ارتقائی استشراقی نظریات کا مطالعہ مغرب

صائمہ شہباز منج ؍محمد شہباز منج

ارتقائی استشراقی نظریات کا مطالعہ مغرب کی تصدیق وحی و نبوت محمدﷺ

وحی و نبوت محمدیﷺکے حوالے سے مغربی افکار و نظریات کی تاریخ بتاتی ہے کہ اہل مغرب نے اس ضمن میں مختلف ادوار میں مختلف مواقف اور نقطہ ہاے نظر اپنائے ہیں۔ ہم نے اس تاریخ کا جائزہ لیا تو اسلام اور اہل اسلام کے لیے ایک مثبت اور خوش آئندہ نتیجہ سامنے آیا۔ ذیل کی سطور میں اس جائزے اور نتیجے کو پیش کرنا مطلوب ہے۔ اہل مغرب کے مختلف زمانوں کے نظریات کا یہ ناقدانہ جائزہ ان کے اپنے ہی افکار پر مبنی ہے۔ ان کے افکار و نظریات کو انھی کے اصول مطالعہ و تجزیہ کی روشنی میں پر کھا گیا ہے۔ حاصل بحث ان کے ناقدانہ رویوں سے واضح طور پر مترشح ہوتا ہوا نتیجہ ہے۔
قرون وسطی کے افسانے اور ان کارد
وحی محمدی ﷺ سے متعلق روایتی مغربی تصورات کے مطالعے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پہلے زمانے میں اہل مغرب حضورﷺ پر وحی کی توجیہ کے لیے کسی اسلامی ماخذ کی طرف رجوع کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہ کرتے تھے۔ وہ کسی ایسے شخص کا تخیل قائم کرتے جس نے اپنے ذاتی مفادات کی غرض سے وحی کا ڈھونگ رچایا ہو ، اور اس تخیل کا مصداق آپ ﷺ کو ٹھہراتے۔ آپﷺپر وحی کی توجیہ کے لیے عجیب و غریب اور شرم ناک افسانے گھڑے گئے ۔ (1)
ایک عرصے تک اس نوع کے افسانے کہے جاتے رہے۔ پھر وہ دور آیا کہ مغربی اہل قلم نے اس نوع کے افسانوں پر سخت گرفت کرنا شروع کی؛ انھیں بے بنیاد اور لایعنی قرار دیا اور اہل مغرب کو ایسے فضول تخیلات سے نکلنے کی تلقین کی۔ مثلاً تھامس کارلائل (۱۷۹۵- ۱۸۸۱) نے حضورﷺ سے متعلق اس نوع کے تخیلات کو بے بنیاد ، جھوٹ پر مبنی اور نئے زمانے میں نا قابل دفاع قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب پوکاک (Pococke) نے گروشس (Grotius) (کبوتر پالنے کی کہانی کہنے والے) سے پوچھا کہ تمھارے پاس اس کہانی کا کیا ثبوت ہے، تو اس نے انتہائی ڈھٹائی سے جواب دیا : ” کوئی ثبوت نہیں۔ “ یعنی یہ کتنی شرم ناک بات ہے کہ ایک ایسی کہانی کا رواج ہو جائے جس کی سرے سے کوئی بنیاد ہی نہیں؟ اب زمانہ بہت بدل گیا ہے ۔ ایسی کہانیوں اور مفروضوں سے نجات حاصل کرنی چاہیے۔ کار لائل کے الفاظ ہیں:
جس نوع کا کذب افترا اس شخص( محمدﷺ) پر باندھا گیا وہ خود ہمارے لیے شرمناک ہے۔ جب پوکاک نے گروشس سے پوچھا کہ کبوتر کی کہانی کا کیا ثبوت ہے ، جس کے مطابق سدھایا ہوا کبوتر آپ ﷺ کے کان سے دانے چگتا تھا اور آپ ﷺکو خیال ہوتا تھا کہ فرشتہ آپﷺسے باتیں کر رہا ہے ؟ تو گروشس نے جواب دیا: کوئی ثبوت نہیں ! حقیقت یہ ہے کہ اس نوع کے افسانوں کے خاتمے کا وقت آگیا ہے۔ (2)
آپ ﷺکی وحی سے متعلق مغرب کی افسانوی کہانیاں، اب اہل مغرب کے ہاں بھی اس درجہ لغو ثابت ہو چکی ہیں کہ زمانہ حال کا کوئی قابل ذکر مستشرق اس ضمن میں کوئی دلیل دینا گوارا نہیں کرتا۔ عہد جدید کے ہر سنجیدہ مستشرق کے ہاں ان کہانیوں کا تذکرہ اہل مغرب کے عہد جہالت اور پیغمبر اسلام سے بے جا تعصب و نفرت کی یاد گار کے طور پر ہی ملتا ہے۔ وہ ایسی کہانیوں کو سختی سے رد کرتے اور واضح کرتے ہیں کہ آپ ﷺکو دھو کے باز یا جھوٹا قرار دینا حقیقت کے ساتھ مذاق اور انتہائی ظلم ہے۔ پرنسٹن یونیورسٹی کے معروف لبنانی نژاد استاد ڈاکٹر فلپ کے۔ ہٹی ( ۱۸۶۰- ۱۹۷۸) نے اہل مغرب کے ان افسانوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ قرون وسطی کے عیسائی محمدﷺ کو سمجھنے میں سخت غلطی کے مرتکب ہوئے ۔ آپﷺ کو نہایت حقیر کردار کا حامل ظاہر کیا گیا، نویں صدی عیسوی کے ایک یونانی قصہ گو نے آپﷺ کی تصویر کشی غلط انداز میں پیش کی۔ دانتے (۳) نے حضورﷺ کے جسم اطہر کے بارے میں توہین آمیز بیان لکھا۔ نبی کریمﷺ کے اسم مبارک کو بگاڑ کر دیگر معانی میں استعمال کرنے کی جسارت کئی مغربی اہل قلم کے ہاں ملتی ہے۔ منٹگمری واٹ جیسے مستشرقین نے اس طرز عمل پر تنقید کی ہے۔
واٹ نے ایک مقام پر لکھا ہے کہ دنیا کی کسی عظیم شخصیت کی اس قدر مسخ شدہ تصویر پیش نہیں کی گئی جیسی مغرب نے محمد ﷺکی پیش کی ۔ مغرب کی اس حماقت کا ذکر کرتے ہوئے واٹ نے اسے محمد ﷺکے خلاف مغرب کا سخت تعصب باور کرایا اور اس کے اسباب و وجوہ کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے مغرب کی دشمن اعظم تخلیق کرنے کی ضرورت کا شاخسانہ قرار دیا ہے، اس کے الفاظ ہیں:
دنیا کی عظیم شخصیات میں سے کسی شخصیت کی اتنی منفی و مسخ شدہ تصویر پیش نہیں کی گئی جیسی محمدﷺ کی پیش کی گئی۔ اوپر ہم نے دیکھا کہ یہ کیسے ہوا؟ صدیوں تک اسلام عیسائیت کا دشمن اعظم تھا، عیسائیت کا مسلمانوں کے مقابلے کی کسی دوسری منظم طاقت سے سابقہ نہ تھا۔ باز نطینی سلطنت عربوں کے ہاتھوں اپنے بعض اہم صوبے کھونے کے بعد ایشیا مائنر میں ان کے حملوں کی زد میں تھی ، جب کہ مغربی یورپ سپین اورسسلی سے خائف تھا۔ سر اسنز (4) کو ارض مقدس سے نکال پھینکنے کی بھر پور صلیبی کو ششوں سے بھی پہلے قرون وسطی کا یورپ ایک دشمن اعظم کا تصور تخلیق کر رہا تھا۔ ایک نکتہ وہ تھا جہاں محمد ﷺکو ماہو نڈ یعنی تاریکی کا شہزادہ بنا کر پیش کیا گیا تھا۔(5)
حضورﷺ پر لگائے گئے اہل مغرب کے الزامات کو رد کرتے ہوئے واٹ نے لکھا کہ محمدﷺ نے ایک ایسا روحانی اور سماجی نظام قائم کیا جو آج کی ترقی یافتہ دنیا کے چھٹے حصے کی رہ نمائی کر رہا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:
آپﷺنے معاشرتی تحفظ کا نیا نظام اور نیا خاندانی ڈھانچہ تشکیل دیا، یہ دونوں پہلے سے بہت اصلاح شدہ چیزیں تھیں۔ آپﷺ نے ایسا مذ ہبی و معاشرتی ڈھانچہ قائم کیا جو آج کی دنیا میں نسل انسانی کے چھٹے حصے کی رہ نمائی کا سامان ہے۔ یہ کام کسی دھو کے باز اور مکار آدمی کا نہیں ہو سکتا۔ (6)
آپ ﷺ کے اپنے مشن کے لیے سخت تکالیف برداشت کرنے اور ابو بکر و عمر ؆ جیسے مضبوط اور صاحب خلق لوگوں کی وفاداری حاصل کرنے میں آپ ﷺ کی کام یابی کو آپﷺ کے خلوص و دیانت کے حق میں دلیل ٹھہراتے ہوئے واٹ نے لکھا ہے:
اپنی ذات اور مشن پر گہر ا یقین ہی مکی دور میں ( جب کہ سیکولر نقطہ نظر سے کام یابی کا کوئی امکان نہیں تھا) محمد ﷺ کی مشکلات و مصائب کو برداشت کرنے کے لیے آمادگی کی توجیہ کرتا ہے ۔ خلوص کے بغیر آپﷺ ابو بکر و عمر ؆ایسے اعلیٰ کردار کے حامل افراد کی وفاداری اور عقیدت و محبت کیسے حاصل کر سکتے تھے ؟ ایک توحید پرست کے لیے مزید سوال یہ ہے کہ خدا جھوٹ اور دغے کی بنیاد پر اسلام ایسے بڑے مذہب کو پھلنے پھولنے کی اجازت کیوں کر دے سکتا تھا ؟ (7)
واٹ نے اہل مغرب کو آپﷺ کی صداقت و دیانت کو تسلیم کرنے اور آپﷺسے متعلق غلطیوں سے نکلنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا:
اس طرح ہمیں نہ صرف محمدﷺ کو دیانت داری اور مقصد کی صداقت کا کریڈٹ دینا چاہیے، بلکہ اگر ہم انھیں سمجھنے کے خواہش مند ہیں ؛ اگر ہم اسلاف سے ورثے میں ملی غلطیوں کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو، ہمیں ہر خاص معاملے میں آپﷺ کے خلوص پر پختہ ایمان رکھنا چاہیے ، تا وقتے کہ اس کے خلاف کوئی نا قابل تردید ثبوت نہیں مل جاتا۔ (8)
کیرن آرمسٹرانگ (پیدائش۱۹۴۴)نے The Muhammad Enemy کے تحت اپنی ایک تحریر میں مغرب کی پیغمبر اسلام ﷺسے دشمنی کی تاریخ پر تفصیل سے گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ مغرب کی تاریخ میں آپﷺ کی انتہائی غلط ، متعصبانہ اور افسانوی تصویر کشی کی گئی ہے۔ اس کے مطابق مغرب میں آپ ﷺ کو اس درجہ فرضی و افسانوی انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ آپﷺ کی تمثیلی حیثیت نے لوگوں کے لیے اس بات کو مشکل بنا دیا ہے کہ وہ آپ ﷺ کو ایک ایسے تاریخی کردار کی شکل میں دیکھیں جو اس طرح کے سنجیدہ سلوک کا مستحق ہے جس کے مستحق نپولین اور سکندر اعظم تھے۔ مصنفہ کے مطابق مغرب میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف قرون وسطی کے مغربی تخیلات کی بازگشت آج بھی سنی جا سکتی ہے۔ شیطانی آیات کا افسانہ انھی کی قبیل سے ہے۔ (9)
نبی کریم ﷺکے ایک اعلی کردار کی حامل شخصیت ہونے کا اعتراف دیگر مستشرقین کے ہاں بھی ملتا ہے۔ اس حوالے سے
Rom Landau(1899-1974(،Tor Julins Efraim(1885-1947،( Gustar Wail (1805-1889)
وغیرہ کی تحریروں کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔(10)
ایک فرانسیسی شاعر اور مصنف لامرطین( 1879-1790)نے اپنی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: تم یہ خیال کرتے ہو کہ محمد ﷺدھو کے باز اور جھوٹے تھے، ہر گز نہیں ، نہ وہ دھوکے باز تھے اور نہ جھوٹے۔ جھوٹ ، دھوکا اور فریب ، یہ سب چیزیں نفاق عقیدہ سے پیدا ہوتی ہیں اور نفاق میں عقیدے کی قوت نہیں ، جھوٹ میں سچ جیسی طاقت نہیں۔ حضرت محمدﷺ نے قوم کی برائیوں کو ختم کرنے کے لیے نہایت بہادری اور جرأت سے برس ہا برس تک سخت مخالفت اور طرح طرح کی فحش کلامیوں اور بد زبانیوں کی پرواہ کیے بغیر ایمان و نجات کی دعوت دی اور اپنی کوششوں میں کام یاب رہے۔ آپﷺ کی دعوت نہ صرف آپﷺ کی زندگی میں کام یابی سے پھیلی بلکہ آپ ﷺکی وفات کے بعد بھی پھیلتی رہی۔ ان سب باتوں سے اس نتیجے پر پہنچنے میں کوئی دقت باقی نہیں رہتی کہ حضورﷺ نہ تو دھو کے باز تھے اور نہ باطل پرست۔ اس مصنف نے حضورﷺ کا تعارف کراتے ہوئے لکھا: فلسفی، خطیب ، رسول ، شارع، قائد ، فکر و نظر کے دروازے کھولنے والا، انسانوں کو عقل کی طرف راغب کرنے والا ، ایسے عقائد کا مبلغ جو دل اور ذہن دونوں کے موافق ہوں۔ ایسے دین کا بانی جس میں بت پرستی کا کوئی شائبہ نہیں، کرہ ارض پر میں مادی سلطنتوں اور ایک عظیم روحانی سلطنت کا بانی؛ یہ ہے محمد ﷺ ۔(11)
