے میں یہ الفاظ ہیں:
’’محمد السندي، ابن عبد الہادي السندي الاصل والمولد الحنفي نزیل المدینۃ المنورۃ الشیخ الامام العامل العلامۃ المحقق المدقق التحریر الفہامۃ أبوالحسن نور الدین۔۔۔۔۔۔۔ درس بالحرم الشریف النبوي ۔۔۔۔۔ وکان شیخاً جلیلاً ماہراً محققا بالحدیث والتفسیر والفقہ والأصول والمعاني العربیۃ وغیرہا۔‘‘
نزہتہ الخواطر میں ان کا تذکرہ تمام تر سلک الدرر ہی سے منقول ہے۔ (ملاحظہ ہو جلد ۶، صفحہ ۵ و۶)
جبرتی لکھتے ہیں:
”العلامۃ ذو الفنون أبوالحسن بن عبد الہادي الأثري شارع المسند والکتب الستۃ وشارح الہدایۃ۔‘‘ (عجائب الآثار، جلد ۱۰، صفحہ ۱۷۶-۱۷۷، برحاشیہ تاریخ کامل لابن اثیر، طبع مصر)
اور شیخ محسن تیمی الیانع الجنی میں رقم طراز ہیں:
’’وابو الحسن الکبیر ۔۔۔۔۔ کان عالماً جلیلاً فقیہاً اصولیاً محدثا من أصحاب الوجوہ في المذہب‘‘ (صفحہ ۳۳، طبع دیوبند، برحاشیہ کشف الاستار عن رجال المعانی الآثار)(۶)
علامہ محمد عابد سندھی فرماتے ہیں:
’’کان عالما ضابطاً متقنا حری جمیع العلوم وخاض في منطبقہا والمفہوم واختص بعلم الحدیث وبلغ فیہ الغایۃ‘‘ (بدیع الدرر)
شیخ محمد حیات کے الفاظ ہیں:
’’کان شیخاً جلیلاً ماہراً محققا في النحو والمعاني والمنطق والأصول والتفسیر والحدیث ولہ تحقیق في الفقہ۔‘‘ (درج الدرر)
صاحب فہرس الفہارس شیخ عبد الحی کتانی نے ان کا تذکرہ ان لفظوں میں شروع کیا ہے:
’’ہو محدث المدینۃ المنورۃ واحد من خدم السنۃ من المتأخرین خدمۃ یستہال بہا۔‘‘ (ص ۱۰۲، ج ۱)
منزلت علمی
ان علمائے اسلام کی تصریحات بالا سے معلوم ہوا کہ علامہ سندھی کو تفسیر، حدیث، فقہ، اصول، نحو، عربیت، معانی، منطق تمام علوم میں تبحر کا درجہ حاصل تھا اور وہ ان سب فنون میں محققانہ امتیاز رکھتے تھے۔ خاص طور پر فقہ وحدیث میں ان کا درجہ بہت اونچا تھا۔ علامہ سندھی کی متعدد تصانیف اب چھپ کر منظر عام پر آگئی ہیں، جن سے ان کی جلالتِ علمی کا آج بھی اہل علم کو اندازہ ہو سکتا ہے۔
صحاحِ ستہ پر حافظ سیوطی نے بھی تعلیقات لکھی ہیں اور علامہ سندھی نے بھی سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ پر۔ ان دونوں حضرات کے حواشی طبع ہو چکے ہیں(۷)۔ ان دونوں کا موازنہ کر لیا جائے۔ اس میں شک نہیں کہ سیوطی کے یہاں غرر نقول موجود ہیں اور علامہ سندھی نے خود ان کی شروح سے کافی فائدہ اٹھایا ہے لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جہاں نقل سے نہیں بلکہ عقل سے کام پڑتا ہے اور فہم مراد اور توضیح مطلب کی باری آتی ہے وہاں کس کا پلّہ بھاری ہے؟ یہ مختصر مقالہ بیان امثلہ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اتنا سمجھ لینا چاہیے کہ سیوطی اگر وسعت نظر میں بڑھے ہوئے ہیں تو علامہ دقت نظر میں فائق ہیں۔ جہاں دوسرے شارحین توجیہ حدیث سے عاجز ہوتے ہیں، وہاں علامہ بہترین توجیہ پیش کر دیتے ہیں۔ سیوطی کو سات علوم میں اجتہاد کا دعویٰ تھا۔ من جملہ ان کے نحو وعربیت بھی ہیں۔ لیکن نسائی کے دونوں حاشیے اس بات کے شاہد ہیں کہ متعدد مقامات پر علامہ سیوطی نے تحلیل صرفی یا ترکیب نحوی یا موجودہ معانی کے لحاظ سے کسی ایک خاص توجیہ کی صحت سے انکار کیا۔ اور ہمارے علامہ نے اسی خاص توجیہ کو صَرف یا نحو یا علم معانی کی روشنی میں مدلل کر دیا ہے۔
سنن نسانی کے تراجم ابواب پر جس طرح علامہ سندھی نے کلام کیا ہے، کسی نے نہیں کیا۔ اسی طرح سنن ابن ماجہ کے زوائد پر حافظ بوصیری کی تحقیقات کو نقل کر کے سیوطی کے مقابلے میں انھوں نے اپنی شرح کو آسمان پر پہنچا دیا ہے۔
علم حدیث پر علامہ سندھی نے خاص توجہ کی ہے اور اس فن میں انھوں نے بڑی شان دار خدمات انجام دی ہیں۔ برصغیر پاک وہند میں یہی ایک بزرگ ہیں، جن کو صحاح ستہ کی تمام کتابوں پر شرح لکھنے کا فخر حاصل ہے۔ ان کی جلالت قدر کا اعتراف عرب وعجم کے علما کو ہے۔ شیخ اسماعیل بن محمد سعید نے جب اپنے مشہور شاگرد دمنتی کو علم حدیث کی سند دی تو علامہ سندھی کے متعلق یہاں تک لکھ دیا:
’’وکان احد الحفاظ المحققین والجہابذۃ المدققین لہ۔‘‘(۸)
علامہ ممدوح کے محقق ومدقق اور جہبذ ہونے میں تو ہمیں کلام نہیں، البتہ ان کو حافظ حدیث کہنا مبالغے سے خالی نہیں۔ حافظ کی جو تعریف کتب اصول حدیث میں بیان کی گئی ہے، وہ ان پر صادق نہیں آتی۔ کیوں کہ ان پر روایت سے زیادہ درایت کا غلبہ ہے۔ ہمارے نزدیک علم حدیث میں ان کا وہی درجہ ہے، جو علامہ طیبی شارحِ مشکوٰۃ کا۔ حافظ سیوطی نے علامہ طیبی کے متعلق یہ رائے ظاہر کی ہے:
ولہ المام بالحدیث لکنہ لم یبلغ فیہ درجۃ الحفاظ ومنتہیٰ نظرہ الکتب الستۃ ومسند احمد والدارمي لا یخرج من غیرہا۔(۹)
ان کو علم حدیث پر توجہ رہی ہے لیکن یہ اس فن میں حفاظ حدیث کے درجے پر نہ پہنچ سکے۔ ان کا منتہائے نظر صحاح ستہ، مسند احمد اور دارمی ہیں۔ ان کے علاوہ اور کتابوں سے یہ تخریج حدیث نہیں کرتے۔
