حضرت مولانا احمد علی محدث سہارن پوریؒ کی خدمات حدیث
تیرہویں چودہویں صدی ہجری میں خدمت حدیث کا عنوان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک اس کے ساتھ کم سے کم برصغیر ہند میں بارہویں صدی ہجری کی خدمت حدیث کی تاریخ شامل نہ کی جائے، کیوں کہ اس سرزمین پر بعد کی صدیوں میں حدیث شریف کی جو بھی خدمات انجام پائیں اور جس پہلو سے بھی حدیث شریف پر توجہ کی گئی اس کی تمام کڑیاں اور تمام واسطے بارہویں صدی ہجری کے نادرۂ روزگار علماء اور محدثین کرام سے جڑے ہوئے ہیں۔ بر صغیر کے بارہویں صدی کے محد ثین کرام کو نظر انداز کر کے ہم نہ بعد کی تاریخ سے انصاف کر سکتے ہیں، نہ اس سے پہلے کی تاریخ سے۔
بارہویں صدی ہجری میں برصغیر ہند کے دینی علمی افق پرخصوصاً خدمت حدیث کی کہکشاؤں میں ایسے کئی نجوم وماہتاب نمودار ہوئے جن کی روشنی عرب وعجم میں جگہ جگہ پہنچی اور ان سے نہ صرف اس دور میں دنیا بھر کے خادمانِ حدیث نے استفادہ کر کے اپنا دامن مراد پُر کیا، بلکہ ان کے علوم وتصانیف کی ضوفشانی سے حدیث کی دنیا میں چراغاں سا ہو گیا۔ بعد کے دور کا ہر شخص ان کا دامن گرفتہ ہے، ہر اک خادم حدیث ان کی تحریرات و علمی آثار سے استفادہ واستناد کر سکتا ہے، اور بعد کی ہر ایک علمی خدمت میں ان کی فکر و نظر کے ستارے جھلملاتے نظر آتے ہیں۔
اگرچہ بارہویں صدی ہجری میں برصغیر ہند میں خادمانِ حدیث اور اس مبارک موضوع کی تدریس وتعلیم اور شرح وتحقیق میں مشغول رہنے والے اصحاب کی فہرست خاصی طویل ہے، تاہم ان میں سے جن حضرات کو عالمی شہرت اور اعتماد نصیب ہوا، ان میں سب سے زیادہ تعداد علمائے سندھ کی ہے، مثلاً صحاح ستہ اور مسند امام احمد بن حنبل کے محشی وشارح، محدث کبیر علامہ شیخ ابوالحسن سندھی کبیر (وفات ۱۱۳۸ھ؍ ۱۷۲۶ء)، شیخ ابوالحسن سندھ کے جلیل القدر شاگرد اور قائم مقام، علامہ شیخ محمد حیات سندھی (وفات ۱۱۶۳ھ؍فروری ۱۷۵۰ء)، فقیہ زماں علامہ مخدوم ہاشم سندھی (وفات ۱۱۷۴ھ؍ ۶۱،۱۷۶۰ء)، شیخ ابوالحسن صغیر (وفات ۱۱۸۷ھ؍ دسمبر ۱۷۷۳ء)۔
اسی فہرست میں مولانا شیخ محمد امین ٹھٹوی سندھی (وفات تقریباً ۱۱۸۷ھ؍ ۱۷۷۳ء) کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے، بعد کے حضرات میں علامہ جلیل محدث کبیر شیخ محمد عابد سندھی (وفات ۱۲۵۷ھ؍ جون ۱۸۴۱ء) بھی اسی سنہری زنجیر کی ایک اہم کڑی ہیں۔
اسی زمانے میں جب سندھ کے علماء عالم اسلام کے علمی افق پر جگمگا رہے تھے، شمالی ہند کی ایک چھوٹی سی بستی سے وہ مرد جلیل نمودار وجلوہ فگن ہوا، جس کے وجود، دینی علمی خدمات، آفاقی ملّی تصورات اور فکر وخیال کے خیاباں سے عالم اسلام میں گویا ایک انقلاب آ گیا تھا، جو علم ومعرفت کی گہرائی، ظاہر وباطن کی جامعیت، بلند نگاہی و بلند نظری، فکر و تخیل کی جولانی تحریر و قلم کی رعنائی اور علوم اسلامیہ شرعیہ، قرآن مجید، تفسیر وحدیث، فقہ واصول، کلامیات ومعقول، تصوف وسلوک، شعر وادب، نظم ونثر ہر ایک فن میں، ہر ایک کمال میں گویا فرد فرید اور اپنے معاصرین واہل نظر سے بہت آگے، بلکہ فخر اقران وامثال تھا۔
یہ حضرت شاہ ولی اللہ (احمد بن عبد الرحیم بن وجیہ الدین) رہتکی ثم دہلوی کی ذات گرامی تھی، جو (۴؍ شوال سنہ ۱۱۱۴ھ؍ اگست ۱۷۶۲ء) میں تولد ہوئے اور (محرم ۱۱۷۶ھ) میں واصل بحق ہو گئے۔ کہنا چاہیے کہ بعد کے دور میں برصغیر ہند میں خدمت حدیث کے جس پہلو پر بھی کام ہوا اور جس زاویے سے بھی حدیث شریف کی خدمت کی گئی، اس میں حضرت شاہ ولی اللہ کا فیضان اور ان کی ذات سے جاری سرچشمۂ علم و ایقان کا ایک بڑا حصہ ضرور شامل ہے۔ بعد کے دور میں علمائے برصغیر ہند کی جن خدمات حدیث اور علوم اسلامیہ کا تذکرہ اور ان پر فخر کیا جاتا ہے، وہ تمام حضرت شاہ صاحب اور ان کے خانوادۂ گرامی کی خدمات کا پر تو اور ان کی تربیت و تعلیم اور ہدایات و فیض آبی کا اثر ہے۔ علمائے دیوبند وسہارن پور ہوں، یا علمائے ندوہ، حضرات اہل حدیث ہوں یا دوسرے مکاتب فکر سے وابستہ اصحاب، ہر ایک نے اسی چشمۂ صافی سے سیرابی پائی ہے اور ہر ایک اسی دریا کا ممنونِ کرم اور پروردہ ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ اور ان کے گرامی مرتبت اخلاف کرام نے حدیث شریف کی ہمہ جہت خدمات کو اپنا مقصد حیات بنالیا تھااور اسی نہج پر اپنے شاگردوں اور وابستگان کی تربیت کی۔ علوم اسلامیہ کی ترقی و تازگی اور ان کو زیادہ سے زیادہ مفید وثمر بار بنانے اور عام کرنے میں حضرت شاہ ولی اللہ اور ان کے فرزندان عالی مرتبت کی خدمات کسی ایک پہلو کے لیے مختص اور ایک دائرے میں محدود نہیں تھیں، بلکہ جب جہاں اور جس طرح کی خدمت کی ضرورت ہوئی اور جس پہلو سے بھی ان کا عرفان و فیضان عام کرنے کی کوشش ہو سکتی تھی، اس کی بلا تاخیر کوشش وتدبیر فرمائی۔ منجملہ اور علوم دینیہ کے، خدمت حدیث کے لیے بھی یہی معمول تھا۔ حدیث شریف کے درس و تعلیم، شرح وتحقیق، تصحیح وتعلیق، تقریر وتحریر اور نقل ومقابلہ ہر ایک مقصد کے لیے یہ سب حضرات خود بھی توجہ فرماتے، اس میں مشغول رہتے اور اپنے شاگردوں کو بھی اس کے لیے تیار فرماتے تھے، جس کے نتیجے میں ایسے ایسے دیدہ ور بالغ النظر علماء اور محدثین ان کے حلقۂ درس سے نکلے کہ ان کے دم سے علمی محفلوں میں تازگی اور بہار آگئی اور ان کے دم قدم سے خدمت علم خصوصاً خدمت قرآن مجید اور حدیث کے گلستاں لہلہا اٹھے۔ ان ہی علماء اور اخیار میں سے جو حضرت شاہ ولی اللہ کے خاندان سے فیض یافتہ اور جرعہ نوش ہیں، ایک بڑا اور نہایت گرامی قدر ومرتبت نام حضرت مولانا احمد علی محدث سہارن پوری کا ہے۔
حضرت مولانا احمد علی سہارن پور کے انصاری خاندان کے فرزند تھے، ان کا سلسلۂ نسب حضرت سید نا ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے۔ حضرت مولانا کے جد امجد شیخ عبد القدوس گنگوہی کے خلیفہ تھے، ابتدائی سلسلۂ نسب اس طرح ہے: مولانا احمد علی بن لطف اللہ بن محمد جمیل بن محمد خلیل۔ حضرت مولانا کی ولادت (سنہ ۱۲۲۵ھ۔ ۱۸۱۰ء) میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم سہارن پور کے مقامی علماء اساتذہ سے حاصل کی، متوسطات سے تقریباً صحیح بخاری تک تمام درسیات، حضرت مفتی الٰہی بخش کاندھلوی، حضرت مولانا سعادت علی فقیہ سہارنپوری اور حضرت مولانا وجیہ الدین صدیقی حسنی سہارن پوری سے اخذ کیں۔