لامر طین آپ ﷺ کی اس طرح کی مختلف صفات کی شخصیت کی مختلف جہتوں کا ذکر کرنے کے بعد آپ ﷺ کو ایک عدیم المثال انسان قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے:
ان تمام پیمانوں کے مطابق جن پر انسانی عظمت کو پر کھا جا سکتا ہے، ہم پوچھ سکتے ہیں: کوئی اور انسان ہے جو آپﷺ سے بڑھ کر ہو ؟ (12)
معروف مستشرق ولیم میور (۱۸۱۹-۱۹۰۵) آپ ﷺکی اخلاقی عظمت کا اعتراف ان الفاظ میں کرتا ہے:
اپنے تمام امورو معاملات میں آپ ﷺ انصاف پسند اور راست رو تھے۔ آپﷺ کے خوب صورت اور قابل قدر رویے نے تو جوانی ہی میں آپ ﷺ کو’’سچے اور دیانت دار‘‘کا لقب دلادیا تھا۔ (13)
تھامس کارلائل نے حضور ﷺ کی سیرت طیبہ پر لگائے جانے والے الزامات کی زبر دست تردید کی اور آپﷺ کو سچا نبی تسلیم کیا۔ اس کے بقول حضرت محمدﷺ کے بارے میں ہم عیسائیوں کا یہ قیاس بالکل بے بنیاد ہے کہ آپ جھوٹے اور دغا باز تھے اور آپﷺ کا مذہب محض فریب اور نادانی کا ایک مجموعہ تھا۔ کذب و افترا کا وہ انبار جو ہم نے اپنے مذہب کی حمایت میں اس ہستی کے خلاف کھڑا کیا ہے وہ خود ہمارے لیے شرم ناک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم کسی طور پر بھی آپﷺ کو حریص ، تنگ ظرف اور جھوٹا کہنے میں حق بجانب نہیں۔ آپ ﷺصادق تھے اور آپﷺکا الہام بالکل سچا تھا۔ (14)
اس نے آپﷺ کے خلاف قدیم مغربی تصور کو سختی سے رد اور اس پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا:
افسوس! میرے خیال میں اس سے بڑھ کر خدا بیزار تصور اس روے زمین پر کبھی اشاعت پذیر نہیں ہوا تھا کہ ایک جھوٹا آدمی ایک مذہب کی بنیاد رکھے ؟ ایک جھوٹا شخص اینٹوں کا ایک گھر کیوں نہیں بنا سکتا! اگر وہ پکی مٹی اور مسالے وغیرہ چیزوں اور ان کی ضرورت و استعمال سے صحیح صحیح واقفیت نہیں رکھتا، تو وہ کوئی گھر نہیں ایک ردی ساگھرونداہی بنائے گا۔ اگر یہ مذہب جھوٹے نبی نے بنایا ہو تا بارہ صدیوں تک برقرار نہیں رہ سکتا کہ ایک سو اسی لاکھ کا مسکن بنے ؟ یہ تو ناگہاں گر جائے گا۔(15)
میڈرڈ کے آرچ بشپ نے قرطبہ کی مسیحی مسلم کانگرس ۱۹۷۷ء کی افتتاحی تقریر میں مسیحیوں پر زور دیا کہ وہ ماضی کو بھلا کر پیغمبر اسلام ﷺ کی عزت و تکریم کا رویہ اپنائیں اور آپﷺ کی توہین ترک کر دیں۔ اس نے واضح کیا کہ آپﷺ کی توہین تاریخی اور مذہبی حقائق کے خلاف ایک جرم ہے۔ آپﷺ کی متعارف کروائی ہوئی اخلاقی اقدار کی قدر نہ کرنا اس کا نفرنس کے مقاصد سے متصادم ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی تناظر اور علم سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ (16)
الزام صرع اور اس کی تردید
کبوتر اور اونٹ وغیرہ کی کہانیاں تو اس زمانے کے افسانے ہیں جب حضوﷺ سے متعلق الزام تراشی کے لیے کسی دلیل اور کسی اسلامی مصدر کے حوالے کی ضرورت محسوس نہ کی جاتی تھی۔ بعد میں جب ایسی الزام تراشیوں کا فضول اور لایعنی ہونا واضح ہو گیا تو حضرت محمدﷺکے مغربی ناقدین نے اسلامی مصادر کی بعض روایات کی مضحکہ خیز تعبیرات پیش کر کے آپﷺ پر مرگی کے مریض ہونے کا الزام عائد کر دیا۔ انھوں نے کہنا شروع کر دیا کہ محمدﷺ جس کیفیت کو وحی خیال کرتے تھے وہ در اصل ان کے مرض کا نتیجہ تھی۔ محمد خلیفہ لکھتے ہیں:
آپ ﷺ پر وحی کی توجیہ میں سان پیڈرو اور قرون وسطی اور بعد کے دیگر مستشرقین کا کہنا ہے کہ آپ ﷺ مرگی کے مریض یا بھوت پریت کے زیر اثر تھے۔ حال ہی میں روڈ نسن نے آپ ﷺ کی وحی کو ہذیان سے تعبیر کیا ہے۔ (17)
مغرب میں آپ ﷺ کے مصروع ہونے کا تصور اس قدر عام اور مقبول رہا ہے کہ قرون وسطی تو ایک طرف جدید دور کے بڑے بڑے معروف اہل قلم بھی اسے ایک ثابت شدہ اور متفق علیہ حقیقت کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں۔ گسٹا ویل لکھتا ہے :
مشرق و مغرب کے محققین اس نکتے پر متفق ہیں کہ محمدﷺکو مرگی کے دورے پڑتے تھے۔ (18)
یہی نہیں بلکہ جدید زمانے کا ولیم میور بھی آپﷺ پر وحی کی تعبیر مرگی کے دوروں ہی سے کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ بعض اوقات آپ ﷺ کی بے قراری وجد یا کشف کی شکل اختیار کر لیتی تھی۔ ہمیں اس سے متعلق کچھ زیادہ معلومات نہیں ہیں، تاہم کچھ عیسائی مصنفین نے ان کیفیات کو مرگی کے دورے قرار دیتے ہوئے ان کا تعلق آپﷺ کے بچپن میں ظاہر ہونے والی علامات سے جوڑا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ آپ ﷺ کی زندگی کے آخری حصے میں بھی نزول وحی سے قبل آپﷺ پر اس قسم کی غشی اور بیداری کے سپنے کی کیفیت طاری ہوتی تھی۔ اس کے بعد میور اسلامی مصادر میں بیان ہونے والاپہلی وحی کا واقعہ یہ کہتے ہوئے تفصیلاً بیان کرتا ہے کہ قاری خود نتیجہ اخذ کر لے کہ محمدﷺ کی وحی کس چیز کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔ (19) پھر دوسری وحی کا حوالہ دینے کے بعد اسلامی روایات اور اپنے تخیل کو ملا کر کہتا ہے :
روایت کے مطابق پیغمبرﷺ پر بے قراری غالب آجاتی تھی اور ان کا چہرہ متغیر ہو جاتا تھا۔ ان کی پیشانی سے پانی کے قطرے ٹپکنے لگتے تھے اور وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑتے تھے۔(20)
اب دیکھیے کہ اسلامی روایات میں حضور ﷺ کے چہرے کے متغیر ہونے اور آپ کی پیشانی سے پینے کے قطرے ٹپکنے کا تو ذکر ہے لیکن عالم مدہوشی میں زمین پر گر پڑنے کا کسی بھی قابل لحاظ روایت میں کوئی ذکر نہیں۔ یعنی He Would Fall to the Ground as in a Trance محض میور کے تخیل کی کرشمہ سازی ہے، تاکہ مسیحی مصنفین کے ذکر کردہ Epileptic Seizures کو حقیقت باور کرایا جا سکے ۔ الزام صرع کے لیے مستشرقین کے مذکورہ نوعیت کی بعض روایات کو اسی طرح عجیب و غریب انداز سے تعبیر اور پیش کرنے کی اور بھی متعدد تعجب خیز مثالیں ملتی ہیں۔ مثلاً انھوں نے آپ ﷺ کو مریض باور کرانے کے لیے آپﷺکی والدہ ماجدہ کو بھی مریضہ قرار دے دیا اور اس کے لیے دلیل یہ پیش کی کہ روایات کی رو سے حضرت آمنہ کے خوابوں میں فرشتوں کو دیکھنے کا تذکرہ ہے۔ آپ ﷺ کے شق صدر کو بھی یہ دلیل دے کر مرگی سے جوڑا گیا کہ اس موقع پر حضرت حلیمہ اور ان کے شوہر نے بھی یہ سمجھا تھا کہ ان کے رضاعی بیٹے پر مرگی کا حملہ ہوا ہے۔ اس کے لیے دلیل اس روایت کو بنایا گیا:
” قالت وقال لي أبوه يا حليمة لقد خشيت أن يكون هذا الغلام قد أصيب فالحقيه بأهله. (21)
حضرت حلیمہ بجا کہتی ہیں کہ اس کے باپ نے مجھ سے کہا اس لڑکے کو کچھ ہو گیا ہے۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ اسے اس کے گھر والوں کے پاس پہنچا دو۔
اس عبارت سے کسی بھی طرح یہ بات نہیں نکالی جاسکتی کہ حضور ﷺ کے رضاعی ماں باپ نے مصروع ہونے کا شبہ بھی کیا تھا۔ پھر اس عبارت کا مغربی اہل قلم کی جانب سے غلط ترجمہ بھی ہوا اور اسے مختلف الفاظ کے ساتھ بھی پیش کیا گیا ۔ مثلاً
قد أصيب فالحقيه بأهله کےالفاظ کو قد أصيب بالحقيه بأهله لکھا گیا اور پھر اس کا ترجمہ کیا گیا:
اس لڑکے نے اپنے کسی ساتھی سے دماغی بیماری اخذ کر لی ہے۔
یہ مختلف عبارت اور اس کا بھی غلط ترجمہ مستشرقین کے ہاں مرجع ہو گیا اور بڑے بڑے مستشرقین کے ہاں اسے آپ ﷺ پر مرگی کے الزام کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ بعد ازاں أصیب کو أسیب بھی قرار دیا گیا اور اسے مرگی کے دورے (Epileptic Fit) سے تعبیر کیا گیا۔ مرگی کے الزام کی ایک دلیل یہ بھی قرار پائی تھی کہ اسلامی روایات میں آتا ہے کہ حضرت حلیمہ نے آپﷺ کے سر پر بادلوں کو سایہ کناں دیکھا تھا۔ (22)
اس نوع کے مضحکہ خیز استدلالات و تعبیرات سے اس الزام کو آخر کب تک دہرایا جا سکتا تھا؟ بالآخر اہل مغرب کو اس الزام کو بھی سختی سے رد کرنا پڑا اور مغرب کے سنجیدہ اہل علم و نظر کے ہاں اس کی لغویت اس قدر واضح ہو کر سامنے آئی جس قدر آپﷺسے متعلق افسانوی کہانیوں کی لغویت واضح ہوئی تھی۔
مشہور مغربی مورخ ایڈورڈ گبن (۱۷۳۷ – ۱۷۹۴ ) نے آپﷺپر مرگی کے الزام کو تھیو فینز ، زو نارس اور دوسرے یونانیوں کی نامعقول تہمت قرار دیا، جسے ہو ٹنگر پریڈو اور مراقی کے شدید تعصبات نے نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر قبول کر لیا تھا۔(23)
گبن کے نزدیک حضور ﷺ پر مرگی کی تہمت اس قدر مہمل ہے کہ اس کے خیال میں یہ ان لوگوں کے لیے بھی سخت نقصان دہ ہے ، جو آپ ﷺ کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے مطابق آپﷺ پر مرگی کے اس بیہودہ الزام سے، جو آپ ﷺکی ذات پر کسی طرح فٹ نہیں ہو سکتا، الٹا آپ ﷺکے لیے ترحم کے جذبات پیدا ہوں گے ؟ اس کے الفاظ ہیں :
آپﷺ پر یونانیوں کی نا معقول تہمت آپ ﷺ کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے بجائے آپ ﷺ کے حق میں محبت و رحمت کے جذبات کا موجب ہو گی۔ (24)
جدید مغربی اہل قلم کے ہاں حضورﷺ پر الزام صرع کی تردید زیادہ موثر انداز سے اور وسیع پیمانےپر ملتی ہے۔ اے گیوم (۱۸۸۸ – ۱۹۶۶ء) نے اس الزام کو اسلام اور پیغمبر ﷺکے خلاف تعصب کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے لکھا:
(مرگی سے متعلق) بہت پہلے کے باز نطینی مصنف کا یہ الزام ایک ایسا مفروضہ ہے جسے نہایت آسانی سے محمد ﷺکی مخالف تعصب کا شاخسانہ قرار دیا جا سکتا ہے۔(25)
گیوم آگے چل کر آپﷺ کی بے مثل دانش مندی، جنگوں میں حیرت انگیز کام یابی اور سخت ترین مخالفت کے باوجود نہایت عزم و استقلال سے کوششیں جاری رکھتے ہوئے اہل عرب کو اسلام پر مجتمع کر دینے کی شہادتوں کی بنیاد پر الزام صرع کی تردید کرتے ہوئے رقم طراز ہے:
محمد ﷺ کی عقل و دانش کبھی ماؤف نہیں ہوئی۔ جو لوگ آپﷺ کے ذہنی و نفسیاتی استحکام کا انکار کرتے ہیں وہ دوسروں کی غیر معمولی جانچ پرکھ، آپ ﷺ کے زمانے کے حالات کی اہمیت، اور لوگوں کو اسلام پر مجتمع کر دینے تک مسلسل مخالفت کا سامنا کرنے میں آپ ﷺ کے عزم و استقلال کی واضح شہادتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اختلاف و مخالفت ، جنگ ، سخت و مشکل اقدام کسی بھی موقع پر آپ ﷺکبھی بھی بد دل یا شکست خوردہ نظر آتے ہیں ؟ تمام شہادیںزیر نظر الزام کے خلاف جاتی ہیں۔ میرے نزدیک آپ ﷺکو مرگی کا مریض قرار دینا اتنا ہی بے بنیاد ہے جتنا مسلمانوں کے نزدیک جارحانہ و نا پسندیدہ۔ (26)
قرآن کے حکیمانہ بیانات کے تناظر میں الزام صرع کی تردید کرتے ہوئے Rom Landau رقم طراز ہے:
یہ الزام کہ آپ ﷺ کی وحی دراصل مرگی کے دورے تھے، سفید جھوٹ ہے۔ اس لیے کہ اس طرح کے دوروں میں آدمی غیر معمولی حکیمانہ و فاضلانہ بیانات پیش کرنے کے قابل نہیں ہوتا جو ہمیں قرآن یا اس کے مختلف حصوں کی شکل میں ملتے ہیں۔ (27)
منٹگمری واٹ نے الزام صرع کی تردید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
نزول وحی کے وقت محمد ﷺ کو پیش آنے والی بعض کیفیات، مثلاً آپ ﷺ کا تکلیف اور درد محسوس کرنا، کانوں میں گھنٹی کی سی آواز آنا، سخت سردی کے موسم میں بھی نزول وحی کے وقت آپ ﷺکی پیشانی سے پینے کے قطرے ٹپکنا وغیرہ سے مغربی نقادوں نے یہ نتیجہ نکالاکہ آپ ﷺ مرگی کے مریض تھے، لیکن یہ نظریہ کوئی حقیقی بنیاد نہیں رکھتا۔ مرگی انسان کو ذہنی اور جسمانی طور پر کم زور کر دیتی ہے، لیکن محمدﷺ میں اس قسم کے کوئی آثار نظر نہیں آتے، اس کے برعکس آپ ﷺ کے تمام ذہنی و جسمانی قوی آخر تک بالکل صحیح سلامت تھے۔ (28)
ای ۔ ڈر منگھم نے بھی نہایت پر زور الفاظ میں اس الزام صرع کی تردید کی۔ اس نے لکھا ہے کہ محمد ﷺ اس اعتبار سے دنیا کے واحد پیغمبر ہیں، جن کی زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ہے۔ ان کی زندگی کا کوئی گوشہ چھپا ہوا نہیں۔ آپ ﷺ پر کسی ذہنی بیماری کا الزام صرف عقل سلیم سے عاری انسان ہی عائد کرتے ہیں۔ یہاں موازنہ نہیں بلکہ اظہارِ حقیقت مقصود ہے کہ عہد نامہ قدیم کے پیغمبرﷺکتنے مغلوب الغضب تھے اور تو اور عہد جدید میں حضرت مسیح ﷺ جیسےحلیم اور نرم دل کو بھی ہم غصے اور طیش سے مغلوب ہوتے دیکھتے ہیں اور ایسی زبان بھی بولتے سنتے ہیں ، جو شائستہ قرار نہیں دی جا سکتی۔ کیا محمد ﷺکا بڑے سے بڑا معترض کوئی ایک بھی ایسا واقعہ بتا سکتا ہے ، جب آپ ﷺنے خود پر غصے اور طیش کو غالب کر دیا ہو ؟ کیا کسی ایسے واقعے کی نشان دہی کی جاسکتی ہے ، جب آپ نے غیر شائستہ زبان استعمال کی ہو ؟ کوئی معترض اور نقاد بھی آپ ﷺ کی زندگی کا ایک ایسا واقعہ بیان نہیں کر سکتا، جب کسی مرض یا تکلیف کی وجہ سے آپ ﷺ کسی میدان جنگ یا زمانہ امن میں کسی بیماری کے دورے کے زیر اثر آئے ہوں۔ کوئی ایسا واقعہ ان کی زندگی میں نہیں ملتا ، جس سے ان کی جسمانی یا ذہنی صحت کے علیل ہونے کا سراغ ملتا ہو۔ ان کی جسمانی اور ذہنی صحت قابل رشک تھی۔ آپ ﷺنے اپنی زندگی میں چالیس فوجی مہمیں روانہ کیں جن میں سے ایک اندازے کے مطابق تیس جنگوں میں آپ ﷺ بنفس نفیس شریک ہوئے۔ ہر جنگ میں جس فراست ، جس شجاعت اور جنگی حکمت عملی اور مہارت کا ثبوت آپ ﷺ نے فراہم کیا، کیا وہ کسی ایسے شخص کے لیے ممکن ہو سکتا ہے ، جو کسی بھی نوع کی بیماری میں مبتلا ہو ؟ محمدﷺ کی پاک، صحت مند اور توانا شخصیت کو بیمار کہنے والے در حقیقت خود ذہنی بیماری میں مبتلا ہیں۔ (29)
جدید مغربی اہل قلم نے آپ ﷺ پر مرگی کے الزام کو اس سختی سے رد کیا کہ اسے تاریخی تنقید کے خلاف ایک گناہ کا ارتکاب قرار دیا۔ اے گیوم لکھتا ہے :
گذشتہ نسلوں کے بر عکس جدید تر مصنفین نے مرگی کے نظریے کی مخالفت کی ہے۔ محض افسانے کی بنا پر قائم ہونے والے اس نظریے کی کوئی تاریخی بنیاد نہیں۔ یہ تاریخی تنقید کے خلاف ایک جرم کا ارتکاب ہے۔ (30)
حالات کے فطری رد عمل کا نظریہ اور اس کا ابطال
جب وحی سے متعلق مرگی اور صرع کا الزام اس درجہ لغو ثابت ہو گیا کہ اسے تاریخی تنقید کے خلاف جرم و گناہ کا ارتکاب قرار دیا جانے لگا اور جدید تعلیم یافتہ مغرب میں اس الزام کو دہرانا یا اس پر دلائل لانا ایک فضول و جاہلانہ تصور قرار پایا تو اہل مغرب کے ہاں وحی محمدیﷺ کی یہ جدید فلسفیانہ تعبیر سامنے آئی کہ حضوﷺجن خیالات و تصورات کو وحی کی حیثیت سے پیش کرتے تھے ، وہ آپﷺ اپنے لاشعور سے ابھرے تھے۔ یعنی آپﷺ کی وحی کوئی وحی آسمانی نہیں تھی ، اپنے زمانے کے دگرگوں حالات کو سنوارنے اور اہل عرب کے جاہلانہ و ظالمانہ نظام زندگی کو عادلانہ نظام میں ڈھالنے سے متعلق آپ ﷺکی تڑپ اور لگن کا نتیجہ تھی ۔ بہ الفاظ دیگر آپﷺ کی وحی آپ ﷺکے اصلاحی و مصلحانہ افکار تھے ، جن کو آپﷺنے غلطی سے وحی سمجھ لیا تھا۔ وحی محمدیﷺ کی یہ فلسفیانہ توجیہ عصر حاضر کے بڑے بڑے نام ور مستشرقین کی طرف سے پیش کی گئی ہے۔ اس ضمن میں بیسویں صدی کا مشہور مستشرق منٹگمری واٹ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ اس کا کہنا ہے:
کوئی نیا مذ ہب کسی ضروری محرک کے بغیر ظہور پذیر نہیں ہو سکتا۔ محمد ﷺ اور آپ ﷺ کے اولین پیروکاروں کے معاملے میں بھی یقینی ضرورت رہی ہو گی جسے ترقی پذیر مذہب کے عقائد ورسوم کے ذریعے پورا کیا گیا۔ (31)
وحی محمد یﷺکو آپ کی اندرونی کیفیت سے تعبیر کرنے کے ضمن میں ایک جگہ واٹ کا پیش کردہ یہ تصور بھی قابل ذکر ہے:
اکثر و بیش تر مذہبی افکار اجتماعی لاشعور (collective unconscious) سے شعور میں آنے والے تصورات ہیں اور مذہبی رسوم ان کے نظریات کا شعوری جواب۔ (32)
مسٹر واٹ وضاحت کرتے ہیں کہ مذکورہ تصور کے مطابق یہودیت، عیسائیت اور اسلام کےمشمولات سب کے سب collective unconscious سے ابھرے ہیں۔ گو یا خارج سے کوئی وحی نازل نہیں ہوئی، سب مذاہب اپنے زمانے کے حالات و واقعات کا فطری رد عمل ہیں۔ (33) رہی یہ بات کہ حضورﷺکا کہنا تو یہ تھا کہ مجھ پر خارج سے بذریعہ جبریل وحی نازل ہوتی ہے تو اس کی توجیہ یوں کی گئی کہ محمدﷺ کو اپنے کام میں مخلص سمجھا جاسکتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ آپﷺ اپنے عقائد میں صحیح راستے پر تھے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک آدمی مخلص ہوبا ایں ہمہ وہ غلط راستے پر ہو۔ ممکن ہے آدمی بعض خیالات کو خارج سے آتا ہوا محسوس کرے، لیکن در حقیقت وہ اس کے اپنے ہی لاشعور سے ابھرے ہوں۔ واٹ کے الفاظ ہیں :
یہ کہنا کہ محمد ﷺ مخلص تھے، یہ معنی نہیں رکھتا کہ آپ اپنے عقائد میں صحیح بھی تھے۔ آدمی مخلص ہونے کے باوجود غلطی پر ہو سکتا ہے۔ جو چیز آدمی کو خارج سے آتی ہوئی محسوس ہو وہ فی الواقع اس کے اپنے لاشعور کی آواز بھی ہو سکتی ہے۔(34)
آپ ﷺکی کام یابی کو وقت کے تقاضے اور ماحول کی سازگاری سے جوڑنے کی کوشش میں واٹ اگر چہ بہت نمایاں ہیں لیکن اس ضمن میں یہ اکیلے نہیں ، اور بھی متعدد مغربی اہل قلم نے اپنے اپنے انداز سے یہ نظریہ پیش کیا ہے۔ مثلاً ولیم میور پیغام محمدیﷺ کی اشاعت کو احوال و ظروف کی موافقت سےیوں جوڑ تا ہے کہ آپﷺ کا پیغام یہودیت کے مقابلے میں مدینے میں اس بنا پر تیزی سے پھیلا کہ یہودیت بدیسی تھی اور اسلام اہل عرب کے نظریات ، رسوم ورواجات اور تخیلات و تو ہمات کے مطابق تھا۔ وہ لکھتا ہے:
حالات اتنے ساز گار تھے اور دعوت و تبلیغ اتنی پر جوش تھی کہ اسلام گھر گھر اور قبیلہ قبیلہ پہنچ گیا۔ یہودی حیرت زدہ تھے، جن لوگوں کو بت پرستی سے نکالنے کے لیے ان کی زمانوں کی محنت کار گر نہ ہو سکی تھی ، اب وہ بتوں کو پھینک کر توحید خداوندی کا اقرار کر رہے تھے ۔ کام یابی کا راز آلے کے صحیح استعمال میں مضمر تھا ۔ اسلام مقامی ماحول اور مزاج سے ہم آہنگ تھا۔ یہودیت اپنی اصل کے اعتبار سے بدیسی تھی، لہذا وہ عربوں کی ہم در دیاں حاصل نہ کر سکی۔ اسلام عربوں کے عقائد و نظریات ، تو ہمات اور رسوم و رواجات پر مبنی تھا، سو وہ جلد ہی ان کے دلوں میں جاگزیں ہو گیا۔ (35)
ایچ۔ اے۔ آر۔ گب( ۱۸۹۵-۱۹۷۱)نے کہا کہ حضورﷺ کی کام یابی اور طلوع اسلام در اصل مکہ اور مدینہ میں آپ ﷺ کی سخت مخالفت کا رد عمل ہے۔ اس کے الفاظ ہیں:
محمد ﷺ ابتدا میں شعوری سطح پر نئے دین کے داعی نہ تھے ، یہ اہل مکہ کی مخالفت اور دشمنی تھی جس نے آپﷺ کو رفتہ رفتہ اس پر مجبور کیا۔ بعد ازاں مدینے میں آپﷺ کی مخالفت ممتاز عقیدے کے حامل ایک نئے مذہبی معاشرے کے ظہور پر منتج ہوئی۔(36)