علامہ طیبی کی طرح علامہ سندھی کا منتہائے نظر بھی صحاح ستہ اور مسند احمد پر جا کر ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیے حافظ حدیث کے بجائے ان کو محدث فقیہ کہنا زیبا ہے۔ کتب مذکورہ کے متون احادیث پر ان کی بڑی گہری نظر ہے۔ وہ شرح حدیث کے امام ہیں اور خوب سے خوب توجیہ اور عمدہ سے عمدہ نکتے بیان کرتے ہیں۔ فقہ میں بھی علامہ کے شاگرد ملاحیات نے ان کے بارے میں تصریح کی ہے کہ ’’ولہ تحقیق في الفقہ ‘‘۔ یہ ایک تقویت کا بیان ہے کہ بعض مسائلِ فقہ میں ان کی تحقیق حنفی مذہب سے الگ ہے، مگر صاحب الیانع الجنی نے تو اس سے بھی آگے بڑھ کر یہاں تک دعویٰ کر دیا ہے کہ ’’من أصحاب الوجوہ في المذہب‘‘۔ معلوم نہیں صاحب الیانع الجنی ’’اصحاب الوجوہ‘‘ کی اصطلاح سے واقف بھی تھے یا نہیں۔ ’’أصحاب الوجوہ‘‘ کا درجہ ’’مجتہد فی المذہب‘‘ سے بالا اور مجتہد مطلق منتسب کے بعد ہے۔ یہ وہ درجہ ہے جو طحاوی، کرخی، حارثی اور جرجانی کا تھا۔ علامہ سندھی کو ان ائمہ سے وہی نسبت ہے جو ستارے کو آفتاب سے۔ یہ تحقیق ووجوہ جنھیں اتنی اہمیت دی جارہی ہے، وہی ہیں جن کی داغ بیل ملا کورانی کی درس گاہ میں پڑی تھی۔ یہاں علمائے شوافع کی تو بہترین کتابیں مطالعے کے لیے موجود تھیں، مگر احناف کی ترجمانی کے لیے فتح القدیر سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ ظاہر ہے کہ امام شافعی کی کتاب الام اور بغوی کی شرح السنہ کا مقابلہ، جب کہ صحاح ستہ کی تبویب بھی سامنے ہو، تنہا فتح القدیر سے نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے اثنائے درس جن تحقیقات نے دل میں گھر کر لیا تھا، وہ آخر تک اپنا رنگ دکھاتی رہیں۔ تاہم علامہ سندھی اپنے کو حنفی ہی کہتے اور سمجھتے ہیں۔
علامہ سندھی اور شاہ ولی اللہ یہ دونوں بزرگ حنفی مذہب کے مسائل صحاح ستہ اور مسند احمد کی روایات پر پیش کیا کرتے ہیں۔ اگر موافقت ہو تو فبہا، ورنہ در صورتِ اختلاف ان روایات کو ترجیح دیتے ہیں، جن پر اربابِ صحاح نے تو تبویب کی ہے۔ اس تحقیق میں ایک تو کمی یہ ہے کہ بعض اوقات ایک روایت ان ہی کتابوں میں موجود ہوتی ہے مگر وہ اس لیے نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے کہ اپنے مظان پر مذکور نہیں ہوتی جیسے رؤیت ہلال کا یہ مسئلہ کہ جب مطلع صاف ہو تو اتنے جم غفیر کی شہادت درکار ہے کہ جس پر اطمینان کیا جا سکے۔ یہ مسئلہ جس حدیث سے لیا گیا ہے وہ نہ کتاب الصوم میں ملے گی نہ عیدین میں بلکہ کتابُ الصلوۃ، باب سجود السہو میں ملے گی، جس میں یہ مذکور ہے :