حضرت مولانا کی بخاری شریف کی پہلی سند اس طرح ہے: مولانا وجیہ الدین سہارنپوری از مولانا عبدالحی بڑھانوی، از حضرت شاہ عبدالعزیز۔
تکمیل علوم کے بعد کئی سال تک فرخ آباد میں رہے، وہاں بھی ایک عالم سے پڑھا، مگرر اس کی تفصیل دریافت نہیں۔ آخر میں جب مولانا کی عمر تقریباً تینتیس سال کی تھی، خاندان ولی اللہٰی سے براہ راست استفادہ کا شوق ہوا، (سنہ ۱۲۵۸ھ؍ ۱۸۴۲ء) کے غالباً اواخر میں حضرت شاہ محمد اسحاق کی خدمت میں حاضر ہوئے، مگر اس وقت حضرت شاہ صاحب ہندستان سے ہجرت کا ارادہ فرما چکے تھے، دہلی سے سفر کا وقت قریب ہونے کی وجہ سے حضرت مولانا سے معذرت فرمائی، مولانا نے عرض کیا کہ اگر میں مکہ معظمہ حاضر ہو جاؤں؟ فرمایا کہ اگر تم آؤ گے تو میں ضرور پڑھاؤں گا، مولانا پر حضرت شاہ صاحب سے استفادہ کا شوق ایسا غالب تھا کہ حضرت شاہ محمد اسحاق کی دہلی سے ہجرت کے چند مہینہ بعد ہی (رجب ۱۲۵۹ھ؍اگست ۱۸۴۳ء) میں مکہ معظمہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ مکہ معظمہ میں حضرت شاہ صاحب کی خدمت میں رہ کر صحاح ستہ اور تفسیر وفقہ کی اعلیٰ ترین کتابیں تحقیق واطمینان سے پڑھیں۔ حضرت شاہ صاحب نے حضرت مولانا کو جو سند عطا فرمائی اس میں بائیس کتابوں کے نام لکھے ہیں۔ یہ کتابیں مولانا نے حضرت شاہ صاحب سے تحقیق سے پڑھیں، جس میں تفسیر کی چھ کتابیں تفسیر بیضاوی، تفسیر بغوی، تفسیر جامع البیان، تفسیر جلالین، تفسیر رحمانی وغیرہ شامل تھیں۔ حدیث شریف میں سنن ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، شمائل ترمذی، مسند امام ابوحنیفہ، صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابوداؤد، مسند دارمی، جامع صغیر، مشکوۃ المصابیح اور حصن حصین وغیرہ کی قرأت وسماعت میں شریک رہے۔ آخر میں حضرت شاہ صاحب نے ان سب کی مفصل تحریری اجازت سے نوازا، تقریباً دو سال تک شاہ صاحب کی تعلیم وتلمذ کے بعد غالباً سنہ (۱۲۶۲ھ؍ ۱۸۴۶ء) میں ہندستان واپس پہنچے۔
حضرت شاہ صاحب نے حضرت مولانا کو رخصت کرتے وقت خدمت حدیث میں مشغول رہنے کی ہدایت اور وصیت فرمائی تھی۔ حضرت مولانا نے بخاری شریف کے اختتامیہ میں حضرت شاہ اسحاق کی اس وصیت کا تذکرہ کیا ہے، حضرت مولانا نے جن کو مبدأ فیاض نے اس خدمت کے لیے چن لیا تھا، اس پر دل کی گہرائیوں سے لبیک کہا اور ہندستان واپس آتے ہی اس وصیت کی پاسداری اور بجا آوری میں مشغول ہو گئے۔
حضرت مولانا احمد علی نے حضرت شاہ ولی اللہ کے خاندانی معمول کے مطابق خدمت حدیث کے تمام پہلوؤں پر بیک وقت توجہ فرمائی۔ درس وافادہ، تصحیح ومقابلہ اور تحریر وتعلیق ہر ایک کو سامنے رکھا اور ہر ایک کی پوری پوری خدمت کرنے، بلکہ اس کا حق ادا کرنے کی ایسی کوشش فرمائی کہ جس کی نظیر نہیں۔ درس حدیث کی مسند بچھائی اور تمام عمر اس کی آراستگی اور ترقی کے لیے کوششیں فرماتے رہے۔ دہلی میں اس وقت سے سنہ ۱۸۵۷ء تک حضرت مولانا کا مطبع احمدی خصوصاً حدیث کی اعلیٰ ترین کتابوں کی طباعت و اشاعت کا کام کرتا رہا۔ تحقیق و طباعت کی بے پناہ مصروفیات کے ساتھ بھی درس وافادہ کا سلسلہ بلاناغہ جاری رکھا جس میں طلبہ کا ہجوم رہتا تھا۔
حضرت مولانا نے بخاری شریف کے اختتامیہ میں طلبہ کی کثرت اور درس کی مشغولیت کا ذکر کیا ہے، جب سنہ ۱۸۵۷ء کی تحریک میں مطبع تباہ ہو گیا تو دہلی سے سہارن پور واپس آگئے، تین چار سال تک سہارن پور میں درس حدیث جاری رہا، اس کے بعد کلکتہ چلے گئے تھے۔ سنہ (۱۲۹۱ھ؍ ۱۸۴۷ء) میں حضرت حاجی امداد اللہ کی فرمائش کے احترام میں کلکتہ کی ملازمت (جس سے مولانا کو علامہ شبلی نعمانی کے الفاظ میںپانچ سو روپے مہینہ کی آمدنی تھی) ترک کر کے سہارن پور آ گئے تھے، یہاں مظاہر علوم میں اور اپنے گھر پر درس حدیث جاری فرمایا، درس حدیث کا یہ معمول پوری شد ومد سے زندگی کے آخر دنوں تک اسی شان سے جاری رہا، اسی میں وفات پائی۔
اس حلقۂ درس سے جو تقریباً بتیس سال برابر جاری رہا، سینکڑوں اصحاب فیضیاب ہوئے، ان میں سے متعدد وہ ہیں جو ہماری علمی تاریخ کا غازہ اور متاخر دور کے لیے سرمایہ صد مباہات وافتخار ہیں۔ حضرت مولانا کے شاگردوں میں سے چند اہم نام ملاحظہ ہوں: حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، حضرت مولانا یعقوب گنگوہی، علامہ شبلی نعمانی، مولانا محمد علی مونگیری، مولانا عبدالجبار عمر پوری، مولانا سلامت اللہ جے راج پوری، مولانا عبدالعلی میرٹھی، مولانا عبداللہ انصاری انبیٹھوی، مولانا مفتی عبداللہ ٹونکی، مولانا تجمل حسین دسنوی، مولانا فدا حسین دربھنگوی، مولانا برکت اللہ سورتی، مولانا محمد بن غلام رسول سورتی، مولانا نور احمد امرتسری، مولانا وصی احمد سورتی، مولانا قمر الدین چکڑالوی وغیرہ رحمہم اللہ۔
حضرت مولانا قدیم علماء کے مطابق متنوع کمالات کا مرقع تھے، بڑے مدرس تھے، مصنف تھے، محقق تھے، مصحح و حاشیہ نگار تھے، اس کے علاوہ بڑے فقیہ،معروف و معتمد مشہور مفتی اور مصلح تھے نیز تحریک حضرت سید احمد کے طرز پر اتباع سنت اور رسوم و بدعات کی تردید میں عملی طور پر مصروف ومشغول تھے۔ حضرت مولانا کے فتاویٰ اس دور میں نہایت وقعت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، خصوصاً د ہلی اور نواح میں ان کی بڑی منزلت تھی۔ حضرت مولانا نے نکاح بیوگان کے احیاء اور رسوم وبدعات کی تردید کے لیے ہر پہلو سے متواتر جد و جہد کی، اس کے لیے وعظ و تقریر کرتے، فتاویٰ لکھتے، تقریریں کرتے، مولانا کے متعدد فتاوی قدیم مطبوعات میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح نکاح بیوگان کی ترغیب میں کی گئی کئی تقریریں اس موضوع کے مجموعوں میں محفوظ ہیں۔