لیکن وحی محمدیﷺکی حالات کی موافقت و سازگاری وغیرہ کی اس جدید فلسفیانہ توجیہ کی بھی اہل مغرب کی جانب سے تردید سامنے آگئی۔ یہاں تک کہ زیر نظر نظریے کے ضمن میں سب سے نمایاں مستشرق مسٹر واٹ نے بھی بالآخر یہ تسلیم کر لیا کہ آپ ﷺکی وحی آپ ﷺ کے ذاتی افکار نہیں بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے بھیجی ہوئی تعلیم تھی۔ انہوں نے Companion to the Quran کے نظر ثانی شدہ ایڈیشن کے دیباچے میں لکھا ہے کہ گو میں ہمیشہ سے یہ سمجھتا تھا کہ محمد ﷺ صدق دل سے اپنے اوپر وحی الہی کے قائل تھے ، تاہم مجھے ایک عرصے تک آپ ﷺ کو پیغمبر تسلیم کرنے میں تامل رہا، اب البتہ میں یہ علی الاعلان کہتا ہوں کہ آپﷺ عہد نامۂ قدیم کے پیغمبروں کی طرح پیغمبر تھے۔ وہ مختلف قصص قرآنی کا قصص بائبل سے تقابل کر کے واضح کرتے ہیں کہ قصص قرآنی کو بائبل کی بعینہ نقل قرار دینا کسی بھی طرح درست نہیں۔ قصص بائبل اور قرآنی قصص میں اس نوعیت کا بنیادی اختلاف ہے کہ اس کی توجیہ بغیر اس کے کوئی نہیں ہو سکتی کہ محمدﷺ پر عہد نامۂ عتیق کے انبیا کی مانند وحی آتی تھی۔ البتہ عہد نامہ قدیم کے پیغمبر اپنے اپنے ادوار کے مذاہب کو ہدف تنقید بناتے تھے اور محمد ﷺ کا مقصد بعثت ان لوگوں کو ایمان باللہ کی دعوت دینا تھا جو کسی بھی دین کو ماننے کے روادار نہ تھے۔ اس دیباچے میں واٹ نے مشہور مستشرق مترجم قرآن آرتھر جے آربری کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ مسٹر آر بری بھی حضور پر وحی الہی کے قائل تھے۔ مسٹر واٹ لکھتے ہیں کہ آربری نے اپنا ترجمۂ قرآن اس زمانے میں کیا جب وہ ذاتی نوعیت کی پریشانیوں اور مسائل سے دوچار تھے۔ ترجمے کی تکمیل کے بعد انھیں سکون قلب اور اطمینان کی دولت میسر آئی جس پر انھوں نے شکریے کا اظہار کیا اور واضح کیا کہ یہ شکریہ وہ اس قوت مطلقہ کا ادا کر رہے ہیں جس نے نبی ﷺ پر وحی نازل فرمائی ۔ (37)
آپﷺکے پیروؤں پر آپﷺ کی تعلیمات کے ظاہر و باہر اثرات ، لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی کے ظہور اور قرآن میں وارد ہونے والے حقائق کے تناظر میں آپﷺکے سچا نبی ہونے پر دلیل لاتے ہوئے واٹ نے ایک جگہ لکھا:
خدا کی بندگی کے دعوے کے ساتھ ایک مذہبی معاشرہ تشکیل پذیر ہوا، جس کی تعداد محمدﷺکے عین حیات ہزاروں اور اب کئی سو ملین ہے۔ اس معاشرے میں حیات طیبہ کے لیے معیار زندگی مجموعی طور پر قابل اطمینان رہا ہے ، اور لاتعد اد لوگ مشکل حالات میں نفیس اور معتدلانہ خوش کن زندگی گزارنے کے اہل رہے ہیں۔ یہ نکات اس نتیجے پر پہنچاتے ہیں کہ قرآن میں پیش کردہ تصور حقیقت سچائی پر مبنی اور من جانب اللہ ہے اور محمد ﷺایک سچے پیغمبر ہیں۔ (38)
واٹ سے پہلے کے کئی اور مصنفین کے ہاں بھی اس حقیقت کا اعتراف پایا جاتا ہے۔ مثلاً فلپ کے۔ ہٹی ( ۱۸۶۰- ۱۹۷۸) نے حضوﷺ کو عہد نامہ قدیم کے پیغمبروں کی طرح سچا پیغمبر تسلیم کرتے ہوئے لکھا:
اپنی دعوت اور پیغام کے اعتبار سے محمد عربیﷺ اسی طرح سچے نبی تھے جیسے عہد نامہ قدیم کے عبرانی انبیا۔(39)
برطانوی مستشرق آرسی زائنر ( ۱۹۱۳ -۱۹۷۴) نے آپﷺکی نبوت ورسالت کو ناقابل انکار قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ اس کا اقرار پیغمبر ان بائبل کی نبوت کے اقرار کا تقاضا ہے۔ اگر آپﷺنبی نہیں تو انبیاے بائبل بھی نبی قرار نہیں پاتے۔ اس کے مطابق قرآن آپ ﷺکی رسالت کا واضح ثبوت ہے۔ زائینز کے الفاظ ہیں:
کوئی پیمانہ نہیں جس کی بنا پر تحفہ نبوت آپﷺسے روکا جا سکے ، جب تک کہ اسے عہد نامہ قدیم کے انبیا سے بھی نہ روک لیا جائے۔ قرآن رسالت کا جوہر ہے۔ اس میں آپ کو کسی بھی دوسری کتاب سے بڑھ کر ایک ایسی قادر مطلق ہستی کا احساس ہوتا ہے جو خود سے غافل لوگوں کو اپنا تعارف کروارہی ہے۔(40)
انی بیسنت ( ۱۸۴۷-۱۹۳۳) (41) نے حضوﷺ کی حیات و تعلیمات پر اپنے لیکچر میں آپﷺکے پیغمبر خدائے عظیم اور بہت زیادہ قابل عزت و ستایش ہونے کا اقرار کرتے ہوئے کہا:
جو شخص بھی عظیم پیغمبر عربیﷺکی حیات و تعلیمات کا مطالعہ کرتا ہے، جو جانتا ہے کہ آپ ﷺنے کیسے تعلیم دی اور کیسے زندگی گزاری، اس کے لیے ناممکن ہے کہ وہ خداے عظیم کے اس عظیم پیغمبر کی عزت و توصیف کی بجائے کچھ اور محسوس کرے۔ میں آپ لوگوں سے بہت کچھ ایسی چیزیں عرض کرنے جارہی ہوں جو ممکن ہے آپ میں سے بہت سوں کے لیے اجنبی نہ ہوں لیکن میرا اپنا احساس یہ ہے کہ میں جب بھی ان کا بار دگر مطالعہ کرتی ہوں ، اس عظیم عربی معلم کے لیے اپنے اندر نئی مدح و ستایش اور نئی عزت و عظمت محسوس کرتی ہوں۔ (42)
جدید مغرب میں بعض آوازیں ایسی بھی اٹھ رہی ہیں جو اسلام کی درست تفہیم اور اہل اسلام سے مکالمے کی غرض سے مسیحیوں کو آپ ﷺ کی نبوت کو قانونی (Official) سطح پر تسلیم کرنے کا مشورہ دے رہی ہیں۔ اول الذکر مقصد کے لیے آپ ﷺ کی شخصیت کو مسلمانوں ہی کی مانند پاکیزہ تصور کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے نار من ڈینیل رقم طراز ہے:
عیسائیوں کے لیے ضروری ہے کہ محمد ﷺکو ایک مقدس شخصیت کا درجہ دیں، آپ ﷺ کو اسی طرح دیکھیں جیسے مسلمان دیکھتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو وہ خود کو مسلمانوں سے الگ کر لیں گے۔ (43)
سوئس کیتھولک مسیحی عالم دینیات ہنس کن (پیدائش۱۹۲۸) کے مطابق اگر کیتھولک اور دیگر چرچ اہل اسلام سے مکالمے کے خواہش مند ہیں تو انھیں محمدﷺ کی نبوت کو رسمی طور پر (Officially) تسلیم کرنا چاہیے۔ (44) مسیحی مسلم مکالمے کے عمل میں شریک تمام عیسائیوں کے حضورﷺ کو نبی برحق تسلیم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ہنس کن نے کہا:
جو مسیحی مسلمانوں سے مکالمے کا خواہش مند ہوتا ہے وہ شروع ہی میں جناب مسیح ؑ پر پختہ اور غیر متزلزل اعتقاد رکھتا ہے۔اسے محمد ﷺ کے کردار کو بھی پوری سنجیدگی سے سچے بنی کے طور پر لینا چاہیے۔(45)
ہنس کن یہودیت ، عیسائیت اور اسلام تینوں کو ایک ہی ماخذ سے ماخوذ اور وحی خداوندی پر مبنی باور کراتے ہوئے اس رویے کو سخت تعصب کا شاخسانہ قرار دیتا ہے کہ پیغمبر ان بائیل کو تو نبی تسلیم کیا جائے لیکن محمدﷺکی نبوت کا اقرار نہ کیا جائے، اس کے الفاظ یہ ہیں:
کیا تینوں مذاہب، یہودیت ، عیسائیت اور اسلام کی اصل ایک ہی نہیں؟ کیا ان مذاہب میں واضح اور بلند آہنگ سے ایک ہی خدا نہیں بول رہا؟ کیا عہد نامہ قدیم کا’’خدا کہتا ہے ‘‘قرآن کے ”کہو‘‘سے مشابہ نہیں، جیسے کہ عہد نامہ قدیم کا ’’جاؤاوربتاؤ‘‘ قرآن کے ’’اٹھو اور ڈراؤ ‘‘سے مطابقت رکھتا ہے۔ یہ سخت تعصب ہے کہ ہم عیسائی آموس، حوز یہ ، اشعیا اور ارمیا کو تو نبی ما نہیں لیکن محمدﷺکی نبوت کا انکار کریں۔ (46)
کلیسائے یورپ کے زیر انتظام سالزبرگ میں منعقد ہونے والی مسیحی۔ مسلم کا نفرنس (۱۹۸۴) میں واضح کیا گیا کہ:
مسیحی عہد نامہ قدیم کے سلسلہ انبیا کا احترام کرتے ہیں۔ یہ انبیا لوگوں کو خدا کی بندگی کی دعوت دیتے تھے۔ محمد ﷺ کو جھوٹا نبی قرار دے کر اس سلسلے سے نکالنا نا انصافی ہے۔ مسیحیوں کو اس میں کوئی مضایقہ نہیں کہ وہ آپ ﷺکو اسی سلسلہ انبیا کی ایک کڑی مانیں، ماضی میں بعض نے ایسا کیا ہے(47)
نبوت محمدی ﷺکی آفاقیت کی مخالفت اور اس کا دفاع
عصر حاضر کے بہت سے نمایاں مستشرقین اور سیرت پر لکھنے والے مغربی اہل قلم اس نتیجے پر تو پہنچ چکے ہیں کہ حضورﷺاللہ کے پیغمبر تھے لیکن انھوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ آپﷺ صرف اہل عرب کی ہدایت کے لیے آئے تھے ، باقی دنیا آپﷺ کی مخاطب نہیں۔ وہ اس ضمن میں بعض قرآنی آیات اور دیگر اسلامی روایات سے استدلال کر کے یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ ﷺ ان لوگوں ہی کے لیے نبی تھے جن میں پہلے کوئی نبی نہیں آیا تھا۔ یہود و نصاری ، جن کے پاس پہلے ہی تسلسل کے ساتھ رسول آتے رہے اور جن کے پاس خدائی پیغام اور ہدایت موجود ہے، ان کو پیغام حق پہنچانا نہ آپ ﷺکی ذمے داری تھی اور نہ آپﷺنے ایسا کیا۔ یہ تصور عصر حاضر کے ان مغربی مصنفین کے ہاں بہت عام ہے جو عموماً آپﷺکے ہم دردانہ و غیر جانب دارانہ مطالعے کے لیے معروف ہیں، اور مختلف مغربی الزامات سے آپﷺ کا دفاع کرتے ہیں، مثلاً ملنگمری واٹ، کیرن آرمسٹر انگ اور کارل ارنسٹ وغیرہ۔ منٹگمری واٹ آپ ﷺکی نبوت کو عہد نامہ قدیم کے پیغمبروں کی نبوت سے تشبیہ دے کر آپ ﷺ کو اہل عرب کا نبی باور کراتے ہوئے لکھتا ہے :
میرے نزدیک اس حقیقت کی یہی معقول توجیہ ہے کہ محمدﷺ کو اسی طرح خدا کی جانب سے وحی آتی تھی جیسے عہد نامہ قدیم کے انبیا کو ۔ مزید برآں جہاں موخر الذکر بالعموم پہلے سے موجود اور زیر عمل مذہب کی تنقیح کے ذمے دار تھے محمد ﷺ کا مشن ان لوگوں کو خدا کا یقین دلانا تھا جن کے پاس قبل ازیں کوئی مذہب نہ تھا۔ (48)
اسی خیال کا اظہار کرتے ہوئے واٹ نے ایک دوسرے مقام پر لکھا:
محمدﷺعہد نامہ قدیم کے انبیا کی مانند نبی تھے، اگر چہ آپﷺکا کام کچھ مختلف تھا۔ عہد نامہ قدیم کے نبی اصلاً موجود مذہب میں راہ پا جانے والے انحرافات کی اصلاح کرنے والے تھے ، جب کہ محمدﷺ کو ایسے لوگوں کو خدا اور اس کے احکام کی پہچان کرانا تھی جن کے پاس اس نوع کی کوئی معلومات موجود نہ تھیں۔ (49)
کارل ارنسٹ یہ وضاحت کرتے ہوئے کہ ابتدا میں اہل اسلام نے یہود و نصاری سے اسلام لانے کا کوئی مطالبہ نہیں کیا، لکھتا ہے:
ایسا کبھی کوئی مطالبہ نہیں تھا کہ یہودیوں اور عیسائیوں کو دائرہ اسلام میں داخل ہونا چاہیے۔(50)
کیرن آرمسٹر انگ نہایت قطعیت سے دعوی کرتی ہے:
ایسی کوئی شہادت نہیں کہ محمدﷺنے اسلام کو ایک ایسے آفاقی مذہب کی صورت میں دیکھا، جسے اہل کتاب کی وحیوں کی جگہ لینی تھی۔ یہ محض بنی اسمعیل کا مذہب تھا، جیسا کہ یہودیت بنی اسرائیل کا مذہب تھی۔ (51)
لیکن مغرب کا آفاقیت محمدیﷺکا یہ انکار بھی کسی مضبوط علمی دلیل پر مبنی نہیں۔ آپ کسی ﷺ کی آفاقیت کے حق میں نہایت قوی اور قطعی دلائل موجود ہیں۔ مغربی اہل علم ان پر غور کریں گے تو انھیں اپنے اس موقف پر ضرور نظر ثانی کرنا پڑے گی کہ آپﷺصرف اہل عرب کے نبی تھے یا آپ ﷺاپنی دعوت کو صرف یہیں تک محدود سمجھتے تھے۔ جن اہل مغرب نے اس حقیقت پر غور کیا ہے ان کے ہاں اس کا اقرار و اعلان ملتا بھی ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تصور آفاقیت ابھی موجودہ سنجیدہ مغربی اہل علم و تحقیق کے ہاں پورے طور پر آشکار نہیں ہو سکا۔ یہاں ہم کوشش کریں گے کہ آپﷺکی آفاقیت پر مغربی مصادر سے سامنے آنے والے دلائل سے قبل چند گزارشات پیش کر دیں۔