’’ایک بار آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز میں دو رکعت پر سلام پھیر دیا اور اٹھ کر جانے لگے۔ اس پر ذوالیدین نامی ایک صحابی نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ! کیا نماز کم ہوگئی یا آپ بھول گئے؟ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات کا یقین نہ کرتے ہوئے دوسرے صحابہ سے دریافت کیا۔ ظاہر ہے کہ جس واقعے سے سب کو سابقہ پڑا ہو، وہاں تنہا ایک شخص کا بیان کس طرح کافی ہو سکتا تھا؟ اور جب دیگر صحابہ نے بھی اس امر کی شہادت دی تو آپ نے بقیہ نماز ادا کر کے سجدہ سہو ادا فرمایا۔‘‘
اس روایت سے فقہائے حنفیہ نے یہ مسئلہ نکالاکہ جس مسئلے میں ابتلائے عام ہو، وہاں خبر آحاد قابل قبول نہیں بل کہ اتنی وقیع شہادت درکار ہے، جو قابل اطمینان ہو۔ اسی بنا پر مسئلہ رؤیت ہلال میں فقیہ ایوب بھی نے تصریح کی ہے کہ ہمارے زمانے میں پانچ سو بھی بلخ میں کم ہیں۔ ظاہر ہے کہ جہاں لاکھوں نظریں آسمان پر جمی ہوں، وہاں معدودے چند افراد کی شہادت کیسے قبول کی جا سکتی ہے؟ تاہم بعض فقہا کی نظر اس روایت پر نہ گئی اور انھوں نے اس موقع پر بھی دو آدمیوں کی شہادت کو کافی سمجھ لیا۔
دوسری خرابی یہ ہے کہ حدیث کا ذخیرہ کتابوں ہی میں محدود نہیں۔ بعض وقت یا تو سرے سے ایک مسئلے کی روایت ان میں موجود ہی نہیں ہوتی یا ہوتی بھی ہے تو وہ قابل ترجیح سند سے نہیں ہوتی۔ ایسی صورت میں جس کی نظر میں جو روایت ہوئی، وہ اسی کو ترجیح دے گا۔ علامہ مخدوم محمد ہاشم سندھی اور علامہ ابوالحسن سندھی کی تحقیقات میں تو بنیادی فرق یہی ہے۔ مخدوم صاحب جب کسی مسئلے کی تحقیق کرنے بیٹھتے ہیں تو اپنی تحقیقات کا دائرہ مسند احمد اور صحاح ستہ تک محدود نہیں رکھتے بلکہ جیسا کہ ان کے نام ور صاحب زادے مولانا عبداللطیف نے ذب ذبابات الدراسات، (صفحہ ۱۵، جلد۱) میں تصریح کی ہے، وہ حدیث کی سوڈیڑھ سو کتابوں کا ایک ساتھ جائزہ لے ڈالتے ہیں اور جب تک پوری طرح اطمینان نہیں کر لیتے اپنی رائے ظاہر نہیں کرتے۔ خدا تعالیٰ نے ان کو حدیث وفقہ کی بیش بہا کتابوں کا ذخیرہ بھی ایسا عنایت کیا تھا کہ شاید وباید (۱۰) یہی وجہ ہے کہ اس دیار میں مخدوم صاحب کے مقابلے میں اور کسی عالم کا چراغ روشن نہ ہو سکا۔
تاہم اجتہادی مسائل میں طرفین سے مجال سخن تنگ نہیں، غلط فہمی نہ ہو مسائلِ فروعیہ کی الگ بات ہے۔ جہاں تک شرح حدیث اور توجیہ معانی کا تعلق ہے، نہ علامہ ابو الحسن سندھی کی نظیر علمائے سندھ میں ہے نہ شاہ ولی اللہ کی مثال علمائے ہند میں۔ دقیقہ سنجی اور نکتہ آفرینی ان دونوں بزرگوں پر ختم ہے۔
تصانیف