مولانا کا اس علاقہ میں جو مقام اور عظمت واحترام تھا، اس کا اسی ایک واقعہ بلکہ اعزاز سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ جب دارالعلوم دیو بند کی سب سے پہلی عمارت، نو درہ کا سنگ بنیاد رکھا گیا، تو اس وقت اکابر دیوبند نے جو تقریباً سب ہی حضرت مولانا کے شاگرد تھے، اس کا سنگ بنیاد رکھنے کے لیے حضرت مولانا سے درخواست کی تھی، حضرت مولانا دیو بند گئے اور نو درہ کا سنگ بنیاد، پہلی اینٹ اپنے دست مبارک سے رکھی تھی، پتہ نہیں اس خدمت کے لیے دیوبند کے قطعاً غیر معروف شخص میاں جی منے کا نام کیوں مشہور کر دیا گیا حالاں کہ اس کا دار العلوم کی قدیم تحریر یا روداد میں تذکرہ نہیں ہے مگر دار العلوم کی روداد میں پہلی اینٹ رکھنے کے لیے حضرت مولانا احمد علی کے نام کی صراحت ہے۔
حضرت مولانا کی، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کی وفات کے چند دنوں کے بعد، ۶؍ جمادی الاولی ۱۲۹۷ھ؍ ۷ا؍ اپریل ۱۸۸۰ء شنبہ کو سہارن پور میں وفات ہوئی۔ مولانا فیض الحسن سہارن پوری، سرسید احمد، عبدالغفور نساخ وغیرہ متعدد اہل علم وذوق نے تعزیتی مضامین لکھے اور قطعات تاریخ کہے۔
حدیث شریف کی اہم ترین کتابوں کی تصحیح، حاشیہ اور اشاعت کی خدمت
حضرت مولانا کی زندگی کا امتیازی وصف اور اہم ترین کارنامہ اور جس پر برصغیر کی علمی تاریخ ہمیشہ فخر وناز کرتی رہے گی اور جس میں حضرت مولانا نہ صرف برصغیر بلکہ بعض پہلوؤں سے پورے عالم اسلام میں ممتاز ومنفرد ہیں۔ حدیث شریف کی امہات کتب کی نہایت اہتمام سے اعلیٰ درجہ کی تصحیح، تحقیق وتعلیق اور حاشیہ نویسی کے بعد اعلیٰ درجہ کی اشاعت ہے، جو تقریباً ان سب کتابوں کی پوری دنیا میں پہلی اشاعت بھی تھی۔
حضرت مولانا احمد علی کی طباعت کتب حدیث کی یہ خدمت دراصل خانوادہ حضرت شاہ ولی اللہ کی اشاعت کتب حدیث کے منصوبہ کی توسیع وتکمیل تھی، جب تیرہویں صدی ہجری کے آغاز پر اٹھارہویں صدی عیسوی کے آخر میں ہندوستان میں پہلی بار پریس آیا اور کتابوں کی نقل کے قدیم طریقہ کی جگہ طباعت کی ابتداء ہوئی اور اس کے ذریعہ سے ایک ایک کتاب کے حسب ضرورت سینکڑوں ہزاروں نسخے ایک معیار و کیفیت کے سامنے آنے ممکن ہو گئے، اس وقت حضرت العزیز حیات تھے، سب سے پہلے حضرت شاہ صاحب نے اس نئے طریقہ سے استفادہ کا ارادہ کیا اور حضرت شاہ ولی اللہ کی جلیل القدر تصانیف ’’الفوز الکبیر فی اصول التفسیر‘‘ اور ’’حجتہ اللہ البالغہ‘‘ کی طباعت کا سروسامان کیا، الفوز الکبیر تو چھپ گئی لیکن حجۃ اللہ کی اس طباعت کا کوئی نسخہ اب تک دستیاب نہیں ہوا۔ اسی اصول کے تحت حضرت العزیز کی تفسیر عزیزی، حضرت القادر کا موضح قرآن وغیرہ کئی اہم کتابیں کلکتہ کے مطابع سے شائع ہوئیں اور ملک بھر میں پھیل گئیں۔
یہ سعادت بھی خانوادۂ ولی اللہٰی کے لیے مقدر تھی کہ حدیث شریف کی بنیادی کتابوں کی اشاعت کی ابتداء بھی اسی گھرانے سے ہو۔ حضرت العزیز کی وفات (۱۲۳۹ھ؍ ۱۸۲۴ء) کے بعد پریس دہلی پہنچا، دہلی میں سب سے پہلا مطبع قلعہ معلیٰ میں بادشاہ وقت کے اہتمام وانصرام سے قائم ہوا، اس وقت حضرت العزیز کے جانشین اور خانوادہ ولی اللہی کی نسبتوں اور کمالات کے جامع، حضرت شاہ محمد اسحاق نے حدیث شریف کے بنیادی متون کی اشاعت کا ارادہ اور اہتمام فرمایا۔ حضرت شاہ محمد اسحاق نے سنن نسائی سے اپنی خدمت کا آغاز کیا اور دہلی بلکہ برصغیر اور عالم اسلام میں بھی حدیث شریف کی ایک اہم کتاب سنن نسائی کا ایک عمدہ نسخہ، جو اس دور کی اعلیٰ اور حسین ترین طباعت کا نمونہ تھا، غالباً حضرت شاہ محمد اسحاق کے تصحیح اور حواشی سے مزین ہو کر، حضرت شاہ ولی اللہ اور العزیز کے مختصر افادات کے ساتھ چھپا، جس کی سند کا آغاز:
’’یقول العبد الضعیف، خادم علماء الآفاق محمد اسحاق‘‘ کے الفاظ سے ہوتا ہے، یہ نسخہ جو سفید عمدہ کاغذ پر چھپا ہے۔ مطبع سلطانی، قلعہ معلی دہلی سے سنہ (۱۲۵۶ھ؍ ۱۸۴۰ء) شائع ہوا تھا لیکن حضرت شاہ محمد اسحاق اس کی طباعت کے بعد جلد ہی ہندستان سے مکہ معظمہ ہجرت کر گئے تھے، اس لیے حضرت شاہ محمد اسحاق کے اس مشن اور علم کو حضرت شاہ صاحب کی ہدایت اور وصیت کے مطابق حضرت مولانا احمد علی نے سنبھالا اور اس شان سے بلند رکھا کہ پوری دنیا میں خدمت حدیث کا آوازہ گونج گیا۔
حضرت مولانا احمد علی کی حدیث شریف کی اس خدمت کو ماشاء اللہ ایسی مقبولیت وپذیرائی ہوئی جو کسی اور کو آج تک حاصل نہیں ہوئی، برصغیر ہند بلکہ مشرقی ایشیائی ملکوں کا حدیث شریف کا کون طالب علم اور خادم ہے، جس نے حضرت مولانا کی مرتبہ اور شائع کی ہوئی صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ترمذی، سنن ابوداؤد اور مشکوٰۃ المصابیح سے استفادہ نہ کیا ہو؟ حضرت مولانا کی شائع کی ہوئی کتابوں کو کچھ ایسی پذیرائی حاصل ہوئی کہ وہ سنہ (۱۲۵۶ھ؍ ۱۸۴۸ء) سے آج تک مقبول خاص وعام ہیں اور بلا استثنا ہر طبقے کے علما اور طلبہ کے لیے سرمۂ بصیرت بنی ہوئی ہیں۔
حضرت مولانا نے کتب حدیث خصوصاً صحاح ستہ کی مرکزی کتابوں کی اشاعت کا اس وقت منصوبہ بنایا تھا اور اس کو نہایت شایان شان طریقے پر پورا کیا تھا، جب عالم اسلام میں ان میں سے کسی بھی کتاب کی اشاعت نہیں ہوئی تھی۔ حضرت مولانا نے اگر چہ اپنے کام کی ابتدا صحیح بخاری کی تصحیح وتعلیق اور اشاعت سے کی تھی، مگر سب سے پہلے سنہ ۱۲۵۶ھ میں سنن ترمذی کی اشاعت مکمل ہوئی، پھر ۱۲۶۷ھ میں صحیح بخاری کی پہلی جلد زیور طباعت سے آراستہ ہو کر آئی، بعد ازاں صحیح مسلم کا مکمل نسخہ دو جلدوں میں، جس پر امام نووی کی شرح بھی ہے جلوہ افروز ہوئی۔ سنہ ۷۲-۱۲۷۱ھ میں سنن ابوداؤ کے نہایت صحیح اور اعلیٰ نسخے کی طباعت کا اہتمام فرمایا۔دیگر کتابوں میں سنہ ۱۲۷۰ھ میں مشکوٰۃ المصابیح کا نہایت عمدہ نسخہ مفصل حاشیے سے آراستہ ہو کر نمودار ہوا۔ اسی سال میں حصن حصین کی عمدہ حاشیہ کے ساتھ اشاعت کی۔ اسی سنہ ۱۲۷۱ھ میں شیخ الاسلام حافظ ابن حجر کی تقریب التہذیب کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ اسی دوران رسالہ اصول حدیث سید شریف جرجانی اور علامہ شیخ عبدالحق کا مقدمہ بھی شائع کیا۔ یہ اشاعتیں ان تمام کتابوں کی عالم اسلام میں پہلی اشاعت تھیں۔ اگرچہ اس سے پہلے یورپ میں بخاری شریف کے چند اجزا شائع ہو چکے تھے مگر ان میں وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی!