اسلام اور نبوت محمدیﷺ کے تمام اہل عالم کے لیے ہونے اور حضورﷺ کی اس ضمن میں کو ششوں کے شواہد اس قدر واضح ہیں کہ ان کو جھٹلانا بھی تعصب یا کم از کم قرآن و سنت اور دیگر اسلامی مصادر سے صرف نظر کیے بغیر ممکن نہیں۔ یہ سوال کہ حضرت محمدﷺ نے یہودیوں اور عیسائیوں کو دعوت اسلام نہیں دی اور آپﷺ اسلام کو اہل کتاب و غیرہ کا نہیں محض عربوں کا دین خیال کرتے تھے ، قرآن و حدیث اور تاریخی حقائق کے سراسر خلاف ہے۔ یہ حقائق بتاتے ہیں کہ آپﷺنے مختلف اوقات میں اہل کتاب کو بھر پور انداز سے دعوت اسلام دی۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں اس دعوت کا ذکر ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے:
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ. (آل عمران:64)
کہیے ! اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سواکسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنائے۔ پھر اگر وہ (اس دعوت کو قبول کرنے سے اعراض کریں تو تم کہو! گواہ ر ہو کہ ہم تو اللہ کے حضور سر تسلیم خم کرنے والے ہیں۔(52)
ایک اور مقام پر فرمایا گیا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ آمِنُوا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُم مِّن قَبْلِ أَن نَّطْمِسَ وُجُوهًا فَنَرُدَّهَا عَلَىٰ أَدْبَارِهَا أَوْ نَلْعَنَهُمْ كَمَا لَعَنَّا أَصْحَابَ السَّبْتِ ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا (النساء:47)
اے وہ لو گو جن کو کتاب دی گئی ہے ! اس کتاب پر ایمان لے آو جو ہم نے( حضرت محمدﷺ پر )نازل کی ہے، جو اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو تمھارے پاس ہے۔ اس سے قبل کہ ہم چہرے بگاڑ کر پیچھے پھیر دیں یا ان کو لعنت زدہ کر دیں جس طرح سبت والوں کو لعنت زدہ کیا تھا۔ اور اللہ کا حکم تو ہو کر رہتا ہے۔ (53)
حیرت ہےیہ اور اس نوع کی دیگر متعدد آیات (جن میں صریحاً اہل کتاب کو دعوت اسلام کا ذکر ہے ) کے ہوتے ہوئے، بڑے بڑے نام ور اور معروضی طرزِ فکر و تحقیق کے لیے معروف مغربی اہل قلم کیسے یہ دعوی کر دیتے ہیں کہ آپﷺ نے صرف اہل عرب کو دعوت اسلام دی اور یہود و نصاری سے اس ضمن میں کوئی تعرض نہیں کیا؟
قرآن حکیم کی ان واضح شہادتوں کے علاوہ کتب سیرت میں بھی نبی اکرم ﷺ کی طرف سے یہودیوں کو دعوت اسلام کے کئی شواہد ملتے ہیں، جن میں کچھ مکتوبات کی شکل میں موجود ہیں۔ ڈاکٹر حمید اللہ کے مطابق سیرت ابن ہشام میں بنی قنیقاع سے تعلقات کے سلسلے میں جو تبلیغی انداز ہے، قدیم ترین معلوم ہوتا ہے۔ اس میں ان کو آپ ﷺ حلف دے دے کر پوچھتے تھے کہ کیا توریت میں میری پیش گوئی نہیں ہے۔ اگر تم قسم کھا کر کہو کہ نہیں ہے تو پھر تم سے کوئی مواخذہ نہیں۔ اسی مفہوم کا ایک مکتوب نبوی ﷺ بھی ملتا ہے، جو خیبر کے یہودیوں کے نام ہے۔ اس میں ان کو خدا کی نعمتیں یاد دلائی گئی ہیں اور توریت کی بشارتوں کے مصداق پر ایمان لانے کی دعوت یہی کہہ کر دی گئی ہے کہ اگر واقعی توریت میں ذکر نہ ہو تو پھر تم سے کوئی خصوصی مطالبہ نہیں۔ غالباً یہ مکتوب بھی اس زمانے کا ہے اور خصوصی قاصد کے ذریعے سے خیبر بھیجا گیا تھا، مگر اس کا کوئی مفید نتیجہ نہ نکلا۔بنو قینقاع کے یہودیوں نے ایک مسلمان عورت کی بے حرمتی کی۔ جس پر کچھ کشت و خون ہوا۔ رسول اکرم ﷺکی سیاست یہ تھی کہ ہر چیز پر تبلیغ دین مقدم رہے۔ چناں چہ اس عہد شکنی اور فساد کے سلسلے میں بھی آپﷺنے ان کے پاس جا کر انھیں(پہلے ) اسلام لانے کی دعوت دی ۔ (54)
قرآن کریم اور کتب سیرت کے اس قبیل کے شواہد کے پیش نظر یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ نبی اکرم ﷺیہود مدینہ کو مسلسل دعوت اسلام دیتے رہے۔ البتہ یہودیوں کی طرف سے اس دعوت کا جواب اکثر و بیشتر محض سازشوں، بدعنوانیوں، جعل سازیوں اور آیات الہی کو جھٹلانے و چھپانے ہی کی شکل میں دیا گیا، چناں چہ قرآن نے کئی مقامات پر آپ ﷺ اور اہل اسلام کی یہودیوں سے متعلق خواہش و کوشش قبول اسلام اور یہودیوں کے مذکورہ نوعیت کے رویوں کا ذکر کیا ہے۔ مثلاً ایک مقام پر فرمایا:
أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ . وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ قَالُوا أَتُحَدِّثُونَهُم بِمَا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَاجُّوكُم بِهِ عِندَ رَبِّكُمْ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ .أَوَلَا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ .(البقرۃ:75-77)
کیا پھر تم امید رکھتے ہو کہ وہ تمھارے کہنے پر ایمان لے آئیں گے ، حالاں کہ ان میں ایک گروہ ایسا ہے جو اللہ کا کلام سنتے ہیں پھر اس کو سمجھ لینے کے بعد جان یتے ہیں۔ اور جب یہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں : ہم ایمان لائے۔ اور جب ایک دوسرے کے ساتھ تنہا ہوتے ہیں تو کہتے ہیں : کیا تم انہیں وہ کچھ بتاتے ہو جو اللہ نے تم پر ظاہر کیا ہے تا کہ وہ اس کے ذریعے تمھارے اوپر تمھارے رب کے سامنے دلیل لائیں ، کیا تم سمجھتے نہیں ؟ کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ جانتا ہے جو یہ چھپاتے اور ظاہر کرتے ہیں۔ (55)
ایک دوسری جگہ ارشاد ہوا:
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ شَهِيدٌ عَلَىٰ مَا تَعْمَلُونَ.(آل عمران:98)
کہیے ! اے اہل کتاب! تم کیوں اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہو ؟ اور اللہ ، جو کچھ تم کر رہے ، دیکھ رہا ہے۔(56)
جہاں تک مغربی اہل قلم کے اس خیال کا تعلق ہے کہ آپﷺ کا مذہب اور پیغام آفاقی و عالم گیر نہیں تو یہ بھی اسی نوع کا ایک باطل خیال ہے جیسا کہ یہود و نصاری کو دعوت اسلام نہ دینے کا، اس لیے کہ اس کے خلاف بھی اسی قبیل کے واضح اور روشن دلائل ہیں۔ قرآن کی بہت سی آیات نبوت و دعوت محمدیﷺ کی عالم گیریت و آفاقیت پر مہر تصدیق ثبت کر رہی ہیں۔ مثلاً ایک آیت مبارکہ ہے: وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ.(الأنبياء :107) اور ہم نے آپﷺ کو سارے جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔(57) ایک اور مقام پر ارشاد ہے: ﴿ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ . (السبا:28)ہم نے آپﷺکو تمام لوگوں کے لیے خوش خبریاں سنانے والااور ڈرانے والابنا کر بھیجا ہے ، لیکن اکثر لوگ علم نہیں رکھتے۔(58) ایک آیت قرآنی ہے: قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا.(الأعراف: 158)آپﷺ کہہ دیجیے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔(59)
یہ آیات رسالت محمدیﷺ کی عالم گیریت کے اثبات میں بالکل واضح ہیں۔ جو رسول تمام جہانوں کے لیے رحمت ہو، تمام بنی نوع انسان کی طرف بھیجا گیا ہو اور سب کے لیے بشیر و نذیر ہو اس کو صرف عرب تک محدود کیسے قرار دیا جا سکتا ہے ؟
قرآن میں حضور ﷺ کی آفاقیت پر ایک اہم دلیل یہ بھی ہے کہ آپﷺکے علاوہ تمام انبیا نے اپنی اپنی اقوام کو دعوتِ حق پیش کی اور آفاقیت کا دعوی نہیں کیا۔ سورۃ الشعراء میں متعدد انبیا کی اپنی اقوام کو دعوت کا ذکر ہے اور ان کے انداز تخاطب سے بالکل عیاں ہے کہ ان کی دعوت اپنی اپنی قوم تک محدود تھی۔ (60) انجیل بھی اس حقیقت پر شاہد ہے، مثال کے طور پر حضرت عیسی ؑ کا بیان ہے:
میں تو فقط بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیٹروں کی طرف بھیجا گیا تھا۔ بچوں کی روٹی کتوں کے آگے ڈالنار وا نہیں۔ (61)
جو آدمی آپﷺ کو پیغمبر خدا مانے وہ لاز ما قرآن کو کلام الہی تسلیم کرے گا اور قرآن کو کلام الہی ماننے والاآپ کی نبوت کی آفاقیت کو کسی طور نہیں جھٹلا سکتا؛ اس لیے کہ قرآن اس پر نہایت واضح ہے ، آپﷺ کے کام کی آفاقیت کی تکذیب قرآن کی تکذیب کے بغیر ممکن نہیں۔ لہذا آپ کو نبی اور قرآن کو کلام الہی مان لینے والے اہل مغرب کے پاس آپﷺکی آفاقیت کے انکار کا کوئی جواز نہیں ۔ علامہ ابن تیمیہ نے اسی دلیل سے آپﷺ کی آفاقیت کو ثابت کیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ آپﷺ کو اہل عرب کا نبی تسلیم کرنا اس بات کو مستلزم ہے کہ آپﷺ کو عالم گیر نبی مانا جائے۔ آپﷺ کی رسالت کے آفاقی ہونے کا انکار اور آپ ﷺکی نبوت کا اقرار دو متناقض باتیں ہیں۔ ابن تیمیہ کے الفاظ ہیں:
فالإقرار برسالته إلى العرب دون غيرهم مع ما ظهر من عموم دعوته للخلق كلهم، قول متناقض ظاهر الفساد وكل ما دل عليه أنه رسول فإنه يستلزم رسالته إلى جميع الخلق وكل من اعترف بأنه رسول لزمه الاعتراف بأنه رسول إلى جميع الخلق . (62)
سو آپﷺ کی تمام مخلوق کو دعوت کے واضح دلائل کے ہوتے ہوئے، آپﷺکی رسالت کا صرف عربوں کی حد تک اقرار ایک متناقض و باطل قول ہے۔ ہر وہ دلیل جو آپﷺ کی رسالت پر دلالت کرتی ہے آپ کے تمام مخلوق کے لیے نبی ہونے پر بھی دال ہے۔ آپﷺ کی رسالت کا اقرار کرنے والے ہر شخص کو یہ ماننا پڑے گا کہ آپﷺتمام مخلوق کی طرف نبی بن کر تشریف لائے ہیں۔
قرآن کے ساتھ ساتھ احادیث سے بھی آپﷺ کی نبوت کی عالم گیریت کا واضح اثبات ہوتا ہے۔ مثلاً فرمایا:
” وَكَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّةً .
پہلے نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا، مجھے کائنات کے تمام انسانوں کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (63)
ایک حدیث میں آپ ﷺنے پانچ چیزوں کا ذکر فرماتے ہوئے (جو آپﷺکے سوا کسی اور نبی کو نہیں دی گئیں ) فرمایا:
“بعثتُ إِلَى الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ .
میں سرخ و سیاہ سب کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں۔ (64)
بہت سے عقلی دلائل بھی اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں:
رسول اکرمﷺایک ایسی رسالت کے ساتھ مبعوث ہوئے جو عام بھی ہے اور تمام بھی ۔ یہ انسانی مصلحتوں اور تقاضوں کو مکمل طور پر پورا کرنے والی ہے اور اس میں تمام لوگوں کی دنیا اور آخرت کی نیک بختی پوشیدہ ہے۔ اس حقیقت کا ادراک آپ ﷺ کی عطا کردہ شریعت کو بہ نظر انصاف دیکھنے والاہر شخص آسانی سے کر سکتا ہے۔
زندگی کے تمام گوشوں پر محیط مسائل کے حل کے لیے جس قدر حضورﷺ کی تعلیمات چودہ سو سال سے زائد عرصے سے رہ نمائی کر رہی ہیں ،وہ بھی آپﷺکی دعوت کے آفاقی ہونے پر ایک بہت بڑی دلیل ہے۔
حضرت محمد ﷺ کے سواد نیا میں کوئی ذات ایسی نہیں جو انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں میں ہماری کامل رہ نمائی کر سکے ؛ یہاں تک کہ بڑے اور معروف مذاہب کے پیروکار اپنے مذاہب کے بانیوں کو زندگی کے ہر شعبے کے لیے بہترین نمونہ عمل کے طور پر پیش بھی کم ہی کرتے ہیں۔ حضرت عیسی ؑ ، مہاتما بدھ ، کرشن جی ، رام چندر جی، بابا نانک وغیرہ کے پیروکاروں میں سے کم ہی ہوں گے جو اس بات کے دعوے دار ہوں کہ زندگی کے ہر شعبے کے لیے ہمارے رہ نما کی رہ نمائی کافی ہے ۔ اس لیے کہ گو یہ لوگ نیک اور بھلے انسان ہیں ، ان کی سیرت زندگی کے ہر شعبے اور بالخصوص آج کی ترقی یافتہ دنیا کے بہت سے امور میں رہ نمائی کا سامان اپنے اندر نہیں رکھتیں۔ اس کے بر عکس اہل اسلام نہایت وسیع پیمانے پر آپﷺ کی زندگی کو کامل نمونہ عمل کے طور پر پیش کرتے ہیں اور نہایت محکم دلائل کی بنیاد پر ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ ہمارا رہ نما زندگی کے ہر شعبے میں انسانیت کارہ نما ہے اور یہ چیز آپ ﷺ کی رسالت کے آفاقی ہونے کے بغیر ممکن نہیں۔
اہل اسلام کے ہاں آپﷺ کا آخری نبی ہونا مسلمہ عقیدہ ہے ۔ اہل اسلام نے اپنے اندر ہزار اختلافات گوارا کیے۔ لیکن کسی مدعی نبوت کو اپنی صفوں میں گوارا نہیں کیا۔ یہ ختم نبوت بھی آپﷺکی آفاقیت کی ناقابل انکار دلیل ہے۔ جب اور کوئی نبی نہیں آنا تو لامحالہ قیامت تک کے اور تمام علاقوں اور ممالک کے لوگوں کو آپﷺہی سے رہ نمائی لینا ہے، اور یہ رہ نمائی جبھی ممکن ہے جب آپﷺ عالم گیر نبی ہوں۔ گویا آپ ﷺکی عالم گیریت کا انکار آپﷺ کی ختم نبوت کا انکار ہے اور آپﷺ کی ختم نبوت کا انکار آپﷺ کی نبوت کا انکار ہے۔ لہذا جو شخص آپﷺ کو نبی مانے اسے آپﷺکو عالمی نبی بھی ماننا پڑے گا، ورنہ وہ اپنے دعواے اقرار رسالت محمدیﷺ میں معتبر قرار نہیں پاسکے گا۔ یہی وجہ کہ ماہرین شریعت آپﷺ کی ختم نبوت کو آپ ﷺ کی رسالت عامہ کی ایک بہت بڑی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ مقاصد الشريعۃ الإسلاميۃ کے مصنف ابن عاشور اسی دلیل سے شریعت اسلامیہ کو شریعت عامہ ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
معلوم بالضرورة من الدين أن شريعة الإسلام جاءت شريعة عامة داعية جميع البشر إلى اتباعها؛ لأنها لما كانت خاتمة الشرائع استلزم ذلك عمومها لا محالة سائر أقطار المعمور، وفي سائر أزمنة هذا العالم. والأدلة على ذلك كثيرة من نصوص القرآن والسنة الصحيحة بحيث بلغت مبلغ التواتر المعنوي.
ضرورت دین سے واضح ہے کہ شریعت اسلامیہ شریعت عامہ ہے، جو تمام بنی نوع انسان کو اپنی اتباع کی دعوت دیتی ہے۔ اس کا آخری شریعت ہونا اس کے عموم اور تمام اہل عالم اور تمام از منہ کے لیے ہونے کو مستلزم ہے۔ اس امر پر قرآن اور سنت صحیحہ کے بکثرت دلائل ہیں ، جو معنوی تواتر کے درجے کو پہنچے ہوئے ہیں۔ (65)
آپ ﷺ کو چالیس سال کی عمر میں پہلی قرآنی وحی موصول ہوئی تو جو آیات نازل ہوئیں ان میں واضح طورپر خلق ، قلم اور علم کے حوالے سے انسان کا لفظ مطابقا استعمال کیا گیا۔ ارشاد ہوا:
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ . خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ. اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ. الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ . عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (العلق:1-5)
اپنے رب کے نام سے پڑھیے جس نے پیدا کیا۔ انسان کو جونک کی طرح کے وجود سے بنایا۔ پڑھیے اور آپ کا رب بڑا کریم ہے۔ جس نے قلم سے علم سکھایا۔ آدمی کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔(66)
علاوہ ازیں قرآن حکیم میں جگہ جگہ مطلقا بنی نوع انسان سے خطاب کیا گیا ہے ۔ یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ آپﷺ کی رسالت محض عرب تک محدود نہ تھی، بلکہ اس کا دائرہ تمام بنی نوع انسان کو محیط تھا۔
تعلیمات نبوی اور اس کی دعوت میں ایک تدریج کار فرما رہی ہے۔ اسلامی دعوت اپنے مواد، اسلوب اور ظروف کے اعتبار سے چند زمانی اور مکانی مراحل سے گذری ہے، جس کے دو مرکزی ادوار ہیں:
1 مکی دور (۶۱۰ – ۶۲۲)
۲ مدنی دور (۶۲۲ – ۶۳۲)
اس دوران میں آپ ﷺ نے جس عظیم اور عالمی دعوت کو اپنی زندگی میں ہی با حسن وجوہ کام رانی سے ہم کنار کیا اس پیغمبرانہ جد و جہد کی کام یابی میں چند اہم مرکزی اقدامات و واقعات کا کردار کلیدی رہا، پہلا اقدام ایک ہجری میں اسلامی ریاست مدینہ کا قیام ، دوسر ۸۱ہجری میں فتح مکہ ، تیسرا ۱۰ ہجری میں خطبہ حجۃ الوداع کے ذریعے ایک نئے عالمی نظام کا آوازہ اور چوتھا مشرق سے مغرب تک عالمی سطح پر اسلامی دعوت کی تحریک کو بپا کر دینا تھا۔ دعوت کے مرکزی نکات میں توحید ، رسالت، آخرت، کرامت انسانی و غیرہ امور شامل تھے اور یہ ایک آفاقی پیغام ہے جو آپ ﷺنے تمام انسانیت تک پہنچایا۔ اس پیغام کے ہر جز میں آفاقیت ہے۔ عبادت کو ہی لیجیے، قرآن اور صاحب قرآن نے اپنے مخاطبین کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ اس بات پر ایمان اور اعتقاد رکھیں کہ اس کائنات کی ہر چیز اللہ کی عبادت اور بندگی بجالاتی ہے۔ اکیلا انسان ہی یہ عبادت سر انجام نہیں دیتا۔ ارشاد ہے :
تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ.(الإسراء:44 )
ساتوں آسمان زمین اور جو کچھ اُن میں ہے اس کی تسبیح کرتی ہے اور ہر چیز اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتی ہے لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں۔(67)
یوں اسلامی عقیدہ انسان اور اس کے ارد گرد مادی کائنات کے مابین ایک مضبوط رشتہ استوار کر دیتا ہے ؛ چرند پرند، جمادات، نباتات اور حیوانات سب کے ساتھ محبت کا ایک تعلق پیدا کر دیتا ہے۔ کائنات کی تمام اشیا اسی قادر مطلق کی تقدیر کی پابند اور اس کی اطاعت گزار ہیں۔ اسلام کا انسان اور کائنات کو اس انداز سے لینا بھی اس کی آفاقیت کی دلیل ہے۔
حضور ﷺکے پیروکاروں کا آپ ﷺکی دعوت کو دنیا کے دور دراز علاقوں میں پہنچانا اور اس کے لیے ان تھک جد وجہد کرنا بھی اس بات کی گواہی ہے کہ آپﷺ کی دعوت تمام بنی نوع انسان کے لیے تھی۔ اس کام کے لیے آپﷺ سے انتہائی عقیدت و محبت رکھنے والے بہت سے اصحاب رسول ﷺنے خود کو وقف کر لیا تھا۔ کوئی انصاف پسند اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتا کہ حضور ﷺ نے اپنی دعوت کے مخاطب صرف عربوں کو قرار دیا ہو اور آپﷺ کے جانثار صحابہ رضوان اللہ علیہم اسے تمام عالم میں پہنچانے کا عزم لے کر نکل کھڑے ہوں۔
آپ ﷺنے خطبہ حجتہ الوداع میں جو سب انسانوں کے لیے درس مساوات دیا وہ بھی آپ ﷺکی آفاقیت ثابت کر رہا ہے۔ آپ نے فرمایا:
يا أيها النَّاسُ! إِنَّ رَبَّكم واحد، وإن أباكم واحد، ألا لا فضل لعربي على عجمي ولا لعجمي على عربي ولا لأحمر على أسود ولا لأسود على أحمر الا بالتقوى. (68)
(اے لوگو! بے شک تمھارا رب ایک ہے ، تمھارا باپ ایک ہے، خبردار ! کسی عربی کو عجمی پر کسی عجمی کو عربی پر کسی سرخ کو سیاہ پر اور کسی سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، سوائے تقوی کے۔)
یہ الفاظ اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں رہنے دیتے کہ حضوﷺ کی نگاہ صرف عربوں پر نہیں، تمام بنی نوع انسان پر تھی۔ اگر آپ ﷺ کی دعوت صرف اہل عرب کو ہوتی تو آپﷺ نہ تمام بنی آدم کو مخاطب بناتے نہ انسانوں کے ایک باپ سے ہونے کا تذکرہ کرتے نہ عربی عجمی اور سرخ سیاہ بول کر پورے عالم کو درس مساوات دیتے۔
رہا آپ ﷺ کے دیگر ممالک کے رہ نماؤں کو لکھے گئے خطوط کا معاملہ ، تو اگرچہ مستشرقین نے عام طور پر ان کی استنادی حیثیت پر سوال اٹھایا ہے اگر چہ ان کا معتبر و مستند ہونا مسلمہ ہے۔ جدید تحقیقات نے ان خطوط نبوی کے مستند ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ ڈاکٹر حمید اللہ نے اس ضمن میں نہایت وقیع تحقیق پیش کی ہے۔ انھوں نے متعدد مکتوبات نبوی کو دریافت کر کے ان کے عکس پیش کیے ہیں اور اس حوالے سے مستشرقین کے اعتراضات کے جوابات دیے ہیں ۔ (69) انھوں نے ثابت کیا ہے کہ آپﷺکے یہ خطوط نہ صرف حقیقت ہیں بلکہ بہت زیادہ تعداد میں ہیں۔ ان کی تحقیق کے مطابق ان خطوط کی تعداد سو دو سو تک ہے۔ اگر چہ بہت سے خطوط دست برد زمانہ کا شکار ہو گئے لیکن متعدد خطوط اب بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔ لہذا ان خطوط کو جعلی قرار دینا حقائق کے خلاف ہے۔
ان گزارشات کے بعد ہم آفاقیت محمدی ﷺکے حوالے سے اہل مغرب کی جانب سے سامنے آنے والے دلائل کی طرف آتے ہیں۔ مغرب کے زیر نظر نظریے کے خلاف اہل مغرب کی جانب سے دلائل لانا بہ ظاہر خاصا مشکل ہے، اس لیے کہ یہ نظریہ در حقیقت شد و مد سے پیش ہی وہ مغربی اہل علم و تحقیق کر رہے ہیں، جو آپ ﷺ پر لگائے گئے دیگر الزامات و اعتراضات اور اہل مغرب کی آپﷺسے متعلق قدیم مغربی غلطیوں اور تعصبات کے خاتمے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن دل چسپ امر یہ ہے کہ اہل مغرب کی طرف سے اس نظریے کی بھی واضح تردید سامنے آچکی ہے۔ سب سے مؤثر ، نا قابل دفاع اور زبان حال سے پکار پکار کر مذکورہ تصور کو باطل قرار دینے والی تردید مغرب کے وہ بہت سے یہودی و مسیحی اہل علم ہیں جو دائرہ اسلام میں داخل ہو چکے ہیں۔ ان کا قبول اسلام اس بات کا اعلان ہے کہ حضور ﷺ آفاقی نبی ہیں اور آپﷺ کی دعوت جس طر ح اہل عرب کے لیے ہے اہل مغرب اور دیگر اہل عالم کے لیے بھی ہے۔
تھامس واکر آرنلڈ (۱۸۶۴- ۱۹۳۰) کی Preaching of Islam میں نبوت محمدی ﷺ کی آفاقیت کے حوالے سے تفصیلی اور مثبت مواد ملتا ہے۔ آرنلڈ نے نہایت مدلل اور پر زور انداز سے اس بات کی تردید کی ہے کی حضور ﷺکے مخاطب صرف اہل عرب تھے، اور آپﷺ نے باقی دنیا کو اپنی دعوت پیش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ انھوں نے ثابت کیا ہے کہ اسلام اپنے کردار کو واضح طور پر عالمی و آفاقی قرار دیتا ہے۔ قرآنی آیات اور آپﷺکی سیرت اس حقیقت کی ناطق شہادتیں ہیں کہ آپﷺ نے نہ صرف اپنے پیغام کو آفاقی سمجھا اور قرار دیا بلکہ اس کو جہاں تک ممکن ہو سکا عرب سے باہر لوگوں تک پہنچانے کے لیے ان تھک جد و جہد کی۔ آرنلڈ کے مطابق اسلام کی تبلیغی روح کو اس سے کسی طور جد ا نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں یہ روح شروع سے لے کر آج تک بلا انقطاع کار فرما اور روز روشن کی طرح عیاں نظر آتی ہے۔ وہ کہتا ہے :
