حسنِ انجام اور قرآن و حدیث

شاہ اجمل فاروق ندوی

مشہور انگریزی مصنف روبن شرما نے ایک سوال اٹھایا ہے:

A gun would be too violent. A noose would be too ancient. And a knife blade to the wrist would be too silent. So, the question became, How could a once-glorious life be ended swiftly and precisely, with minimum mess yet maximum impact?
(Robin Sharma, The 5 AM Club, Jaico Publishing House, Mumbai, 2018. page 1.)


ایک بندوق بہت پرتشدد ہوسکتی ہے۔ ایک پھانسی کا پھندہ بڑا پرانا ہوسکتا ہے۔ کلائی تک پہنچنے والا ایک چاقو نہایت خاموش ہوسکتا ہے۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ عطا ہونے والی زندگی کے پرسکون اور شاندار خاتمے کو کم سے کم نقصان اور زیادہ سے زیادہ تاثیر کے ساتھ کس طرح یقینی بنایا جاسکتا ہے؟
آج کی دنیا میں مادیت کے پیچھے دن رات دوڑنے والاانسان بھی کبھی نہ کبھی اس طرح کے سوالات پر غوروفکر کرہی لیتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ صنعتی انقلاب نے انسان کی زندگی پرسکون بھی بنائی ہے اور پرخطر بھی۔ مادی ترقیوں سے دور فطری زندگی گزارنے والا انسان بہت سی مشقتیں برداشت کرتا تھا، لیکن اسی پچاسی سال جیتا تھا۔ آج کا انسان سہولتوں سے بھری ہوئی زندگی تو گزارتا ہے لیکن پچاس پچپن سال میں بوریا بسترا لپیٹ لیتا ہے۔ اس صورتِ حال نے بھی انسان کو مذکورہ سوال کی طرف متوجہ کیا ہے۔
غور سے دیکھا جائے تو یہ سوال نیا نہیں ہے۔ ہر دور میں انسان کے ذہن میں اس طرح کے سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ مصر، یونان، ہندستان، چین اور عرب کے شاید ہر فلسفی نے اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کی ہے۔ آج کے فلاسفہ و مصلحین بھی اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ سوالات کچھ لوگوں کی مذہب بے زاری کا ذریعہ بنے ہیں، تو بے شمار لوگوں کی مذہب سے وابستگی انھیں سوالات کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔
چھٹی صدی عیسوی میں عرب کے مطلعے سے طلوع ہونے والے آفتابِ ہدایت نے بھی دنیا کو اس سوال کا جواب سمجھایا۔ ایسا سمجھایا کہ ماضی کے فلاسفہ کے نظریات بھی فضول لگنے لگے اور عہدِ جدید کے پڑھے لکھوں کی بحثیں بھی لن ترانی لگنے لگیں۔ اللہ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ جو کتاب لائے اور اپنے قول و عمل سے اس کی جو تشریحات بیان کیں، ان میں انسانی زندگی کے ہر سوال کا جواب اور ہر مشکل کا حل بتادیا گیا ہے۔
یہاں اس کا موقع نہیں کہ مذکورہ سوال اور اس کے قرآنی یا نبوی پر سیر حاصل گفتگو کی جائے البتہ ایک بنیادی نکتے پر توجہ دلائی جاتی ہے۔ یہ نکتہ ایک اصول، ایک کلیہ اور ایک نسخہ(Formula) ہے۔ اس سے لاتعداد شاخیں پھوٹتی ہیں۔
قرآن و حدیث کی تعلیمات کا اعتقادی محور توحید اور عملی محور تقویٰ ہے۔ ان دونوں میں اگر کوئی فرق ہے تو صرف یہ کہ ایک عقیدے کی چیز ہے اور دوسری کردار کی۔ ورنہ یہ دونوں ہیں ایک ہی۔ ہم انھیں لازم و ملزوم بھی کہہ سکتے ہیں۔ انسان اپنا مقصود و منتہا صرف ایک ذات کو بنائے، اپنے دل میں صرف اسی کو بسائے اور زندگی کے ہر کام میں اسی کی پسند ناپسند کا خیال رکھے۔ ایسے انسان کا آغاز بھی اچھا ہوگا اور انجام بھی۔ اس کا اندرون بھی چمکے گا اور بیرون بھی۔ یہ شخص اپنے جسم کی کائنات کو بھی کامیابی کے ساتھ منزل تک پہنچائے گا اور خارجی نظام کائنات کو بھی۔
یہاں یہ نکتہ بھی قابل لحاظ ہے کہ اسلام میں زندگی اور موت ایک دوسرے سے بندھے ہوئے ہیں۔ مزید یہ کہ یہاں آغاز وانجام کا ہر معاملہ قادرِ مطلق کے ہاتھ میں ہے۔ یہاں کسی غاصب کو مرنے کے بعد پوجا ارچنا کرکے موکش پراپت نہیں ہوسکتا۔ یہاں ایسا کوئی تنتر منتر نہیں ہے جس کا زبانی جاپ بدکردار کو باکردار اور عمر بھر کے ناکام کو مرتے وقت کامیاب کردے۔ یہاں عقیدے کے ساتھ عمل اور عمل کے ساتھ عقیدہ ایسا گندھا ہوا ہے کہ اسے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں زندگی بھر کے اعمال کا مدار اچھی نیتوں پر اور اچھے خاتمے پر ہے۔ نجاتِ اخروی کا خواہش مند انسان جتنی جلدی نجات کے اس فارمولے کو سمجھ لے گا، اس کے لیے اتنا ہی اچھا ہوگا۔

اس کیو آر کوڈ کو اسکین کرکے ادارے کا تعاون فرمائیں یا پرچہ جاری کرانے کے لیے زرِ خریداری ٹرانسفر کریں۔ رقم بھیجنے کے بعد اسکرین شاٹ ضرور ارسال کریں تاکہ آپ کو رسید بھیجی جاسکے۔ شکریہ