اس مقصد کے لیے حضرت مولانا نے سب سے پہلے ایک بڑے مطبع کا بندوبست کیا۔ دہلی میں حضرت مولانا کے استاذ مولانا وجیہ الدین سہارن پوری کا ایک مطبع تھا، جو مطبع احمدی کے نام سے کام کر رہا تھا، حضرت مولانا نے اس کو خرید لیا اور اس سے اپنی کتابوں کی طباعت کا سلسلہ شروع کیا اور اس مطبع کو اس قدر ترقی دی کہ کام کی وسعت اور بڑی کتابوں کی طباعت کے انصرام میں شمالی ہند کا کوئی اور مطبع اس کے ہم پایہ نہیں تھا۔ اگرچہ اس مطبع سے اور حضرت مولانا احمد علی کی تصحیح واہتمام سے اور بھی متعدد موضوعات کی بیسوں پچاسوں کتابیں شائع ہوئیں۔یہاں حدیث شریف کی ان چند اہم مطبوعات کا تذکرہ کیا جاتا ہے جو برصغیر ہند کی علمی تاریخ کا ایک سنہرا اور نہایت درخشاں عنوان ہیں، حضرت مولانا نے جو کتابیں مرتب ومدوّن کرکے اور ان پر وقیع عالمانہ حاشیے لکھ کر چھپوائیں۔ان میں سب سے پہلی کتاب سنن ترمذی ہے، اس کے بعد صحیح بخاری، مشکوٰۃ المصابیح، صحیح مسلم مع نووی اور ان کے بعض متعلقات وضمیمے شائع ہوئے، جس میں سب سے زیادہ توجہ اور اہمیت قدرتی طور پر صیح بخاری کو حاصل رہی اور حق بھی یہی ہے کہ تمام کتب حدیث میں سب سے پہلے صحیح بخاری کا تذکرہ ہو، اور اس پر جہاں تک ممکن ہو تو جہ کی جائے، اس لیے آئندہ صفحات میں بھی سب سے پہلے حضرت مولانا احمد علی کے مرتبہ صحیح بخاری، اس کے حواشی، ان کے مختلف پہلوؤں اور متعلقات کا تذکرہ ہے اس کے بعد اور کتابوں کا مختصر تذکرہ کیا جا رہا ہے۔
صحیح بخاری کی تصحیح وتحقیق متن اور حاشیہ وغیرہ
صحیح بخاری، قرآن مجید کے بعد امت مسلمہ کا سب سے اہم ممتاز ترین، اعلیٰ ترین اور معتمد ترین مرجع ہے، جس کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ کا شرف وامتیاز حاصل ہے۔ سیرت پاک کے تمام پہلوؤں، فرائض وعبادات کے تمام گوشوں اور امت کے جملہ دینی معاملات و مسائل میں سب سے پہلے بخاری شریف سے مراجعت و استفادہ کیا جاتا ہے، اور جو کتاب اس غیر معمولی بلند مقام پر فائز ہو اور امت کے مسائل وعقائد کی اساس و بنیاد ہو، اس کے متن کی صحت، اس کے مقابلہ وتصحیح کی ضرورت اور اس میں صحیح ترین الفاظ و کلمات کا انتخاب کس درجہ ضروری ہے محتاج بیان نہیں، نیز اس کے نکات ودقائق کے حل، اس کی مشکلات و مہمات کی تنقیح، اس کے مطالب ومندرجات کی توضیح کی کس حد تک ممکن سے ممکن کوشش کی جانی چاہیے، اس میں بھی گفتگو کی گنجائش نہیں۔
بخاری شریف کی تصحیح کا معاملہ اور کتابوں کی تصحیح وتدوین سے کہیں زیادہ اہم، نازک، پے چیدہ اور غیر معمولی اہمیت کا کام ہے، اس کے لیے حضرت مولانا نے وہ تمام کوششیں اور اہتمامات فرمائے جو اس بڑے کام کے لیے ضروری اور شایان شان تھے۔ حضرت مولانا نے بخاری شریف کے متن کی تعیین کے لیے اس نسخے کو بنیاد بنایا ہے جو علامہ یونینی کا مرتب کیا ہوا ہے۔ حضرت مولانا نے اس نسخے کو سامنے رکھ کر فقط صحیح کر کے شائع نہیں کر دیا، بلکہ حضرت مولانا نے اس نسخے کے کامل استناد اور اعلیٰ ترین تدوین وترتیب کے لیے بخاری شریف کے نسخۂ فربری کی تمام روایتوں اور حضرات محدثین کرام کے مرتب کیے ہوئے تمام نسخوں سے کامل استفادہ کیا۔ حضرت مولانا نے اس مقصد کے لیے بخاری شریف کے انہیں اہم ترین ممتاز نسخوں کو سامنے رکھا ہےاور ان تمام نسخوں کا بخاری شریف کے مقدمے میں صراحت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
ان نسخوں کے حضرت مولانا کے پیش نظر موجود بنیادی نسخےسے جو اختلافات ہیں، حضرت مولانا نے ان سب کو اپنے مرتبہ نسخے میں اس طرح جمع کیا ہے کہ کوئی اختلاف لفظ، اختلاف روایت وکلمہ ایسا باقی نہیں رہا جس کو حضرت مولانا نے حاشیےمیں نسخ کے ذیل میں پوری وضاحت اور مکمل حوالہ کے ساتھ درج نہ کیا ہو، اگر کوئی کلمہ کسی ایک محدث کی ترجیح ہے یا صرف ایک ہی نسخے میں درج ہے تو اس کی بھی صراحت کی ہے اور مرجع کا حوالہ دے دیا ہے اور اگر کسی ایک لفظ و عبارت پر دو تین یا چار پانچ یا زائدہ نسخے متفق ہیں تو ان سب کا بھی علاحدہ علاحدہ مفصل حوالہ یکجا درج کیا ہے اور اگر کوئی لفظ ایسا ہے کہ متعدد اصحاب نسخہ نے اس پر اعتماد کیا ہے مگر حضرت مولانا دلائل و شواہد کی وجہ سے اس کو ثانوی درجہ کا سمجھتے ہیں تو ان کا بھی تذکرہ ہے۔
اس محنت اور دیدہ ریزی کی وجہ سے حضرت مولانا احمد علی کا مرتبہ صحیح بخاری کا نسخہ فربری کی روایت پر مبنی صحیح بخاری کے ائمہ محدثین کے تمام نسخوں کی خوبیوں کا جامع اور اختلاف روایت کا ایسا بہتر ذخیرہ ہو گیا ہے کہ اس کے بعد مزید تحقیق و تنقیح کی زیادہ ضرورت نہیں رہی اور حضرت مولانا کے پیش نظر تمام انیس نسخوں کی جزئیات اور اختصاصات اس نسخہ میں اس طرح شامل بلکہ جذب ہو گئے ہیں کہ حضرت مولانا کے مرتبہ نسخہ کے آئینہ میں تمام سابقہ نسخوں کے امتیازات واختلافات کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے اور ان پر چند اضافات اور اہتمامات کا بھی، یعنی یہ نسخہ ان سب کی خصوصیات کا نمائندہ و تر جمان بھی ہے اور ان سے ممتاز والگ بھی:
شاخ گل میں جس طرح باد سحر گاہی کا نم
تفہیم متن کے لیے بعض وضاحتیں
حضرت مولانا نے بخاری شریف کی تصحیح میں صرف صحیح نسخے کی ترتیب پر اپنے کام کو ختم نہیں کر دیا ہے بلکہ اس نسخے کو قارئین کے لیے آسان اور مفید ترین بنانے کے لیے جو صورت ہو سکتی تھی اس کا بھی پورا اہتمام فرمایا ہے، مثلاً اگر بخاری شریف کی کسی عبارت کی تعیین یا تکمیل وتخفیف میں بخاری شریف کے قدیم معروف نسخے اور شارحین بخاری کی اطلاعات مختلف ہیں، اس عبارت وروایت کے چند الفاظ وکلمات کسی ایک نسخے یا نسخوں میں شامل ہیں لیکن اور نسخے اس سے اتفاق نہیں کرتے، یا شراح بخاری نے یہاں کسی لفظ یا فقرے کی کمی زیادتی یا عبارت کی ترتیب میں اختلاف کا ذکر کیا ہے، ایسے موقعوں پر حضرت مولانا نے اس فقرے کی ابتداے اور خاتمہ دونوں پر ’’صح‘‘ کا اشارہ دے دیا ہے۔
لیکن حضرت مولانا کی ترتیب میں یہ اس قسم کا واحد اشارہ یا وضاحت نہیں ہے، حضرت مولانا نے اور بھی کئی رموز یا علامتیں کئی طرح کی وضاحتوں کے لیے مقرر فرما رکھی ہیں۔ حضرت مولانا نے عطف، معطوف علیہ، لاحق وسابق، جار مجرور ہر ایک کے لیے علاحدہ نشانات مقرر فرمائے ہیں اور اس کی ممکنہ کوشش کی ہے پڑھنے والوں کو غلطی اور التباس نہ ہو۔
حضرت مولانا کے حاشیہ کی ترتیب، اس کے چند امتیازات اور طریقۂ کار
متن کتاب مکمل ہونے کے بعد دوسرا اہم بلکہ اہم ترین مرحلہ کتاب کے نکات ومبہمات کی توضیح، علمی وفنی دقائق کے حل، باریکیوں اور مباحث کی تفصیل و تخصیص کا ہے۔ حضرت مولانا نے جو اس بے پایاں دریا کی وسعت و گہرائی سے آشنا تھے، اس کو بہتر سے بہتر طریقہ پر مکمل کرنے کا ارادہ فرمالیا اورپوری کتاب پر (آخری غالباً تین پاروں کے علاوہ) نہایت جامع اور مکمل حاشیے تحریر فرمائے ہیں۔