اسلام شروع ہی سے ایک تبلیغی مذہب ہے، جو لوگوں کو دائرہ اسلام اور اہل ایمان کو رشتہ اخوت میں داخل کرنے کی غرض سے ان کے دل جیتنا چاہتا ہے ، اور تبلیغ و دعوت کی یہ صورت جیسے آغاز میں تھی ویسے ہی آج بھی جاری ہے۔ (70)
میور نے پیغام محمدی ﷺ کو اہل عرب کے لیے خاص قرار دیتے ہوئے لکھا تھا:
پوری دنیا کے اسلام کا ورثہ ہونے کا تخیل بعد کی پیداوار ہے وحی سادہ عربی زبان میں اہل عرب کی تعلیم و تربیت کے لیے آرہی تھی۔ احکام از اول تا آخر کسی اور کے لیے نہیں صرف عربوں کے لیے تھے۔ (71)
آرنلڈ نے میور کے اس خیال کو رد کرتے ہوئے واضح کیا کہ:
تبلیغ اسلام بعد کا تخیل نہیں بلکہ مسلمانوں کو ابتداہی سے اسے تمام بنی نوع انسان تک پہنچانے کے احکامات ملتے ہیں۔(72)
آرنلڈ نے متعدد قرآنی آیات کا حوالہ دے کر ثابت کیا ہے اسلام شروع دن ہی سے نظری و عملی ہر دو لحاظ سے ایک مکمل مذہب ہے۔ محمد ﷺ نے تبلیغ و دعوت کی قرآنی تعلیمات پر عمل کی اعلی ترین مثال قائم کی۔ آپﷺ غیر مسلموں کو دائرہ اسلام میں لانے والے بے شمار مسلم مبلغین کے سردار ہیں۔ (73) اس نے حضور ﷺ کے آفاقی پیغام پر شاہد کئی ایک آیات کا تذکرہ کر کے میور اور لیون کیٹانی (۱۸۶۹- ۱۹۳۵) جیسے مغربی اہل قلم پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ ان واضح شواہد کے ہوتے ہوئے انھوں نے کیسے اس حقیقت کا انکار کیا کہ محمدﷺ اپنے مذہب کو آفاقی سمجھتے تھے۔ اسلام کو آفاقی باور کرانے والی بہت سی آیات کے تناظر میں میور اور کیٹانی کے حوالوں کے ساتھ محمد ﷺکے اپنے مذہب کو آفاقی نہ سمجھنے کے تصور کی تردید کرتے ہوئے آرنلڈ نے حاشیے میں لکھا:
یہ امر حیرت ناک ہے کہ ان قرآنی بیانات کے ہوتے ہوئے بعض لوگوں نے اس بات کا انکار کیا ہے کہ اسلام کے بانی اسے ایک آفاقی مذہب سمجھتے تھے۔ (74)
پیغام اسلام کے اپنے مزاج کے اعتبار سے عالمی و آفاقی ہونے اور صرف اہل عرب تک محدود نہ ہونے کو واضح کرتے ہوئے آرنلڈ نے کہا:
اسلام کا پیغام صرف عربوں کے لیے نہیں جملہ اہل عالم کے لیے تھا۔ خدا ایک ہی ہے ، لہذا مذ ہب بھی ایک ہی ہونا چاہیے تھا ، جس میں آنے کی سب لوگوں کو دعوت دی جاتی۔(75)
ابتداہی میں مختلف ممالک کے صحابہ کے آپ ﷺ کی مصاحبت میں آنے، آپﷺکے انھیں ان ملکوں کا پھل قرار دینے اور کسی نوع کی فتوحات سے پہلے آپ ﷺ کے عدم تحدید دعوت کی نسبت سے اسلام کے کردار سے متعلق رویے کو آفاقیت اسلام پر دلیل قرار دیتے ہوئے آرنلڈ لکھتا ہے:
پیغمبرﷺ کی تمام بنی آدم کو دعوت کے دعوے کا مزید ثبوت محمد ﷺ کا پیغمبرانہ انداز سے بلال کو حبشہ، صہیب کو یونان اور سلمان ( جو مدینے کے پہلے عیسائی غلام تھے جنھوں نے ہجرت کے پہلے برس اسلام قبول کیا تھا) کو فارس کا پھل قرار دینے کے الفاظ میں ملتا ہے۔ اس طرح فتوحات کے سلسلے سے بہت پہلے ، جیسا کہ خیال کیا جاتا ہے ، پیغمبر اسلامﷺ نے بالکل واضح کر دیا تھا کہ اسلام صرف نسل عرب تک محدود نہ تھا۔ (76)
حضورﷺ کے مختلف ممالک کے حکم رانوں کو لکھے گئے دعوتی خطوط ، نبوت محمدیﷺ کی آفاقیت کی ایک نہایت روشن دلیل ہیں، اگر چہ بعض مغربی اہل قلم نے ان خطوط کی ثقاہت پر سوالات اٹھائے ہیں ، آرنلڈ نے ایسے شکوک و شبہات کی طرف اشارہ کیا (77) لیکن حضور ﷺکے دعوتی خطوط کو اسلام کی آفاقیت پر دلیل قرار دینے میں جھجک محسوس نہیں کی۔ وہ خطوط نبوی پر مغربی اعتراضات کو ناقابل اعتنا باور کراتے نظر آتے ہیں۔ ان کے مطابق پیغام محمدی ﷺ کی آفاقیت اس درجہ روشن حقیقت ہے کہ ان خطوط کے بغیر بھی نہیں جھٹلائی جا سکتی۔ وہ مختلف خطوط کا حوالہ دینے اور ہر قل کو لکھے گئے خط کا ترجمہ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
یہ خطوط ان لوگوں کو، جنھوں نے اس وقت انھیں وصول کیا، کتنے ہی غیر منطقی کیوں نظر نہ آتے ہوں بعد کا زمانہ بتاتا ہے کہ یہ خالی خولی شوق و اشتیاق کے تحت نہ لکھوائے گئے تھے۔ یہ مخطوط صرف اس دعوے کا ایک مزید واضح اور کھلا ثبوت مہیا کرتے ہیں جو قرآن میں اسلام کو آفاقی مذہب کے طور پر پیش کرتے ہوئے تکرار کے ساتھ کیا گیا ہے۔ (78)
حضور ﷺکے دیگر ممالک کے سربراہوں کو لکھے گئے خطوط کا حقیقت ہونا اس قدر واضح ہے کہ آپﷺ کے لیے انتہائی سخت اور نامناسب الفاظ استعمال کرنے والے متعصب مستشرق بھی ان کو جھٹلا نہیں سکے۔ گسٹاویل ایسے ہی مستشرقین سے تعلق رکھتا ہے، اس نے بھی آپﷺکے بیرونی سربراہوں اور سرداروں کو لکھے گئے خطوط کو رد کرنے کی بجائے ایک معلوم و معروف واقعے کے طور پر پیش کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے:
یہاں تک کہ فتح مکہ سے بھی پہلے آپﷺنے ایران، باز نطین اور حبشہ کے شہزادوں کے پاس قاصد بھیجے تھے۔ آپﷺنے مصر کے عیسائی گورنر اور ایران و بازنطین کے زیر اثر عرب سرداروں کو بھی دعوت اسلام دی۔ ان قاصدوں کو کم و بیش مخالفانہ رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ صرف یونانی گورنر نے انھیں دوستانہ انداز سے خوش آمدید کہا اور پیغمبرﷺکے لیے قابل قدر تحائف بھیجے، اگر چہ اس نے اسلام قبول نہ کیا۔ (79)
یہاں گسٹاویل کے حوالے سے یہ ذکر کر دینا دل چسپی سے خالی نہ ہو گا کہ اس کی تحریر اس نظریے کی بھی واضح تردید کر رہی ہے کہ اسلام کے آفاقی ہونے اور اسے غیر عربوں میں پھیلانے کا خیال آپﷺ کے بعد مسلمانوں میں پیدا ہوا۔ گسٹا ویل اگر چہ اس خیال کو مثبت انداز میں پیش نہیں کرتا، تاہم وہ تسلیم کرتا ہے کہ اسلام کے تمام بنی نوع انسان کے لیے ہونے کا خیال بعد کے مسلمانوں کا نہیں، بلکہ خود آپﷺ کا ہے۔ اس کے الفاظ ہیں:
۶۲۸ ، اور ۶۲۹ء کے درمیان بدوؤں کے خلاف متعدد اور مہمات روانہ کی گئیں۔ اہل ایمان کی تعداد میں دھیرے دھیرے اضافہ ہوا اور محمدﷺ کے ذہن میں یہ تصور پختہ ہو گیا کہ اسلام واحد بچے دین کی حیثیت سے محض ایسا مذہب نہیں جو صرف اہل عرب کے لیے ہو بلکہ یہ پوری انسانیت کے لیے تھا۔(80)
نمایاں نکات بحث
گذشتہ بحث سے یہ نکات نمایاں ہو کر سامنے آتے ہیں کہ پہلے زمانے میں اہل مغرب حضور ﷺپر وحی کی توجیہ کے لیے کسی اسلامی ماخذ کی طرف رجوع کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہ کرتے تھے۔ وہ کسی ایسے شخص کا تخیل قائم کرتے جس نے اپنے ذاتی مفادات کی غرض سے وحی کا ڈھونگ رچایا ہو اور اس تخیل کا مصداق آپ ﷺ کو ٹھہراتے۔ بعد میں جب ایسی الزام تراشیوں کا فضول ولایعنی ہونا مبر ہن ہو گیا تو بعض روایات کی مضحکہ خیز تعبیرات پیش کر کے آپﷺپر مرگی کے مریض ہونے کا الزام عائد کر دیا گیا۔ جب مرگی کا الزام بھی اس درجہ لغو ثابت ہو گیا کہ اسے تاریخی تنقید کے خلاف جرم و گناہ کا ارتکاب قرار دیا جانے لگا اور جدید تعلیم یافتہ مغرب میں اس الزام کو دہرانا یا اس پر دلائل لانا ایک فضول و جاہلانہ تصور قرار پایا تو اہل مغرب کے ہاں وحی محمدیﷺ کی یہ جدید فلسفیانہ تعبیر سامنے آئی کہ ﷺجن خیالات و تصورات کو وحی کی حیثیت سے پیش کرتے تھے ، وہ آپﷺ کے اپنے لاشعور سے ابھرے تھے۔ یعنی آپﷺکی وحی کوئی وحی آسمانی نہیں تھی ، اپنے زمانے کے دگرگوں حالات کو سنوارنے اور اہل عرب کے جاہلانہ و ظالمانہ نظام زندگی کو عادلانہ نظام میں ڈھالنے سے متعلق آپﷺ کی تڑپ اور لگن کا نتیجہ تھی، لیکن کچھ عرصے بعد اس جدید فلسفیانہ توجیہ کی بھی تردید سامنے آگئی اور اس توجیہ کے لیے مشہور مستشرق منٹگمری واٹ نے خود اعتراف کر لیا کہ آپﷺ کی وحی آپﷺکے ذاتی افکار نہیں بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے بھیجی ہوئی تعلیم تھی۔ گو یا اسلام پر کام کرنے والے نمایاں مغربی اہل علم نے آپ ﷺکے خدا سے وحی پانے کو تسلیم کر لیا۔ البتہ ان لوگوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ آپ ﷺ کی نبوت صرف اہل عرب کے لیے تھی، باقی دنیا آپﷺکی مخاطب نہیں۔ (81) یہود و نصاری کے پاس پہلے ہی وحی الہی موجود ہے، لہذا آپ ﷺ نے ان کو دعوت اسلام نہیں دی، لیکن اس موقف کی بھی اہل مغرب کی طرف سے تردید ہو چکی ہے۔ آرنلڈ جیسے نام اور مغربی اہل قلم نا قابل تردید دلائل سے ثابت کر چکے ہیں کہ آپ ﷺ کا پیغام صرف اہل عرب نہیں بلکہ تمام اہل عالم کے لیے تھا۔ کثیر تعداد میں اسلام قبول کر لینے والے مغربی اہل علم بھی نبوت محمد ی ﷺکی آفاقیت کی ناطق شہاد تیں ہیں۔
نتیجه بحث
یہ مطالعہ اس حقیقت کو مبر ہن کر رہا ہے کہ مغربی فکر نے وحی و نبوت محمدی صلی علی ایم کے حوالے سے ایک ارتقائی سفر طے کیا ہے۔ آج مغرب کے نہایت نمایاں اور سنجیدہ اہل علم آپﷺ کی نبوت کا واضح اقرار کر رہے ہیں۔ (82) مغربی افکار کا یہ تاریخی جائزہ ہمیں اس نتیجے پر پہنچا رہا ہے کہ اہل مغرب جس طرح آج آپﷺ کے بارے میں یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ آپ ﷺاہل عرب کے نبی ہیں ، انھیں جلد یا بہ دیر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ آپ آخری و آفاقی نبی ہیں۔ اگر چہ آرنلڈ جیسے اہل مغرب اس بات کو واضح کر چکے ہیں کہ محمدﷺ نے اپنے مذہب کو محض اہل عرب تک محدود نہیں رکھا، لیکن مغرب کے عصر حاضر کے عام اہل علم کے ہاں ابھی تک حضور ﷺ کو اس انداز سے سچا آفاقی و عالمی نبی تسلیم نہیں کیا گیا، جس انداز سے واٹ، کیرن اور ارنسٹ وغیرہ عصر حاضر کے بہت سے معروف اہل علم نے آپ ﷺ کو اہل عرب کا سچا نبی مانا ہے ۔ گویا سنجیدہ مغربی اہل علم و قلم کے ہاں رسالت محمدی ﷺ کے اثبات کے حوالے سے صرف ایک مرحلہ طے ہونا باقی ہے۔ اگر یہ مرحلہ ”مرحلہ شوق“ ہوتا تو شاید بہت جلد طے ہو جاتا، لیکن یہاں یہ معاملہ نہیں۔ یہاں تو معاملہ ان لوگوں سے ہے جو حقیقت کو آنکھوں سے دیکھے بغیر نہیں مانتے۔ کیا معلوم خداوند قدوس ان کو اس حقیقت کا مشاہدہ کرانے ہی والاہو کہ اس کا وعدہ ہے:
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ.(فصلت:53)
ہم انھیں عنقریب اپنی نشانیاں آفاق و انفس میں دکھائیں گے تاکہ ان پر واضح ہو جائے کہ وہ (قرآن) حق ہے۔(83)
اگر ان کی اونٹ اور کبوتر کی کہانیاں انھی کی تحقیقات سے بے مغز افسانے قرار پا سکتی ہیں ، مرگی کا الزام تاریخی تنقید کے خلاف جرم و گناہ ٹھہر سکتا ہے، حالات کے فطری رد عمل کا نظریہ باطل ہو سکتا ہے تو نبوت محمدیﷺ کے صرف اہل عرب تک محدود ہونے کا دعوی اپنی موت کیوں نہیں مر سکتا۔
حوالہ جات
1-اس طرح کے بعض افسانوں اور تخیل کی کار فرمائیوں کے لیے مندرجہ ذیل حوالہ جات ملاحظہ کیجیے :
Thomas Carlyle, On Heroes and Hero Worship (Philadelphia: Henry Altemus, ND), 61; Henry Stubbe, An account of the Rise and Progress of Mahometanism with the life of Mahomet,ed; Hafiz Mahmud Khan Shairani(London: Luzac & co,1911),225-226 ; Stubbe, Ibid,228.cf. Andrew Boorde, The fyrst (first)book of knowledge, ed; F. J. Furnivall(London: N. Trubner & co, MDCCLXX(
2- Thomas Carlyle, Ibid, 61.