۱ تا ۶ حواشی علی الصحاح الستۃ۔ یہ حدیث کی مشہور چھ کتابوں پر ان کے الگ الگ چھ حاشیے ہیں۔ البتہ جامع ترمذی پر ان کا حاشیہ مکمل نہ ہو سکا۔ سنن ابن ماجہ کا حاشیہ سب سے زیادہ مبسوط ہے۔ باقی حواشی مختصر ہیں۔ ان حواشی میں مصنف کا مطمح نظر زیادہ تر کتاب کا حل اور مشکل مقامات کی توضیح ہے۔ ضبط لفظ، ایضاحِ غریب، تفصیل اعراب وغیرہ سے زیادہ اعتنا کیا ہے۔ جو کچھ لکھتے ہیں، کام کی بات لکھتے ہیں۔ صحیح بخاری اور سنن ابن ماجہ کے حواشی مصر میں مکرر طبع ہو چکے ہیں۔ سنن نسائی کا حاشیہ ہندستان اور مصر دونوں جگہ سے شائع ہو چکا ہے۔ صحیح مسلم کا حاشیہ جو نہایت مختصر ہے، ملتان سے شائع ہوا ہے۔ سنن ابی داؤد کا حاشیہ جس کا نام فتح الودود ہے، اگرچہ علاحدہ طبع نہیں ہوا، لیکن سنن ابی داؤد کی تمام شروح وحواشی میں موقع بہ موقع منقول ہے۔ اس کا قلمی نسخہ بھی کتب خانہ پیر جھنڈو میں موجود ہے۔
۷۔ حاشیہ علی مسند الامام احمد۔ اس کا ربع اوّل صاحب فہرس الفہارس کے پاس موجود ہے، جس کا تعارف انھوں نے ان لفظوں میں کروایا ہے:
’’لا یستغني عنہا مطالعہ او قارئہ۔‘‘(جس کو مسند کا مطالعہ کرنا یا پڑھنا ہو، وہ اس سے مستغنی نہیں ہو سکتا۔)
صاحب سلک الدرر لکھتے ہیں:’’ولہ حاشیۃ نفیسۃ علی مسند الامام احمد۔‘‘
علامہ محمد حیات فرماتے ہیں:’’وکتب علیہ حاشیۃ جلیلۃ لم یسبق الیہا۔‘‘
۸۔ حاشیہ علی تفسیر البیضاوی۔ ملاحیات اس کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’وکتب علیہا حاشیۃ لطیفۃ۔‘‘
۹۔ حاشیہ علی فتح القدیر شرح الہدایہ۔ یہ کتاب النکاح تک تو فتح القدیر کا حاشیہ ہے اور پھر اس کے متن ہدایہ کا۔ ملاحیات اس کو ’’حاشیۃ ذات تحقیق‘‘ بتاتے ہیں۔ اس حاشیے کا نام البدر المنیر ہے۔ اس کا قلمی نسخہ مدینہ منورہ کے کتب خانہ محمودیہ اور پشاور کے اسلامیہ کالج کے کتب خانے میں موجود ہے۔
۱۰۔ حاشیہ کتاب الاذکار، امام نووی
۱۱۔ حاشیہ علی الزہراوین، ملا علی قاری
۱۲۔ تفسیر لطیف
۱۳۔ حاشیہ علی الجلالین
۱۴۔ حاشیہ علی شرح جمع الجوامع، لابن قاسم۔ اس کا نام الآیات البینات ہے۔
۱۵۔ الفیوضات النبویۃ في حل المغازی البرکویہ۔ اس کا نسخہ بنگال ایشیاٹک کے سوسائی میں موجود ہے۔
۱۶۔ حاشیہ علی شرح النخبۃ۔ اس کا ذکر صاحب فہرس الفہارس نے کیا ہے۔
ان کی تمام تصنیفات نہایت نافع ومفید تھیں۔ حق تعالیٰ نے قبول عام بھی ان کے متعلق شایان شان نصیب فرمایا۔ مرادی لکھتے ہیں:(’’ألف مؤلفات نافعۃ….. التی سارت بہا الرکبان۔‘‘اور صاحب الیانع الجنی کی تصریح ہے:’’لہ مؤلفات نافعۃ جدّاً۔‘‘)
وفات