حضرت مولانا کا طریقۂ کار یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اوّل ان مقامات کو نشان زد فرماتے ہیں، جن کی شرح و تفہیم کے لیے رہنمائی کی ضرورت ہے، پھر اپنے سامنے موجود جملہ شروحات، کتب حدیث اور متعلقات کو ملاحظہ فرما کر یہ طے کرتے ہیں کہ اس عبارت و بحث کی تفصیل و تحقیق کے لیے سب سے بہتر گفتگو کس عالم وشارح نے فرمائی ہے، پھر اس کتاب سے اخذ واقتباس کر کے، حسب ضرورت مفصل یا مختصر حاشیہ درج فرما دیے ہیں، جو مقامات مفصل بحث کے طالب نہیں وہاں مختصر بات فرماتے ہیں، جن مقامات کی وضاحت ضروری ہے، وہاں حسب ضرورت متوسط یا مفصل حاشیہ تحریر ہوگا۔ اس حاشیہ نویسی میں بھی دو طریقے ہیں، کبھی خود کچھ تحریرفرما کراپنے مآخذ کا اشارہ وتذکرہ فرمادیتے ہیں، جہاں اس سے بات نہ بنے وہاں مفصل بلکہ مفصل ترین حاشیہ درج ہوگا، اس تفصیل میں بھی کئی پہلو نظر آتے ہیں، کبھی دو تین یا زائد کتابوں سے مختصر مختصر مگر جامع اقتباسات ایسی خوبصورت ترتیب سے درج فرمائیں گے جس سے متعلقہ بحث وگفتگو آئینہ ہو جائے، کبھی ایک ہی کتاب کے نسبۃ مفصل اقتباس پر اکتفا کریں گے۔کئی مرتبہ ایک اور صورت اختیار فرماتے ہیں کہ کسی ایک شارح یا محقق کی تحریر پر مشتمل مفصل بحث کو جو دو چار صفحات پر پھیلی ہوئی ہے، اپنے الفاظ میں درج فرما ئیں گےاور اس مفصل بحث کا اس طرح عرق کشید فرمائیں گے یا جوہر کھینچ لیں گے کہ عبارت مختصر سے مختصر ہو جائے مگر بحث واصل کا کوئی ضروری حصہ باقی نہ رہے، یہ حضرت مولانا کا ایک خاص وصف ہے جس کا حواشی بخاری میں پچاسوں سینکڑوں مقامات پر اظہار ہوا ہے۔
کہیں یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی کتاب یا شرح کے پہلو یا گوشہ کی طرف اشارہ مقصود ہو، اس وقت تمام مندرجات کا احاطہ اور عبارت نقل کرنے کا اہتمام نہیں فرماتے، اس کا اشارہ اپنے الفاظ میں فرما کر آخر میں اس کا مختصر حوالہ ذکر فرما دیتے ہیں۔
حضرت مولانا کے حاشیے میں یہ بات بطور خاص محسوس کی جاسکتی ہے کہ مصنف ومرتب نے اس حاشیے کو بوجھل بنانے سے احتیاط برتی ہے، حضرت مولانا صرف ایسے موقعوں پر حسب ضرورت مفصل یا مختصر حاشیہ تحریر فرماتے ہیں، جہاں اس سے متعلقہ عبارت کو حل کرنے میں واقعتاًخاص مدد ملتی ہو یا اس کی عمدہ گرہ کشائی متوقع ہو، موقع بے موقع حاشیہ کا اہتمام کرنا حضرت مولانا کا مزاج نہیں۔ساتھ ہی یہ بھی اہتمام رہتا ہے کہ کسی ایک مسئلہ یا بحث پر جہاں تک ممکن ہو مکرر گفتگو نہ کی جائے، حاشیہ نہ لکھا جائے، اس میں اس کا بھی اہتمام رہتا ہے کہ جہاں اس حاشیہ یا بحث کی بطور خاص ضرورت ہے، حاشیہ اسی مقام پر رقم ہوگا، اگر یہ الفاظ وکلمات اس سے پہلے بھی کہیں آئے ہیں، مگر وہاں ضمناً تھے تو وہاں حاشیہ نہیں ہوگا، وہاں لکھ دیں گے کہ یہ گفتگو یا بحث فلاں باب کے تحت فلاں جگہ آرہی ہے، جس میں کہیں کہیں صفحات کی بھی صراحت ہوتی ہے، جہاں موقع آئے گا، وہاں کسی قدر وضاحت سے اپنے اصول وطریقۂ کار کی پاسداری کرتے ہوئے حاشیہ تحریر فرمائیں گے اور یہ صراحت بھی کر دیں گے کہ یہ بات اگرچہ فلاں فلاں موقع پر گزر چکی ہے مگر اس پر گفتگو کا موقع یہ ہے، اس کے بعد بھی اگر کہیں اعادہ ہوتا ہے تو گزشتہ باب کا حوالہ دیا جائے گا کہ یہ بحث وتحقیق فلاں باب یا عنوان کے تحت گزرگئی ہے۔
حواشی بخاری میں حضرت مولانا کے مآخذ
حضرت مولانا نے بخاری کے مقدمے میں اپنے حواشی کی تصنیف میں اپنی معاون کتابوں کی فہرست درج کی ہے، جو پینسٹھ کتابوں پر مشتمل ہے، اس میں بخاری شریف کی گیارہ، مشکوۃ المصابیح نیز موطأ امام مالک کی چھ شروحات شامل ہیں، لیکن یہ حضرت مولانا کے مراجع کی مکمل فہرست نہیں ہے۔ اس کا نہ صرف اس فہرست کے اختتام پر وغیر ذلک کے لاحقہ سے اندازہ ہوتا ہے، بلکہ بخاری شریف کا سب سے پہلا حاشیہ بھی اس کی پردہ کشائی کر دیتا ہے کہ حضرت مولانا نے اپنے متعدد مآخذ کا اس فہرست میں ذکر نہیں فرمایا۔ سب سے پہلے حاشیے میں حضرت شاہ ولی اللہ کی ایک عبارت سے استدلال ہے جو کہ مسویٰ کی نہیں ہے، جب کہ مسویٰ حضرت شاہ ولی اللہ کی واحد کتاب ہے جس کا حضرت مولانا نے اپنے مآخذ میں ذکر کیا ہے، اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اس قسم کے چند مراجع اور مآخذ اور بھی ہوں گے جن کا حضرت مولانا کی فہرست ومآخذ میں تذکرہ نہیں ہے۔
اطراف بخاری کی وضاحت ونشان دہی
حضرت امام بخاریؒ کا ایک خاص معمول یہ بھی ہے کہ وہ متعدد احادیث کو اپنی خاص ذہنی ترتیب اور اس حدیث سے ماخوذ مختلف مسائل ونکات کی وجہ سے بخاری شریف میں مختلف ابواب میں علاحدہ علاحدہ موضوعات کے تحت درج فرما دیتے ہیں، جس میں کئی مرتبہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک حصہ ایک باب اور موضوع میں آئے گا، دوسرا حصہ یا ٹکڑا کسی اور باب میں پیش فرمائیں گے، ایسی صورت میں بخاری شریف سے عام استفادہ کرنے والے تو کہاں، کئی مرتبہ فاضل اساتذہ اور اہل نظر بھی ایسی تمام معلومات کو مستحضر رکھنے میں دشواری محسوس فرماتے ہیں کہ حضرت امام نے اس روایت سے کہاں کہاں، کس مسئلے پر کس کس طرح استدلال فرمایا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ روایت کے ہر ایک ٹکڑے کے ساتھ یہ صراحت ہو کہ یہ روایت یا اس کا کوئی حصہ، فلاں کتاب میں فلاں موضوع اور عنوان کے تحت گزر گیا ہے۔ حضرت مولانا احمد علی صاحب نے اس کی نشان دہی کا اہتمام کیا ہے، جو حصہ گزر گیا ہے اس کا بھی ذکر ہے ’’مر في باب فلاں‘‘ اور جو حصہ یا پہلو کہیں آنے والا ہے، اس کی تصریح ہے ’’سیجیئ في باب فلاں‘‘ اس کا پہلے صفحہ سے آخر تک مکمل اہتمام کیا گیا ہے۔
بخاری شریف کے اس نسخہ کی پہلی طباعت
حضرت مولانا نے جلد اول کی تصحیح، حاشیہ اور کتابت ومقابلہ کا نہایت دشوار گزار مرحلہ مکمل ہونے کے بعد جلد اوّل کی طباعت کا اہتمام کیا۔ پہلی جلد کی پہلی طباعت کی، سید عبدالغفور (برادر سرسید احمد) کے مطبع سید الاخبار دہلی میں ۱۸؍ جمادی الآخر سنہ ۱۲۶۴ھ (مئی ؍۱۸۴۸ء) میں ابتداء ہوئی، مگر طباعت کی رفتار بہت سست تھی، چھے مہینہ میں (ذی الحجہ ۱۲۶۴ھ تک)، فقط ایک سو چوراسی (۱۸۴) صفحات چھپے تھے۔ ادھر حضرت مولانا کا مرتبہ سنن ترمذی کا نسخہ مع حواشی کے مکمل ہو چکا تھا، اس لیے حضرت مولانا نے بخاری شریف کی طباعت کا کام وقتی طور پر روک کر سنن ترمذی کی طباعت مطبع العلوم دہلی سے شروع کرادی تھی، سنن ترمذی کی طباعت جاری تھی کہ حضرت مولانا کے اپنے ذاتی پریس، مطبع احمدی کا انتظام ہو گیا، اس لیے اب حضرت مولانا کی کتابوں صحیح بخاری اور سنن ترمذی، دونوں کی طباعت مطبع احمدی میں منتقل ہو گئی، اس طرح مطبع احمدی سے بخاری شریف جلد اول کی پہلی طباعت، رجب سنہ ۱۲۶۷ھ (مئی ۱۸۵۱ء) میں مکمل ہوئی، اسی وقت دوسری جلد کی طباعت کا آغاز ہو گیا تھا، جومحرم الحرام سنہ ۱۲۷۰ھ (سنہ ۱۸۵۳ء) میں مکمل ہوا۔خیال رہے کہ عالم اسلام میں بخاری شریف اس طباعت کے تئیس سال بعد سنہ ۱۲۹۲ھ میں پہلی مرتبہ شائع ہوئی تھی۔
