دارالمعارف الاسلامیہ، الٰہ آباد کی لائبریری

شاہ اجمل فاروق ندوی

دارالمعارف، الہ آباد ایک درمیانی سطح کا دینی ادارہ ہے، لیکن شریعت و طریقت کی یک جائی نے اِسے ایک منفرد مقامی عطا کردیا ہے۔ اپریل ۲۰۲۵م میں ادارے کے سرپرست اور مرکز و محور شیخ طریقت مولانا شاہ محمد قمر الزماں الٰہ آبادی کی خدمتِ مبارکہ میں حاضری ہوئی تو پہلی مرتبہ ادارے کی لائبریری دیکھنے کا موقع ملا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوئی کہ شیخ طریقت کو کتابوں سے بڑا تعلق ہے۔ اس تعلق کا ایک مظہر وہ کتابیں اور تراجم بھی ہیں جو انھوںنے خود تصنیف فرما کر دنیائے علم کو عطا کیں یا دوسروں سے لکھوا کر اپنے ہاں سے شائع کرائی ہیں۔ شاید ہی ان کی کوئی مجلس کسی کتاب یا صاحبِ علم کے تذکرے سے خالی ہوتی ہو۔ عمر کی نو دہائیاں عبور کرنے کے باوجود وہ کسی کے ہاتھ میں کوئی کتاب دیکھ کر بے چین ہوجاتے ہیں۔ اپنے دستِ مبارک میں لے کر دیکھتے ہیں اور سامنے والے سے بھی اس کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں۔ خود بھی تصنیف و تالیف کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں اور اہلِ علم کی ایک ٹیم کو بھی ترجمہ و تالیف کے کاموں میں لگائے ہوئے ہیں۔
زندگی کے جس مرحلے میں لوگ بستر پکڑ لیتے ہیں، اس مرحلے میں بھی شیخ طریقت مولانا شاہ محمد قمر الزماں الٰہ آبادی کا معمول یہ ہے کہ اپنے ذاتی و روحانی معمولات کے ساتھ روزانہ عشا بعد کچھ دیر مدرسے کی لائبریری میں ضرور تشریف فرما ہوتے ہیں۔ کتابوں کی کشش اکثر ’کچھ دیر‘ کو ’کافی دیر‘ میں تبدیل کردیتی ہے۔ کچھ کتابوں کو نکلوا کر دیکھتے ہیں۔ ان پر گفتگو فرماتے ہیں۔ کسی کتاب پر اپنا لکھا ہوا کوئی حاشیہ وغیرہ مل جاتا ہے تو ساٹھ ستر سال پہلے کی یادوں میں کھو جاتے ہیں۔ جو لوگ جمع ہوتے ہیں ان کو بھی دنیائے علم کی سیر کراتے ہیں۔ اس درمیان کتابوں کو ہاتھ میں لے کر دیکھتے ہوئے ان کی آنکھوں کی چمک اور چہرے کی بشاشت دیدنی ہوتی ہے۔ کتاب کی باتوں اور یادوں میں کافی دیر گزرجاتی ہے تو اہلِ خانہ یا خدام مجلس ختم کرنے کی گزارش کرتے ہیں۔ اس پر بھی اکثر یہی ہوتا ہے کہ حضرتِ والا ’کچھ دیر اور‘ کا فرمان جاری کرکے بارش علم میں نہانے اور نہلانے کا مزید وقت نکال لیتے ہیں۔ میرا احساس ہے کہ دنیائے طریقت سے وابستہ موجودہ بڑی شخصیات میں علمی ذوق کی ایسی کوئی دوسری مثال مشکل ہی سے مل سکے گا:
آفاقہا گردیدہ ام مہر بتاں ورزیدہ ام
بسیار خوباں دیدہ ام لیکن تو چیزے دیگری
اس سے پہلے کہ مکتبہ دارالمعارف کی ایک جھلک دکھلائی جائے، اس مکتبے کے متعلق کچھ ایسی باتیں بیان کرنا ضروری ہیں ، جو شیخِ طریقت مولانا شاہ محمد قمرالزماں الٰہ آبادی نے میرے استفسار پر یا کسی اور وجہ سے بیان فرمائیں۔