سنہ وفات میں عجیب اختلاف ہے۔ ملا عابد سندھی نے ۱۱۴۱ھ لکھا ہے (درج الدرر)۔ ملاحیات ۱۱۳۹ھ بتاتے ہیں (درج الدرر)۔ مرادی نے حالیہ بیان کیا ہے اور جبرتی نے ۱۱۳۶ھ۔ فہرس الفہارس اور الیانع الجنی میں ۱۱۳۹ھ مرقوم ہے۔ جنازے میں بڑا ہجوم تھا، عورتیں تک شریک ہوئیں۔ بازار میں دکانیں بند رہیں۔ عمال حکومت ان کا جنازہ کاندھوں پر لیے ہوئے پہلے حرم نبوی میں حاضر ہوئے اور وہیں نماز جنازہ ادا کی گئی، پھر بقیع میں تدفین عمل میں آئی۔ لوگوں کو ان کی وفات کا سخت صدمہ تھا۔ ایک خلقت ان کے غم میں رو رہی تھی۔غفر اللہ لہ وسجد الرحمۃ واسعۃ. ورحمۃ
حواشی
۱۔ یہ حافظ ذہبی کا ایک مختصر سا رسالہ ہے جس میں انھوں نے ان شہروں کا حال لکھا ہے، جو ایک زمانے میں حدیث وروایت کا مرکز رہ چکے ہیں۔ یہ رسالہ اب نہیں ملتا۔ محدث سخاوی نے ’’الاعلان بالتوبیح لمن ذم التاریخ‘‘ (صفحہ ۱۳۶، طبع دمشق ۱۳۴۹ھ) میں اس کو بہ تمام وکمال نقل کر دیا ہے اور جابجا ان شہروں کے متعلق اپنی معلومات کا بھی اضافہ کیا ہے، جو ذہبی کی عبارت کے بعد ’’قلت‘‘ کہہ کر شروع ہوتا ہے۔ (یہ قیمتی رسالہ قاسم علی سید کی تحقیق کے ساتھ دار البشائر الاسلامیۃ، بیروت سے ۱۹۸۶ میں شائع ہو چکا ہے۔ اجمل فاروق)
۲۔ اہلِ دمشق و اہل مصر۔
۳۔ درج الدرر في نقض وجوہ وضع الایدی تحت السور، از ابوتراب رشد اللہ۔
۴۔ ملاحظہ ہو درج الدرر۔ واضح رہے کہ درج الدرر میں علامہ ابوالحسن کا جتنا تذکرہ ہے وہ بہ تمام وکمال صحیح مسلم کا جو حاشیہ علامہ موصوف کا ملتان میں شائع ہوا ہے اس کے آخر میں صفحہ ۹۰؍ پر مولوی عبد الوہاب ملتانی نے نقل کر دیا ہے۔
۵۔ یہ فلاسفہ حق سے بہرہ ور ہونے کے قریب تھے مگر راہ نہ پاسکے۔
۶۔ سلک الدر، عجائب الآثار اور الیانع الجنی سے علامہ ممدوح کا تذکرہ راقم حروف نے اپنی عربی تالیف ما تمس الید الحاجۃ لمن یطالع سنن ابن ماجہ میں نقل کر دیا ہے۔
۷۔ سنن نسائی پر تو ان دونوں حضرات کے حاشیے ہندوستان و مصر میں کتاب کے ساتھ ہی طبع ہوئے ہیں۔ مگر سنن ابن ماجہ پر علامہ سندھی کا حاشیہ تو متن کے ساتھ مصر میں طبع ہو چکا ہے، لیکن حافظ سیوطی کا حاشیہ کتاب کے ساتھ طبع نہیں ہوا بل کہ اس کا اختصار جو شیخ دمنتی نے کیا ہے، وہ مصر میں بغیر متن کتاب کے الگ شائع ہوا ہے۔ یہ اختصار کہنے کو اختصار ہے، ورنہ اصل کتاب کی پوری پوری نقل ہے۔ صرف کتب حدیث کے حوالوں میں نام ذکر کرنے کے بجائے اُن کے رموز دے دیے ہیں۔
۸۔ فہرس الفہارس، جلد ا، صفحہ ۱۰۳۔
۹۔ شرح مواہب لدنیہ، از علامہ زرقانی، جلد۵، صفحہ ۷۷، طبع مصر۔
۱۰۔ ان کے قیمتی کتب خانے کی یادگاریں آج بھی آپ کو سندھ وہند کے کتب خانوں میں بکھری ہوئی ملیں گی۔