پہلی طباعت کے صرف تین سو پچیس نسخے چھپے تھے، جس پر فی نسخہ اٹھارہ روپے خرچہ آیا تھا، فی جز پانچ روپے آٹھ آنہ کاتب کی اجرت تھی، تین روپے بارہ آنہ کا کاغذ لگا تھا، چار روپے آٹھ آنہ طباعت کے دیے گئے، بارہ آنہ کا متفرق صرفہ ہوا تھا، پچیس روپے اس کی قیمت رکھی گئی تھی جو اس وقت کے لحاظ سے ایک بہت بڑی رقم تھی، پچیس روپے ایک گھرانہ کے اوسط سے بہتر ماہانہ اخراجات تھے، جس میں اچھی طرح گزر بسر ہو جاتی تھی مگر اس بڑی قیمت کے باوجود، بخاری شریف کی طلب اس قدر تھی اور خریدار اس درجہ مشتاق اور تشنہ لب تھے کہ عام لوگوں کی استطاعت اور قوت خرید سے کہیں زیادہ قیمت کے باوجود کتاب بہت جلد، تیزی سے فروخت ہوئی اور غالباً اسی سال اس کی دوسری طباعت کی ضرورت پیش آگئی تھی، اس کے بعد سے جو اس کی طباعت و فروخت کا سلسلہ شروع ہوا تو دس سال کے قلیل عرصہ میں آٹھ سے زائد ایڈیشن چھپے، جو حضرت مولانا کے علاوہ دہلی بمبئی وغیرہ کے مختلف مطابع نے شائع کیے۔
نسخہ حضرت مولانا احمد علی کی مکمل اور نظر ثانی شدہ اشاعت
پہلی طباعت کے بعد ہی حضرت مولانا نے اس نسخے کی تصحیح مزید اور نظرثانی کا کام شروع کر دیا تھا، دوسری اشاعت میں جس کا ذکر ہوا، مقدمہ شامل کیا گیا تھا، اس کے بعد کی کئی طباعتیں چوں کہ حضرت مولانا کے علاوہ اور علما اور مطابع کے ذریعہ سے عمل میں آئی تھیں، اس لیے ان میں حضرت مولانا کی نظر ثانی یا کوئی اضافہ و ترمیم شامل نہیں لیکن یہ کیسے ممکن تھا کہ حضرت مولانا نے جس کام کو مقصد حیات بنا کر شروع کیا تھا، اس سے غفلت فرماتے، مگر اس سے پہلے کہ حضرت مولانا کی آخری مکمل نظر ثانی، ترمیمات واضافہ والانسخہ شائع ہوتا، سنہ ۱۸۵۷ء کی تحریک شروع ہو گئی، جس کی زد میں حضرت مولانا کا مطبع بھی آیا، اس کا تمام موجود علمی سرمایہ چھپی ہوئی کتابوں کے تمام نسخے اور حضرت مولانا کا نہایت قیمتی ذاتی کتب خانہ اس طرح خراب و برباد ہوا کہ ایک کتاب بلکہ ورق بھی محفوظ نہیں رہا۔ حضرت مولانا سہارن پور تھے کہ یہ سانحہ پیش آگیا، اب دہلی جانے اور مطبع کے دوبارہ زندہ کرنے کا موقع نہیں تھا، تا ہم حضرت مولانا کی صحیح بخاری سے گہری وابستگی بدستور قائم رہی، غالباً اسی دوران حضرت مولانا نے دہلی کے مطبوعہ نسخوں پر نئے سرے سے محنت کی، پہلی طباعتوں کے متن میں کتابت وطباعت کی جو غلطیاں رہ گئی تھیں، ان کی موقع پر تصحیح فرمائی، حاشیہ پر بھی مکمل نظر ثانی فرمائی، حاشیوں کی بعض عبارتوں میں کچھ تبدیلی کی، مراجع کی مزید تحقیق وتنقیح فرمائی، بعض حاشیے اور حوالے اضافہ کیے، بعض کو قلم زد فرمایا۔
رجال بخاری کا اضافہ
بخاری کی اب تک کی کسی بھی طباعت میں رجال صحیح بخاری کا تعارف اور تذکرہ درج نہیں تھا، اس طباعت کے لیے حضرت مولانا نے رجال بخاری کا اضافہ فرمایا جس میں حسب ضرورت، رواۃ کے صرف نام و نسب یا نسبت و کنیت کی مختصر بلکہ مختصر ترین وضاحت کی گئی ہے، مگر اس وقت غالباً اس کی تکمیل نہیں ہو سکی، یہ صرف نصف اول پر ہے، نصف ثانی اس اضافے سے محروم ہے، نصف ثانی کے تراجم بعد میں مکمل ہوئے جو صحیح بخاری کی اس طباعت میں شامل وشائع کیے گئے جو بہت اہتمام سے حضرت مولانا کے علمی جانشین، بڑے فرزند، مولانا حبیب الرحمن نے مطبع مصطفائی کان پور سے سنہ ۱۳۰۸ھ میں شائع کیا تھا۔
حضرت مولانا کے مرتبہ نسخہ کی مکمل اور نظر ثانی شدہ اشاعت میرٹھ ۱۲۸۳ھ
حضرت مولانا کا مطبع احمدی دہلی کے ہنگامے سنہ ۱۸۵۷ء میں تباہ ہو کر بے نام و نشان ہو گیا تھا مگر اس کام کی تکمیل باقی تھی جس کے لیے حضرت مولانا نے اس مطبع کو اساس بنایا تھا، اس لیے اس حادثے کے تقریباً آٹھ سال بعد، سنہ ۱۲۸۲ھ (۱۸۶۵ء) میں حضرت مولانا نے مطبع کے اسی پرانے نام مطبع احمدی کو میرٹھ میں دوبارہ قائم کیا، جس کی ابتدائی مطبوعات میں بخاری کا حضرت مولانا کی آخری تصحیح ونظر ثانی والانسخہ بھی شامل تھا۔ اس نسخے کی مطبع احمدی میرٹھ سے سنہ ۱۲۸۲ھ میں طباعت شروع ہو کر ۱۲۸۳ھ (۶۶-۱۸۶۵ء) میں مکمل ہوئی، یہی وہ نسخہ ہے جو بعد میں ہندوستان کے مختلف مطابع نے کثرت سے بلکہ پچاسوں مرتبہ شائع کیا۔ یہ بات اہل علم نے برملا کہی ہے کہ مطبع مصطفائی کانپور کاسنہ ۱۳۰۸ھ (۱۸۹۱ء) میں چھپا ہوا نسخہ سب سے بہتر اور صحیح ترین نسخہ ہے، اس کے بعد اصح المطابع دہلی کا ۱۳۵۷ھ (۱۹۳۸ء) شائع نسخہ سب سے عمدہ بہتر اشاعت قرار دیا جاتا ہے، اس وقت عموماً أصح المطابع کے نسخہ کا ری پرنٹ (Re-Print)یا عکس چھپتا ہے، نئی کتابت یا صحیح مزید کی اس کے بعد کوئی کوشش نہیں ہوئی لیکن یہاں یہ عرض کر دینا چاہیے کہ نسخہ أصح المطابع میں شامل حل لغات اور حضرت شاہ ولی اللہ کا رسالہ ’’الابواب والتراجم‘‘ حضرت مولانا احمد علی کی مطبوعہ ومرتبہ کسی طباعت میں شامل نہیں، یہ اصح المطابع کا اضافہ ہے، اس صحیح بخاری کے حاشیہ کی تصحیح و مقابلہ پر حضرت مولانا احمد علی نے بیس سال سے زیادہ وقت صرف کیا مگر اس بے مثال کوشش اور صحیح کے نادر اہتمام کے باوجود، کاتبوں کی عنایات اور شاید کہیں کہیں سہو ناقل سے بھی مختلف قسم کی غلطیاں ہوگئی ہیں، چوں کہ معاملہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ کا تھا، اس لیے مئو ضلع اعظم گڑھ کے ایک عالم مولانا عبد الجبار مئوی (شاگرد حضرت مولانا عبدالغفار صاحب مئو) نے بہت عمدہ دیدہ ریزی سے ان حواشی کی متعلقہ مراجع اور کتب رجال وغیرہ سے تصحیح کی تھی، جو صحیح بخاری کی مناسبت سے اسی پیمائش کے دو مختصر حصوں میں چھپی ہے، یہ کام اگر چہ ایک درجہ میں غیرمعمولی اور نہایت اہم ہے مگر نا تمام ہے، کیوں کہ مولانا عبد الجبار صاحب کو حضرت مولانا کے متعدد اصل مراجع (بعض مطبوعہ بھی) دستیاب ہی نہیں ہوئے، اس لیے ان سے مراجعت اور صحیح کی تمنا باقی رہی اور اب بھی باقی ہی ہے۔ وللہ الأمر من قبل ومن بعد۔یہ سعادت محدث جلیل حضرت مولانا ڈاکٹر تقی الدین ندوی مظاہری کے مقدر میں لکھی تھی۔ انھوں نے بڑے اہتمام سے مکمل مراجعت وتصحیح کا بیڑہ اٹھایا اور اب بخاری شریف کا صحیح ترین نسخہ ان کی تحقیق وتعلیق سے پندرہ جلدوں میں بیروت سے شائع ہو کر مقبول خاص وعام ہورہا ہے۔