خدا جھوٹ نہ بلوائے اس لائبریری کو دیکھتے ہی میرے ذہن میں یہ وسوسہ آیا تھا کہ اس مکتبے کا نام مکتبہ الشیخ قمرالزماں کیوں ہے؟ یہاں تو سب سے بڑی شخصیت مصلح الامت مولانا شاہ وصی اللہ فتح پوری کی رہی ہے۔ ان کے نام پر یہ مکتبہ ہونا چاہیے تھا۔ اپنے اس وسوسے پر تنبہ ہوا اور میں نے اس وسوسے کو ختم کرنے کا علاج یہی سوچا کہ اس اشکال کو شیخ طریقت کے سامنے ہی رکھ دینا چاہیے۔ مغرب بعد حاضر ہوا اور دریافت کرلیا۔ ایک تو یہ وسوسہ آنا ہی غلط تھا، اوپر سے اگرمیں یہ پوچھنے کی غلطی کربیٹھتا کہ اس مکتبے کا نام آپ کے نام پر کیوں ہے؟ تو یہ بڑی بے وقوفی ہوتی۔ اس لیے میں نے یہ دریافت کیا کہ ’’حضرت! کیا اس مکتبے میں اکثر کتابیں حضرت شاہ وصی اللہ صاحب کی ہیں؟‘‘ حضرتِ والا نے فوراً فرمایا:’’نہیں، ان کتابوں کا حضرت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ سب میری ذاتی کتابیں ہیں جو میں نے وقف کردی ہیں۔ پھر ہدیہ بھی آتی رہیں اور خریدی بھی گئیں۔‘‘ اس جواب سے میری وسوسے دانی کا سر بھی کچل گیا اور اس قیمتی لائبریری کے وجود میں آنے کی تاریخ بھی معلوم ہوگئی۔ یہ حضرت کی ذاتی لائبریری ہے۔ اس میں قدیم و جدید سب کتابیں ہیں۔ انھیں حضرت نے مدرسے کے لیے وقف کردیا۔ لہٰذا اس لائبریری کو انھیں کے نام پر ہونا چاہیے تھا۔
ایک دن عشاء بعد بڑی بشاشت کے ساتھ فرمایا: ’’روزانہ رات میں کتابوں کے درمیان آکر بیٹھ جاتا ہوں تو ایمان تازہ ہوجاتا ہے۔‘‘
ایک دن فرمانے لگے:’’ان کتابوں کو الحمدللہ بڑے بڑے علماء نے بھی دیکھا ہے۔ حضرت مولانا رابع حسنی صاحب اور مولانا واضح رشید صاحب بھی یہاں تشریف لائے تھے، تو مولانا رابع صاحب نے فرمایا تھا کہ علمی ضرورت پوری کرنے کے لیے یہ کتب خانہ کافی ہے۔‘‘
ایک مجلس میں فرمایا:’’جب یہ مکتبہ بنا تو بات چل رہی تھی کہ اس کا کیا نظام رکھا جائے۔ایک مسلمان نے کہا کہ اس میں تالا لگا رہنا چاہیے، ورنہ کتابیں چوری ہوجائیں گی۔ لیکن وہیں ایک ہندو بھی کھڑا تھا جو غالباً کتابوں کے کام سے وابستہ تھا، اس نے کہا کہ نہیں یہاں ہرگز تالا نہ لگائیے گا، بلکہ سب لوگوں کو پڑھنے کی عام اجازت دیجیے گا۔ سال میں ایک دو کتابیں چوری ہوسکتی ہیں، لیکن تالا لگانے سے نہ جانے کتنے لوگ محروم ہوجائیں گے۔‘‘
ایک مجلس میں ارشاد فرمایا: ’’ہمارے حضرت کو کتابوں کے مطالعے کا بہت ذوق تھا۔ ڈاکٹر کے منع کرنے کے باوجود رات میں بار بار اٹھتے تھے اور مطالعہ کرتے تھے۔ اپنے ذاتی کتب خانے کا ذمے دار مجھے ہی بنا رکھا تھا۔ وہاں کی کتابوں پر میں نے ہی کاغذ چڑھایا۔ دھوپ بھی میں ہی دکھاتا تھا۔ دورانِ گفتگو مجھے معلوم ہوتا تھا کہ حضرت کو کب کون سی کتاب چاہیے۔ جب حضرت ممبئی میں تھے اور میں یہاں تھا تو کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ انھوں نے کسی کتاب کے بارے میں معلوم کیا۔ جب کوئی نہ بتا سکا تو فرمایا کہ قمر الزمان ہوتے تو بتادیتے۔‘‘
ایک بہت نصیحت آموز واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’ایک مرتبہ حضرت کے یہاں مولانا فخر صاحب کے ہاں سے کتابیں آرہی تھیں تو حضرت نے مجھ سے فرمایا تھا کہ جانتے ہو وہاں سے کتابیں کیوں آرہی ہیں؟ کیوںکہ وہاں کوئی پڑھنے والا نہیں رہا۔ یہاں پڑھنے والے نہ رہیں گے تو یہاں سے بھی کتابیں چلی جائیں گی۔ اس لیے پڑھنے والے پیدا کرو۔‘‘
