قرآن کریم میں ناسخ و منسوخ کی تعداد کی بابت علمائے متقدمین و متأخرین میں اختلاف ہے۔ حضرات متقدمین کے نزدیک ناسخ و منسوخ کی تعداد زیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی رائے میں عام کی تخصیص، خاص کی تعمیم، مطلق کی تقیید، مقید کا اطلاق، استثنا و ترک استثنا، حکم کا بالکلیہ منسوخ ہو جانا اور علت و سبب کے ختم ہو جانے کے باعث، حکم کا موقوف ہو جانا، یہ سب نسخ کہلاتا ہے۔ ان کے برخلاف متأخرین نے نسخ کی تعداد کو کم کرنے کی کوشش کی۔ چناں چہ امام جلال الدین سیوطی نے بیس مقامات میں نسخ تسلیم کیا ہے، جب کہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی صرف پانچ جگہوں پر نسخ کے قائل ہیں۔ حضرت الاستاذ فرماتے تھے کہ قرآن متلو میں کوئی ایک بھی آیت حکماً منسوخ نہیں ہے، بہ ایں طور کہ کسی بھی صورت اور محمل میں اس کا حکم باقی نہ ہو، بلکہ کسی مرتبے، کسی حالت اور کسی نہ کسی وقت میں وہ حکم مشروع ضرور رہتا ہے۔ حضرت الاستاذ نے جو بات فرمائی، نہایت اہم ہے۔
فرماتے! قرآن کریم میں ایک بھی حرف زیادہ نہیں، جس کا معنی و مفہوم کی تصویر کشی میں کوئی دخل نہ ہو، چناں چہ علامہ ابن اثیر جزری کی ’’المثل السائر، ص: ۱۴۵‘‘ پر لکھتے ہیں کہ ارشاد باری تعالیٰ ’’فبما رحمۃ من اللہ لنت لہم‘‘ میں حرف ’’ما‘‘ زائد نہیں ہے، بلکہ یہ اس نعمت الٰہی کی جلالت شان اور اہمیت کو بتانے کے لیے آیا ہے، جس کے سبب رسول اکرمﷺ کا قلب نرم ہو گیا تھا۔ یہ عین تقاضائے فصاحت ہے۔ اگر یہاں حرف ’ما‘ نہ ہوتا تو جلالت وعظمت شان معلوم نہ ہوتی۔ قدیم اہل عرب کے یہاں بھی اس طرح کی ترکیبیں پائی جاتی ہیں، مثلاً ’’زبّاء‘‘ کہتا ہے: ’’أما انہ لیس ذلک من عوز المواس ولا من قلۃ الأواس ولکنہ شیمۃ ما أناس‘‘ ترتیب جملہ یوں ہے ’’ولکنہ شیمۃ أناس‘‘ أناس سے پہلے حرف ’’ما‘‘ اس عادت کے حامل کی جلالت قدر اور عظمت شان کو بتانے کے لیے لایا گیا ہے۔ اگر اس جملے سے ’’ما‘‘ کو ساقط کر دیا جائے تو یہ عظمت و جلالت باقی نہ رہے گی۔ اس نزاکت کو علمائے فصاحت وبلاغت ہی اچھی طرح سے جانتے ہیں۔
’’جہاں تک علمائے نحو کی اس بات کا تعلق ہے کہ ’’ما‘‘ زائدہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’ما‘‘ اپنے ماقبل کے عامل کو عمل کرنے سے روکتا نہیں ہے۔ علمائے نحو بعض مقامات پر ’’ما‘‘ کو ’’کافہ‘‘ کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ’’ما‘‘ اپنے ماقبل کے عامل کو مابعد میں عمل کرنے سے روک دیتا ہے۔ آیت بالا میں بھی ’’ما‘‘ زائد ہے کہ اس کی وجہ سے ’’با‘‘ حرف جار کے لفظ ’’رحمۃ‘‘ پر عمل کرنے میں کوئی فرق نہیں پڑا۔
شیخ رافعی اپنی کتاب ’’اعجاز القرآن‘‘، طبع سوم، ص: ۳۰۴؍ پر رقم طراز ہیں:
’’پھر جن حروف والفاظ کی بابت خیال ہے کہ وہ قرآن میں زائد ہیں، جیسے علمائے نحو ارشاد باری تعالیٰ فبما رحمۃ من اللہ لنت لہم اور فلما أن جاء ہ البشیر کی بابت کہتے ہیں کہ پہلی آیت میں حرف ’ما‘ اور دوسری میں حرف ’’أن‘‘ زائد ہے، یعنی از روئے اعراب بھی اور از روئے معنی بھی تو جس شخص کو بصیرت نہیں وہ سمجھتا ہے کہ جیسے یہ حروف اعراب کے لحاظ سے زائد ہیں، ویسے ہی نظم میں بھی زائد ہیں۔ حالاں کہ ان حروف کا معنی و مفہوم کی تشریح و توضیح میں ایک کردار ہے اگر انہیں حذف کر دیا جائے تو نظم قرآنی کا حسن و جمال اور عظمت و جلالت شان جاتی رہے۔ پہلی آیت کا مقصد حضور اکرمﷺ کی اپنی قوم کے حق میں نرم دلی اور اس بات کی تصویر کشی کی ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کی رحمت خاص ہے۔ حرف ’’ما‘‘ کے ذریعہ اس نرم دلی کی عظمت وجلالت شان موکد ہوگئی ہے۔ مزید برآں اس کا انداز کا تلفظ شفقت و عنایت کا پتہ دیتا ہے اور یہ مفہوم اس سے بہتر صورت میں کسی دوسری ترکیب سے پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔ نیز حرف جار ’’با‘‘ اور اس کے معمول مجرور ’’رحمۃ‘‘ میں حرف کے ذریعہ فصل کرنے کے سبب، طبیعت اس کے معنی ومفہوم پر غور کرنے اور اس میں پائی جانے والی رحمت الٰہی کی اہمیت اور قدر وقیمت کا اندازہ لگانے کے لیے لازمی طور پر متوجہ ہوتی ہے اور یہ سب کچھ اس آیت کی بلاغت و فصاحت کے تعلق سے ایک قدرتی سی بات ہے۔ جب کہ دوسری آیت کا مقصد اس فاصلہ اور بعد مسافت کی تصویر کشی ہے جو خوش خبری دینے والے قاصد کے حضرت یوسف علیہ السلام کا کرتا لے کر چلنے اور اس کی کنعان آمد کے درمیان پایا جاتا تھا کہ حضرت یوسف تو مصر میں تھے اور ان کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کنعان میں۔ نیز یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام بڑی بے چینی اور اضطراب کے عالم میں اس قاصد کی آمد کے منتظر تھے۔ یہ بے چینی اور قاصد کی آمد پر بے پناہ مسرت، کلمہ فاصلہ ’’أن‘‘ کے غنہ سے مزید موکد ہو جاتی ہے۔ الغرض! قرآن کریم کے جن الفاظ و حروف کی بابت یہ خیال ہے کہ زائد ہیں وہ سب اسی قسم کے معنی و مفہوم کی توضیح و تاکید کے لیے آئے ہیں۔ بالکل ہی زائد اور خالی از معنی نہیں؛ کہ یہ بات قرآن کریم میں نقص کے مترادف ہے۔‘‘
حضرت الاستاذ فرماتے کہ علمائے اصول کے یہاں جو یہ قاعدہ مشہور ہے کہ ’’اعتبار عموم الفاظ کا ہوتا ہے، نہ کہ خاص سبب و پس منظر کا‘‘ تو یہ قاعدہ عام اور کلی نہیں ہے۔ بلکہ اس حوالے سے سب سے اہم چیز متکلم کا مقصد و منشا معلوم کرنا ہے، اس لیے کہ یہ ضروری نہیں کہ متکلم کا کلام ہر حال میں اس کے مقصد ومنشا کے مساوی وہم وزن رہے۔ چناں چہ بعض اوقات کلام متکلم کے مقصد سے عام ہوتا ہے، بعض اوقات اس سے خاص اور کبھی بالکل مساوی و یکساں عموم الفاظ کا اعتبار اس وقت کیا جاتا ہے جب متکلم کا مقصد متعین نہ ہو اور نہ ہی کسی دلیل سے اس کا منشا معلوم ہو سکے۔ مثلاً ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’فاقرؤا ما تیسر منہ‘‘ پس پڑھو قرآن میں سے جو آسان ہو۔ کیا عموم الفاظ کو دیکھتے ہوئے اس سے یہ مراد لیا جانا درست ہے کہ پورے قرآن میں سے کوئی بھی ایک آیت نماز میں پڑھ لی جائے تو کافی ہے، نماز ہو جائے گی خواہ سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے؟ اگر کوئی شخص نماز کے دیگر فرائض و ارکان کی رعایت کیے بغیر، صرف ایک آیت پڑھ لے تو کیا اسے حکم قرآنی بجالانے والاکہا جائے گا؟ اور کیا سورۂ فاتحہ پڑھے اور دیگر فرائض و واجبات کی بجا آوری کے بغیر نماز ادا کرنے کو اس حکم قرآنی پر عمل کرنا قرار دیا جائے گا؟ ظاہر ہے کہ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ جس کسی کا بھی یہ خیال ہے درست نہیں اور وہ جادۂ مستقیم سے ہٹا ہوا ہے۔ اس حکم سے تو قرآن کا مقصد بیماروں، مسافروں اور مجاہدین کے لیے قرأت میں تخفیف بیان کرنا ہے، کیوں کہ ان کے لیے نماز تہجد پڑھنی دشوار ہے۔ جہاں تک سورۂ فاتحہ کی رکنیت اور وجوب کا مسئلہ ہے تو یہ اس حکم الٰہی سے بالکل الگ ہے اوراس حکم قطعی پر زیادتی ہے، دلیل فنی مثلاً خبر آحاد کے ذریعہ۔ چناں چہ احناف کے نزدیک مرتبۂ ظن میں یہ جائز ہے کہ حکم قطعی پر کسی ظنی حکم کی زیادتی کی جائے، جو درجہ میں اس حکم قطعی سے کم تر ہو، اگر چہ اس پر عمل کرناضروری اور واجب ہو۔ جب کہ شوافع کے نزدیک سورۂ فاتحہ کا پڑھنا درجۂ قطعیت میں فرض ہے۔ احناف ظنی حکم کو یکسر نظر انداز نہیں کرتے جیسا کہ سمجھا جاتا ہے، بلکہ احناف قطعی اور ظنی کے دومرتبے قائم کرتے ہیں۔ اس طرح ہر حکم کو اس کا جائز مقام مل جاتا ہے کہ جو حکم دلیل قطعی سے ثابت ہے فرض اور جو دلیل ظنی سے ثابت ہے واجب۔ احناف کے یہاں جو یہ عام تعبیر ہے کہ ’’کتاب اللہ پر خبر واحد سے زیادتی کرنا جائز نہیں‘‘ تو یہ تعبیر مناسب نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ احناف یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص سورۂ فاتحہ نہ پڑھے بلکہ کوئی دوسری سورت نماز میں پڑھے تو نماز دوبارہ پڑھنی ہوگی۔ قطعیات میں اجمال و ابہام کسی خاص مقصد کے لیے ہوتا ہے، مثلاً امت کے لیے تسہیل وتیسیر کی خاطر۔ یہ ہے حضرت الاستاذ کے افادات کا حاصل جو احقر نے سمجھا ہے۔
احقر نے حافظ حدیث امام ابن دقیق العید رحمہ اللہ کی کتاب ’’إحکام الأحکام‘‘ میں ایک نہایت اہم اور مفید بات دیکھی، جو حضرت الاستاذ کے کلام سے قریب تر ہے۔ حافظ ابن دقیق العیدؒ فر ماتے ہیں:
’’مشہور ہے کہ اعتبار عموم الفاظ کا ہوتا ہے نہ کہ خاص سبب کا۔ مگر اس مناسبت سے دلالت سیاق، عام کو خاص کرنے کے قرائن اور متکلم کے مقصد ومنشا نیز محض عام کے سبب کے مطابق وارد ہونے کے درمیان پائے جانے والے فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔ ان دونوں کو ایک ہی جگہ نہیں رکھا جا سکتا۔ اس لیے کہ سبب کے مطابق عام کا وارد ہونا اس کی تخصیص کا مقتضی نہیں ہوتا۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ’’والسارق والسارقۃ فاقطعوا أیدیہما‘‘ چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کے ہاتھ کاٹ دو- اس آیت کا شان نزول حضرت صفوان کی چادر چوری کیے جانے سے متعلق ہے، مگر بہ اتفاق حکم سرقہ اسی شانِ نزول کے لیے خاص نہیں ہے۔ چناں چہ سیاق کلام اور قرائن بتاتے ہیں کہ اس سے متکلم کا مقصد کیا ہے؟ اس سے مجمل کی تشریح اور محمل کی تعیین ہوتی ہے۔‘‘ (ص: ۲۲۵، ج ۲)
قرآن میں ناسخ ومنسوخ کی تحقیق
مولانا سید محمد یوسف بنوری