صحیح مسلم کی شرح نووی کے ساتھ اشاعت ۱۲۷۰ھ
حضرت مولانا بخاری شریف کی طباعت کے دوران ہی صحیح مسلم کا محقق نسخہ بھی مرتب فرما چکے تھے، مگر اس پر خود حاشیہ نہ لکھ کر حاشیہ پر حضرت امام نووی کی بابرکت شرح شائع فرمانے کا منصوبہ بنایا، صحیح مسلم کے اس نسخہ کی طباعت، بخاری شریف کی جلد ثانی کی طباعت مکمل ہونے سے پہلے تقریباً سنہ ۱۲۶۹ھ میں شروع ہو گئی تھی، اس کا حضرت مولانا نے بخاری شریف کے جلد ثانی کے خاتمےمیں اعلان بھی کر دیا تھا۔ اس اعلان کے مطابق نسخہ غالباً سنہ ۱۲۷۰ھ کے قریب شائع ہو گیا تھا اور اس قدر مقبول ہوا کہ صحیح بخاری کی پہلی طباعت کی طرح اس کے نسخے چند دنوں میں ختم بلکہ ناپید ہو گئے تھے (یہ طباعت اس درجہ کم یاب ہے کہ راقم سطور کو خاصی تلاش کے باوجود اس کے کسی نسخے کا سراغ نہیں ملا) مگر کتاب کی طلب اسی طرح باقی تھی۔ اس لیے حضرت مولانا نے اس کی دوسری طباعت پر فوراً توجہ کی، جو حضرت مولانا کے ایک شاگرد، مولانا محمد حسین فقیر (بنتی دہلوی) کی تصحیح، حضرت کے اہتمام وانصرام سے مطبع أفضل المطالع، شاہدرہ دہلی سے شائع ہوئی۔ اس کے آغاز پر حضرت مولانا احمد علی نے حضرت شاہ محمد اسحاق سے اپنی سند درج کی ہے، آخر میں مولانا محمد حسین فقیر کے قلم سے اختتامیہ ہے، سنہ طباعت درج نہیں، قیاسا ۷۲-۱۲۷۱ھ (۵۶-۱۸۵۵ء) کی طباعت ہے۔
حضرت مولانا کے چھوٹے بھائی اور ناظم مطبع، شیخ ظفر علی کے اہتمام سے صحیح مسلم کا یہی نسخہ جس کے حاشیہ پر شرح نووی ہے، آج تک اسی طرح اسی ترتیب بلکہ تقریباً اسی طرز کتابت پر شائع ہو رہا ہے اور حضرت مولانا کی حسنات میں اضافہ کر رہا ہے۔
سنن ترمذی کا حاشیہ اور طباعت ۱۲۶۵ھ
حضرت مولانا نے صحیح بخاری کے حاشیہ کی ترتیب وتدوین کے ساتھ ہی سنن ترمذی پر بھی کام شروع کر دیا تھا، اس پر بھی حضرت مولانا نے حاشیہ لکھا اور متن کی کسی قدر تصحیح کی، مگر سنن ترمذی کے حاشیہ اور تصحیح دونوں میں اس درجہ کا اہتمام نظر نہیں آتا جس کا حضرت مولانا نے صحیح بخاری میں التزام کیا ہے۔ ترمذی شریف کا یہ نسخہ جو غالباً سنہ ۱۲۶۴ھ (۱۸۴۸ء) کے اواخر میں مکمل ہو گیا تھا اور صفر سنہ ۱۲۶۵ھ (جنوری ۱۸۴۹ء) میں مطبع العلوم دہلی میں اس کی طباعت شروع ہوگئی، مگر جو صورت صحیح بخاری کی طباعت میں پیش آئی تھی یہاں اس سے سابقہ ہوا، طباعت کی رفتار بہت کم تھی اور خود حضرت مولانا کا مطبع بھی شروع ہو چکا تھا، اس لیے اس کی طباعت بھی مطبع احمدی میں منتقل ہوئی، صفر سنہ ۱۲۶۵ھ میں اس کی دونوں جلدوں کی طباعت مکمل ہوئی۔
اس نسخے کے متن کی تصحیح اور مقابلہ میں حضرت مولانا مملوک العلی، مولانا احمد علی کے رفیق ومددگار تھے، سنن ترمذی کا یہ نسخہ بھی حضرت مولانا کی مرتب اور شائع کی ہوئی کتابوں کی طرح مقبول خاص وعام ہوا اور آج تک اسی طرح چھپ رہا ہے۔
رسالہ اصول حدیث علامہ سید شریف جرجانی ۱۲۶۵ھ
حضرت مولانا نے صحیح بخاری کے آغاز پر ایک مفصل مقدمہ تحریر فرمایا تھا مگر سنن ترمذی کے لیے علاحدہ سے مقدمہ نہ لکھ کر اس کے مقدمہ کے طور پر علامہ سید شریف جرجانی کے رسالہ اصول حدیث کا انتخاب کیا، یہ رسالہ جو سنن ترمذی کی مذکورہ طباعت کے ساتھ چھپنا شروع ہوا تھا، آج تک اس کے ایک حصے کے طور پر شائع ہورہا ہے۔
مشکوۃ المصابیح ۱۲۶۹ھ
حضرت مولانا احمد علی نے اپنے طریقۂ کار کے مطابق مشکوٰۃ المصابیح کو بھی مرتب کیا اور اس پر بھی اور کتابوں کی ترتیب پر مفصل جامع حاشیہ لکھا، اس کا طریقۂ کار بھی تقریباً وہی ہے جو صحیح بخاری اور سنن ترمذی کے حاشیہ کا ہے۔مشکوۃ المصابیح کا یہ نسخہ اور کتابوں کی نسبت زیادہ مقبول ہوا۔ اس کا دوسرا ایڈیشن سنہ ۱۲۷۱ھ (۱۸۵۵ء) میں چھپا، تیسرا ۱۲۷۲ھ میں (۱۸۵۶ء) میں۔ اس کے بعد ایک مرتبہ حضرت مولانا کے مطبع احمدی میرٹھ سے بھی چھپا اور اس وقت سے آج تک متواتر چھپ رہا ہے۔
مقدمہ شیخ عبدالحق محدث ۱۲۶۹ھ
حضرت مولانا نے سنن ترمذی کے ساتھ علامہ سید شریف جرجانی کا رسالہ اصول حدیث شائع کیا تھا۔ اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے مشکوٰۃ المصابیح کے آغاز پرشیخ عبدالحق محدث کا مقدمہ مشکوٰۃ المصابیح پہلی مرتبہ شائع کیا تھا۔
یہاں یہ بھی عرض کر دیا جائے کہ حضرت مولانا کا مرتبہ مشکوٰۃ المصابیح کا یہ نسخہ اور اس کے حاشیے دنیائے عرب میں متعارف تو پہلے بھی تھے اور ان کا تذکرہ بھی کیا جاتا تھا، مگر تقریباً دو سال پہلے ایک عرب فاضل رمضان بن احمد بن علی آل عوف العوف نے حضرت مولانا کے حواشی کو کسی قدر تعلیق وتحقیق کے بعد نسخہ قدیمہ ہندیہ کے نام سے چھ جلدوں میں شائع کر دیا ہے۔ چھٹی آخری جلدمؤلف مشکوٰۃ کی الاکمال فی اسماء الرجال اور فہارس پر مشتمل ہے۔ یہ نسخہ مکتبہ التوبہ اور دار ابن حزم بیروت سے سنہ ۱۴۲۳ھ؍ ۲۰۰۳ء میں چھپا ہے۔ نہایت افسوس ہے کہ مرتب اور ناشر دونوں اس جلیل القدر حاشیے کے حاشیہ نگار حضرت مولانا احمد علی اور اس نسخے کے پس منظر سے واقف نہیں۔ سنا ہے کہ اس کے بعد حضرت مولانا کے حاشیہ صحیح بخاری پر بھی اسی قسم کا کام شروع ہوا ہے۔
حصن حصین ۱۲۷۱ھ
حضرت مولانا نے علامہ جزری کی حصن حصین کا بھی ایک عمدہ خوش قلم نسخہ جس پر مختصر افادات بھی درج ہیں، مطبع احمدی سے سنہ ۱۲۷۱ھ سے شائع کیا تھا، آخر میں قطعۂ تاریخ بھی درج ہے۔
تقریب التہذیب ۱۲۷۱ھ
رجال حدیث پر شیخ الاسلام حافظ ابن حجر کی مشہور کتاب تقریب التہذیب بھی سنہ ۱۲۷۱ھ میں اپنے مطبع سے شائع فرمائی تھی مگر اس نسخہ پر نہ کوئی مقدمہ ہے نہ حواشی، لیکن سرورق پر اور آخر میں مطبع کا نام اور سنہ طباعت ۱۲۷۱ھ (۱۸۵۵ء) درج ہے۔
سنن ابوداؤد ۷۲-۱۲۷۱ھ
حضرت مولانا نے جن کتابوں کی تصحیح وحاشیہ اور طباعت کا ارادہ کیا تھا، ان میں سنن ابوداؤ بھی شامل تھی۔ حضرت مولانا کو اس کا مکہ معظمہ میں قیام کے زمانے سے خیال تھا، اس مقصد کے لیے مکہ سے سنن ابوداؤد کا ایک نہایت عمدہ صحیح نسخہ ساتھ لائے تھے مگر یہاں آکر تحقیق وحواشی اور طباعت واشاعت کے جس بڑے سلسلے کا آغاز ہوااور اس میں حضرت مولانا کی جو بے پناہ مصروفیت رہی اس کی وجہ سے حضرت مولانا کو سنن ابو داؤد پر حاشیہ لکھنے کا موقع نہیں ملا اور اس نسخہ کی طباعت میں بھی تاخیر کا اندیشہ ہو گیا جو حضرت مولانا نے مرتب فرما رکھا تھا تو حضرت مولانا نے یہ خدمت اپنے استاذ حضرت شاہ محمد اسحاق کے ایک پرانے شاگرد اور دہلی کے مشہور عالم اور مدرس مولانا نوازش علی کے سپرد کر دی۔ مولانا نوازش علی نے اس خدمت کو توجہ اور اہتمام سے تکمیل تک پہنچایا۔ سنن ابوداؤد کا یہ نسخ مطبع قادری دہلی سے مولانا محمد بن بارک اللہ پنجابی کے حواشی اور اہتمام سے شعبان سنہ ۱۲۷۲ھ (۱۸۵۶ء) میں شائع ہوا تھا۔ یہ نسخہ سنن ابوداؤد کے دنیا بھر کے مطبوعہ نسخوں میں صحت متن کے لحاظ سے بے نظیر ہے۔ علمائے عرب وعجم اس کی صحت وکمال کے مداح ومعترف ہیں، مثلاً مولانا شمس الحق ڈیانوی نے عون المعبود میں اس نسخہ کاذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’’وہو أصل صحیح لم یوجد لہ نظیر‘‘۔