شیخِ طریقت مولانا شاہ محمد قمر الزماں الٰہ آبادی کے اسمِ گرامی سے منسوب دارالمعارف الاسلامیہ، الٰہ آباد کی یہ لائبریری دو کشادہ کمروں پر محیط ہے۔ باہری کمرے میں دیواروں کے سہارے الماریاں کھڑی ہیں۔ اور درمیانی حصے میں زمین پر بیٹھ کر پڑھنے کا اچھا نظم ہے۔ اندرونی کمرہ زیادہ بڑا ہے۔ اس میں چاروں طرف بھی اونچی الماریاں کھڑی ہیں اور درمیان میں بھی الماریوں کی دو صفیں کھڑی ہیں۔ مجھے اس لائبریری کو اچھی طرح دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس لائبریری کو بہت بڑی لائبریری نہیں کہا جاسکتا اور ملک کے بڑے اداروں کی لائبریریوں کی صف میں نہیں رکھا جاسکتا۔ اس کے باوجود یہ لائبریری ایک حیثیت سے منفرد مقام کی حامل ہے۔ وہ یہ کہ تصوف کے بنیادی مصادر اور اہم کتابوں کے قدیم نسخوں کا جتنا بڑا ذخیرہ یہاں ہے، اتنا شاید ہی کہیں اور یکجا مل سکے۔ بہت ساری کتابیں ایسی بھی ہیں جو ملک کی دوسری بڑی لائبریریوں میں بھی موجود نہیں ہوں گی۔ اس لحاظ سے تصوف کی اہم کتابوں اور کتابوں کے قدیم نسخوں کا ذوق رکھنے والے اہلِ علم کو ایک بار اس خزانے کی زیارت ضرور کرنی چاہیے۔ ان کتابوں کی قیمت اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ اکثر کتابوں کے ابتدائی صفحات یا اندرونی صفحات پر شیخِ طریقت کے حواشی یا اشارے بھی موجود ہیں۔ اس سے کتابوں کے مغز تک رسائی میں بہت سہولت ہوجاتی ہے۔ تفصیل کا موقع تو نہیں لیکن جن کتابوں نے مجھے اپنی طرف زیادہ متوجہ کیا ، ان کی فہرست نیچے درج ہے:
(۱) سیرت النبی (شبلی و سلیمان) کی اولین طباعت
(۲) بذل المجہود فی حل ابی داؤد کی قدیم طباعت
(۳) حصنِ حصین محشیٰ، ۱۳۳۲ھ، میں مطبع یوسفی لکھنؤ سے طبع شدہ
(۴) ترجمہ تاریخ ابنِ خلدون، ۱۹۲۷ء میں یونانی دواخانہ پریس الٰہ آباد سے طبع شدہ
(۵) التنبیۃ الطرفی فی تنزیہ ابن العربی، مولانا اشرف علی تھانوی، ۱۳۴۶ھ میں اشرف المطابع ، تھانہ بھون سے طبع شدہ
(۶) جبرالکسر فی نظم أسماء اہل بدر، شیخ مصطفی رشدی دمشقی، ۱۳۴۱ھ میں مطبع مصطفی البابی، مصر سے طبع شدہ
(۷) فتح الملک المجید المؤلف لنفع العبید، شیخ احمد دیریبی کبیر، حاشیے پر شیخ عبداللہ محمد سنوسی کی کتاب المجربات، ۱۳۴۳ھ میں مطبع مصطفی البابی، مصر سے طبع شدہ
(۸) تکمیل الیقین مع تعلیم الدین، مولانا اشرف علی تھانوی، ۱۳۲۱ھ میں بلالی دخانی پریس، انبالہ سے طبع شدہ
(۹) لطائفِ رشیدیہ، بلالی پریس، انبالہ سے ۱۳۱۸ھ میں طبع شدہ
(۱۰) مقالات الشیخ رشید رضا السیاسیۃ، دار ابن عربی
(۱۱) ہدایۃ الطالبین، شاہ ابوسعید دہلوی مجددی، ۱۳۴۴ھ میں روز بازار پریس، امرتسر سے طبع شدہ
(۱۲) کنوز ریاض الصالحین، شیخ حمد بن ناصر العمار (۲۲ جلدیں)، دارکنوز اشبیلیہ
(۱۳) مسند ابوداؤد طیالسی مترجم، ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیۃ کراچی سے طبع شدہ
(۱۴) ذخیرۃ العقبیٰ فی شرح المجتبیٰ، شیخ محمد بن علی الاثیوبی (۴۲؍ جلدیں)
(۱۵) البحر المحیط التجاج، شیخ محمد بن علی الاثیوبی (۴۵؍ جلدیں)
یہ وہ چند کتابیں ہیں جو اپنی دلچسپی کے لحاظ سے مجھے زیادہ پرکشش محسوس ہوئیں۔ میرے سفر کا مقصد لائبریری سے استفادہ نہیں تھا۔ اس لیے خاصا وقت دینے کے باوجود بھی تشنگی رہ گئی۔ یہ ذخیرئہ علمی اس بات کا متقاضی ہے کہ کچھ دن اس کے لیے وقف کرکے پڑھا جائے۔ تصوف کا ذوق رکھنے والوں کے لیے یہ علمی خزانہ بے نظیر ہے۔

اس کیو آر کوڈ کو اسکین کرکے ادارے کا تعاون فرمائیں یا پرچہ جاری کرانے کے لیے زرِ خریداری ٹرانسفر کریں۔ رقم بھیجنے کے بعد اسکرین شاٹ ضرور ارسال کریں تاکہ آپ کو رسید بھیجی جاسکے۔ شکریہ