3-معروف اطالوی شاعر ہے۔ Danie کا پورا نام Durante Degli Alighieri اور زمانہ ۱۲۲۵-۱۳۲۱ھ ہے۔ اس کی
نظم Divine Comedy مغرب میں ادب کا شاہ کار تصور کی جاتی ہے۔
4.صلیبی جنگوں کے زمانے میں مغرب میں مسلمانوں کے لیے استعمال ہونے والا ایک لفظ ۔ یہ کئی دیگر الفاظ کی طرح مسلمانوں سے نفرت، بغض اور کینے کی بنا پر انہیں حقیر و ذلیل خیال کرتے ہوئے استعمال ہوتا تھا۔ اس لفظ کے ذریعے مسلمانوں کو بدو صحرانشیں، چور ، ڈاکو ، حرامی اور ذلیل و کمتر نسل کے لوگ ظاہر کیا جاتا تھا۔
5- W. Montgomery Watt, Muhammad: Prophet and Statesman (London: Oxford
University Press, 1961), 231.
6- W. Montgomery Watt, Muhammad at Medina (Oxford: Clarendon press,
1956), 332.
7 -Watt, Muhammad: Prophet and Statesman, 232.
8- W. Montgomery Watt, Muhammad at Mecca (Oxford: Oxford University Press, 1953), 52.
9-Karen Armstrong, Muhammad: A Biography of the Prophet (London: Orion
publishing, 2004),26.
10– RomLandau, Islam and the Arabs (London: George Allen&Unwin, 1958), 23; Tor
Andrae, Muhammad: The man and his faith, Trans: Theophil Menzel (London:
George Allen & Unwin, 1956), 72-72 ; Gustav Weil, History of Islamic Peoples,
Trans: Khuda Bakhsh (Calcutta: University of Calcutta press, 1914), 27.
11- عز الدين فراج،نبي الإسلام في مرآة الفكر الغربي ( قاهره : دار الجهاد، ۱۹۵۳ء)، ۳۵؛ عبد اللہ مبشر الطرازی، نبي الإسلام في مرآة بعض المستشرقين المنصفين ( جدة: الإسلام والمستشرقون، ۱۹۸۵ء): ۳۰۸
12- Alphonse de Lamartine, Histoire de la Turquie (Paris:1854), II/ 276-77.
13- Sir William Muir, Mahomet and Islam: A sketch of the Prophets life from original
sources and a brief outline of his religion (London: The religious Tract Society,
1887), 19.
14- Carlyle, On Heroes and Hero Worship, 61-62.
15- Carlyle, Ibid, 62.
16- Mahmut Aydin, Modern Western Christian Theological Understanding of Muslims since The second Vatican council (Washington DC: The Council for Research in values and Philosophy, 2002),172.cf. Emilio G Aguilar,”The Second International Muslim-Christian Congress of Cordoba (March 21–27, 1977).” Ed. Richard W Rousseau, Christianity and Islam: The Struggling Dialogue (Scranton: Ridge Row Press, 1985),165.
17- Muhammad Khalifa, The Sublime Quran and Orientalism (London& New
York: Longman, 1983), 12.
18- Weil, History of Islamic peoples , Trans: Khuda Bakhsh (Calcutta: The Univeristy
of Calcutta), 5.
19- Muir, Ibid, 33-35.
20-Muir, Ibid, 35.
21-ابن هشام، السيرة النبوية ت: عمر عبد السلام تدمرى (بيروت: دار الكتاب العربي، ۵۱۴۱۰ / ۱۹۹۰ء)، ۱: ۱۹۰
22 -سرسید احمد خاں، سیرت محمدی (لاہور: مقبول اکیڈمی (۱۹۹۷)، ۲۳۰-۲۳۲
23- Edward Gibbon, The decline and fall of the Roman Empire (London: Dant & Sons,1962)5: 270.
24- Gibbon, Ibid, 5: 270.
25- Alfred Guillume, Islam (London: Cassell, 1963), 25.
26- Guillume, Ibid, 25-26.
27- RomLandau, Ibid, 23.
28- Watt, Ibid, 19.
29-دیکھیے : محمد احسان الحق سلیمانی، رسول مبین ( لاہور : مقبول اکیڈمی ، ۱۹۹۳) ، ۶۲۶-۶۲۷
30- Guillume, Ibid, 26.
31- Watt, Muhammad: Prophet and Statesman, 14.
32- W. Montgomery Watt, Islamic Revelation in the Modern World (Great Britain:
Edinburgh University Press, 1969), 109.
33- Watt, Islamic Revelation, 110.
34- Watt, Muhammad: Prophet and Statesman, 17.
35- Muir, Mahomet and Islam, 58.
36- H. A. R. Gibb, Mohammedanism:An Historical Survey (New York: Oxford
University press, 1964.25-26.
37-محمد شہباز منج، در مکاتیب الشریعہ، گوجرانوالہ، ۲۵: ۸ (۲۰۱۳) ۳۸ ۔
Cf. William Montgomery Watt, Companion to the Quran (England: Oneword publication, 1994.3.
38- William Montgomery Watt, Islam and Christianity Today: A Contribution to
Dialogue (London: Routledge & Kegan Paul, 1983),60-61.
39- Philip K. Hitti, History of the Arabs (London: Macmillan, 1946), 113.
40- R. C. Zaehner, At Sunday Times: An Essay in the Comparison of Religions
(London: Faber &Faber, 1958), 27.
41 -برطانیہ سے تعلق رکھنے والی سوشلسٹ اور تھیوفسٹ مصنفہ ۔ انڈیا اور آئر لینڈ کی آزادی کی موید تھی۔ خواتین کے حقوق پر کام میں شہرت حاصل کی۔ مدراس میں وفات پائی، مرنے کے بعد اس کی نعش کو ہندور سم کے مطابق جلایا گیا تھا۔
42– Annie Besant, The Life and Teachings of Muhammad(Madras:Adyar, 1932), 4.
43-Daniel, Islam and the West: The Making of an Image, 336.
44-See: HansKüng, Christianity and World Religions: Paths of Dialogue with Islam, Hinduism and Buddhism (New York, Maryknoln, Orbis Books, 1993), 27.
45-Hans Küng, “Towards an Ecumenical Theology of Religions: Some Theses for Clarification.”, Hans Küng & J. Moltmann, eds., Christianity among World Religions (Edinburgh: T&T Clark Ltd, 1986), 124.
46-Küng, Christianity among World Religions, 26.
47-Conference of European Churches, Witness to God in Secular Europe (Geneva
Conference of European Churches, 1984), 56.
48-Watt, Companion to the Quran,4.
49-William Montgomery Watt, Religious Truth for Our Time (Oxford: Oneworld,
1995), 80.
50-Carl W Ernst, Following Muhammad: Rethinking Islam in the contemporary world (Chapel Hill & London: The University of North Carolina Press, 2003), 90.
51-Armstrong, Muhammad: A Biography of the Prophet, 211-12.
52- القرآن ۶۴:۳
53- القرآن ۴: ۴۷، مزید دیکھیے : القرآن ۲۰:۳ ،القرآن ۳: ۱۱۰ القرآن ۳: ۱۹۹، القرآن ۵: ۱۹، القرآن ۲۸: ۵۰ وغیره
54 -محمد حمید اللہ ، رسول اکرم کی سیاسی زندگی کراچی : دار الاشاعت ، سان )، ۲۲۳۔
55- القرآن۲: ۷۷-۷۵
56- القرآن ۹۸:۳
57- القرآن۱۰۷:۲۱
58- القرآن ۲۸:۳۴
59- القرآن ۱۵۸:۷
60- القرآن ۱۹۱-۹:۲۶
61-Mathew, part of the Holy bible: A New translation from the Greek by David Robert Palmer, February 2011 Edition, Chapter15, Verse24, 26.
62- احمد بن تيميه، الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح، تحقيق، على بن حسن و دیگر (السعودية : دار العاصمة، ۴۴۸ :۱ ۱۹۹۱
63- ابو عبد الله محمد بن اسمعیل، الجعفی البخاری، صحيح البخاري، تحقيق، محمد زبیر بن ناصر الناصر (دار طوق النجاة، ۵۱۴۲۲)، ۱، ۱۷۴، رقم: ۳۳۵
64- عبد الله بن عبد الرحمن الدارمی ، سنن الدارمي ( بيروت: دار الكتب العلمية، ۱۴۰۷ھ )، ۲: ۲۹۵
65 -محمد الطاهر ابن عاشور، مقاصد الشريعة الإسلامية (تونس: دار السلام، دار سحنون، ۱۴۳۰ھ ) ۱۰۰۰-
66-القرآن ۹۶: ۲-۵
67-القرآن :۴۴:۱۷
68- ابو بکر بن الحسين بن على البيہقي، شعب الإيمان، ت، عبد العلی عبد الحميد حامد (الرياض: مكتبة الرشد، ۲۰۰۳) ۷: ۱۳۲ ، رقم : ۴۷۷۴
69-دیکھیے: محمد حمید اللہ ، رسول اکرم کی سیاسی زندگی، ۱۰۶-۱۶۴۔
70-T. W. Arnold, The preaching of Islam: A history of the propagation of the Muslim faith (London: Constable, 1913), 44.
71-Sir William Muir, The Caliphate: Its rise, decline, and fall (Religious tract society,
St. Paul’s churchyard, 1892) ,43.
72- Arnold, The preaching of Islam,3.
73- Arnold, Ibid., 3-5. ,74- Arnold, Ibid., 29.,75- Arnold, Ibid., 28.
76- Arnold, Ibid., 29-30.
77- Arnold, The preaching of Islam, 28.cf.LeoneCaetani, (Milan, Ulrico Hoepli, 1905
1907), 1/725 sqq.
78- Arnold, op.cit., 28.
79- Weil, op.cit., 17.
80- Weil, op.cit., 17.
81 -یہ موقف جدید مغربی اہل علم کی ایجاد نہیں بلکہ ان سے پہلے بھی کئی مغربی قلم کار پیش کر چکے تھے۔ اسے ان کی طرف اس لیے منسوب کیا گیا ہے کہ یہ موجودہ دور میں اسے نہایت شد و مد سے سامنے لائے ہیں، نیز وہ آپﷺ کو اللہ کا سچا نبی مانتے ہیں۔ پہلے کے اہل قلم عموما آپﷺ کو نبی تسلیم کیے بغیر یہ دعوی کرتے تھے کہ آپﷺنے اپنا پیغام اہل عرب تک محد و در کھا تھا۔
82- یہاں یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ اہل مغرب جب حضوﷺ کو پیغمبر (Prophet) کہتے ہیں تو وہ نبوت و پیغمبری کے مسلم تصور اور عقیدے کے مطابق ایسا نہیں کہہ رہے ہوتے ( اور ایسا مختلف عوامل کی بنا پر ہے، جن میں اپنی سوسائٹی اور دینی حلقوں کا دباؤ اور اہل بائبل کے ہاں موجود تصور نبوت و رسالت ہے، جس پر ان شاء اللہ الگ سے کسی تحریر میں بحث ہو گی ) تاہم اس حقیقت میں کلام نہیں کہ جب وہ آپﷺکو سچا نبی مانتے ہیں تو اس دعوے کی بنیاد منہدم ہو جاتی ہے کہ محمد ﷺنے (معاذ اللہ) کسی دنیوی مقصد کے تحت نبوت کا اعلان کیا اور حالات کی سازگاری نے آپﷺکے پیغام کی قبولیت اور اشاعت کی راہ ہموار کی، جیسا کہ اہل مغرب کا ایک زمانے تک دعوی رہا، اور بہت سے اہل مغرب جسے اپنی نادانی یا تعصب کی بنا پر آج بھی حرز جاں بنائے ہوئے ہیں۔
83- القرآن ۵۳:۴۱

اس کیو آر کوڈ کو اسکین کرکے ادارے کا تعاون فرمائیں یا پرچہ جاری کرانے کے لیے زرِ خریداری ٹرانسفر کریں۔ رقم بھیجنے کے بعد اسکرین شاٹ ضرور ارسال کریں تاکہ آپ کو رسید بھیجی جاسکے۔ شکریہ