اگرچہ اس نسخے کی طباعت حضرت مولانا احمد علی کے انتظام سے نہیں ہوئی مگر یہ طباعت بھی حضرت مولانا کا کارنامہ ہے اور ان کی توجہ محنت اور رہنمائی بلکہ مکمل علمی سرپرستی سے وجود میں آئی تھی۔
موطأ امام مالک بہ حاشیہ مولانا محمد مظہر کی اشاعت ۱۲۶۶
یہ حاشیہ اگرچہ حضرت مولانا کے قلم فیض رقم کا ثمر نہیں ہے مگر اس کی مقبولیت اور متواتر طباعت میں حضرت مولانا کی برکت اور مطبع کا اثر ضرور شامل ہے۔ موطأامام مالک کا یہ حاشیہ حضرت مولانا محمد مظہر نانوتوی نے لکھا تھا۔ حضرت مولانا کے مطبع احمدی دہلی سے سنہ ۱۲۶۶ھ میں پہلی مرتبہ شائع ہوا تھا۔ یہ موطأ امام مالک کا وہی حاشیہ ہے جو عموما تمام اہل درس اور طلبہ کے ہاتھوں میں رہتا ہے۔ ہند وپاکستان وغیرہ میں اس کی طباعت اور اس سے استفادہ حدیث شریف کے ہر ایک عالم وطالب علم کا گویا دائمی معمول ہے۔
حضرت مولانا کا آخری علمی کارنامہ قسطلانی شرح بخاری کی تصحیح واشاعت
میری معلومات میں حضرت مولانا کا آخری علمی تصنیفی اشاعتی کارنامہ قسطلانی کی ارشاد الساری شرح بخاری کی تصحیح وطباعت ہے۔ یہ نسخہ حضرت مولانا کی ہدایت پر حضرت مولانا کے بڑے صاحبزادے مولانا حبیب الرحمن بیدل سہارن پوری نے (جو غالب کے بھی ممتاز شاگردوں میں تھے) قلمی نسخوں کی مدد سے صحیح ومرتب کیا۔ یہ نسخہ پہلے مطبع نظامی کانپور سے، دوبارہ مطبع منشی نول کشور لکھنؤ سے چھ جلدوں میں چھپا تھا۔ بہت عمدہ صاف ستھری طباعت ہے۔
الدلیل القوی علی ترک القراءۃ للمقتدی
متعدد متون حدیث کی تصحیح، تحقیق اور حواشی و طباعت کے علاوہ حضرت مولانا کی قرأت خلف الامام کے موضوع پر ایک تالیف بھی ہے، جس میں حضرت مولانا نے اس سلسلے کی احادیث نقل فرمائی ہیں اور قرأت خلف الامام کے دونوں پہلوؤں پر علمی فنی استدلالی گفتگو کی ہے۔ یہ رسالہ فارسی میں لکھا تھا، جو مطبع احمدی دہلی سے شعبان سنہ ۱۲۷۰ھ میں شائع ہوا۔ یہ رسالہ ستائیس صفحات پر مشتمل ہے۔
اردو ترجمہ الدلیل القوی۱۲۹۵ھ
الدلیل القوی کی طباعت کے پچیس سال بعد، حضرت مولانا نے مولانا محمد بن مولانا عبدالقادر لدھیانوی کی فرمائش پر اس کا خودہی اردوترجمہ کیا۔ یہ ترجمہ بھی اصل کتاب کے ہی نام سے، مطبع منشی رحمت اللہ لدھیانہ سے رجب سنہ ۱۲۹۵ھ میں چھپا تھا۔ یہ اشاعت یا ترجمہ پچاس صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس سال اس ترجمہ کی اشاعت ہوئی، اس سال علامہ شبلی نعمانی حضرت مولانا کی خدمت میں حدیث پڑھنے کے لیے حاضر تھے۔ علامہ حضرت الاستاذ اور ان کے رسالے سے بہت متاثر تھے اور اس کی تائید وتقلید میں علامہ نے ’’اسکات المعتدی‘‘ تالیف کیا تھا۔
بعض الناس فی دفع الوسواس کی اشاعت
حضرت امام بخاری کا معمول ہے کہ وہ الجامع الصحیح میں فقہی کلامی مباحث میں قال بعض الناس کے مبہم اشارہ سے بعض معاصر اور قریب العہد فقہائے مجتہدین یا محدثین کے نظریات ومسائل کی تردید فرماتے ہیں، جس کی زد میں کئی موقعوں پر حضرت امام ابوحنیفہ بھی آئے ہیں، چوں کہ حدیث پڑھنے والوں کے لیے ہمیشہ یہ ایک بحث طلب مسئلہ اور سوال ہوتا ہے، اس لیے غالباً حضرت مولانا احمد علی کی فرمائش پر ایسے تمام اعتراضات کا مدلل جواب لکھا گیا، جس کو مؤلف نے ’’بعض الناس في دفع الوسواس‘‘ کے نام سے موسوم کیا تھا۔ اس رسالے کو حضرت مولانا کے صاحب زادوں مولانا عبدالرحمن اور مولانا خلیل الرحمن صاحبان نے علاحدہ علاحدہ موقعوں پر شائع کیا، اس رسالے کے مؤلف کی تحقیق نہیں۔ ایک روایت یا خیال ہے کہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی یا مولانا خلیل احمد اسرائیلی علی گڑھی جو حضرت مولانا نانوتوی کے شاگرد بھی تھے، اس کے مؤلف ہیں۔ مگر دونوں روایتوں کی تصدیق مشکل ہے۔ بعض الناس کی اشاعت کے بعد اس کے کئی جواب لکھے گئے۔ علمائے احناف نے ان کے جواب الجواب بھی تحریر کیے ہیں۔
چند اور علمی خدمات
یہ حضرت مولانا کی صرف حدیث کے موضوع کی تصنیفی اشاعتی خدمات کا اجمالی تذکرہ ہے لیکن حضرت مولانا کے عمل کا دائرہ اور بھی متعدد موضوعات میں پھیلا ہوا تھا۔ حضرت مولانانے تفسیر، فقہ، اصول، کلامیات وعقائد، تاریخ وادب وغیرہ موضوعات پر پچاسوں کتابوں کی تصحیح وحواشی کا اور اپنے معمول کے مطابق عمدہ طباعت کا اہتمام کیا۔ ایسی کتابوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ مذکورہ بالا کتابوں کے علاوہ حضرت مولانا کے مطبع کی تقریباً چالیس کتابوں کا مجھے علم ہے۔ قرآن کریم کے نہایت عمدہ اور صحیح نسخے، جس میں ایک نسخہ اس وجہ سے قابل ذکر ہے کہ اس کی تصحیح میں حضرت شاہ ابوسعید مجددی، حضرت الغنی، حضرت مولانا محمد مظہر نانوتوی، حضرت مولانا احمد علی محدث سہارن پوری اور جامع مسجد دہلی کے امام مولانا سید احمد، نیز دہلی کے اعلیٰ درجہ کے قراء اور ماہرین شامل تھے۔ یہ قرآن مجید اس قدر صحیح تھا کہ اس میں ایک غلطی کی نشاندہی پر دواشرفی کے انعام کا اعلان کیا گیا تھا۔ حضرت مولانا نے اس کے علاوہ بھی کئی مرتبہ قرآن مجید شائع کیا، ہر ایک اشاعت میں کوئی خصوصیت اور امتیاز ضرور ہے۔
تفاسیر میں تفسیر بیضاوی اور تفسیر جلالین کے نہایت عمدہ صحیح نسخے شائع کیے۔ تفسیر بیضاوی پر علماء کی ایک جماعت سے علاحدہ مفصل حاشیہ لکھوایا، جس میں شیخ احمد بن محمد یمانی اور مولانا فیض الحسن سہارن پوری جیسے صاحب فن صاحب نظر علماء بھی شامل تھے۔ تفسیر بیضاوی دو بڑی جلدوں میں سنہ ۱۲۹۸ھ میں چھپی تھی، اسی سال میں تفسیر جلالین بھی شائع کی، اس پر حاشیہ نہیں ہے۔
حضرت مولانا کی مرتب اور شائع کی ہوئی کتابوں میں فارسی کی بعض اہم مصنفات مثلاً تحفہ اثنا عشریہ حضرت العزیز، اخبار الاخیار شیخ عبدالحق، احوال ومقامات حضرت مرزا مظہر وغیرہ بھی شامل ہیں جو ان سب کتابوں کے آج تک سب سے بہتر اور صحیح ترین نسخے شمار کیے جاتے ہیں اور بھی متعدد کتابیں حضرت مولانا کے فیوض توجہ سے شائع ہوئیں یہاں ان کے تعارف کی ضرورت نہیں۔
یہ حضرت مولانا کی علمی تصنیفی خدمات کا ایک اجمالی سرسری جائزہ ہے۔ امید ہے کہ حضرات اہل علم ان معروضات پر اضافے فرما کر کاروانِ علم وتحقیق کو آگے بڑھائیں گے۔

